شیئر کیجیے

بہار میں آمنے سامنے کی جنگ

پروفیسر مشتاق احمد

ریاست بہار میں پارلیمانی انتخابات کی سیٹوں کی تقسیم کو لے کر گذشتہ کئی مہینوں سے سیاسی گلیاروں میں تذبذب کا ماحول تھا لیکن اب جب کہ قومی جمہوری اتحاد اور ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے اور ریاست کی چالیس سیٹوں پر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کا بھی اعلان ہو چکا ہے تو اب یہ بات بالکل صاف ہوگئی ہے کہ اس بار پارلیمانی انتخاب میں قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد کے درمیان سیدھی سیاسی جنگ کے امکانات روشن ہیں ۔واضح ہو کہ قومی جمہوری اتحاد بہار میں جنتا دل متحدہ جس کی قیادت نتیش کمار کر رہے ہیں ، بی جے پی، لوک جن شکتی پارٹی جس کے سپریمو چراغ پاسوان ہیں اور ہندوستانی عوام مورچہ جس کی قیادت سابق وزیر اعلیٰ جیتن رام مانجھی کے ہاتھوں میں ہے ، ان کے ساتھ ساتھ اوپندر کشواہا کی پارٹی کے درمیان سیٹوں کی تقسیم پہلے ہی ہو چکی ہے۔ جس کے مطابق ریاست میں سترہ سیٹوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی ،سولہ پر جنتا دل متحدہ کے امیدوار ہوں گے ۔جب کہ چراغ پاسوان کو پانچپ اور جیتن رام مانجھی اور اوپندر کشواہا کو ایک ایک سیٹ دی گئی ہے۔انڈیا اتحاد میں لالو پرساد یادو کی قیادت والی راشٹریہ جنتا دل کو26 اور کانگریس کے حصے میں 9؍ سیٹیں آئی ہیں جب کہ پانچ سیٹیں بایاں محاذ کو دی گئی ہیں ۔ لیکن راشٹریہ جنتا دل نے اپنے حصے میں سے تین سیٹیں مکیش سہنی کی قیادت والی وی آئی پی پارٹی کو دی ہے اور یہ فیصلہ کرکے لالو پرساد یادو نے قومی جمہوری اتحاد کے سامنے ایک بڑا چیلنج بھی کھڑا کردیا ہے- یہ دراصل مکیش سہنی کے ذریعہ ریاست میں ملاّح ذات کے ووٹوں میں سیندھ ماری کی کوشش بھی ہے ۔غرض کہ ان دونوں بڑے اتحاد نے اپنی سیٹوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ امیدواروں کے ناموں کا بھی اعلان کردیا ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتا دل متحدہ نے تو ایک ہفتہ پہلے ہی اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کردی تھی دریں اثناء چراغ پاسوان نے بھی اپنے پانچوں افراد امیدوارو ں کے نام جاری کردئے ہیں ۔ چراغ پاسوان خود اپنے والد آنجہانی رام ولاس پاسوان کی سیٹ حاجی پور سے انتخاب لڑیں گے جب کہ جموئی ریزرو سیٹ سے انہوں نے اپنے بہنوئی کو امیدوار بنایا ہے۔لوک جن شکتی کے واحد مسلم ممبر پارلیامنٹ چودھری محبوب علی قیصر ہیں جو کھگڑیا سے ممبر پارلیامنٹ ہوا کرتے تھے، کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا ہے ۔ غرض کہ اب تک کے اعلانیہ کے مطابق قومی جمہوری اتحاد میں صرف ایک مسلم امیدوار جنتا دل متحدہ کے ٹکٹ پر کشن گنج سے انتخابی میدان میں ہوں گے۔جہاں تک انڈیا اتحاد کا سوال ہے تو کانگریس کو جو 9؍ سیٹیں ملی ہیں ان میں کشن گنج سے جاویدآزاد اور کٹیہار سے طارق انور مسلم امیدوار کھڑے کیے گئے ہیں ۔راشٹریہ جنتا دل چوں کہ مرحلہ وار اپنے امیدواروں کے نام جاری کر رہی ہے اس لیے اب تک جن ناموں کا اعلان ہوا ہے ان میں مدھوبنی پارلیامانی حلقہ سے ریاست بہار کے ایک قد آورمسلم لیڈر سابق مرکزی وزیر علی اشرف فاطمی کو امیدوار بنایا گیاہے۔ واضح ہو کہ فاطمی حال ہی میں جنتا دل متحدہ سے استعفیٰ دے کر پھر راشٹریہ جنتا دل میں شامل ہوئے ہیں ۔اگرچہ فاطمی راشٹریہ جنتا دل کے پرانے لیڈر ہیں لیکن گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں راشٹریہ جنتا دل کے ذریعہ ٹکٹ نہ دئے جانے کی وجہ سے وہ ناراض ہو کر جنتا دل متحدہ میں شامل ہوگئے تھے۔ بہار میں سات مرحلوں میں انتخابات مکمل ہوں گے اس لیے راشٹریہ جنتا دل مرحلہ وار امیدواروں کے نام کا اعلان کر رہی ہے البتہ ریاست کی دو سیٹوں کو لے کر راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے درمیان اب بھی گفت وشنید جاری ہے ۔حال ہی میں سابق ممبر پارلیامنٹ راجیش رنجن عرف پپو یادو نے اپنی پارٹی جن ادھیکار پارٹی کا کانگریس میں انضمام کیا ہے اور وہ پورنیہ پارلیمانی حلقہ سے انتخاب لڑنا چاہتے تھے مگر پورنیہ سیٹ کانگریس کو نہیں دی گئی ہے بلکہ یہاں سے راشٹریہ جنتا دل نے اپنے امیدوار کا نام جاری کردیا ہے، ایسی صورت میں پپو یادو نے اس سیٹ سے بطور آزاد امیدوار دوستانہ طورپر میدان میں اترنے کا اعلان کرپرچۂ نامزدگی داخل کردیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو انڈیا اتحاد کے ووٹوں میں انتشار لازمی ہے ۔ اسی طرح کانگریس بہار کے اورنگ آباد سیٹ پر اپنے ایک قد آور لیڈر نکھل کمار سنگھ جو سابق آئی پی ایس آفیسر رہے ہیں اور ممبر پارلیامنٹ کے ساتھ ساتھ یو پی اے حکومت میں کیرل کے گورنر بھی تھے اور سابق وزیر اعلیٰ بہار ستندر نرائن سنگھ کے صاحبزادے ہیں ، کو امیدوار بنانا چاہتی تھی لیکن یہ سیٹ بھی راشٹریہ جنتا دل نے اپنے حصے میں لے لی ہے جس کی وجہ سے اب بھی کانگریس کے سامنے ایک بڑا مسئلہ ہے کہ پورنیہ اور اورنگ آباد میں وہ کس طرح اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھے۔بہار میں سیمانچل کی چھ پارلیمانی سیٹیں یعنی کشن گنج، کٹیہار، پورنیہ، سپول، ارریہ اور مدھے پورہ بایں معنی غیر معمولی سیاسی اہمیت کی حامل ہیں کہ ان سیٹوں کا فیصلہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے اس لئے کہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔مگر افسوسناک صورت یہ ہے کہ گذشتہ پارلیامانی انتخاب میں ان حلقوں میں مسلم اقلیت کے ووٹوں کے انتشا ر کی وجہ سے صرف کشن گنج سیٹ سے ہی مسلم امیدوار کانگریس کی ٹکٹ پر کامیاب ہو سکا تھا۔ظاہر ہے کہ مسلم حلقوں کی وجہ سے بیشتر سیاسی پارٹیاں مسلم امیدواروں کو ہی کھڑا کرتی ہیں ۔ اس بار بھی اب تک کے اعلانیہ کے مطابق کانگریس اور جنتا دل متحدہ دونوں نے مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں ۔ کٹیہار میں بھی کانگریس نے مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے ۔جب کہ راشٹریہ جنتا دل ارریہ میں بھی مسلم امیدوارک ے طورپر مرحوم تسلیم الدین کے صاحبزادہ سرفراز عالم کو کھڑا کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔واضح ہو کہ سیمانچل میں گذشتہ پارلیمانی انتخاب سے اسدالدین اویسی کی پارٹی بھی فعال ہے اور اس پارلیمانی انتخاب میں بھی انہو ں نے اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیاہے۔