شیئر کیجیے

الیکشن سے قبل مرکزی حکومت کی بوکھلاہٹ

سہیل انجم

اس بار کا الیکشن عجیب و غریب ہے۔ شاید پہلے ایسا الیکشن کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ پہلے کبھی کسی حکومت نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ مختلف جماعتوں پر مشتمل اس کا اتحاد لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے چار سو سے زائد نشستیں جیت لے گا۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ہوگا کہ حزب اختلاف کے خلاف حکومتی ایجنسیوں کو اتنے بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہو۔ اپوزیشن رہنماؤں کے پیچھے اس طرح ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس کے محکموں کو لگا دیا گیا ہو۔ ان پر اپنی پارٹی سے بغاوت کرکے حکمراں جماعت میں شامل ہونے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہو اور جیل جانے کے ڈر سے بہت سے لیڈران اپنی پارٹی چھوڑ کر حکمراں جماعت میں شامل بھی ہو رہے ہوں ۔ حکومت کے سامنے نہ جھکنے والے لیڈروں کو اٹھا اٹھا کر جیل میں ڈالا جا رہا ہو۔ پہلے اپوزیشن لیڈروں پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے ہوں اور پھر انہی لیڈروں کو اپنی پارٹی میں شامل کروا کر ان کے خلاف کارروائیاں ختم کرا دی گئی ہوں ۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا ہوگا کہ حکومت نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے جمہوریت کا گلا گھوٹ دیا ہو اور اپوزیشن رہنماؤں کے سامنے اپنے وجود کی بقا کی جنگ کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے تحفظ کی جنگ بھی درپیش ہو۔ اس بار یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور دھڑلے سے ہو رہا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ عوام ان کی حکومت کی ترقیاتی سرگرمیوں کی وجہ سے اسے ووٹ دیتے رہے ہیں اور وہ ایک بار پھر اسے ووٹ دے کر برسراقتدار لائیں گے۔ اگر حکومت خود اعتمادی کے ساتھ یہ سب کچھ کہہ رہی ہوتی تو بات سمجھ میں آجاتی۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ یہ دعویٰ متزلزل اعتماد کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو خود اس بات کا احساس ہے کہ چار سو نشستیں لانا اس کے لیے جوئے شیرلانے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ ایسا دعویٰ صرف اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ایک ماحول بنایا جا سکے۔ ماحول سازی کے لیے مختلف حربے اختیار کیے جا رہے ہیں ۔ انہیں حربوں میں میں سروے ایجنسیوں کا استعمال بھی شامل ہے۔ سروے ایجنسیوں نے اپنی رپورٹوں میں مودی حکومت کی واپسی کی پیشین گوئی کی ہے۔ بعض رپورٹوں میں حکومت کی بولی بولی گئی اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ این ڈی اے چار سو سے زیادہ سیٹیں لا رہا ہے۔ بی جے پی ایک منظم پارٹی ہے۔ اس کی سرپرست آر ایس ایس جیسی جماعت ہے ۔ وہ چاہے تو چند گھنٹوں کے اندر کسی بھی افواہ پوری دنیا میں پھیلا سکتی ہے۔ ماضی میں اس نے ایسا کرکے دکھا یا ہے۔ لہٰذا آر ایس ایس اور بی جے پی اپنے طور پر یہ جائزہ لیتے رہے ہیں کہ اس بار الیکشن کس رخ پر جائے گا۔ کیا مودی حکومت تیسری بار بھی اقتدار میں لوٹ رہی ہے یا نہیں ۔ بی جے پی کے اندرونی سروے اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ جو دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ آسان نہیں ہے اور کوئی تعجب نہیں کہ وہ الیکشن میں شکست کھا جائے۔ اس کی رپورٹوں کے مطابق کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں اس کی حالت پتلی ہے۔ جہاں اسے 2019 کے انتخابی نتائج کا اعادہ ناممکن نظر آرہا ہے۔

