شیئر کیجیے

یو پی مدرسہ بورڈ پر الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

عامر مشتاق

سر دست عدالت عظمیٰ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر اسٹے لگا دیا گیا جس میں اس نے یو پی بورڈ کے تحت قائم مدارس کو غیر قانونی اور سیکولر ازم کی اسپرٹ کے منافی بتایا تھا۔عدالتوں کے ذریعے تاریخی مساجد کو متنازعہ بنانے کا سلسلہ دینی مدارس کی دہلیز تک پہنچ گیا ہے ۔یو پی حکومت سے مالی امداد یافتہ پانچ سو ساٹھ مدارس اور ہزاروں تسلیم شدہ مدارس اپنے وجود کو بر قرار رکھنے کی جد وجہد کر رہے ہیں ۔اگر عدالت عظمیٰ اسٹے نہ لگاتی اور یوگی حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے پر فوری عمل کرتی ہے تو اس سے امداد یافتہ مدارس سے وابستہ دس ہزار اساتذہ کی ملازمت خطرے میں پڑجاتی ۔ساتھ ہی مدارس میں زیر تعلیم ہزاروں بچے اردو اور عربی کی بہتر تعلیم سے محروم ہو جاتے۔

ٓٓٓؒٓؒالہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے حالیہ فیصلے نے ریاستی حکومت سے امداد یافتہ 560 دینی مدارس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ۔ ہائی کورٹ نے مدرسہ ایکٹ2004 کو ملک کے آئین اور یوجی سی کے ضابطے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے کہا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مدرسہ ایکٹ2004، سیکولر ازم کے اصولوں کے منافی ہے ، جو ملک کے آئین کا ایک بنیادی ستون ہے ۔عدالت نے کہا ہے کہ یہ ایکٹ ملک کے آئین کی دفعہ14؍21؍ اور21 اے کی خلاف ورزی ہے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس بورڈ ایکٹ کو یونیورسٹی گرانٹ کمیشن ( یو جی سی ) کے ضابطے22 ؍کے بھی خلاف قرار دیا ہے ۔ عدالت نے مدرسہ بورڈ کے زیر اہتمام چلنے والے مدارس کے ہزاروں طلبہ کو مدرسوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں میں داخل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں انشو مان سنگھ راٹھور کی طرف سے ایک عرضی داخل کی گئی تھی ۔ اس عرضی میں مدرسہ ایکٹ2004 کو خلاف آئین قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ یو پی اس ایکٹ کو ختم کر دیاجائے ۔ جسٹس سبھاش ودیارتھی اور جسٹس وویک چودھری کی مشترکہ بنچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔ سماعت مکمل ہونے کے بعد8؍ فروری 2024 کوعدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیاتھا ۔

