شیئر کیجیے

مختار انصاری کی پراسرار موت

عامر مشتاق

باندہ جیل میں مختار انصاری کی پر اسرار موت نے کچھ ایسے سوالوں کو جنم دیا ہے، جس کا جواب جاننے کی کوشش کی جاتی رہے گی ۔مختار انصاری کی پراسرار موت کے پوشیدہ حقائق کو جاننے کے لیے اس منافقانہ اور منافرتی سیاست کو جاننا بہت ضروری ہے جس کا شکار مختار انصاری اور ان کے اہل خانہ کو بنایاگیا ہے ۔ پس منظر جاننے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا آسان ہو جائے گا کہ مسلم قیادت کو کچل دینے میں تمام پارٹیوں کے سیاسی عزائم میں کس طرح کی قدراشتراک ہے ۔ مختار انصاری گزشتہ اٹھارہ برسوں سے مختلف جیلوں میں بند تھے ۔2005میں مئو شہرمیں ہونے والے فرقہ وارنہ فساد کو بھڑکانے کے الزام میں ان کوگرفتار کیا گیا تھا ۔ تب سے لے کراپنی موت تک مختار انصاری جیل کی کال کوٹھری میں رہے ۔ مئوکے فساد میں ایک درجن سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے تھے۔ مختار انصاری کو اس فساد کا کلیدی ملزم قرار دیا گیا۔فسادبھڑکانے کے الزام میں اس وقت کی ملائم سنگھ حکومت نے مختار انصاری کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا۔اس کے بعد سے ان کو جیل سے نکلنا نصیب نہیں ہوا ۔مختار انصاری کی سیاسی طاقت کو کچلنے کے لیے مئو کے فرقہ وارانہ فساد کو ایک حربہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔اس سیاست کو سمجھنے کے لیے مئو فساد کے عوامل کو سمجھنا ضروری ہے۔کیوں کہ اسی کے بعد مختار انصاری اور ان کے خاندان کے خلاف اقتدار کی ریشہ دوانیوں کی شروعات ہوگئی تھیں ۔مئو کے فرقہ وارانہ فساد کے حقائق کو اجاگر کرنے کے لیے سی پی آئی ( ایم ایل) نے کامریڈ یشونت سنگھ کی قیادت میں ایک جانچ کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اس کمیٹی میں سنیل یادو ، پرنئے کرشن ، اوم پرکاش سنگھ ،کے کے پانڈے ، راج نارائن مشرا کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر کارکنان ، صحافی ، وکلا ، اور دانشور بھی شامل تھے ۔ جانچ کمیٹی نے 25؍26 اور 27 ؍ اکتوبر کومئو کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔کمیٹی نے اپنی جانچ رپورٹ کا جو خلاصہ پیش کیا اس نے مختار انصاری اور ان کے سیاسی مستقبل کو طے کر دیا ۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ :

’’ مئو کا فساد یو پی کی سیاست میں ایک خطر ناک تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔اب نہ صرف کانگریس بلکہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی بھی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والی جاگیر دارانہ طاقتوں کو اپنی طرف موڑنے کی دوڑ میں شامل ہو گئی ہیں ۔ فساد میں مختار انصاری کو ہدف بنا کر سیاست کی جا رہی ہے ۔بی جے پی ، کانگریس ، سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی نیاپنی توجہ مختار انصاری پر مرکوز کر دی ہے اور بی جے پی مختار انصاری کو مسلم جارحیت کی علامت کے طور پر استھاپت کرنے کی مہم چلا رہی ہے ‘‘

