شیئر کیجیے

فیکٹ چیکنگ- حکومت مخالف آوازوں کی دبانے کی کوشش

عبد الباری مسعود

سپریم کورٹ نے21 مارچ کو مرکزی حکومت کے 20 مارچ کے اس حکمنامہ ( نو ٹیفکیشن ) پر امتناع عائد کردیا ہے جس کی رو سے پریس انفارمیشن بیورو کو فیکٹ چیکنگ یونٹ قائم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ فیکٹ چیکنگ یا صداقت کی جانچ کے نام پر حکومت کے کسی بھی فعل یا کام کے بارے میں خبر کو فرضی قرار دینے کا اختیار اس یونٹ یا محکمہ کے پاس ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ) ترمیمی رولز 2023 کے توسط سے حکومت کو حقائق کی جانچ کرنے والا یونٹ قائم کرنے کا اختیار دیا گیا تھا تاہم یہ اس وقت تک معطل رہے گا جب تک کہ اس کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی عرضی پر حتمی فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڈ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا (ای جی آئی) اورکامیڈین کنال کامرا کی طرف سے دائر ہ عرضیوں کی سماعت پرکیا ہے ۔

بنچ نے کہا کہ 20 مارچ 2024 کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد اس وقت تک معطل رہے گا جب تک کہ بامبے ہائی کورٹ کے تیسرے جج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے قاعدہ 3(1)(b)(v) کی توثیق پر حتمی فیصلہ نہیں کرتے ۔ خیال رہے اسی ترمیمی قانون کی شق کے تحت 20 مارچ کو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔ بامبے ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے الگ الگ فیصلے کے بعد کیس ہائی کورٹ کے تیسرے جج کے پاس چلا گیا تھا۔انفارمیشن ٹیکنالوجی (انٹرمیڈیری گائیڈ لائنز اینڈ ڈیجیٹل میڈیا ایتھکس کوڈ) رولز 2021 میں ترمیم کرکے مرکزی حکومت کے متعلق خبروں کی ترسیل نیز آن لائن گیمنگ ( جوا) پر نظر رکھنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ ان ترمیمی ضوابط کے تحت وزارت اطلاعات فیکٹ چیکنگ کا ایک ادارہ قائم کرے گی جسے مرکزی حکومت کے کسی کام کے متعلق شائع خبر کو فرضی، جعلی یا گمراہ کن قرار دینے کا اختیار ہوگا۔ خبر قارئین و ناظرین تک پہنچا نے میں Intermediaries ہوتے ہیں ۔ ان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم، ای کامرس کمپنیاں اور ویب ہوسٹنگ ( میزبان )سروسز وغیرہ شامل ہیں ۔ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے پابند ہوں گے کہ کوئی صارف ایسی معلومات کی میزبانی، ڈسپلے یا شیئر نہ کرے جسے فرضی قرار دیا گیا ہے ۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ اپنا پلیٹ فارم چلانے کے استحقاق سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ سوشل میڈیا کے ثالثوں کو ان کے صارفین کے ذریعے آن لائن پوسٹ کیے گئے مواد کے لیے قانونی کارروائی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ان ترامیم کی رو سے اگر کوئی عدالت یا حکومت کسی ثالث کو آگاہ کرتی ہے کہ ان کے پلیٹ فارم پر جعلی خبروں کا لیبل لگا ہوا ہے تو اسے یہ مواد 36 گھنٹوں کے اندر حذف کرنا ہوگا۔ گزشتہ سال جنوری میں 2021انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون میں یہ تبدیلیاں سب سے پہلے حکومت نے ایک مسودہ کی شکل میں پیش کی تھیں اور تمام متعلقہ فریقوں اور عوام کو صرف سات دن کا وقت دیا تھا کہ وہ اس مسودہ کے بارے میں اپنی رائے سے حکومت کو آگاہ کریں ۔ چنانچہ متعدد میڈیا اداروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی طرف سے ان ترامیم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ چونکہ ان ترامیم کے نتیجہ میں انٹرنیٹ پر خبروں کی ترسیل او ررپورٹنگ نیز آزادی اظہار کے حق کو شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے، لہذا اس اختیار کو بروئے کار لاکر حکومت انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں ، سوشل میڈیا کمپنیوں اور سرچ انجنوں پر کسی بھی خبر کو جعلی قرار دے کر اس کی اشاعت کو روک سکتی تھی۔

