شیئر کیجیے

یونیفارم سول کو ڈ کی حمایت میں قوانین کی یکسانیت کا فسانہ

ڈاکٹر جاوید جمیل

یونیفارم سول کو ڈ کی حمایت میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ایک ملک میں دو قانون نہیں ہوسکتے سب لوگوں کی لئے ایک ہی سول قانون ہونا چاہیے- آئیے پہلے ملک میں قوانین کی یکسانیت کے اس بے بنیاد تصور کا جائزہ لیں ۔ یہ بات دلچسپ سے خالی نہیں ہے کہ ہندوتوا بریگیڈ اکثر بعض معاملات میں تنوع پر فخر کرتی ہے، جیسے ہندوؤں کی طرف سے لاکھوں دیوتاؤں کی پوجا،مختلف ہندو آبادیوں میں روایات اور ثقافتوں میں تنوع البتہ ان معاملات میں جہاں مسلمان کا معاملہ آتا ہے تو فوراً ایک ملک ایک قانون کا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں – وہ لایعنی بحث کرنے لگتے ہیں کہ جب ملک کے سول اور کریمنل لاز میں یکسانیت ہے تو پھر ملک کے تمام باشندوں کے لئے یکسان سول کو ڈ یا فیملی لاز میں یکسانیت کیوں نہیں ۔ تاہم سچائی یہ ہے کہ سول قوانین کی کیا بات کی جائے، جو بنیادی طور پر افراد اور خاندانوں سے متعلق ہیں ، فوجداری قوانین اور ریاستوں کے اختیارات بھی یکساں نہیں ہیں ۔ وہ خود آئین کی دفعہ 370 کی مثال دیتے ہوئے کبھی نہیں تھکتے تھے، جس نے جموں و کشمیر کو خاص حالات کی وجہ سے خصوصی حیثیت دے رکھی تھی، جب کہ اس نے آزادی کے وقت ہندوستان میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن وہ دوسری بہت سی ریاستوں کی اسی طرح کی مثالوں کو بھول جاتے ہیں جو کہ ملک کے آئین کے حصہ XXI میں شامل ہیں :

دفعہ 369 پارلیمنٹ کو ریاستی فہرست میں بعض معاملات کے حوالے سے قانون بنانے کا عارضی اختیار دیتی ہے جو کہ کنکرنٹ لسٹ کے معاملات ہیں ۔ یعنی ایک ہی معاملہ میں مرکز کو اور ریاستوں کو الگ الگ قانون بنانے کا اختیار خود ملک کے دستور نے دے رکھا ہے۔ درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

آرٹیکل 370 {ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے عارضی دفعات} (اب منسوخ، آرٹیکل 371 {مہاراشٹر اور گجرات کی ریاستوں کے حوالے سے خصوصی انتظام}، آرٹیکل 371A {ناگالینڈ ریاست کے حوالے سے خصوصی انتظام}، آرٹیکل 371B {آسام ریاست کے حوالے سے خصوصی انتظام}، آرٹیکل 371C {ریاست منی پور کے حوالے سے خصوصی انتظام}، آرٹیکل 371D {ریاست آندھرا پردیش کے حوالے سے خصوصی دفعات، آرٹیکل 371E {آندھرا پردیش میں مرکزی یونیورسٹی کا قیام}، آرٹیکل 371F (ریاست سکم کے حوالے سے خصوصی دفعات)، آرٹیکل 371G {ریاست میزورم کے حوالے سے خصوصی انتظام، آرٹیکل 371H {ریاست اروناچل پردیش کے حوالے سے خصوصی انتظام}، آرٹیکل 371I {گوا ریاست کے حوالے سے خصوصی انتظام}

یہ تمام قوانین ہماچل پردیش، گوا، آندھرا پردیش، آسام اور ناگالینڈ سمیت مختلف ریاستوں کو مختلف حقوق و اختیارات دیتے ہیں ۔ حال ہی میں تریپورہ کے لیے جو آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ بنایا گیا تھا، ریاستی اسمبلی نے اس متنازعہ قانون کو منسوخ کر دیا ہے جس نے ہندوستانی فوج کو وسیع اختیارات دے رکھے تھے اور تقریباً دو دہائیوں سے شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں مبینہ جرائم کے ارتکاب کے باوجود سیکورٹی فورسز کو تحفظ فراہم کرتا تھا۔

