شیئر کیجیے

مغربی بنگال میں انڈیا اتحاد کیوں منتشر ہوگیا؟

نور اللہ جاوید

نتیش کمار اور ممتا بنرجی وہ دو کردار ہیں جنہوں نے اپوزیشن اتحاد کے قیام کے لیے اولین کوشش کی اور ان دونوں کی کوششوں کی وجہ سے ہی انڈیا اتحادمعرض وجود میں آیا۔گزشتہ اکتوبر اور نومبر میں ہی ممتا بنرجی نے سیٹوں کی تقسیم جلد سے جلد مکمل کرنے کی لئے زور دیامگر یہ عجب اتفاق ہے کہ انہی دونوں کرداروں نے ہی سب سے زیادہ ’’انڈیا ‘‘ اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے۔نتیش کمار تو بی جے پی اتحاد میں شامل ہوچکے ہیں ۔نتیش کمار نے یہ قدم کیوں اٹھا یا ، ان کی کیا مجبوریاں تھیں ؟ یہ الگ موضوع بحث ہے ۔تاہم نتیش کمار کے نکلنے کے باوجود بہار میں انڈیا اتحاد کی دیگر پارٹیاں متحد ہیں اور انتخابات میں متحد طور پر حصہ لے رہی ہیں ۔مگر بنگال میں نہ صرف ممتا بنرجی اتحاد سے الگ ہوئیں ہیں بلکہ کانگریس اور بائیں محاذ کے درمیان بھی اتحاد مکمل نہیں ہوسکا ہے اور کئی سیٹوں پرایک دوسرے کے خلاف مقابلہ آرائی ہے۔مغربی بنگال ملک کی اہم ریاست ہے اور لوک سبھا میں 42ایم پی بھیجتی ہیں ۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نتیش کے برعکس ممتا بنرجی بنگال میں بی جے پی کے مد مقابل ہیں اوراسی شدت کے ساتھ بی جے پی کی پالیسیوں کی تنقید بھی کرتی ہیں ۔تاہم سوال یہ ہے کہ آخر بنگال میں ،،انڈیا اتحاد’’ قائم کیوں نہیں رہ سکا ۔ ممتا بنرجی نے کانگریس کے لیے دروازے کیوں بند کردئیے؟کیا مرکزی ایجنسیوں کے خوف کی وجہ سے ممتا بنرجی نے اپنی راہیں الگ کی ہیں ؟اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اتحاد نہیں ہونے کی وجہ سے لوک سبھا انتخابات کے نتائج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ترنمول کانگریس اور بائیں محاذ کے درمیان اتحاد ممکن ہی نہیں تھا۔دونوں پارٹیوں کے درمیان خلیج کافی گہری ہیں اور وہ کوئی ایک دو ملاقات اور مشترکہ میٹنگوں سے ختم نہیں ہوسکتی ۔ممتا بنرجی اور بائیں محاذ کے درمیان سنگھرش کی ایک تاریخ ہے۔ممتا بنرجی نے نہ صرف 2011میں بائیں محاذ کو اقتدار سے بے دخل کیا تھا بلکہ بنگال کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد گزشتہ 12برسوں میں انہوں نے سی پی آئی ایم کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا ۔2011تک بی جے پی بنگال کی سیاست میں حاشیہ پر تھی مگر ممتا بنرجی کی شعوری یا غیرشعوری سی پی آئی ایم دشمنی نے بی جے پی کے لیے راہ ہموار کی۔آر ایس ایس اور دیگر دائیں بازوں کی جماعتوں کی سرگرمیاں ممتا بنرجی کے دور میں ہی بڑھیں اور ممتا بنرجی کے دور میں ہی آر ایس ایس کے تحت چلنے والے اسکولوں کی منظوری ہوئی ۔حقیقت یہ ہے کہ آج بی جے پی ریاست کی سب سے مضبوط اپوزیشن پارٹی ہے۔34برسوں تک لگاتار حکومت کرنے والی سی پی آئی ایم بنگال کی سیاست میں حاشیے پر ہے۔چناں چہ ’’انڈیا ‘‘ اتحاد کی شروعات میں ہی سی پی آئی ایم نے واضح کردیا تھابنگال میں ممتا بنرجی کے ساتھ سیاسی اتحاد کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ۔بنگال میں بی جے پی اور ترنمول کانگریس سے یکساں طور پر مقابلہ کیا جائے گا؟جہاں تک کانگریس کا سوال ہے تو ریاستی کانگریس میں ممتا بنرجی سے اتحاد کے لیے کوئی جوش و خروش پہلے دن سے ہی نہیں تھا۔ریاستی کانگریس کی دلیل تھی کہ کانگریس کو سب سے زیادہ ممتا بنرجی نے ہی نقصان پہنچایا اور ممتا بنرجی کے دور میں جو گھوٹالے ہوئے ہیں ، بنگال کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔اتحاد کی صورت میں عوامی بیزاری کا سامنا کانگریس کو بھی کرناپڑسکتا ہے۔تاہم کانگریس کی اعلیٰ قیادت ممتا بنرجی کے ساتھ آخری وقت تک اتحاد کی کوشش کرتی رہی۔مگر ممتا نے جنوری میں ہی اپنا رخ واضح کردیا تھا کہ وہ بنگال میں کانگریس کے لیے ایک سیٹ بھی چھورنے کو تیار نہیں ہیں ۔ممتا کانگریس کے معاملے میں کس قدر سخت تھیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ راہل گاندھی کو بنگال میں اپنی یاترا کے دوران سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔راہل گاندھی کے مسلم علاقوں سے یاترا گزارنے پر ممتا بنرجی چراغ پا ہوگئیں ۔ وہ کانگریس کو متنبہ کرچکی ہیں کہ انڈیا اتحاد صرف کانگریس نہیں ہے، اگر علاقائی جماعتوں کو نظرانداز کیا گیاتو اسے 40سیٹ بھی نہیں ملیں گی؟