ماہرین کے مطابق یہ ترامیم غیرجانبدارانہ اور دیانتدارانہ رپورٹنگ میں قانونی بندشیں لگاتیں اور ایک طرح سے میڈیا پر سیلف سنسرشپ نافذ کر دیتیں ۔ ماضی میں بھی مرکزی حکومت کے زیر انتظام پریس انفارمیشن بیورو کے حقائق کی جانچ کرنے والے ادارہ نے محض حکومت کے بیانات کی بنیاد پر تنقیدی کوریج پر “جعلی” ہونے کا ٹھپہ لگا یا تھا ۔2021 میں میزبان میڈیا پلیٹ فارموں کے بارے میں جونئے ضوابط مرتب کیے گئے وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے دائرہ کار کے منافی ہیں اور خبر رساں اداروں پر مواد کی اشاعت کے حوالے سے سخت بندشیں عائد کرتے ہیں ۔ ان مجوزہ ترمیم شدہ ضوابط کو پہلے ہی سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ 2021 میں بمبئی اور مدراس کی ہائی کورٹوں نے ان ضوابط کی بعض شقوں پر یہ کہہ کر عبوری امتناع عائد کیا تھا کہ یہ آزاد میڈیا کا گلا گھونٹتے ہیں اور اظہار رائے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ حکومت کے اس نوٹیفکیشن کو فوری طور پر طنز نگار کنال کامرا، ایسوسی ایشن آف انڈین میگزینز، نیوز براڈکاسٹرز اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن اور ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے بمبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ مدعیوں نے یہ استدلال کیا تھاکہ اس سے آئین کی دفعہ 14 (مساوات کا حق) اور 19(1) (الف ) (آزادی اظہار اور اظہار رائے کا حق) کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کے سیکشن 79 (بعض امور میں میزبان کو مواخذہ سےمستثنیٰ رکھنے) کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق ترمیم شدہ ضوابط من مانے اور حکومت کو ا س کے اپنے مفاد میں منصف اور استغاثہ دونوں بناکر انصاف کے قدرتی اصول کی تنسیخ کر تے ہیں ۔ جسٹس گوتم پٹیل اور نیلا گوکھلے پر مشتمل دو ججوں کی بنچ نے اس مقدمہ کی سماعت کی۔ بنچ نے طویل سماعتوں کے بعد 31 جنوری کو اپنا الگ الگ فیصلہ سنایا تھا ۔ پٹیل نے مدعیوں کے حق میں فیصلہ سنایا اور ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا لیکن گوکھلے نے ان کو آئینی طور پر درست قراردیا۔پٹیل نے اپنی دلیلوں میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ دلیل بھی دی تھی کہ حکومت کی آواز سب سے بلند ہے اور اسے اپنے تحفظ کے لیے فیکٹ چیک یونٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان ترامیم نے ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا کے درمیان غیر منطقی تفریق کی ہے۔دوسری طرف گوکھلے نے اس بنیاد پر ترامیم کو برقرار رکھنے کا جواز پیش کیا کہ حکومت اپنے بارے میں درست حقائق فراہم کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہے اور یہ ترمیم شدہ ضوابط حکومت پر جائز تنقید یا سیاسی طنز کو متاثر نہیں کریں گے۔ ا ن کے فیصلے کی رو سے گمراہ کن اور جھوٹی خبروں کی لعنت کے سدباب کے لیے فیکٹ چیک یونٹ قائم کرنا ضرور ی ہے ۔ بمبئی ہائی کورٹ کے ضوابط کے مطابق عدالت کے چیف جسٹس نے گزشتہ ماہ اس منقسم و متضاد فیصلہ پر حتمی فیصلہ دینے کے لیئے ایک اور جج جسٹس اتل ایس چندورکر کا تقرر کیا۔اسی دوران مدعیوں نے ہائی کورٹ میں عرضیاں داخل کیں کہ حتمی فیصلہ آنے تک اس نوٹیفکیشن پر عبوری امتناع عائد کیا جائے۔ تاہم 11 مارچ کو چندورکر کی یک رکنی بینچ نے ان عرضیوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ بادی النظر میں فیکٹ چیکنگ ادارہ کے قیام کا اس میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔یک رکنی بنچ نے یہ معاملہ پٹیل اور گوکھلے کی اصل بنچ کے پاس واپس بھیج دیا۔13 مارچ کے اپنے حکم میں اصل بنچ کے گوکھلے نے چندورکر سے اتفاق کیا۔ اس طرح، عبوری اسٹے کی درخواستوں کو ججوں کی 2:1 کی اکثریت سے خارج کر دیا گیا۔ تاہم کامرا، ایڈیٹرز گلڈ اور ایسوسی ایشن آف انڈین میگزین نے فوری طور پر بامبے ہائی کورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اسی دوران حکومت نے فیکٹ چیک یونٹ تشکیل دینے کا اعلان کردیا ۔ اگلے ہی دن سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے جس میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ اور جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا شامل تھے مدعیوں کی عرضیوں کو منظور کرتے ہوئے چندورکر کی اصل درخواست ں پر حتمی فیصلہ تک زیر التواء نوٹیفکیشن پر روک لگا دی۔

