شیئر کیجیے

یو پی میں مندروں کی سیاست- مذہبی منافرت کا نیا تجربہ

مشتاق عامر

اتر پردیش میں بی جے پی کو سیاسی عروج رام مندر کی تحریک سے حاصل ہوا۔ ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد پررام جنم بھومی کا دعویٰ لیکربی جے پی یو پی کی سیاست میں داخل ہوئی۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اس کی تیاری کافی پہلے سے کر لی تھی۔ بی جے پی رام مندر کے رتھ پر سوار ہو کر یوپی کی سیاست میں داخل ہوئی تھی۔ اس وقت سے لے کرآج تک بی جے پی کی سیاست کا کلیدی ایجنڈا مسجدوں پر مندر کی تعمیر اور مسلم مخالفت رہا ہے۔ مسلمانوں کا عام خیال یہ تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مسجدوں پر تنازعات کے معاملوں سے نجات مل جائے گی، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد اب بنارس اور متھرا کی مسجدوں پر مندر کے دعوے نے سر اٹھا لیا ہے۔ پارٹی کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر اس نے مندر کی آڑ میں مذہبی منافرت کا ایجنڈا ترک کیا تو اس کو سیاسی شکست کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ کیوں کہ اس نے جب بھی مندر کی سیاست سے رو گردانی کی ہے اس کو سیاست میں سخت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کی واضح مثال ماضی سے دی جا سکتی ہے۔ واجپائی حکومت نے شائننگ انڈیا کے نعرے کے ساتھ پارلیمانی چناؤ لڑا تھا۔ لیکن اس چناؤ میں ان کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد مرکز میں بی جے پی دس برس تک اقتدار سے بے دخل رہی۔

2014میں مرکزی سیاست میں نریندرمودی کی آمد اور پورے ملک میں ’’ گجرات ماڈل ‘‘ کے علامتی پرچار نے ایک سخت گیر مسلم مخالف سیاست کی گرفت مضبوط کر دی۔ 2017کے یو پی اسمبلی چناؤ میں بی جے پی کی نہ صرف اقتدار میں شاندار واپسی ہوئی بلکہ مسلمانوں کے خلاف جارحانہ موقف رکھنے والے یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھایاگیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی تیاری کا مرحلہ وار پرچار سرکاری سطح پر زور و شور کے ساتھ سے کیا گیا۔ زیر تعمیر مندر کو ریاستی حکومت کی سب سے بڑی حصول یابی کے طور پر پیش کیا گیا۔ رام مندر کا پرچاراس طرح کیا گیا کہ ہر دن ’ ’ چناوی دن ‘‘ ہو گیا۔ اسی دوران بنارس کی گیان واپی مسجد کے معاملے میں مقامی عدالتوں کے مشتبہ فیصلوں نے ہیجانی کیفیت پیدا کر دی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے مسجد کے نیچے کھدائی، وضو خانہ کے استعمال پر پابندی، مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کرنے کی اجازت کے عدالتی فیصلوں نے یو پی کو ایک بار پھر اس دور میں پہنچا دیا جہاں بابری مسجد کے انہدام سے پہلے تھا۔ آج یو پی 6دسمبر 1992سے پہلے والی پوزیشن پر کھڑا ہے۔ بی جے پی نے بنارس اور متھرا کی مسجدوں سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی تیاری پوری کرلی لی ہے۔ اس کا اندازہ سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کی اسمبلی کی تقریر سے بخوبی لگایا سکتا ہے۔ گذشتہ 8فروری کواسمبلی میں کی گئی تقریر میں یوگی آدتیہ ناتھ نے کاشی اور متھرا کی مسجدوں کو مہابھارت کے فارمولے پر لینے کی بات کہی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں بار بار مہابھارت کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ مہابھارت میں پانڈوؤں نے صرف پانچ گاؤں کا مطالبہ کیا تھا۔ ان پانچ گاؤں کو حاصل کرنے کی لیے انھوں نے بڑی جنگ لڑی تھی۔ ہم تو صرف کاشی اور متھرا کی بات کر رہے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ بھی کہا کہ پچھلی سرکاروں نے کاشی اور متھرا کے ساتھ بہت بے انصافی کی ہے۔ لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ یو گی آدتیہ ناتھ نے یو پی ودھان سبھا میں گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کے بارے میں اپنے سیاسی ایجنڈا کا علان کر دیا ہے۔ ظاہر ہے پارلیمانی انتخاب اسی ایجنڈا پر لڑا جائے گا۔