اسی طرح ہندی قومی زبان ہونے کے باوجود، مختلف ریاستوں کی زبان کی اپنی پالیسی ہے جب کہ ان ریاستوں کی غالب اکثریت ھندو ہی ہیں – کرناٹک، کیرالہ اور تمل ناڈو جیسی ریاستوں میں آپ کو ہندی میں شاید ہی کوئی ہورڈنگز کہیں نظر آئیں ۔

ہندوستان میں شراب سے قوانین مختلف ریاستوں میں مختلف ہیں ۔ گجرات، منی پور، بہار (حالیہ) اور ناگالینڈ کے ساتھ ساتھ مرکز کے زیر انتظام علاقہ لکشدیپ میں شراب پینا ممنوع ہے۔ کیرالہ حکومت نے شراب پر تقریباً مکمل پابندی کو مرحلہ وار نافذ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جسے 2014 کی تیسری سہ ماہی سے شروع کیا جاچکا ہے اور مکمل امتناع میں 10 سال لگیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ پابندی کے باوجود شراب آسانی سے دستیاب ہوجاتی ہے، اور اس کے لیے مشورے دینے والی ویب سائٹس بھی موجود ہیں ۔ دیگر تمام ریاستیں شراب نوشی کی اجازت دیتی ہیں لیکن شراب پینے کی قانونی عمر بھی متعین کرتی ہیں ۔ بعض ریاستوں میں ، شراب پینے کی قانونی عمر مختلف قسم کے الکحل مشروبات کے لیے مختلف بھی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گائے کے ذبیحہ سے متعلق قوانین بھی، جو کہ حالیہ برسوں میں ایک مسئلہ بن چکے ہیں ، یکساں نہیں ہیں ۔ مویشیوں کے ذبیحہ کو کنٹرول کرنے والے ریاستی قوانین میں بھی یکسانیت کا فقدان ہے۔ دہلی، گجرات، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، پنجاب، راجستھان اور اتر پردیش میں سخت ترین قوانین ہیں ، جہاں گائے اور اس کی اولاد بشمول ہر عمر کے بیل اور بیلوں کے ذبیحہ پر بھی مکمل پابندی ہے۔ زیادہ تر ریاستوں میں ہر عمر کی گائے کے ذبیحہ پر پابندی ہے۔ تاہم، آسام اور مغربی بنگال کے قانون بالترتیب 10 اور 14 سال سے زیادہ عمر کی گایوں کو ذبح کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ زیادہ تر ریاستیں بچھڑوں کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کرتی ہیں ، چاہے وہ نر ہو یا مادہ ۔ بہار اور راجستھان کو چھوڑ کر، جہاں ایک بچھڑے کی عمر 3 سال سے کم ہے، دیگر ریاستوں نے بچھڑے کی عمر کی وضاحت نہیں کی ہے۔

گائے کے ذبیحہ کی سزا بھی مختلف ریاستوں میں مختلف ہے۔ دہلی، گوا، پڈوچیری، پنجاب اور اتر پردیش میں مویشیوں کے ذبیحہ سے متعلق ریاستی قوانین کی خلاف ورزی قابل دست اندازی اور ناقابل ضمانت جرم ہیں جبکہ دیگر ریاستوں میں جرائم صرف قابل دست اندازی ہوں گے۔ قید کی زیادہ سے زیادہ مدت بھی مختلف ہے جو 6 ماہ سے 5 سال تک ہوسکتی ہے-

دیگر شمال مشرقی ہندوستان کی ریاستیں مثلاً اروناچل، میزورم، میگھالیہ، ناگالینڈ، تریپورہ اور سکم میں بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ منی پور میں مہاراجہ نے 1939 میں گائے کے ذبیحہ پر مقدمہ چلانے کا حکم دیا تھا لیکن یہان بھی گائے کا گوشت بڑے پیمانے پر کھایا جاتا ہے۔”