سی پی آئی ( ایم ایل ) کی جانچ کمیٹی نے فساد زدہ علاقوں میں رہنے والے ایک ہزار ہندو ئوں اور مسلمانوں سے بات کی تھی۔ اس کے علاوہ جانچ کمیٹی نے مقامی صحافیوں اور معززشہر یوں سے بھی حقائق جاننے کی کوشش کی ۔کمیٹی نے مئو شہر کی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام سے بھی فساد کے بارے میں طویل گفتگو کی ۔ جانچ کمیٹی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کو سی پی آئی ( ایم ایل ) کے ترجمان اخبار ’’ مکتی ‘‘ کے5؍ دسمبر 2005 کے شمارے میں شائع کیا گیا ۔فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں فساد کی وجوہات ، فساد کی شروعات اور فساد میں شامل کلیدی افراد کے کردارکو اجاگرکیا گیا ۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں مؤ فساد میں پولیس انتظامیہ اور میڈیا کے انتہائی غیرذمہ دارانہ مسلم مخالف رویے کو بھی اجاگر کیاگیا ۔جانچ رپورٹ کے مطابق7؍ اکتوبر 2005کو مؤ کے صدر چوک پر درگا پوجا پنڈال کے لئے بانس کے کھمبے گاڑے جا رہے تھے۔ بانس کے کھمبوں کو مدرسہ فیض عام کی عمارت تک بڑھانے پر معمولی تنازعہ ہوا اوراس تنازعہ کو فوری طور سے حل کر گیا ۔ لیکن فرقہ پرست عناصر نے اس کوبنیاد بنا کر شہر میں کشیدگی پھیلانے کی مہم تیز کر دی ۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق 14؍ اکتوبر صبح ساڑھے دس ہندو یووا واہنی کے لیڈر پونیت سنگھ چندیل اور سجیت کمار نے ہجوم کے ساتھ شہر کے دو بڑے چوراہوں پر چکا جام کر دیا ۔ یہ لوگ ان مسلم نوجوانوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے جنہیں پولیس نے گزشتہ شام رہا کر دیا تھا ۔ہندو یوا وواہنی کی مسلح بھیڑ مشتعل نعرے لگاتے ہوئے قصائی ٹولہ کی طرف بڑھی ۔پتھراؤ کے بعد قصائی ٹولے کی بھیڑبھی سامنے آگئی۔ صبح قریب نو بجے ہندو یوا وواہنی کی بھیڑ سنسکرت پاٹھ شالا پولیس بوتھ پر پہنچی اوردونوں فرقوں کے درمیان چھڑپیں ہوئیں ۔ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے لیے ہوائی فائرنگ کی ۔ عین اسی وقت اجیت سنگھ چندیل گھر میں گھس گئے اور کئی راؤنڈ فائرنگ کی جس میں 5؍ مسلم نوجوان زخمی ہو گئے ۔کافی دیر بعد ایم ایل اے مختار انصاری نے زخمیوں کو اسپتال پہنچایا ۔ رات ساڑھے دس بجے مقامی انتظامیہ نے مئو شہر میں کرفیو کا اعلان کر دیا ۔ اس کے باوجود 48؍ گھنٹوں تک شہر میں تشدد ، آگ ذنی اور لوٹ مار کی وارداتیں جاری رہیں ۔

فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں مؤ فساد کے معاملے میں میڈیا کے کردار پر سخت تنقید کی گئی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق4؍نومبر کو مختار انصاری نے میڈیا کو ایک سی ڈی فراہم کی جس میں دکھایا گیا کہ فساد کے دوران پورے شہر میں وہ کس طرح لوگوں سے شانتی کی اپیل کر رہے ہیں ۔ سی ڈی کے فوٹیج میں مختار انصاری ایک کھلی جیپ میں ہیں جو جگہ جگہ رک کر لوگوں سے امن قائم کرنے اور اپنے گھروں کو واپس جانے کی اپیل کر رہے ہیں ۔ بغل میں ان کا سرکاری باڈی گارڈ بھی نظر آ رہاہے ۔لیکن یہ سی ڈی ملتے ہی میڈیا نے ایک بڑا کھیل کر دیا ۔مختار انصاری کی فراہم کردہ سی ڈی چینلوں نے چلائی ضرور لیکن اس کی آواز بند کر دی ۔ ٹی وی پر زور وشور سے یہ بتایا جانے لگا کہ مختار انصاری کھلی جیپ سے پورے شہر میں گھوم گھوم کر فساد کو بھڑکانے کا کام کر رہے ہیں ۔ میڈیا نے اس کو اس طرح دکھایا کہ مختار انصاری ہی فساد کرانے کے ذمہ دار ہیں ۔ مختار انصاری کے تعلق سے یہ رویہ صرف ٹی وی چینلوں تک محدود نہیں رہا بلکہ انڈیا ٹوڈے اورآؤٹ لک جیسے مشہور رسالوں کا بھی یہی طرز عمل رہا ۔ٹی وی پر فوٹیج دکھائے جانے کے بعد مختار انصاری کو گرفتار کر لیا گیا ۔ان کے خلاف مئو کوتوالی میں مختلف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ۔