لیکن حکومت بضد ہے کہ اسے تیسری بار بھی اقتدار میں آنا ہے خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ اس صورت حال نے اسے بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ اسی بوکھلاہٹ میں الٹے سیدھے اقدامات کر رہی ہے۔ پہلے تو اصل اپوزیشن جماعت کانگریس کو تنظیمی طور پر توڑنے اور کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ مختلف ریاستوں میں اس کے لیڈروں کو مختلف بہانوں سے پارٹی چھوڑنے اور بی جے پی جوائن کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کانگریس کے کسی لیڈر کو بی جے پی میں شامل نہ کرایا جاتا ہو۔ یہاں تک کہ اگر سابق وزرائے اعلیٰ کو بی جے پی میں شامل کرایا گیا تو سابق مرکزی وزرا اور ان کے رشتہ داروں کو بھی مجبور کیا گیااور اب بھی کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں آجائیں ۔ اس دوران کانگریس کے بینک اکاونٹ منجمد کیے گئے۔ اس کو ہزاروں کروڑ روپے کے انکم ٹیکس کے نوٹس جاری کیے گئے۔ حکومت کی ایجنسیاں اس کوشش میں ہیں کہ کانگریس کو پائی پائی کا محتاج بنا دیا جائے تاکہ وہ کو ئی موثر انداز میں انتخابی مہم نہ چلا سکے۔ اس سلسلے میں کانگریس کے تین اعلیٰ رہنماؤں ملکارجن کھڑگے، سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کی وہ مشترکہ پریس کانفرنس بہت اہمیت کی حامل تھی جس میں انھوں نے وزیر اعظم مودی پر الزام لگایا کہ وہ کانگریس کو مالی اعتبار سے بے دست و پا کر دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ الیکشن نہ لڑ سکے اور بی جے پی کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ رہے۔ کانگریس کے رہنماؤں کو یہاں تک کہنا پڑا کہ ان کے پاس اپنے لیڈروں کے لیے جہاز اور ریل کے ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں ہیں ۔

اس سے قبل حکومت نے اپوزیشن کے اتحاد ’’انڈیا الائنس‘‘ کو توڑنے کی کوشش کی۔ بظاہر وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئی۔ لیکن تمام اڑچنوں اور رکاوٹوں کے باوجود انڈیا اتحاد مضبوط ہو تا جا رہاہے اور 31 مارچ کی دہلی کے رام لیلا میدان کی ریلی نے یہ ثابت کر دیا کہ اسے توڑنے کی حکومت کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ اس ریلی میں سب سے زیادہ زور جمہوریت کو بچانے پر دیا گیا۔ دراصل انڈیا اتحاد کے لیے جو سب سے مشکل کام تھا وہ ممکن ہو گیا جس نے حکومت کی بوکھلاہٹ کو مزید بڑھا دیا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس ایک دوسرے کے سخت مخالف رہے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں ۔ لیکن مودی حکومت کی جانب سے دہلی کی عام آدمی پارٹی کی حکومت کے خلاف یکے بعد دیگرے متعدد کارروائیوں نے عام آدمی پارٹی کو کانگریس کے قریب جانے پر مجبور کر دیا۔ کانگریس نے بھی وقت کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی سے اپنی دشمنی ترک کر دی اور دونوں نے ایک دورسرے سے ہاتھ ملا لیا۔ گو کہ دونوں میں جو اتحاد ہوا ہے وہ کوئی بہت مضبوط نہیں ہے پھر بھی اس اتحاد سے حکومت کو سخت پریشانی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب بی جے پی کو دہلی کی ساتوں سیٹوں کے لالے پڑ گئے ہیں ۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ بی جے پی جو پہلے ان تمام سیٹوں پر قابص تھی، ایک بھی نہ حاصل کر پائے۔ اس صورت حال نے حکومت کو مزید بوکھلا دیا۔ اس نے عام آدمی پارٹی کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ پہلے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کو مبینہ دہلی شراب پالیسی معاملے میں گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا۔ اس کے بعد عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کو جیل بھیجا گیا اور بالآخر وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کو بھی جیل بھیج دیا گیا۔ کیجری وال کو پہلے ہی یہ اندازہ تھا کہ حکومت انھیں ہر حال میں جیل بھیجنا چاہتی ہے۔ اسی لیے وہ ای ڈی کے نوٹس پر حاضر ہونے سے انکار کرتے رہے۔ انھیں نوٹس پر نوٹس جاری کیے گئے لیکن وہ ایک بار بھی حاضر نہیں ہوئے بلکہ س کے خلاف عدالت چلے گئے۔ لیکن جب عدالت نے کہہ دیا کہ وہ ان کی گرفتاری پر روک لگانا نہیں چاہتی تو ای ڈی نے ان کو گرفتار کر لیا۔