کئی بڑے مسلم لیڈروں کے مطالبات کے باوجود نہ تو حکومت نے ملک کی تمام ریاستوں میں گائے کے گوشت پر تمام شکلوں میں یکساں پابندی لگانے کے لیے کوئی بل متعارف کروایا اور نہ ہی ہندوتوا بریگیڈ نے اس کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ اس پر صرف فرقہ وارانہ جنون پیدا کرنے اور مسلمانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر اس کا استعمال کرتے رہے ۔ انہوں نے بنیادی طور پر ان ہی ریاستوں میں اس پر پابندی عائد کی ہے جہاں مسلمان اسے کھاتے تھے اور اس کی تجارت میں ملوث تھے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ اس وقت ببیف ایکسپورٹ کرنے والے زیادہ تر غیر مسلم ہی ہیں ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ ملک میں ٹیکس سے متعلق پالیسیاں ہر ریاست میں مختلف ہیں ۔ نتیجتاً مختلف ریاستوں میں رہنے والے لوگوں کو مختلف ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، مختلف ریاستوں میں ایک ہی چیز کی قیمت بھی مختلف ہوتی ہے۔ فرید آباد، گڑگاؤں اور دہلی، این سی آر کے مختلف حصوں میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی مختلف ہیں ۔ تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن کی پالیسیز بھی مختلف کمیونٹیز کے لیے مختلف ہے، جن میں درج فہرست ذاتیں زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کر رہی ہیں اس کے بعد دیگر پسماندہ طبقات ہیں ۔ مختلف طبقات کی طرف سے ریزرویشن پالیسی کو ذات کے بجائے طبقاتی بنیادوں پر تبدیل کرنے کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے نیز ریزرویشن پر مکمل پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

“بنیادی حقوق” پوری دنیا کے تمام آئین کا اور لازمی جز ہیں ۔ “بنیادی حقوق” سے مراد افراد کے اپنے متعلق معاملات میں حقوق ہیں ، جن کا اطلاق خاندانوں اور برادریوں پر ان معاملات میں ہوتا ہے جو دوسروں کو متاثر نہیں کرتے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان پر اپنا قانون نافذ کرے۔ پرسنل لا ایک ایسی چیز ہے جو خالصتاً مسلمانوں کا اندرونی معاملہ ہے، جس سے دوسری کمیونٹیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اگر اسلامی قوانین کی تشریح اور نفاذ کے طریقہ کار میں کوئی سوال ہے تو یہ کمیونٹی کا اندرونی معاملہ ہے، اس کے علما و صلحا اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ان پر اجتہاد کریں – البتہ جو منصوصات ہیں ان پر گفتگو نہیں ہوسکتی ہے۔ البتہ فقہی اختلافات میں افہام و تفہیم کی گنجائش رہنی چاہیے اور مختلف مکاتب فکر کی آراء سے استفادہ کا رجحان بڑھنا چاہیے

ہندوتوا بریگیڈ کبھی بھی ملک میں معاشی عدم مساوات کے مسئلہ کو نہیں اٹھاتا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات نہیں کرتا اس لئے کہ ملک میں معاشی تفاوت کے سب سے زیادہ ذمہ دار ھندوؤن کی اعلیٰ ذات ہی ہیں ۔ اسی طرح وہ ہندو اور مسلم برادریوں کے درمیان اقتصادی عدم مساوات کا ذکر بھی پسند نہیں کریں گے، جو کہ ایک بار پھر بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ “ریاست کو دولت اور ذرائع پیداوار کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو روکنے کے لیے کام کرنا چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مادی وسائل کو عوام کی فلاح ق بہبود کے لئے استعمال کیا جائے۔ فوربس کی 100 امیر ترین ہندوستانیوں کی فہرست بخوبی یہ اندازہ ہوتا ہےکہ دولت صرف اونچی ذات کے ہندوؤں بالخصوص ویشیوں کے ہاتھ میں ہی مرکوز ہے۔ لیکن ہندوتوا بریگیڈ نہ صرف یہ کہ اس پر بات نہیں کرتی بلکہ ایسے اقدامات کی حمایت کرتی ہے جو اس عدم مساوات کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں ۔ آئیے ہم کچھ ہدایتی اصولوں اور ان کے اطلاق پر گفتگو کرتے ہیں ۔

آرٹیکل 38 ایک ایسا ماڈل تیار کرنے کی کوششوں کا مطالبہ کرتا ہے جس سے معاشی عدم مساوات میں اضافہ نہ ہو۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں اس کے بالکل برعکس کام کرتی رہی ہیں اور معاشی عدم مساوات خطرناک حد تک پہنچ چکاہے۔