عدالت نے 22؍ مارچ کو 86 صفحات پر مشتمل اپنا فیصلہ سنایا ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں مدرسہ ایکٹ کو نہ صرف آئین کی خلاف ورزی قرار دیا بلکہ اس کو ملک کے سیکولر دھانچے کے منافی بھی قرار دیا ہے ۔عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ریاست کے مالی امداد یافتہ اور ہزاروں تسلیم شدہ دینی مدارس کامستقبل داؤ پر لگ گیا ہے ۔ امدادیافتہ دینی مدارس میں پڑھانے والے لگ بھگ دس ہزار اساتذہ کے سامنے اپنی ملازمت بچانے کا چیلنج در پیش ہے ۔ مدرسہ ایکٹ ۲۰۰۴ کے تحت یو پی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام عمل میں آیاتھا ۔ اس پہلے یو پی میں عربک اینڈ پرشین بورڈ ہوا کرتا تھا جو محکمہ تعلیم الہ آبادسے وابستہ ایک خود مختارتعلیمی ادارہ تھا۔اس ادارے کا کام الحاق شدہ دینی مدراس کے امتحانات منعقد کرانا اور اسناد جاری کرنا تھا ۔ عربک اینڈ پرشین بورڈ کو برٹش دور حکومت میں بنایا گیا تھا ۔ اس بورڈ کے مقاصد میں دینی مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کرنا شامل تھا ۔ عربی پرشین بورڈ کی ، منشی ، مولوی ، عالم اور فاضل طب کی اسناد کو تعلیمی میدان میں کافی اہمیت حاصل تھی ۔ آزادی کے بعداس بورڈ کی تشکیل نو1969میں کی گئی ۔ ریاستی حکومت نے بورڈ کے لیے نئے ضابطے مقرر کئے ۔لیکن مدرسہ ایکٹ پاس ہونے بعد عربی پرشین بورڈ کو ختم کر دیا گیا ۔مدرسہ ایکٹ2004 کے تحت اتر پردیش مدرسہ ایجو کیشن بورڈ بنایا گیا ۔ بورڈ سے الحاق کرنے والے مدارس کو ریاستی حکومت کی طرف سے مالی گرانٹ دینے کی منظوری دی گئی ۔ آج یو پی میں مالی امداد یافتہ مدارس کی تعداد560 ہے ۔ان مدارس میں تعلیم دینے والے ٹیچروں کو تنخواہ سرکاری اسکولوں کے ٹیچروں کے مساوی دی جاتی ہے۔ یو پی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی مدرسہ بورڈ پر تلوار لٹکنے لگی تھی۔ اس سے پہلے مدرسہ بورڈ کا چیئر مین دینی مدرسہ سے فارغ یا کسی علمی شخص کو بنایا جاتا تھا۔لیکن یوگی حکومت نے اس بات کا خیال نہیں رکھا ۔ امداد یافتہ مدارس کی تعطیلات میں تخفیف اور بڑے پیمانے پر مدارس کی از سر نو جانچ کی مہم نے مدارس کے ذمہ داران کو پریشان کرکے رکھ دیا ۔