ایک مختصر حکم میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ترامیم کو چیلنج کرنے سے آزادی اظہار اور اظہار رائے کے بنیادی حق سے متعلق سنگین آئینی سوالات اٹھتے ہیں اور بامبے ہائی کورٹ کو ان ضوابط کے مضمرات کا جائزہ لینا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ میں کامرا کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ ڈیریوس کھمباٹا نے کہا کہ ایف سی یو کے قیام کے نتیجے میں ہر سوشل میڈیا اور میزبان حکومت کے خوف سے حکومت مخالف مواد کو ہٹا دے گا جس سے آزادی اظہار کے حق پر کاری ضرب لگے لگی ۔ صرف مرکزی حکومت کے کام کاج کو ہی غلط معلومات اور جعلی مواد سے تحفظ کی ضرورت کیوں ہے؟‘‘ کھمباٹا نے سوال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے مقابلے میں عام لوگوں کو فرضی مواد سے زیادہ تحفظ کی ضرورت ہے۔ کھمباٹا نے عدالت کو باخبر کیا کہ مرکز نے گزشتہ سال 27 اپریل کو ہائی کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اس وقت تک رول 3 کو لاگو نہیں کرے گا جب تک کہ عدالت حتمی فیصلہ صادر نہیں کرتی۔ انہوں نے لوک سبھا انتخابات شروع ہونے سے بمشکل کچھ دن پہلے 20 مارچ کو نوٹیفکیشن جاری کرنا کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ گلڈز کے وکیل شادان فراست نے کہا کہ حکومت کے ذریعہ قائم کردہ ایف سی یو کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سچائی پر صرف مرکز کی اجارہ داری قائم ہوجائے گی۔ جبکہ سرکاری وکیل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ایف سی یو کا دفاع کرتے ہوئے ماضی کے کئی واقعات کا حوالہ دیا جب سوشل میڈیا میں جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کے نتیجہ میں نقصان اور تشدد بھی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ غلط مواد کے پھیلاؤ کے سدباب کے لیے موجودہ قانونی طریقہ کار ناکافی ہے ۔ تاہم عدالت نے سرکاری وکیل کی دلیلوں کو مسترد کرتے ہوئے نوٹیفیکشن پر عبوری امتناع کردیا۔ موجودہ حکومت اور حکمراں جماعت نے جس طرح میڈیا کے بڑے اداروں پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا ہے وہ اسی طرح انٹر نیٹ کے توسط سے چلنے والے ویب میڈیا پر بھی کنٹرول حاصل کرنا چا ہتی ہے تاکہ اس کی نکتہ چینی کرنے والا کوئی باقی نہ رہے ۔

تازہ مثال ہندوتوا واچ ویب کی ہے جس کا ایکس اکاؤنٹ (سابقہ ٹویٹر) 16 جنوری کو بند کردیا گیا ۔ یہ ایک آزاد تحقیقی ویب سائٹ ہے جو ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے خلاف نفرت انگیز جرائم کے واقعات کو دستاویزی شکل میں پیش کرتی ہے۔ اس ویب سائٹ کے X ہینڈل پر 77ہزارسے زیادہ پیروکار تھے۔ اس کے بانی رقیب حمید نائیک نے بعد میں واضح کیا کہ سوشل میڈیا کمپنی نے بھارتی حکومت کی جانب سے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ، (آئی ٹی ایکٹ) 2000 کی دفعات کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں ان کے اکاؤنٹ کو معطل کردیا ۔ نائک نے کہا کہ یہ اقدام حیران کن نہیں ہے کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی کا دور حکومت آزاد پریس ” اور منحرف آوازوں کو دبانے سے عبارت ہے ۔