شیئر کیجیے

مہاراشٹر کی سیاست میں پرکاش امبیڈکرکا رول

نہال صغیر

ریاست بہار میں پارلیمانی انتخابات کی سیٹوں کی تقسیم کو لے کر گذشتہ کئی مہینوں سے سیاسی گلیاروں میں تذبذب کا ماحول تھا لیکن اب جب کہ قومی جمہوری اتحاد اور ’’انڈیا‘‘ اتحاد کے کانشی رام نے کہا تھا کہ پہلے ہم ہارنے کیلئے انتخابی عمل میں آتے ہیں ، پھر ہرانے کیلئے اور اس کے بعد جیت کے حصول کیلئے ، انہوں نے اسے ثابت بھی کیا ۔ ہندوستان یا اس کی ریاست مہاراشٹر کی سیاست دو گروہوں کے گرد گھومتی ہے ایک مسلمان اور دوسرے پسماندہ طبقات ۔ اکثر دونوں کے اتحاد کی بات بھی کی جاتی ہے۔نئے نئے نعروں کے ساتھ نئے گروپ وجود میں آتے ہیں لیکن بات یونہی رہ جاتی ہے ۔ ادھر جب سے بی جے پی اور سنگھ کا عروج ہوا ہے تب سے نئے سیاسی گروپ جس نے انڈیا کے نام سے اپنے وجود کو آخری شکل دی بی جے پی کوشکست دینے کے عزم کے ساتھ میدان میں ہے ۔ انڈیا الائنس کے ساتھ بھی کئی مشکلات ہیں ۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے مسلمانوں کو نظر انداز کیا ۔ اس کی مثال یہ دی جاتی ہے کہ اس نے مجلس اتحاد المسلمین کو نظر انداز کردیا ۔ ہاں انہوں نے اتنا کیا کہ جنوبی ہندوستان میں اپنا اثر رکھنے والی پارٹی مسلم لیگ کو انڈیا میں شامل کیا ۔ الائنس کے مرکز میں چونکہ کانگریس ہے اور کافی عرصہ سےجنوبی ہند میں کانگریس کا مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد ہے اس لئے انڈیا میں مسلم لیگ کو شامل کرنا پڑا ۔ غالبا کانگریس یا انڈیا الائنس کی دیگر پارٹیاں مسلمانوں کو کل ہند پیمانے پر سیاست میں زیادہ مضبوط دیکھنا نہیں چاہتیں اس لئے انہوں نے مجلس سمیت دیگر علاقائی پارٹیوں کو شامل کرنے کیلئے کوئی پیش رفت نہیں کی ۔ حالانکہ کئی علاقائی مسلم پارٹیوں کی خواہش تھی کہ وہ انڈیا الائنس کا حصہ بنیں ۔

مہاراشٹر کی سیاست میں یوں تو مسلمانوں کی مسیحا بن کر آنے والی مجلس اتحاد المسلمین اپنی زمین بہت حد تک کھو چکی ہے ۔ اس نے ناندیڑ سے اپنی دھماکے دار شروعات کی تھی لیکن مجلس کی تنظیمی خامی یا مقامی نیٹ ورک کو اہمیت نہیں دینے کی وجہ سے اس کی ہوا اکھڑ گئی ۔ناندیڑ کے بعد ممبئی کے بائیکلہ کی سیٹ بھی گئی ۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے اب دو ایم ایل اے اور ایک ایم پی ہیں ۔ لیکن اس کی کوئی گارنٹی نہیں کہ آئندہ لوک سبھا میں مجلس یہاں سے اپنا مقام برقرار رکھ پائے گی ۔ بہر حال ہم یہاں ڈاکٹر امبیڈکر کے سیاسی وارث پرکاش امبیڈکر کی سیاست پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔ مجلس کا تذکرہ بھی اس لئے کیا گیا کہ مجلس نے بھی مسلم اور پسماندہ ذاتوں کی سیاست کرنے کی کوشش کررہی ہے۔پرکاش امبیڈکر کی پارٹی ونچت بہوجن اگھاڑی کی فی الوقت پارلیمنٹ یا ریاستی اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں ہے ۔ انڈیا الائنس میں اپنی شمولیت کیلئے انہوں نے امید سے زیادہ سیٹوں کا مطالبہ کیا جبکہ انہیں چار سیٹیں دی جارہی تھیں ۔ سیاسی ماہرین کے مطابق ونچت کو پیش کی گئی چار سیٹیں کافی تھیں اور پرکاش امبیڈکر کے ذریعہ اسے مان لینے پر انڈیا الائنس کو بھی فائدہ ہوتا اور اان کی پارٹی کی نمائندگی بھی ہوجاتی اور اس اتحاد سے بی جے پی کیلئے راہیں مشکل ہوجاتیں ۔ لیکن مہاراشٹر میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کی بڑی تعداد کا یہ ماننا ہے کہ پرکاش امبیڈکر اپنے رویہ سے سیکولر قوتوں کو نقصان اور بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کا سبب بنتے ہیں ۔