سوال یہ ہے کہ ممتا بنرجی اس قدر خود اعتمادی کی شکار کیوں ہیں ؟بلاشبہ اس وقت بنگال میں ممتا بنرجی ایک بڑا چہرہ ہیں اور عوامی لیڈر ہیں ۔ وہ براہ راست عوام سے جڑی ہیں ۔تاہم اگر 2019اور 2021کے انتخابی نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو ممتا بنرجی کی اصل طاقت کا اندازہ ہوجاتاہے۔2019کے لوک سبھا انتخابات میں ترنمول کانگریس کو 43.7فیصد ووٹ ملے اور 2021کے اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس کو 48.2فیصد ملے تھے ۔مختلف تجزیےیہ بتاتے ہیں کہ ممتا بنرجی کی اس بڑی جیت کا ایک بڑا فیکٹر مسلم وووٹوں کا پولرائزیشن ہے۔ریاست کے30فیصد مسلم ووٹروں میں سے 85سے 90فیصد مسلمانوں نے ممتا بنرجی کی پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔یعنی ممتا بنرجی کو ملنے والے کل ووٹوں کا نصف سے زائدحصہ مسلم ووٹ سے آتا ہے۔ماضی میں کانگریس ریاست کے مسلم اکثریتی اضلاع مالدہ، مرشدآباد اور شمالی دیناج میں مضبوط رہی ہے اور اس کے زیادہ تر ممبران اسمبلی اور ممبران پارلیمنٹ مذکوہ اضلاع سے جیتتے تھے۔2019کے لوک سبھا انتخابات میں مالدہ جنوب جہاں مسلم ووٹ 51فیصد ہے وہاں سے کانگریس کامیاب ہوئی ۔مالدہ شمال میں کانگریس اور ترنمول کانگریس کے ووٹ کی تقسیم کی وجہ سے 37فیصد ووٹوں کے ساتھ بی جے پی کامیاب ہوگئی ۔مرشدآباد ضلع کی تین لوک سبھا سیٹیوں میں سے دو پر ترنمول کانگریس اور ایک سیٹ بہرام پور سے ادھیر رنجن چودھری (کانگریس) کامیاب ہوئے۔جب کہ رائے گنج جہاں مسلم ووٹ کی شرح 45فیصد سے زائد ہے وہاں کانگریس ، ترنمول کانگریس اور سی پی آئی ایم کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے بی جے پی کامیاب ہوئی ۔اسی طرح سے بی جے پی کی جیتی ہوئی 18سیٹوں کا تجزیہ کیا جائے تو 10سے زائد وہ سیٹیں وہ ہے جہاں مسلم ووٹ کی شرح 10سے5فیصد کے درمیان ہے ۔یعنی بی جے پی نے ریزرواور قبائلی علاقوں پر مشتمل سیٹوں پر زیادہ کامیابی حاصل کی تاہم 2021کے اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹوں کا پولرائزیشن زیادہ ہوگیا تھا چناں چہ مسلم اکثریتی اضلاع مالدہ، مرشدآباد ،شمالی دیناج پور اور اس کے بعد وہ اضلاع جہاں مسلم ووٹ کی شرح 30فیصد کے قریب ہے جس میں ندیا، بیر بھوم،کوچ بہار ،کلکتہ،ہوڑہ ، جنوبی 24پرگنہ اور شمالی 24پرگنہ جیسے اضلاع میں بی جے پی کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ چوں کہ کانگریس ریاست کے جن 6سیٹوں پر انتخاب لڑنا چاہتی تھی ان میں مالدہ کی دونوں سیٹ، مرشدآباد کی بہرام پوراور رائے گنج کی سیٹ شامل تھی۔لہذاان سیٹوں کو دینے کا مطلب تھا کہ ممتا بنرجی جنہوں نے 2021میں بی جے پی مخالف ووٹ کو متحد کرکے کانگریس کو جن علاقے سے بے دخل کردیا تھا وہ علاقے کانگریس کو دوبارہ دینے پڑتے ۔2021کے اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹوں کے رجحان میں تبدیلی بھی آئی ہے۔ اس کا اندازہ 2023میں کلکتہ شہر کے بالی گنج اور مرشدآبادکے ساگر دیگھی میں ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے ۔بالی گنج میں گرچہ ترنمول کانگریس کے امیدوار کی 12ہزار کے قریب ووٹوں سے جیت ہوگئی مگر محض ڈیڑھ سال قبل اس سیٹ پر ترنمو ل کانگریس کے سبرتو مکھرجی نے 40ہزار سے زائد ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی ۔دراصل مسلم ووٹروں نے ضمنی انتخاب میں ترنمول کانگریس کے خلاف جاکر سی پی آئی ایم کی امیدوار سائرہ شاہ حلیم کو ووٹ دیا۔ مرشد آباد کے ساگردیگھی میں مسلمانوں کی آبادی 68 فیصد سے زائد ہے۔ 2011، 2016 اور 2021 میں ترنمول کانگریس نے یہاں جیت حاصل کی تھی ۔2021 میں ترنمول کانگریس کے سبرتو ساہانے دوسری مرتبہ یہاں جیت حاصل کی اور انہیں 60فیصد سے زائد ووٹ ملے ۔تاہم ساہا کی موت کی وجہ سے خالی ہونے والی اس سیٹ پر کانگریس کے بیرن بسواس (مسلم ہیں )نے جیت حاصل کی ۔ظاہر ہے کہ یہ ممتا بنرجی کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا۔ یہ رجحان 2023 کے تشدد زدہ پنچایتی انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملا،جس میں مسلم اکثریتی اضلاع مرشد آباد، مالدہ اور جنوبی 24پرگنہ کے کچھ حصوں میں اقلیتی برادری کے ایک بڑے حصے نے ترنمول کانگریس کے بجائے کانگریس ، سی پی آئی ایم اور عباس صدیقی کی قیادت والی آئی ایس ایف کو ووٹ دیا۔بنگال کے سیاسی تجزیہ کاروں کے ایک حلقے کا ماننا ہے کہ ممتا بنرجی کے لیے کانگریس اور سی پی آئی ایم کے مقابلے بی جے پی بہترین اپوزیشن ہے،کیوں کہ مذہبی خطوط کی بنیاد پر ووٹوں کی پولرائزیشن کی صورت میں انہیں ریاست کے 30فیصد مسلمانوں کا بیشتر ووٹ مل جاتا ہےاور بقیہ 70فیصد غیر مسلم ووٹ سے اگر انہیں 20فیصد ووٹ مل جائے تو بھی وہ آسانی سے اقتدار میں باقی رہ سکتی ہیں ۔

