شیئر کیجیے

غزہ کی جنگ کے عالمی اثرات

قاسم سید

غزہ پر مسلط کی جانے والی حالیہ جنگ جو چھبیس ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں کا لہو پی چکی ہے، دو تہائی علاقہ کو کھنڈر بنادیا ہے،تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر گیا پھر بھی بے نشاں و بے منزل ہے۔ اگر یہ جنگ ماضی کی جنگوں جیسی ہوتی تو شاید اب تک جنگ بندی ہو چکی ہوتی۔آکٹوپس کی طرح اس کے سیکڑوں مقاصد ہیں اور عالمی کھلاڑی شاید ارادہ کیے ہوئے ہیں کہ غزہ اسرائیل کی لامتناہی بمباری سے خواہ تورابورا بن جائے، فائنل گیم ہوکر رہے گا مگر کیا یہ سب اتنا آسان ہے،کیا حماس کے اندازے غلط ثابت ہوئے؟ اور کیا اسرائیل نے گمان سے زیادہ 7اکتوبرکا ری ایکشن کیا ہے؟ کیا حماس ضرورت سے زیادہ تیار اور طاقتور نظر آرہا ہے؟جس جنگ کو عسکری ماہرین کے نزدیک چنددنوں میں ختم ہوجا نا چاہیے تھا، وہ عمر عیار کی زنبیل یا کمبل بن گئی ہے،کیا اسرائیل و امریکہ کسی دلدل میں پھنس گئے ہیں؟آخر اس کا انجام کیاہوگا،اس کے عالمی اثرات کیا ہوں گے اور مشرق وسطیٰ کا نقشہ کیا بنے گا،ان جیسے سوالوں کا جائزہ لیناضروری ہے۔یہ جنگ ماضی میں لڑی گئی باقی جنگوں سے بہت مختلف ہے،اس لیے کہ یہ ایسے وقت میں چھڑی ہے جب مشرق وسطیٰ کو تقسیم کرنے والی لکیریں صاف نظر آرہی ہیں۔دو دہائیوں سے خطے میں پہلے سے ہی ٹوٹ پھوٹ کے شکار سیاسی منظرنامے کی سب سے واضح درارکے ایک جانب ایران اور اس کے اتحادی ہیں تو دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی -ایران کے ساتھ لبنان میں حزب اللہ، شام میں بشارالاسد،یمن میں مسلح طاقتور حوثی جنھوں نے بحیرہ احمر میں طوفان بپاکررکھا ہے،انھوں نے امریکہ اور اس کے حلیفوں کا ناک میں دم کردیا ہے۔ آئے دن دشمنوں کے جہازوں پر حملوں نے صورت حال کو مزید دھماکا خیز بنادیا ہے۔ایران سے کشیدگی میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے وہیں عراق میں مسلح لشکر،غزہ میں حماس اور اسلامک جہاد وغیرہ قابل ذکر ہیں،جو لگاتار لوہا لے رہے ہیں وہیں امریکہ کے ساتھ اسرائیل،مصر اور اردن کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی وہ قوتیں ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں ان کے درمیان ترکی کھڑا ہے جس کے جہاں اسرائیل سے دیرینہ تعلقات ہیں وہیں ایران وسعودی عرب کے ساتھ گرم جوشانہ روابط بھی ہیں،ان سب کے علاوہ چین اور روس بھی مشرق وسطیٰ کے منظرنامہ میں اپنی موجودگی درج کرا رہے ہیں۔ایران وسعودی کے مابین دوستی کرانے میں کلیدی رول نبھاکر چین نے یہاں کے سیاسی منظرنامہُ میں امریکہ کو پیچھے دھکیل دیا ہے -اس تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ اس خطہ پر اور غزہ کا مستقبل کاصرف امریکہ برطانیہ اور اسرائیل اور ان کے عرب دوست مل کر بھی اپنی مرضی کا فیصلہ حماس اور فلسطین پر نہیں تھوپ سکتے جیسا کہ بظاہر لگ رہا ہے۔نہ حماس ممولہ رہی ہیوہ اب شہباز بن چکی ہے عسکری وسفارتی محاذ پر اس کی حالیہ,فتوحات,نے اس کی,بلوغت,پر مہر ثبت کردی ہے-
حماس کی عالمی حمایت بڑھ رہی ہے۔ جنوبی افریقہ غزہ کا کیس لے کر عالمی عدالت انصاف میں گیا اور عبوری فیصلہ میں اسرائیل پر نسل کشی کا الزام ثابت ہوگیا اور اسرائیل کو فوری طور پر نسل کشی پر مبنی اقدامات روکنے کا مطالبہ کیا گیا یہ فلسطین کی بہت بڑی اخلاقی فتح ہے بھلے ہی صہیونی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں مگر چہرے پر کالک تو پت گئی۔