بابری مسجد کے بعد کاشی اور متھرا کی مسجدیں حاصل کرنے کے لیے عدالتوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ بابری مسجد کی طرح ہی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کو بذریعہ عدالت قبضہ کرنے کا پورا منصوبہ تیار ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشٹھا کے بعد بی جے پی کو پورا یقین ہے کہ اس کابڑا فائدہ پارلیمانی انتخاب میں ملے گا۔ ایودھیا میں رام مندر کی پران پرسٹھا کے نام پر ہونے والے جشن کی آڑ میں جس طرح سے پوری ریاست میں خوف کا ماحول بنایا گیا، اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ بی جے پی ایک جارحانہ مسلم مخالف سیاسی ایجنڈا پر کام کر رہی ہے۔ یہ مہم 22جنوری سے رام مندر کی افتتاح کے ساتھ ہی شروع ہو گئی ہے۔ یو پی کی گنجان مسلم آبادیوں میں رام مندر کے جشن کے لیے بنائے گئے مخصوص جھنڈے ابھی تک لگے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں آئے دن کوئی نہ کوئی اشتعال انگیز مذہبی جلسے اور تقریبات منعقد کی جارہی ہیں اورپولیس اور سول انتظامیہ ان کی معاونت کر رہی ہے۔ یہ چیزیں صرف شہری علاقوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ دور دراز کے دیہی علاقوں میں بھی دھارمک پرگراموں کے نام پر اس طرح کی سرگرمیاں مسلسل جاری ہیں۔ انتہائی اشتعال انگیزی کے باوجود مسلمان اب تک مشتعل نہیں ہوئے ہیں۔ ان کی یہ خاموشی اب خوف کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ عدم تحفظ کے احساس نے مسلم طبقے کے عوام و خواص کو یکساں طور سے خوف زدہ کیا ہے۔ مسلمانوں میں غیر قانونی گرفتاری، پولیس کا تشدد اور مکانوں کے انہدام کا خوف اس قدر بیٹھ گیا ہے کہ اب یہ اپنے جائز بنیادی حقوق کا مطالبہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ عدالتوں کے رویوں نے ان کو اور بھی مایوس کر دیاہے۔

ماضی میں بھی بی جے پی کی سیاست رام مندر کے ارد گردگھومتی رہی ہے۔ مزید شدت کے ساتھ یہی حربہ اس وقت بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ گرچہ دونوں مسجدوں کے معاملے ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں لیکن مقامی عدالتیں اپنے حساب سے کام کر رہی ہیں اور یک طرفہ فیصلے سنا رہی ہیں۔ اس تناظر میں یہاں کے مسلمانوں کے لیے سیاسی آپشن دن بہ دن محدود ہوتے جا رہے ہیں۔

2017 اور 2022کے اسمبلی انتخاب میں بی جے پی سے شکست کھانے کے بعد سماجوادی پارٹی ابھی تک سنبھل نہیں پائی ہے۔ گرچہ پچھلے چناؤ میں مسلمانوں نے سماجوادی پارٹی کو یک مشت ووٹ ڈالاتھا۔ اسی کا نتیجہ رہا کہ تیس سے زیادہ مسلم امیدواریو پی اسمبلی میں پہنچے تھے۔ لیکن مسلم ارکان اسمبلی کی معقول تعداد بے آواز ہو کر رہ گئی ہے۔ مسلم ووٹوں سے چناؤ جیتنے والے ارکان اسمبلی بھی مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم و ستم پر لب کشائی کرنے سے بچتے نظر آتے ہیں۔

ریاست کی دو بڑی اپوزیشن پارٹیاں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی بی جے پی کا مقابلہ کرنے میں اب تک ناکام رہی ہیں۔ بیشتر اہم سیاسی معاملات پر اکھلیش یادو اور مایاوتی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ مایا وتی نے تو خود کو عملی سیاست سے دور کر لیا ہے۔ یو پی کی سیاست میں مایا وتی فیکٹر کے کم زور پڑنے سے دلت ووٹ بے اثر ہو گیا ہے۔ بیشتر دلت ووٹ بی جے پی میں شفٹ کر گیاہے۔ کوئی واضح سیاسی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے سماجوادی پارٹی اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ چند دنوں پہلے پارٹی کے دو اہم لیڈر سوامی پرساد موریا اور سلیم شروانی نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔ دونوں لیڈر پارٹی کے جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز تھے۔ اکھلیش یادو بی جے پی خلاف کھل کر بولنے سے کترا رہے ہیں۔ بی جے پی کے خلاف ان کے محتاط اور بے ضرر بیان صرف سوشل میڈیا تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسا معلوم پڑتا ہے کہ اکھلیش یادو اور مایا وتی خود کو جانچ ایجنسیوں کی زد سے بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ انھیں اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ بی جے پی کے خلاف کسی بھی قدم کی بڑی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔

مغربی یو پی میں جاٹ اور مسلم اتحاد کا خواب بھی چکناچور ہو گیا ہے۔ راشٹریہ لوک دل کے سربراہ جینت چودھری کا رخ واضح طور سے بی جے پی کی طرف ہے۔ سب سے تشویش ناک پہلو یو پی کی مسلم سیاست کا ہے۔ ریاست میں مسلم آبادی کا تناسب بیس فیصد سے زیادہ ہے۔ کسی زمانے میں یو پی کو مسلم سیاست کا گڑھ کہا جاتا تھا۔ یہاں مسلم لیگ، مسلم مجلس، انڈین نیشنل لیگ، پرچم پارٹی، پیس پارٹی اور علما کونسل مقامی سیاست پر اثر نداز ہوا کرتی تھیں۔ لیکن آج حالت یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں یہ پارٹیاں گمنام ہو گئی ہیں۔ ان پارٹیوں کے سربراہان نے سیاسی گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے۔ پیس پارٹی نے کچھ سیاسی کام یابیاں ضرور حاصل کی تھیں۔ لیکن پارٹی کے صدر ڈاکٹر ایوب کی گرفتاری کے بعد پیس پارٹی بھی خاموش ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر ایوب ان دنوں جیل سے باہر ضرور ہیں لیکن ان کی سیاسی سرگرمیاں معطل ہیں۔

مجموعی طور سے دیکھا جائے تو لوک سبھا چناؤمیں بی جے پی کے لیے میدان بالکل صاف ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے پچھلا چناؤ رام مندر کی تعمیر اور اسّی بنام بیس فیصد کے نام پر لڑا تھا۔ انھوں نے پوری ریاست میں ایک جارحانہ مسلم مخالف انتخابی مہم چلائی تھی۔ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے بی جے پی نے ایک نیا سیاسی تجربہ حاصل کیا ہے۔ یہ تجربہ ہے مذہبی جنونیت پسندی کا۔ یہ ایسا تجربہ ہے جو اس کو آسانی سے ایک بار پھر اقتدار تک پہنچا سکتاہے۔ رام مندر کی پران پرتشٹھا کے نام پر جشن کو ووٹ میں تبدیل کرنے اور لوک سبھاچناؤ میں اس کے جار حانہ پرچار کا ریہرسل کرایا جا رہا ہے۔ اس مہم میں ٹھیلا لگانے والوں سے لے کراعلیٰ سرکاری عہدے دار شامل کیے گئے ہیں۔ اسی مذہبی منافرت کی بنیاد پر یو پی میں لوک سبھاکی 80سیٹوں پر جیت کے دعوے ابھی سے کیے جا رے ہیں۔

آنے والا پارلیمانی انتخاب ایودھیا میں شری رام مندر کی تعمیر اور کاشی و متھرا میں مسجدوں پر مندر دعوے کی بنیاد پر لڑا جائے گا۔ یہ پارلیمانی چناؤ ملک کے سیاسی مستقبل اور اس کے رخ کو بھی طے کر دے گا۔ یو پی کی 80سیٹیں مرکز میں حکومت بنانے کے لیے بنیادی کر دار ادا کریں گی۔ فی الحال بی جے پی پورے اعتماد سے 80سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اسی طرح کے دعوے بنارس اور متھراکی مسجدوں پر مندر بنانے کے بھی کیے جارہے ہیں۔ فی الحال یو پی ابھی سے انتخابی موڈ میں ہے۔ ’’ اب کاشی متھرا کی باری ہے ‘‘ کا نعرہ بلند کیا جا چکا ہے۔ بی جے پی کے لیے مندر کی سیاست اتنی کار گر رہی ہے کہ اب اس سے دستبردار ہونے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتی۔ نفرت کی اس سیاست میں اس کو عام ہندو ؤں کا ساتھ مل گیا ہے۔ اس جارحانہ سیاست کے آگے اپو زیشن نے اپنے بظاہر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اپوزیشن کی پارٹیاں اب جمہوری قدروں کو نہیں بلکہ جانچ ایجنسیوں سے خود کو بچانے کی جد و جہد میں مصروف نظر آ رہی ہیں۔

لگ بھگ چالیس برس پہلے بی جے پی رام مندر کے رتھ پر بیٹھ کر یو پی کی سیاست میں داخل ہوئی تھی۔ اس وقت اس کے پاس لوک سبھا کی صرف دو سیٹیں تھیں۔ لیکن 1989کے عام چناؤ میں رام مندر کے نام پر اس نے 86سیٹیں حاصل کی تھیں۔ یو پی میں سیاسی کام یابیاں حاصل کرنے بعد بی جے پی نے ملک کی دوسری ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہماچل پردیش میں بھی اپنی حکومت بنانے میں کام یابی حاصل کی تھی۔ بی جے پی کی سیاست کی بنیادں میں مذہبی منافرت ہے۔ اس منافرت کا سب سے بڑا مظہر مسجدوں کو مندر میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کے لیے اس نے عدالت کا راستہ منتخب کیا ہے۔ اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اب عدالتیں اکثریت کے جذبات کے خلاف فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں کرپائیں گی۔