ماہر نفسیات بسوناتھ چکرورتی ایک انگریزی میگزین کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ سیاسی طور پر کانگریس اور ترنمول کانگریس کا ووٹ بینک اس طرح ہے کہ ایک کے فائدے کا مطلب دوسرے کا نقصان ہے۔ممتا بنرجی کا کانگریس کے ساتھ اتحاد نہ کرکے طویل مدتی کامیابی کے منصوبے پر کام کررہی ہیں ۔مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ ترنمول حکومت سے غیر مطمئن ہے ان کے لیے بی جے پی کوئی متبادل نہیں ہےاور ماضی میں مسلمان بائیں بازو کے خلاف بھی گئے ہیں ۔ ان کے لیے متبادل کانگریس-لیفٹ انڈین سیکولر فرنٹ (ISF) کا اتحاد ہو سکتا ہے۔ ممتا بنرجی کو خدشہ ہے کہ ترنمول سے ناراض ہونے والوں کے ووٹ کانگریس کو جا سکتے ہیں ۔یہ خوف ساگردیگھی ضمنی انتخاب کے بعد شروع ہوا تھا۔ مارچ 2023 میں ہونے والے اس ضمنی انتخاب میں ، بائیں بازو اور آئی ایس ایف کے تعاون سے کانگریس نے مسلم اکثریتی حلقہ ترنمول سے 22,986 ووٹوں سےجیت حاصل کی تھی ۔