ان سب سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ فائنل گیم پلان کیا ہے اور وہ کسی سمت بڑھ بھی رہا ہے یا نہیں۔پہلی بار غزہ جنگ کو لے کر دنیا خاص کر مشرق وسطیٰ میں اتنی ہلچل،اضطراب اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔امریکہ بار بار تل ابیب اور عرب ریاستوں کے چکر لگا رہا مگر کہیں سے بھی دل پسند جواب نہیں مل رہا ہے۔اس کی گھبراہٹ کی وجہ یہ ہے کہ اس کا لے پالک جنگی جرائم کا مرتکب ہورہا ہے۔معصوم بچوں،عورتوں کو قتل کررہا ہے اسپتالوں،اسکولوں،پناہ گزیں کیمپوں پر بمباری سے 26ہزار سے زائد شہریوں کا خون بہا چکا ہے، اس سے دنیا بھر میں اسرائیل اور اس کے دوست جنگ کے حق میں حمایت کھوتے جارہے ہیں،مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے،خود بائیڈن کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے -ان کی حمایت کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے حتی کہ انتخابی مہم چلانے کے لیے عرب اور مسلم دوستوں نے ساتھ دینے سے انکار کردیا۔عشق تل ابیب میں رسوائی کیباوجود,محبوب, طے شدہ ٹارگٹ سے کوسوں دور ہے-
اسرائیل کے معتوب غیرمقبول ترین وزیر اعظم نیتن یاہو نے سات اکتوبر کیبعد غزہ پر چڑھائی سے پہلے کہا تھا کہ وہ مشرق وسطی کو بدل دیں گے۔یاہو نے جنگ کے مقاصد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ غزہ کی پٹی سے حماس کو سیاسی وفوجی طور پر اکھاڑ پھینکیں گے،اس کو جڑ سے مٹا دیں گے،غزہ کا جغرافیہ بدل دیں گے،وہاں سے آبادی کو نکال باہر کریں گے،غزہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں اورحماس کی فوجی وسیاسی قیادت کو پاتال سے بھی ڈھونڈ کر قتل کردیں گے،لیکن اندھا دھند بمباری میں بڑے پیمانہ پر شہریوں کی ہلاکت،رہائشی عمارتوں اور عوامی ضروریات کے مراکز کی تباہی،پانی،بجلی،آئندھن غذائی رسد کی ناکہ بندی اور انٹرنیٹ پر پابندی جیسے اقدامات بھی جانباز فلسطینیوں کا حوصلہ تو نہیں توڑ پائے البتہ عالمی رائے عامہ جن میں یہودی بھی شامل ہیں اسرائیل اور اس کیحواریوں کے خلاف ہوگئے۔اسرائیلی بربریت اور حیوانیت کی تصاویر، ویڈیوز نے دنیا کو ہلاُکر رکھ دیا،اس کی مظلومیت کی شبیہ کو تباہ کردیا اور پہلی بار فلسطینی مظلوم دیکھے اورسمجھے گئے۔ اسرائیل perception کی لڑائی ہار گیا اور اس کا مظلومیت کا بیانیہ (narrative) ناکام ہوگیا -اس وقت 153ممالک فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ معدودے چند ممالک کے ساتھ تنہا رہ گیا ہے۔جو ساتھ ہیں بھی ان کی بھی رائے عامہ فلسطین کیساتھ ہے -امریکہ کے حالیہ بیانات پنڈچھڑانے والے ہیں اس کے علاوہ ہر اسرائیل حامی ملک مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔اسرائیل ایسی دلدل میں پھنس گیا ہے کہ واپسی کا باعزت راستہ سجھائی نہیں دے رہا ہے