دفعہ 39 تمام شہریوں کے لیے مناسب ذریعہ معاش، مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں کام کی یکساں اجرت، مناسب کام کے حالات، دولت کے ارتکاز اور پیداوار کے ذرائع کو چند ہاتھوں میں محدود اور ان کی عوام کی بھلائی کی تقسیم پر زور دیتی ہے۔ یہاں بھی پچھلی چند دہائیوں میں حکومتی پالیسیاں بالکل برعکس رہی ہیں – موجودہ حکومت نے کارپوریٹ ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں پچھلی ساری حکومتوں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم فوربز کی 100 امیر ترین ہندوستانیوں کی فہرست دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دولت صرف اونچی ذات کے ہندوؤں بالخصوص ویشیوں کے ہاتھ میں مرتکز ہے۔ لیکن ہندوتوا بریگیڈ نہ صرف اس پر بات نہیں کرتابلکہ ایسے اقدامات کی حمایت کرتا رہتا ہے جو اس عدم مساوات کو مزید فروغ دیتے ہیں ۔

پچھلےکئی سالوں سے راقم سالانہ بجٹ میں اقتصادی تفاوت انڈیکس (شہریــ دیہی اور مختلف کمیونیٹیز کے درمیان) متعارف کرانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لیکن معاشی تفاوت اب بھی سیاست کے ساتھ ساتھ میڈیا میں سب سے کم زیر بحث ہے۔ دفعہ 41-43 ریاست کو حکم دیتی ہے کہ وہ تمام شہریوں کو کام کرنے کا حق، اجرت، سماجی تحفظ، زچگی کی امداد اور ایک مہذب معیار کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے۔ ان دفعات کا مقصد ایک سوشلسٹ ریاست کا قیام ہے لیکن اس کے برخلاف ہم معیشت کی تیزی سے نجکاری کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ دفعہ 43 ریاست کو کاٹیج انڈسٹری، کھادی، ہینڈلوم وغیرہ کو فروغ دینے کی ذمہ داری بھی دیتی ہے۔ لیکن یہاں بھی کارپوریٹ سیکٹر اور حکومت کے تال میل کے ذریعے چھوٹے پیمانے کی صنعت کا جان بوجھ کر گلا گھونٹا جا رہا ہے۔

دفعہ 39A ریاست سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مفت قانونی امداد فراہم کرے تاکہ معاشی یا دیگر معذوریوں سے قطع نظر تمام شہریوں کو انصاف کا حصول یقینی بنایا جا سکے ۔ ملک میں انصاف مہنگا سے مہنگا تر ہوتا جا رہا ہے جب کہ قانونی مشینری ایک بڑی صنعت بن رہی ہے۔ جرائم کم ہونے کے بجائے ہر دن نئی بلندیوں کو چھو دفعہ 39 تمام شہریوں کے لیے مناسب ذریعہ معاش فراہم کرنے، مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں کام کے لیے یکساں تنخواہ، مناسب کام کے حالات، دولت کے ارتکاز اور پیداوار کے ذرائع کو چند لوگوں کے ہاتھوں سے کم کرنے اور سماجی وسائل کی عام بھلائی کے لئے تقسیم پر زور دیتی ہے۔ یہاں بھی پچھلی چند دہائیوں میں حکومتی پالیسیاں بالکل برعکس رہی ہیں اور موجودہ بی جے پی حکومت نے کارپوریٹ ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں پچھلی حکومتوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم فوربز کی 100 امیر ترین ہندوستانیوں کی فہرست دیکھیں تو دولت صرف اونچی ذات کے ہندوؤں بالخصوص ویشیوں کے ہاتھ میں مرتکز پائی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ہندوتوا بریگیڈ نہ صرف اس پر بات نہیں کرتابلکہ ایسے اقدامات کی حمایت بھی کرتا رہتا ہے جو اس عدم مساوات کو مزید فروغ دیتے ہیں ۔

پچھلےکئی سالوں سے راقم سالانہ بجٹ میں اقتصادی تفاوت انڈیکس (شہریــ دیہی اور مختلف کمیونیٹیز کے درمیان) متعارف کرانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لیکن معاشی تفاوت اب بھی سیاست کے ساتھ ساتھ میڈیا میں سب سے کم زیر بحث ہے۔ دفعہ 41-43 ریاست کو حکم دیتی ہے کہ وہ تمام شہریوں کو کام کرنے کا حق، اجرت، سماجی تحفظ، زچگی کی امداد، اور ایک مہذب معیار کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے۔ ان دفعات کا مقصد ایک سوشلسٹ ریاست کا قیام ہے لیکن اس کے برخلاف ہم معیشت کی تیزی سے نجکاری کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ دفعہ 43 ریاست کو کاٹیج انڈسٹری، کھادی، ہینڈلوم وغیرہ کو فروغ دینے کی ذمہ داری بھی دیتی ہے۔ لیکن یہاں بھی کارپوریٹ سیکٹر اور حکومت کے تال میل کے ذریعے چھوٹے پیمانے کی صنعت کا جان بوجھ کر گلا گھونٹا جا رہا ہے۔