سیاسی تجزیہ نگار اور جادو پور یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر عبد المتین کہتے ہیں کہ ساگردیگھی ضمنی انتخاب کے بعد ممتا بنرجی کو احساس ہوا کہ وہ کانگریس کو کوئی جگہ دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی ہیں ، کیوں کہ کانگریس کو فائدہ پہنچنے کی صورت میں نقصان صرف ترنمول کانگریس کا ہی ہوگا۔کانگریس کو چھ سیٹیں جیتنے دینے کا مطلب پارٹی کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی اجازت دینا ہے۔چناں چہ ترنمول کانگریس نے سیاسی حکمت عملی کے تحت انڈیا اتحاد کو منتشر کیا اور کانگریس کے ساتھ اتحاد کو ناکام بنایا ہے۔ بائیں بازو اور کانگریس کے برعکس ممتابنرجی کے پاس بنگال سےبی جے پی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صحیح طور پر کوئی نظریاتی بنیاد نہیں ہے۔بلکہ بی جے پی کی موجودگی ہی ترنمول کانگریس کی زندگی ہے۔کمزور بی جے پی کو اس کی اہم اپوزیشن کے طور پر رکھنے کا مطلب ہے کہ وہ زعفرانی پارٹی کے خطرے کو ووٹرز کے سامنے پیش کرکے مسلم حمایت حاصل کر سکتی ہیں ۔