کشن گنج سے انہوں نے اپنی پارٹی کے ریاستی صدر اخترالایمان کو امیدوار بنایا ہے اور بقیہ امیدواروں کی فہرست ابھی جاری نہیں کی ہے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ سیمانچل میں قومی جمہوری اتحاد اورانڈیا اتحاد کے درمیان سیدھی جنگ نہیں ہوگی بلکہ یہاں سہ رخی مقابلہ ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیمانچل جس پر پورے ملک کی نگاہ ٹکی رہتی ہے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ملک میں تقریباً80مسلم اکثریت والی سیٹوں میں چھ سیٹیں سیمانچل کی بھی شامل ہیں ۔دریں اثناء بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی قد آور لیڈر کانگریس میں شامل ہوئے ہیں جب کہ کئی کانگریسی اور راشٹریہ جنتا دل کے لیڈروں نے بھی بھاجپا کا دامن تھاما ہے ۔ لیکن تین مرتبہ بی جے پی کی ٹکٹ پر ایم ایل اے بننے والے انیل کمار اور دو مرتبہ بی جے پی کی ٹکٹ پر ممبر پارلیامنٹ رہے اجئے نشاد نے کانگریس میں شامل ہو کر قومی جمہوری اتحاد کے لیے مشکل کھڑی کردی ہے ۔ وہیں جنتا دل متحدہ کے کابینہ وزیر مہیشور ہزاری کے بیٹے سنی ہزاری بھی کانگریس میں شامل ہوگئے ہیں اور امکان ہے کہ وہ سمستی پور سے ممبر پارلیامنٹ کا انتخاب لڑیں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو نتیش کمار کابینہ کے دو وزیر یعنی ڈاکٹر اشوک چودھری کی بیٹی سامبھوی جو لوک جن شکتی پارٹی رام ولاس کے ٹکٹ پر انتخابی میدا ن میں ہے اور مہیشور ہزاری کابینہ وزیر کے بیٹے سنّی ہزاری کانگریس کے امیدوار کے طورپر اسی سیٹ پر آمنے سامنے ہوں گے جس کی وجہ سے یہ سیٹ کانگریس اور جنتا دل متحدہ دونوں کے لیے اہم ہو گئی ہے ۔ مختصر یہ کہ ریاست بہار میں جہاں پہلے مرحلہ میں پولنگ ہونی ہے ان کے امیدواروں نے پرچۂ نامزدگی داخل کردیا ہے اور دوسرے مرحلے کی پرچہ نامزدگی کا آغاز ہو چکا ہے۔اس لیے پارلیامانی انتخابات کی سرگرمیاں شباب پر ہیں – ہر اتحاد اپنے اپنے امیدواروں کے لیے جمہوری طریقہ سے انتخابی مہم چلا رہا ہے۔4؍اپریل سے بھارتیہ جنتا پارٹی، کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کے سیاسی جلسوں کا پروگرام جاری کیا جا چکا ہے-وزیر اعظم نریند ر مودی کا پہلا انتخابی جلسہ جموئی پارلیامانی حلقہ میں ہو چکا ہے اور اب ہر سیاسی جماعت اپنے بڑے لیڈروں کے ذریعہ اپنے اجلاسوں میں زیادہ سے زیادہ بھیڑ جمع کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے،اس لیے گاؤں دیہات سے لے کر ریاست کی راجدھانی تک سیاسی پارہ گرم ہے۔البتہ اس بار کے انتخابات گذشتہ انتخابات سے قدرے مختلف اورغیر یقینی ہیں – بہار کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ کہنا نہ صرف قبل از وقت ہوگا بلکہ بہت مشکل بھی ہے۔تاہم دونوں اتحاد کے لیے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ باغی امیدواروں کا ایک دوسرے کا دامن پکڑنے کا سلسلہ برابر جاری ہے اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے بھی امیدواروں کے لیے طرح طرح کی دشواریاں کھڑی ہو رہی ہیں ۔