دفعہ 39A ریاست سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مفت قانونی امداد فراہم کرے تاکہ معاشی یا دیگر معذوری سے قطع نظر تمام شہریوں کو انصاف کے حصول کے مواقع کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے ۔ ملک میں انصاف مہنگا سے مہنگا ہوتا جا رہا ہے جب کہ قانونی مشینری ایک بڑی صنعت بن رہی ہے۔ جرائم کم ہونے کے بجائے ہر دن نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ۔

دفعہ 43A ریاست کو صنعتوں کے انتظام میں مزدوروں کی شرکت کو یقینی بنانے کا حکم دیتی ہے۔ بائیں بازو کی تحریک کے کمزور ہونے کے بعد اب ان کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔دفعہ 45 نے لازمی قرارد یا ہے کہ چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کی جائے۔ یہ شاید واحد رہنما اصول ہے جس پر توجہ مبذول کی گئی ہے۔دفعہ 47 ریاست کومعیار زندگی بلند کرنے ، صحت عامہ کو بہتر بنانے اور صحت کے لیے نقصان دہ نشہ آور مشروبات اور منشیات کے استعمال پر پابندی لگانے کا پابند بناتی ہے۔ اس کے برعکس شراب کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ شراب کے استعمال اور اس سے متعلق مسائل معاشرے میں تباہی پھیلا رہے ہیں جس سے عصمت دری، حادثات سمیت دیگر خطرات اور جرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔دفعہ 48 ریاست کو زراعت اور جانوروں کی افزائش کو جدید اور سائنسی خطوط پر منظم کرنے، جانوروں کی بہتر نسلوں کی افزائش اور مویشیوں کے ذبیحہ پر پابندی لگانے کا حکم دیتی ہے۔ اس حوالے سے بھی جو کچھ کام ہوا ہے اسےتسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔

دفعہ 48A ریاست کو ماحولیات کی حفاظت اور ملک کے جنگلات اور جانوروں کی زندگی کی حفاظت کا حکم دیتی ہے، جب کہ دفعہ 49 ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ قومی اہمیت کی یادگاروں اور اشیاء کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ لیکن دونوں محاذوں پر مکمل ناکامی ہے۔ بڑھتی ہوئی صنعت کاری اور شہری کاری کے ساتھ ماحولیات اور صحت عامہ سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنا نے کے لیے دفعہ 50 ریاست سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ عوامی خدمات میں عدلیہ اور انتظامیہ میں علیحدگی کو یقینی بنائےاور اس مقصد کے حصول کے لیے وفاقی قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ عدلیہ میں سیاسی مداخلت بڑھ رہی ہے۔ جب ریٹائرڈ ججوں کو گورنر بنایا جاتا ہے تو ججوں کے لیے یہ ایک بہت واضح پیغام ہوتا ہے کہ حکومت کے حق میں کام کریں گے تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا مستقبل شاندار ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یکساں سول کوڈ کی بات آتی ہے تو وزیر اعظم ’’ایک ملک، ایک قانون‘‘ کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن، جب سی اے اے کے بشمول دوسرے مسائل آتے ہیں تو قانون ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے مختلف ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہے تو اسے ہندوستانی شہریت اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ اس نے اپنے آبائی ملک ہندوستان کا انتخاب کیا ہے، جس پر ہندوستان کو فخر کرنا چاہئے تھا۔