مسلم ووٹوں کا رجحان

مسلم ووٹوں کا رجحان کیا ہے ؟ کیا گزشتہ انتخابات کی طرح مسلم ووٹوں کا پولرائزیش رہے گا یا پھر کچھ تبدیلی آئے گی ؟ حقیقت یہ ہے کہ گھوٹالوں کے تسلسل بالخصوص اساتذہ تقرری گھوٹالے کے بعد بنگال کے عام مسلم نوجوانوں میں مایوسی ہے ۔چناں چہ پنچایت انتخابات کے بعد ممتا بنرجی نے مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کچھ کوشش کی تھی اور اس کے لیے انہوں نے مسلم ترقیاتی بورڈ ، مسلم پروفیشنل بورڈ اور غیر مقیم مزدور بورڈ وغیرہ کی تشکیل کی مگر ان بورڈوں کی تشکیل ہوئے ایک سال سے زائدکا عرصہ ہوچکا ہے لیکن ابھی تک کسی بھی بورڈ کی کارکردگی یا پھر کوئی بھی سرگرمی سامنے نہیں آئی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ممتا بنرجی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ترقی کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں ۔ترنمول کانگریس اقلیتوں کی ترقی کو کس نظریہ سے دیکھتی ہے کہ اس کا اندازہ اس سےبھی لگایا جاسکتا ہے کہ سابق آئی پی ایس آفیسر ہمایوں کبیر جنہوں نے قبل از وقت ریٹائرہوکر ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور ممبر اسمبلی منتخب ہوئے ، انہیں ریاستی وزیر بھی بنایا گیا مگر بعد میں انہیں وزارت سے ہٹادیا گیا ۔انہوں نے اسمبلی میں مسلمانوں کی ترقی سے متعلق سوال اٹھایا تو اسپیکر سمیت ترنمول کانگریس کے ممبران اسمبلی نے انہیں بولنے نہیں دیا۔دراصل ممتا بنرجی کی ایک بڑی پریشانی بنگال کی سیاست میں عباس صدیقی کی قیادت والی ’’آئی ایس ایف ‘‘ کا عروج بھی ہے۔آئی ایس ایف کی مقبولیت بنگال کے شمالی 24پرگنہ اور جنوبی 24پرگنہ ، ہوڑہ، ہگلی اور ندیا ضلع میں کافی ہے۔آئی ایس ایف فرفرہ شریف جو ریاست کی ایک مقبول خانقاہ سے نکلی ہے۔فرفرہ شریف کے پیر ابوبکر صدیق نے بنگال کے دیہی علاقوں میں 1930اور 1940کی دہایوں میں سماجی و اصلاحی تحریک میں ہم کردار ادا کیا تھا۔ آج بھی پیر ابوبکر صدیق کے خانوادے کا بنگال کے دیہی علاقوں میں گہرا اثر ہے۔ماضی میں فرفرہ شریف ترنمول کانگریس کے ساتھ کھڑا رہا ہے ۔مگر عباس صدیقی اور نوشاد صدیقی جو پیر ابوبکر صدیق کے پوتے کی اولاد ہیں نے ممتا بنرجی کی حمایت کئے بغیر الگ راہ نکالی اور اپنی سیاسی جماعت بنالی۔آئی ایس ایف نے 2021کے اسمبلی انتخابات جس میں کانگریس اور سی پی آئی جیس جماعت کو ایک بھی سیٹ بھی نہیں ملی ،نہ صرف ایک سیٹ جیتنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ شمالی 24 پرگنہ اور جنوبی 24پرگنہ کی کئی سیٹوں پر ترنمو ل کانگریس کو سخت ٹکردی اور بہت ہی معمولی وٹووں سے پیچھے رہ گئی۔پنچایت انتخابات کے دوران بھی دونوں پارٹیوں کے درمیان زبردست ٹکر دیکھنے کو ملی تھی ۔لوک سبھا انتخابات میں آئی ایس ایف سی پی ایم اور کانگریس اتحاد کا حصہ نہیں بن سکی ہے ۔کیوں کہ آئی ایس ایف کم سے کم 8سیٹیں مانگ رہی تھیں ۔تاہم اگر آئی ایس ایف ریاست کی تین سیٹ ڈائمنڈ ہاربار ، بشیرہاٹ اور جادو پور جیسی سیٹ کے بدلے میں کانگریس اور بائیں محاذ کے اتحاد کا حصہ بن جاتی اورپوری قوت کے ساتھ انتخاب لڑکتی تو شاید ترنمول کانگریس کو ان سیٹوں پر پریشانی کا سامنا کرنا پرتا ۔مگر تینوں پارٹیوں کی اپنی انا نے ترنمول کانگریس کے غرور کو خاک میں ملنے سے بچالیا ہے۔