فوجی طاقت کے بے دریغ استعمال کے علاوہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ جنگ کتنے دن اورچلے گی-اسرائیل کی عسکری وسیاسی قیادت کا اعتراف ہے کہ حماس کی گوریلا جنگ اور حکمت عملی پیچیدہ ہے، ہمیں بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے اور جنگ مہینوں چل سکتی ہے۔اس سے زیادہ اعتراف شکست اور کیا ہوگا کہ تین ماہ سے زائد جنگ کے بعد ایک بھی یرغمالی حماس کے قبضے سے چھڑانا تو دور ان کے ٹھکانے تک بھی نہیں پہنچا جاسکا۔یہ اسرائیلی ریاست کی تاریخ کی بدترین ناکامی ہے -یہ اس کی عسکری ناکامی کا نوحہ ہے،یہ بدنام زمانہ شہرت کے حامل خفیہ اداروں خصوصا موساد کی ناکامی ہے۔یہ سیاسی قیادت کی شکست ہے۔ وہ لاکھوں ٹن بارود برسانے کے بعد بھی نہ یرغمالی رہا کراسکا،نہ غزہ خالی کراسکا، نہ حماس قیادت کا خاتمہ ہوسکا،نہ ہی حماس کا،ناس آخری خواہش میں تو کئی عرب ممالک کی‘‘دعائیں’’بھی شامل رہیں،کیوں کہ حماس ان کے سیاسی عزائم کی راہ میں حائل ہے جس کی مثال وہ مجوزہ,امن معاہدہ, ہے جو اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ہوا چاہتا تھا جس کے بعد سعودی عرب، اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرلیتا مگر سات اکتوبر کے حملے نے سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیا،
یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ حماس کے خلاف ناٹو بے ضابطہ لڑائی لڑ رہا ہے جس پر اسرائیل کا سائن بورڈ ہے یہاں امریکہ کے حاضر فوجیوں کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی جنگیں لڑ چکے سابق جرنیل کے علاوہ فرانس وغیرہ کے جوان شامل جنگ ہیں۔حماس کے طریق کار سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر یہ دیکھنے کی ضروت ہے کہ مٹھی بھر افراد پر مشتمل عسکری ونگ دنیا کی بڑی طاقتوں سے لوہا لے رہا ہے، جن کا جدید ترین اسلحہ،ٹینک اس جنگ میں آزمائے جارہے ہیں۔ان کے بچوں،عورتوں،بوڑھوں سے غیر انسانی سلوک ہورہا ہے۔ اپنے ملک کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو برسر اقتدار لوگوں نے ہمیشہ جن ناموں سے بھی پکارا ہو مگر ان کی جدوجہد اور قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاتایاسر عرفات کو دہشت گرد کہا جاتا تھا پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر امن معاہدے کیے گئے۔ ہمارے ملک بھارت نے ہمیشہ ان کو عزت و احترام دیا،مودی سرکار نے بھی دو ریاستی حل کی وکالت کی اور الشفاء اسپتال پر بمباری پر افسوس ظاہر کیا نیز اقوام متحدہ میں فلسطین کے حق میں قراردادوں کی حمایت کی۔
دنیا کا سوال ہے کہ حماس کاختم کیا جانا ممکن ہے؟ -یہ انسانوں کے مجموعہ کا نام نہیں ہے،جس کو ختم کردیا جائے۔ بالفرض وہ ساری قیادت کو ختم کردے تب بھی حماس کو ختم کرنا ناممکن ہے کیوں کہ یہ ایک سوچ،فکر اور نظریہ کا نام ہیخواہ ہم پسند کریں یا ناپسند،یہ 1945 میں برلن کی طرح نہیں جب آپ نے رائل سٹاگ پر جھنڈا لہرادیا تھا اور سب کچھ حاصل کرلیاتھا،نہ ہی یہ 2008 کی حماس ہے۔فلسطینی نیشنل انیشی ایٹوکے صدر مصطفی برغوتی کا کہنا ہے کہ‘‘حماس مقامی سطح پر ایک انتہائی مقبول تنظیم ہے اگر وہ حماس کو ہٹانا چاہتے ہیں تو پورے غزہ کو نسلی طور پر پاک کرناُہوگا’’