جس وقت مختار انصاری کو گرفتار کیا گیا، یو پی میں سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی اور ملائم سنگھ یادؤ وزیر اعلیٰ تھے ۔ملائم سنگھ حکومت نے مختار انصاری کوجیل بھیج کر ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر دیا ۔گزشتہ18 برسوں کے دوران یو پی میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماجی پارٹی کی حکومت رہی لیکن ان کے دور حکومت میں مختار انصاری پر نئے مقدمے درج ہوتے رہے ۔مختار انصاری پر پہلی بار گینگسٹر ایکٹ اس وقت لگایا گیا جب مایا وتی کی حکومت تھی ۔ ان پر اس وقت تک 65؍ مقدمات درج ہو چکے تھے ۔ان کے خلاف مقدمات درج کرنے میں سپا ،بسپا اور بی جے پی کا برابری کا کردار رہا۔ ان پارٹیوں کا ایک ہی مقصد تھا ، مختار انصاری کے سیاسی وجود کا خاتمہ۔جوکہ ا نہوں نے کر دکھایا ۔ زیاہ تر مقدمے جیل میں رہنے کے دوران ہی درج کئے گئے ۔مشرقی یو پی میں مختار انصاری کی عوامی مقبولیت جیل جانے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی ۔ اسی مقبولیت کے دم پر انہوں نے پانچ بار اسمبلی کا الیکشن میں جیت حاصل کی ۔مختار انصاری کے سیاسی اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے انتخابات جیل میں رہتے ہوئے جیتے۔مشرقی یو پی میں مختار انصاری مسلم سیاسی قوت کی بڑی علامت بن چکے تھے۔لگ بھگ تمام سیاسی پارٹیوں کو مختار انصاری کی سیاسی قوت اور عوامی مقبولیت کا بخوبی اندازہ تھا ۔ان پارٹیوں کے لیے مشرقی یو پی کی سیاست میں مختار انصاری ایک بڑا چیلنج بن رہے تھے ۔بڑی پارٹیاں اس چیلنج کو مٹانا چاہتی تھیں ۔

مختار انصاری نے باندہ جیل میں کئی بار اپنی جان کو خطرہ بتایا تھا ۔21؍ مارچ کو انہوں نے عدالت میں اپنے ہاتھ سے لکھی ایک درخواست بھی پیش کی تھی۔ درخواست میں لکھا تھاکہ19؍ مارچ کو رات کے کھانے میں ان کو زہر دیا گیاجس کی وجہ سے ان کی صحت شدید طور پر خراب ہو گئی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ اس طرح کا زہر ان کو 40 دن پہلے بھی دیا گیا تھاجس کی وجہ سے وہ شدید طور پر بیمار ہو گئے تھے۔مختار انصاری کے اہل خانہ الہ آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے درخواست کرتے رہے کہ باندہ جیل میں مختار انصاری کی جان کو خطرہ لاحق ہے، ایسے میں ان کو یو پی سے باہر کسی جیل میں منتقل کیا جائے ۔لیکن عدالت سے مختار انصاری کو کوئی راحت نہیں ملی ۔ 28؍مارچ 2024 شام ساڑھے آٹھ بجے باندہ کے رانی درگاوتی میڈکل کالج میں جب مختار انصاری کو علاج کے لیے ایمبولنس سے لایا گیا تو وہ بے ہوش تھے ۔اسپتال کی طرف سے جاری مختصر بلیٹن میں کہا گیا کہ ڈاکٹر وں کی ٹیم کوششوں کو با وجود ان کو نہیں بچا سکی اور علاج کے دوران ان کی موت ہوگئی ۔میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں نے مختار انصاری کی موت کی وجہ دل کا دورہ بتایا ہے ۔