ممتا بنرجی کے کانگریس سے اتحاد نہ کرنے میں کیا جانچ ایجنسی بھی ایک فیکٹر ہے؟ اس وقت بنگال میں نصف درجن گھوٹالوں کی جانچ ای ڈی اور سی بی آئی کررہی ہے۔ترنمول کانگریس کے کئی ممبران اسمبلی اور سابق وزرا جیل میں ہیں ۔مویشی گھوٹالہ اور اساتذہ تقرری گھوٹالہ کی آنچ ممتا بنرجی کے بھتیجے اور پارٹی کے جنرل سیکریٹری ابھیشیک بنرجی تک پہنچ چکی ہے۔ابھیشیک بنرجی کی ایک کمپنی لیپس کیئرجس کے وہ سی ای او اور ڈائریکٹر بھی رہے ہیں کے خلاف کلکتہ ہائی کورٹ نے سخت ریمارکس دئیے ہیں اور اندیشہ ہے کہ اس کے کئی اثاثوں کو ضبط کیا جاسکتا ہے۔اس سے وابستہ ایک سینئر عہدیدار کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ابھیشیک بنرجی اور ان کی اہلیہ روجیرا بنرجی سے ای ڈی اور سی بی آئی پوچھ تاچھ کرچکی ہے۔ جھار کھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے خلاف ای ڈی سرگرم ہوئی ہے اور یہ دونوں اس وقت سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔مگر حیرت یہ ہے کہ ای ڈی اور سی بی آئی نےابھیشیک بنرجی کے خلاف ایسا کوئی ایکشن نہیں لیا۔

جہاں تک آخری سوال کا تعلق ہے کہ انڈیا اتحاد کے انتشار کے انتخابی نتائج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟گرچہ قومی میڈیا کے ایگزٹ پول میں بی جے پی کو 22سیٹیں ملتی ہوئی دکھائی جارہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بنگال میں بی جے پی کے ووٹ شیئر میں اسمبلی انتخابات کے بعد سے ہی گراوٹ آئی ہے۔پنچایت انتخابات کے دوران جنوبی بنگال کے کئی علاقوں میں سی پی آئی ایم نے واپسی کی ہے اور بی جے پی سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ریاست کی 42لوک سبھا سیٹوں پر امیدواروں کے انتخاب میں بی جے پی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بلکہ اسے کئی امیدوار امپورٹ کرنے پڑے ہیں ۔تعجب کی بات تویہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو امیدوار دوسری پارٹیوں سے ادھار لینے پڑرہے ہیں ۔اب تک بی جے پی ریاست کی دوسیٹوں پر امیدوار نہیں اتار سکی ہے۔جلپائی گوڑی، کوچ بہار، اور جنوبی بنگال کی کئی سیٹوں پر بی جے پی انتشار کا شکار ہے۔سوشل سائنس انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر و سیاسی تجزیہ کار معید الاسلام کہتے ہیں کہ 2019کے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کی بڑی جیت میں سوشل انجینئرنگ کا اہم کردار تھا۔مگر پانچ سال بعد ان ذاتوں میں بی جے پی کے تئیں عدم اطمینا ن ہے اور اس بے اطمینانی سے نہ صرف کوچ بہار اور علی پور دوار بلکہ دارجلنگ اور شمالی بنگال کی کچھ دوسری سیٹوں پرجن پر بھگوا پارٹی نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں جیت حاصل کی تھی ، اس کے جیتنے کے امکانات معدوم ہیں ۔

ترنمول کانگریس اور بی جے پی کے امیدواروں کی فہرست دیکھی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں دوستانہ مقابلہ کھیل رہی ہیں ۔کئی سیٹوں پر ترنمول کانگریس نے ایسے امیدوار کا انتخاب کیا ہے جس سے بی جے پی کو واک اوور مل گیا ہے۔اسی طرح بی جے پی نے بھی کئی سیٹوں پر ترنمول کانگریس کو واک اوور دیا ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ اتحاد ہونے کی صورت میں نتائج کیا ہوتے ؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ کانگریس اور ترنمول کانگریس کے درمیان اتحاد ہونے کی صو رت میں بی جے پی نے گزشتہ انتخاب میں مسلم ووٹوں کے انتشار کی صورت میں مالدہ شمال، رائے گنج، کوچ بہار جہاں مسلم ووٹ 25فیصد ہے،بالور گھاٹ جہاں مسلم ووٹ 26فیصد ہے میں جیت حاصل کی تھی ۔جیت کا فرق تین سے چار فیصد کے درمیان ہی تھا۔کانگریس اور ترنمول کانگریس کے درمیان اتحاد کی صورت میں ان سیٹوں پر بی جے پی کی شکست یقینی تھی۔