کیجری وال کوگرفتار کر نے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ انتخابی مہم میں شرکت نہ کر سکیں ۔ اس وقت حکومت مخالف خیمے میں کیجری وال کو کافی اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ ان کی پارٹی دہلی کے علاوہ پنجاب میں بھی برسراقتدار ہے۔ ا س کے علاوہ گجرات میں بعض علاقوں میں اس نے اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔ یہاں تک کہ ایک جگہ اس کا میئر بھی منتخب ہوا ہے۔ بی جے پی کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر کیجری وال کو روکا نہیں گیا تو وہ اس کے ووٹ بینک پر قبضہ کر سکتے ہیں ۔ دہلی میں تو ویسے ہی انھوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ کیجری وال اور کانگریس کے ہاتھ ملا نے کے بعد اس کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی ہیں ۔ یہی سب سوچ کر اور اس پلاننگ کے تحت بھی کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس کو ایک دوسرے سے دور کر دیا جائے، عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کو جیل بھیجا جا رہا ہے۔ اس کے ایک سابق وزیر ستیندر جین پہلے ہی جیل میں ہیں ۔ اب ایک اور وزیر کیلاش گہلوت کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ کیا پتہ کل کو انھیں بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا جائے۔

دراصل یہ سارے اقدامات حکومت کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں ۔ اگر اسے اس بات کا یقین ہوتا کہ واقعی بی جے پی 370 اور این ڈی اے کو 400 سے زائد سیٹیں مل رہی ہیں تو پھر اسے یہ سب کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ لیکن اس کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ عوام کو زیادہ دنوں تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ الیکٹورل بانڈز کے معاملے نے حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ حکومت ایک طرف کرپشن کے خلاف جنگ کی بات کرتی ہے اور دوسری طرف کرپٹ لوگوں کو جن کو جیل بھیجنے کی دھمکیاں دیتی رہی، انھیں نہ صرف اپنی پارٹی میں بلکہ حکومت میں بھی شامل کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے اسے غیر قانونی قرر دینے اور تمام تفصیلات منظر عام پر لانے کی ہدایت کے بعد کانگریس رہنما راہل گاندھی نے اس اسکیم کو جبریہ وصولی کا دنیا کا سب سے بڑا ریکٹ قرار دیا ہے۔ بی جے پی نے اس اسکیم کے توسط سے ہزاروں کروڑ روپے اپنے خزانے میں جمع کر لیے ہیں ۔ جبکہ وہ اپوزیشن کو مالی اعتبار سے محتاج بنانا چاہتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عوام سے یہ ساری باتیں چھپی ہوئی ہیں ، یا یہ حقائق مخفی ہیں ۔ عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کون دھاندلی کر رہا ہے اور کون مظلوم ہے۔ بی جے پی جیسی چالاک پارٹی عوام کا موڈ بھانپنے میں ماہر ہے۔ لہٰذا اسے اس بات کا اندیشہ ہے کہ عوام انتخابی میدان میں اس سے سوالات کر سکتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے لیے جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا دھیان بھٹکانے کے لیے حکومت مختلف حربے اختیار کر رہی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں کی گرفتاری اور کانگریس کے بینک اکاونٹس کو منجمد کرنا اور انکم ٹیکس کے نوٹس بھیجنا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ اب تو عوام بھی یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ اگر حکومت چار سو سے زیادہ سیٹیں جیت رہی ہے تو پھر اسے یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