2018 میں مدرسہ بورڈ کے نصاب میں بنیادی تبدیلی کی گئی ۔حکومت نے ا ین سی ای آر ٹی کی کتابوں کو نصاب میں شامل کرنے کا حکم دیا ۔ مدارس کے نصاب میں ریاضی ، سائنس ، انگریزی ، کمپیوٹر سائنس ، سماجی علوم کے مضامین بھی شامل کئے گئے ۔ساتھ ہی یہ بھی تبدیلی کی گئی کہ جدید علوم کے امتحانات اردو کے علاوہ ہندی اور انگریزی میں بھی دئے جا سکتے ہیں ۔امداد یافتہ اور تسلیم شدہ مدارس نے حکومت کی تمام شرطوں کو مان لیا ۔ مدارس کے خلاف یوگی حکومت نے جو سب سے بڑا فیصلہ لیا وہ یہ تھا کہ اب کسی نئی مدرسے کو مالی گرانٹ پر نہیں لیا جائے گا۔ یعنی نئے مدرسے کے لیے مالی گرانٹ کی فراہمی کی پالیسی کا خاتمہ کر دیا گیا ۔ یوگی حکومت کے اس فیصلے سے درجنوں ایسی فائلیں مسترد ہو گئیں ۔ جو مالی امداد کے لیے طویل عرصے سے قطار میں تھیں ۔اس طرح نئے مدارس پر مالی گرانٹ کے دروازے بند کر دئے گئے ۔اپنے وجود کی بقا کے لیے جدو جہد کر رہے مدارس کے سامنے ہائی کورٹ کے فیصلے نے ایک نئی مصیبت کھڑی کر دی ہے۔اس فیصلے نے نئے طرح کے خدشات کو جنم دیا ہے ۔یوگی حکومت اگر ہائی کورٹ کے فیصلے کو نافذ کر دیتی ہے تو ہزاروں دینی مدارس کا خاتمہ ہو جائے گا ۔اس فیصلے کی رو سے مدارس میں زیر تعلیم بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کرایا جائے گا اور دس ہزار ٹیچروں کو یا تو فارغ کر دیا جائے گا یا ان کو دوسرے سرکاری اداروں میں کھپایا جائے گا ۔لیکن دوسری جانب یوگی حکومت سنسکرت اسکولوں پر کھل کر مہربان ہے ۔ مدرسہ بورڈ کی طرح ریاست میں اتر پردیش مادھمک سنسکرت پریشد موجود ہے جس کویو پی حکومت نے 2002میں قائم کیا تھا ۔ مدرسہ بورڈ کی طرح ہی حکومت سے تسلیم شدہ 1164 ؍سنسکرت ودیالیہ پوری ریاست میں موجود ہیں ۔ سنسکرت اسکولوں میں وید اور دھرم شاستروں کی تعلیم دی جاتی ہے ۔مدرسہ بورڈ کی طرح ہی اس کی اسناد بھی جونیئر ہائی اسکول سے لے کر انٹر میڈیٹ کی اسناد کے مساوی ہیں ۔سنسکرت اسکولوں پر یوگی حکومت کی مہربانیوں کا اندازاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے کی حکومت نے 17؍سنسکرت اسکولوں میں بے ضابطگی کی جانچ کے بعد مالی گرانٹ روک دی تھی ۔ لیکن اب یوگی حکومت نے ان17 ؍ سنسکرت اسکولوں کو نہ صرف بحال کر دیا بلکہ ان کے تمام بقایاجات ادا کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے ۔ مدارس کے خلاف ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ایک بات یہ بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ عدالت میں حکومت کی طرف سے قانونی دلائل کو مضبوطی کے ساتھ نہیں رکھا گیا۔ اس ضمن میں مدرسہ بورڈ کا کوئی واضح موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے ۔ مدرسہ بورڈ کے چیئر مین افتخار احمد جاوید کا میڈیا میں صرف یہ بیان آیا ہے کہ مدرسہ بورڈ ہائی کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے رہا ہے اور اس تعلق سے کوئی مناسب قدم جلد اٹھایا جائے گا ۔اس سے پہلے افتخار احمد جاوید ریاست کے امداد یافتہ اور تسلیم شدہ دینی مدار س میں پھیلی مبینہ بدعنوانیوں کے خلاف سرکاری مہم چلانے میں پیش پیش رہے ہیں ۔ تسلیم شدہ اور امداد یافتہ دینی مدارس کی نمائندہ تنظیم ٹیچرس ایسو سی ایشن مدارس عربیہ نے عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کئے ۔اس کے لیے تنظیم نے کئی مشہور وکلا کی خدمات حاصل کی تھیں ۔لیکن قانونی جنگ میں اس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مدارس کے ذمہ دران اور ٹیچروں میں سخت تشویش پیدا ہوگئی تھی۔ ٹیچرس ایسو سی ایشن مدارس عربیہ نے لکھنؤ بنچ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔اس مسئلے پر مدارس کے ذمہ داران سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ سے براہ راست رابطہ کرنے کی کوشش میں تھے ۔ ٹیچرس ایسو سی ایشن کے جنرل سکریٹری دیوان زماں خان کا کہنا ہے کہ ٹیچرس ایسو سی

ایشن نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو خط لکھ کر ان سے ملاقات کا وقت مانگا ہے ۔لیکن حکومت کی طرف سے ابھی تک اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا گیا ۔امداد یافتہ دینی مدارس کی دو نمائندہ تنظیمیں ٹیچرس ایسو سی ایشن اور مینجرس ایسو سی ایشن مدارس عربیہ نے اپنی قانونی لڑائی سپریم کورٹ میں لڑنے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے ۔ دونوں تنظیموں نے مدارس کے اساتذہ سے مالی تعاون کی اپیل بھی کی ہے ۔مدارس کی کوشش ہے کہ سپریم کورٹ سے کوئی فوری راحت مل جائے تاکہ ٹیچروں کی تنخواہ اور معمول کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو ۔ حکومت نے فی الحال اس فیصلے پر سرد مہری اختیار کر رکھی ہے ۔یوپی مدرسہ بورڈ ایک سرکاری ادارہ ہے جس کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے نے ریاستی حکومت کی مدرسہ مخالف پالیسی کو اجاگر کر دیا ہے ۔اب اس کی امید کم ہی نظر آ رہی ہے کہ یوگی حکومت مدارس کو بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرے گی۔