اس جنگ سے اسرائیل کو بڑا نقصان عالمی سطح پر یہ ہوا کہ عالمی ادارے جیسے اقوام متحدہ،جی ٹونٹی،برکس،یورپی یونین سے لے کر یواین کی جنرل اسمبلی،سلامتی کونسل،اوآئی سی،عرب لیگ وغیرہ میں فلسطین کا مسئلہ اب ٹاپ ایجنڈے پر آگیا جس کو دنیا بھلا بیٹھی تھی۔امریکی کانگریس سمیت کسی ملک کی پارلیمنٹ نہیں جس میں فلسطین پر بحث نہ ہوئی ہو،حماس کے پاس ایسے وسائل نہیں تھے کہ وہ عالمی سطح پر مہم چلا سکتی،سات اکتوبر کے حملے اور پھر اسرائیل کی نسل کشی کی حالیہ مہم نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا اور توازن کا پلڑا فلسطین کے حق میں جھکا دیا۔عرب ملکوں کے اسرائیل کی طرف لڑکھڑاتے قدم روک دیے،امریکہ اور انسانی حقوق کے نام نہاد پاسداروں کے چہرے سے نقاب نوچ کر پھینک دی۔خاص طور سے امریکہ کو اس حوالہ سے سر بازار رسوا کردیا،اس جنگ نے عربوں ودیگر مسلم ملکوں کو امریکہ کامتبادل چین اور روس کی شکل میں فراہم کردیا اس جنگ میں وہ ایک فریق و حریف بن کر کھڑے ہوگئے – واشنگٹن نے ثالث کا رول کھو دیا۔
حماس کی ثابت قدمی اور جنگ میں اسرائیل کو خلافُ توقع بھاری جانی ومالی نقصان پہنچانے کی صلاحیت سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی مرضی اور شمولیت کے بغیر نہ تو غزہ کا مستقبل طے کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کا فیصلہ دوسرے ممالک کرنے کا حق رکھتے ہیں -عرب ملک بھی جتنا کوشش کرلیں اسرائیل جیسی،ان کنٹرولڈ،ریاست کو حماس واک اوور دینے کے حق میں نہیں ہے، خواہ یہ کوشش قطر جیسے دوست ملک کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو وہیں شاید عرب قیادت کو بھی امریکہ کے لیے نا کہنے کی ہمت آرہی ہے۔اس نے سمندری راستوں کے تحفظ کے لیے بنائی جانے والی ٹاسک فورس میں شمولیت سے انکار کردیا،جہاں حوثیوں نے اس کے اتحادیوں کو ہلا کررکھ دیا ہے۔
بہر حال دنیا میں فلسطین کے حوالے سے ایک تبدیل شدہ منظرنامہ اور بیانیہ بن رہا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کی نئی شکل،ہئیت اور خدوخال کیا ہوں گے،اس کا انحصار اس پرہوگا کہ یہ جنگ کیا رخ اپناتی ہے،کتنی طویل ہوتی ہیاور یہ کہ حماس کتنی سخت جاں ثابت ہوتی ہے۔
اب تک کی صورت حال بتاتی ہے کہ کعبہ کو لگاتار صنم خانے سے پاسباں مل رہے ہیں امریکہ اور اسرائیل تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں نیتن یاہو کے خلاف ان کے ہی ملک میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔اسرائیلی معاشرہ یرغمالوں کو لے کر ٹوٹ پھوٹ اور افراتفری کی سمت لڑھک رہا ہے۔اسرائیل پر ناکامی کی جھلاہٹ طاری ہے جس کا ردعمل بے گناہوں پر بمباری کی شکل میں ظاہر ہو رہاہے۔یہ بمباری اب صرف خود کو مصروف رکھنے کے لیے ہے۔ یہ جائے عبرت ہے کہ موساد اورسی آئی اے اپنی بھرپور طاقت استعمال کرنے کے باوجود یرغمالوں کا پتہ لگانے میں ناکام رہے ہیں۔یہ سیاہی ان کے چہرے پر روز بروز کالی ہوتی جا رہی ہے۔امریکہ بھی کہاں تک شام،لبنان،عراق پر بمباری کرے گا اور اس کا حاصل کیا ہے؟یہ جنگ اپنے اہداف سے دور جاچکی ہے۔دفاع کا اخلاقی حق پہلے ہی کھوچکی تھی اور عالمی عدالت انصاف نے آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے -وہ دن دور نہیں جب اسرائیل شکست خوردہ،مایوسی کی حالت میں غزہ چھوڑکر جائے گا بس کسی باعزت بہانے کی تلاش ہے- یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ نقشہ تو اب ہرگز پورا نہیں ہوگا جو امریکہ، اسرائیل اور ان کے خفیہ و علانیہ دوستوں نے تیار کر رکھا تھا-حماس نے عالمی سطح اپنے دوستوں اور دشمنوں پر اتنا تو واضح کر دیا کہ جاری جنگ نے دنیا کو بدل دیا ہے۔اس کا کریڈٹ سو فیصد حماس کو جاتا ہے۔