ایک مراٹھی روزنامہ سے وابستہ صحافی کا ماننا ہے کہ وہ باتیں بہت اچھی کرتے ہیں ۔ یعنی نفرت مٹانے اور مختلف فرقوں میں اتحاد نیز بی جے پی کو سیاسی طور پر بے دست و پا کرنے کی باتیں کرتے ہیں مگر ان کا عمل بی جے پی کو فائدہ ہی پہنچاتا ہے ۔ ایک اور مراٹھی صحافی ا کہتے ہیں کہ ان کے قول و عمل مطابقت نہیں رہتی ۔ ونچت بہوجن اگھاڑی کی ویب سائٹ پر جو معلومات ہے اس کے مطابق 2019کی پارلیمانی الیکشن میں انہوں نے 48 سیٹوں پر امید وار اتارے جس میں سے کوئی بھی فتحیاب نہیں ہوا لیکن پارٹی نے کل 41 ؍لاکھ ووٹ حاصل کئے ۔ اسمبلی الیکشن میں سبھی 234 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کئے ، کوئی بھی امید وار جیت درج نہیں کراپا یامگر پارٹی کو 24 ؍لاکھ ووٹ ملے ۔ واضح ہو کہ مہاراشٹر میں دلت ووٹوں کی تعداد دس فیصد کے قریب ہے ،جبکہ ودربھ میں 23 فیصد ہے ۔ایک صحافی کے مطابق امبیڈکر کے وارث ہونے کی وجہ سے دلتوں میں اچھی پکڑ ہے اور یہاں کی سیاست میں بھی عمل دخل ہے ۔وہ مسلمانوں کو رجھانے کیلئے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں ۔ تقریبا دو سال قبل وہ پیغمبرمحمد ﷺ بل لے کر آئے تھے جو کہ بحث کیلئے ابھی تک ٹیبل پر نہیں آپایا ۔ کئی لوگوں نے اس کو ایک سیاسی چال قرار دیا تھا۔ انہوں نے اورنگزیب کے نام پر بھی جذباتی سیاست کرنے کی کوشش کی ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پرکاش امبیڈکر کے ذریعہ مسلم ایشو اٹھانا غلط ہے مگر یہ محض الیکشن کے مد نظر نہ ہو اور اس میں سنجیدگی ہو ۔ اب تک مسلمانوں یا دلتوں کے مسائل کے حل نہیں ہونے کی وجہ صرف جذبات سے کھیلنا ہے کبھی بھی سنجیدگی سے اس مسئلہ پر قدم نہیں اٹھایا گیا ۔انہی سب حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے پرکاش امبیڈکر نے کئی سیٹوں پر بی جے پی کو فائدہ پہنچایا ہے۔اسی لئے سنجیدہ حلقوں میں انہیں قابل اعتنا نہیں سمجھا جاتا ۔حالانکہ انہیں جتنا ووٹ ملتا ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

مسلم سیاست کے نام پر مجلس اتحادالمسلمین اور دلت سیاست کیلئے پرکاش امبیڈکر ہو ں یا رام داس اٹھاولے، کوئی سنجیدہ نہیں ہے۔ الیکشن کے موقع پر کچھ گہما گہمی نظر آتی ہے اس کے بعد مکمل سکوت ہوتا ہے ۔ اگر پرکاش امبیڈکر سنجیدہ ہوتے تو وہ یا تو انڈیا الائنس سے سرے سے سیٹوں کے تعلق سے کوئی گفتگو ہی نہیں کرتے یا پھر اپنے ووٹ شیئرنگ کے حساب سے مطالبہ کرتے ۔ لیکن انہوں نے مطالبہ ہی ایسا کیا جو کہ انڈیا الائنس کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتا تھا ۔ اب انہوں نے کچھ سیٹوں پر کانگریس اور کچھ پر این سی پی(شرد پوار) کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔ لیکن ان کے اس اعلان پر ان دونوں پارٹیوں نے کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ مثال کے طور پر اکولہ سیٹ پر کانگریس کے امیدوار کے اعلان کے بعد انہوں نے کانگریس سے اپیل کی کہ وہ اس پر دوبارہ غور کرے ۔ وہ شاید یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ تو تعاون کرنا چاہتے ہیں لیکن کانگریس اور این سی پی ہی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں ۔ ادھر اورنگ آباد سیٹ کیلئے اپنے امیدوار کا اعلان کردیا ہے جس کیلئے امتیاز جلیل نمائندگی کررہے ہیں اور حالیہ الیکشن میں بھی وہ مجلس کے متوقع امیدوار ہیں ۔ 2019 میں یہاں ونچت بہوجن اگھاڑی نے مجلس کے امیدوار کی حمایت کی تھی ۔اب اس چپقلش میں مہاراشٹر کی واحد مسلم نمائندگی ختم ہو سکتی ہے ۔

کانگریس نے پرکاش امبیڈکر کے اتحاد کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے اکولہ سے اپنے امیدوار کا اعلان کردیا، جہاں سے وہ امیدوار ہیں ۔2019 میں کانگریس اور ونچت بہوجن یعنی پرکاش امبیڈکر کی باہمی مخاصمت میں بی جے پی کا امیدوار کامیاب ہوگیا ۔اسی طرح سانگلی سے ونچت بہوجن اور سوابھیمان پارٹی کا مجموعی حاصل شدہ ووٹ چھ لاکھ اٹھاسی ہزار سے زیادہ تھا جبکہ بی جے پی کو پانچ لاکھ آٹھ ہزار سے زائد ووٹ ملے تھے ۔ پورے مہاراشٹر میں کم و بیش یہی صورتحال ہے ۔ لیکن موجودہ پارلیمانی الیکشن میں صرف ایک امید ہے کہ بی جے پی اور شیو سینا میں ٹکراو ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کو نقصان ہونے کی امید ہے ۔ اگر پرکاش امبیڈکر اپنی بی جے پی کے معاون کار ہونے کی امیج سے باہر نکل آئیں تو امید ہے کہ یہاں فرقہ پرست پارٹیوں کو حاشیہ پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک پائے گا ۔