مختار انصاری کاتعلق غازی پور کے ایک معزز اور مشہور خاندا ن سے ہے۔ یہ خاندان سیاسی ، عسکری اور علمی اعتبار سے ممتاز رہا ہے ۔ ان کے دادا ڈاکٹر مختار انصاری کا شمار صف اول کے مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے ۔ڈاکٹر مختار انصاری خلافت تحریک کے قائدین میں سے تھے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں انھوں نے اہم رول ادا کیا تھا۔ڈاکٹر انصاری کو 1927 میں انڈین نیشنل کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا ان کو مہاتما گاندھی کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتاتھا ۔مختار انصاری کے نانا برگیڈئر عثمان انصاری نے بھارت پاک جنگ میں اپنی جان کا نذارنہ پیش کیا تھا۔ برگیڈئر عثمان کی شجاعت کے اعتراف میں حکومت نے ان کو مہا ویر چکر سے نوازا تھا۔ مختار انصاری کے چچا محمد حامد انصاری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ، معروف سفارت کار اور نائب صدر جموریہ رہ چکے ہیں ۔اتنے امتیازات اور قومی خدمات کے باوجود مختارانصاری کا خاندان حکومتی عتاب اور سیاسی استبداد کا شکار رہا ۔ مختار انصاری کے بڑے بیٹے اور رکن اسمبلی عباس انصاری کو ای ڈی نے گرفتار کیا تھا۔ ان دنوں وہ کاس گنج جیل میں بند ہیں ۔ عباس انصاری کے خلاف8؍ کیسز درج ہیں ۔ ان کو عدالت نے اپنے والد کے جنازے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی ۔مختار انصاری کے دوسرے بیٹے عمر انصاری پر جعل سازی اور غیرقانونی قبضے کا الزام ہے اور ان دنوں وہ ضمانت پر باہر ہیں ۔مختار انصاری کی اہلیہ افشاں انصاری کے خلاف 11؍ کیسز درج ہیں ۔پولیس نے ان کو مفرور قرار دے رکھا ہے اور ان کی گرفتاری پر انعام کا اعلان بھی کر رکھا ہے ۔ مختار انصاری کے بڑے بھائی افضال انصاری غازی پور سے رکن پارلیمنٹ ہیں ۔ان پر6؍ کیسز درج ہیں ۔ سب سے بڑے بھائی صبغت اللہ انصاری سابق رکن اسمبلی ہیں ۔ ان پر بھی3؍ کیسز درج ہیں ۔مختار انصاری کی اہلیہ اور بیٹوں پر مقدمے یوگی حکومت میں درج کرائے گئے ہیں ۔

یوں تو ہرسیاسی پارٹی نے مختار انصاری سے فائدہ حاصل کیا لیکن سب نے ان کے ساتھ معاندانہ رویہ بھی قائم رکھا ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مختار انصاری کے بڑے بیٹے عباس انصاری سہیل دیو سماج پارٹی سے ایم ایل اے ہیں ۔ اس پارٹی کے صدر اوم پرکاش راج بھر یوگی کابینہ میں وزیر ہیں ۔لیکن ان پر ہونے والی سرکاری زیادتیوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے ۔سابق ایم پی عتیق احمد اور سابق ایم ایل اے اشرف کو پولیس حراست میں سر عام قتل کرنے کے ایک سال بعد مختار انصاری کو بھی ٹھکانے لگا دیا گیا ۔مختار انصاری ایک انتہائی مقبول عوامی لیڈر تھے ۔ان کو مشرقی یو پی کا شیر کہا جاتا تھا۔ انہیں ہندو اور مسلمان دونوں طبقوں میں یکساں مقبولیت حاصل تھی ۔ انہوں نے اس حلقے سے پانچ بار انتخاب جیتا جو مسلم اکثریتی حلقہ نہیں تھا ۔ ان کی عوامی مقبولیت اور سیاسی قوت سے بڑی پارٹیاں خوف زدہ رہتی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یو پی کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے اپنے دور اقتدار میں مختار انصاری کو پابند سلاسل رکھا۔وہ اٹھارہ برس سے زیادہ عرصے تک جیل میں رہے ۔جیل میں رہنے کے با وجود ان کی عوامی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور اب موت کے بعد بھی ان کی عوامی مقبولیت میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی ہے ۔