باوجود اس کے کہ مسلم پرسنل لاء کو اسلامی خطوط اور روح سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے، مسلمان مسلم پرسنل لاء پر عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر سطح پر انفرادی ،خاندانی اور سماجی اسلام کو امن کا ضامن سمجھتے ہیں اور اسلام پر کامل یقین رکھتے ہیں ۔ ہم اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے کیوں کہ سمجھوتہ کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم یا تو دوسرے مذاہب کے پرانےاور مسخ شدہ نسخوں کو قبول کریں جن پر ان کے اپنے لوگ بھی عمل نہیں کر رہے ہیں یا ان جدید اصولوں کو قبول کرلیں جن کے پیش نظر اصلا تجارت ہےاور امن و امان و صحتعامہ بس ایک دکھاوا ہے- ہندو مذہب کی اصل شکل میں طلاق کا کوئی نظام نہیں تھا، کیونکہ اسلام کی طرح شادی کوئی معاہدہ نہیں بلکہ ایک اٹوٹ بندھن تھا جس میں والدین کی طرف سے لڑکی شوہر کو بطور عطیہ دی جاتی تھی۔ پرانے صحیفے انسان کی لاتعداد شادیوں کی اجازت دیتے ہیں ۔کرشن کی 8 رسمی بیویاں تھیں اور کئی ہزار دیگر بیویاں تھیں ۔

کچھ ہندو قبائل میں خواتین کے ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کا رواج بھی ہے ۔ کچھ ہندو اسکالرس جو آبادی میں مردو خواتین کے گھٹتے تناسب کو دیکھتے ہوئےآج بھی اس کے حامی ہیں اور اس مسئلہ کا اسے واحد حل سمجھتے ہیں ۔ روایتی مذہب میں ہندو خواتین کو بھی مساوی مذہبی حقوق حاصل نہیں تھے۔ ستی پرتھا کو پسندیدہ سمجھا جاتا تھا جو ایک عورت کو اپنے شوہر کی موت پر مثالی طور پر پیش کرنا تھا۔ مطلقہ کی دوبارہ شادی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ہندوؤں نے ان میں سے اکثر رواجوں پر سمجھوتہ کیا ہے اور اسلام سے سیکھ لیتے ہوئےانہوں نے مطلقہ مرد اور بیواؤں کی شادیوں کی اجازت دی ہے۔ عورتوں کے لیے وراثت کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ یہاں پھر انھوں نے اسلام سے سیکھ لی ہے۔ اسلا م پہلا مذہب ہے جس نے عورتوں کو والدین، بچوں اور شوہروں کی وراثت میں حق دیا۔

جہاں تک جدید نظاموں کا تعلق ہے تو وہ بالکل ناقابل قبول ہیں کیونکہ وہ عورت سمیت انسان کو انسان کے بجائے مال تجارت سمجھتے ہیں ۔یہاں جائز وناجائز کی تمام حدیں مادی مفادات کے گرد گھومتی ہیں ۔ مارکیٹ کے زیر کنٹرول فیمنزم نے ماضی کے کسی بھی نظام کے مقابلے میں ہر کسی کو خاص طور پر خواتین اور بچوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ رہے ہیں ۔

دفعہ 43A ریاست کو صنعتوں کے انتظام میں مزدوروں کی شرکت کو محفوظ بنانے کے لیے کام کرنے کا حکم دیتی ہے۔ بائیں بازو کی تحریک کے کمزور ہونے کے بعد اب ان کی کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہے۔دفعہ 45 نے لازمی قرارد یا ہے کہ چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کی جائے۔ یہ شاید واحد رہنما اصول ہے جس کی توجہ مبذول کی گئی ہے۔دفعہ 47 ریاست کومعیار زندگی بلند کرنے ، صحت عامہ کو بہتر بنانے اور صحت کے لیے نقصان دہ نشہ آور مشروبات اور منشیات کے استعمال پر پابندی لگانے کا پابند کرتی ہے۔ شراب کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ جہاں اس پرپابندی لگائی جاتی ہےوہاں مختلف لابیاں جلد ہی اسے ناکامی میں بدل دیتی ہیں ۔ شراب کے استعمال اور اس سے متعلق مسائل معاشرے میں تباہی پھیلا رہے ہیں جس سے عصمت دری، حادثات سمیت الکحل اور منشیات سے متعلق دیگر خطرات اور جرائم میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔دفعہ 48 کے تحت ریاست زراعت اور جانوروں کو جدید اور سائنسی خطوط پر منظم کرنے، جانوروں کی بہتر نسلوں کی افزائش اور مویشیوں کے ذبیحہ پر پابندی لگا کر کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بھی جو کچھ کام ہوا ہے اسےتسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔

دفعہ 48A ریاست کو ماحولیات کی حفاظت اور ملک کے جنگلات اور جنگل کی زندگی کی حفاظت کا حکم دیتی ہے، جب کہ دفعہ 49 ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ قومی اہمیت کی یادگاروں اور اشیاء کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ لیکن دونوں محاذوں پر تقریباً مکمل ناکامی ہوئی ہے۔ بڑھتی ہوئی صنعت کاری اور شہری کاری کے ساتھ ماحولیات اور صحت عامہ سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں ۔عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنا نے کے لیے دفعہ 50 ریاست سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ عوامی خدمات میں عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدگی کو یقینی بنائےاور اس مقصد کے حصول کے لیے وفاقی قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ عدلیہ میں سیاسی مداخلت بڑھ رہی ہے۔ جب ریٹائرڈ ججوں کو گورنر بنایا جاتا ہے تو ججوں کے لیے یہ ایک بہت واضح پیغام ہوتا ہے کہ حکومت کے حق میں کام کریں گے تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا مستقبل شاندار ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یکساں سول کوڈ کی بات آتی ہے تو وزیر اعظم ’’ایک ملک، ایک قانون‘‘ کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن، جب سی اے اے کے بشمول دوسرے مسائل آتے ہیں تو قانون ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے مختلف ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہے تو اسے ہندوستانی شہریت اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہےاس حقیقت کے باوجود کہ اس نے اپنے آبائی ملک پر ہندوستان کا انتخاب کیا ہے، جس پر ہندوستان کو اس سے نفرت کرنے کی بجائے فخر کرنا چاہئے۔

“بنیادی حقوق” پوری دنیا کے تمام آئین کا حصہ اور لازمی جز ہیں ۔ “بنیادی حقوق” سے مراد افراد کے اپنے متعلق معاملات میں حقوق ہیں ، جن کا اطلاق خاندانوں اور برادریوں پر ان معاملات میں ہوتا ہے جو دوسروں کو متاثر نہیں کرتے ہیں ۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ان پر اپنا قانون نافذ کرے۔ پرسنل لا ء خالصتاً مسلمانوں کا اندرونی معاملہ ہے، جس سے دوسری کمیونٹیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اگر اسلامی قوانین کی تشریح اور نفاذ کے طریقہ کار میں کوئی مسئلہ ہے تو ان کا حق ہے اور وہ اس پر آپس میں بحث کریں اور اسلام کے اصولوں کی روشنی میں اصلاحی اقدامات کریں ۔ یہی انفرادی ، خاندانی اور سماجی سطح پر سب سے زیادہ متوازن اور قابل عمل ہے ۔ اگر ان کے کچھ اندرونی مسائل ہیں تو انہیں حالات کا جائزہ لے کر صرف ایک مکتبہ فکر پر اصرارکرنے کے بجائے اسلام کے اندر مختلف مکاتب فکر کی آراء سے استفادہ کرنا چاہیے۔

باوجود اس کے کہ مسلم پرسنل لاء کو اسلامی خطوط اور روح سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے، مسلمان مسلم پرسنل لاء پر عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر سطح پر انفرادی ،خاندانی اور سماجی،اسلام ہی کو امن کا ضامن تصور کرتے ہیں اور اس پر کامل یقین رکھتے ہیں ۔ ہم اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے کیوں کہ سمجھوتہ کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم یا تو دوسرے مذاہب کے پرانےاور مسخ شدہ نسخوں کو قبول کرلیں ، جن پر ان کے اپنے لوگ بھی عمل نہیں کر رہے ہیں ۔ ہندو مذہب میں اصلا طلاق کا کوئی نظام نہیں تھا، کیونکہ اسلام کی طرح شادی کوئی معاہدہ نہیں بلکہ ایک اٹوٹ بندھن تھا جس میں والدین کی طرف سے لڑکی شوہر کو بطور عطیہ دی جاتی تھی۔ پرانے صحیفے بھی مرد کو لاتعداد شادیوں کی اجازت دیتے ہیں ۔کرشن کی 8 رسمی بیویاں تھیں اور کئی ہزار دیگر بیویاں تھیں ۔

کچھ ہندو قبائل میں خواتین کے ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کا رواج بھی ہے ۔ کچھ ہندو اسکالرس جو آبادی میں مردو خواتین کے گھٹتے تناسب کو دیکھتے ہوئےآج بھی اس کے حامی ہیں اور اس مسئلہ کا اسے واحد حل سمجھتے ہیں ۔ روایتی مذہب میں ہندو خواتین کو بھی مساوی مذہبی حقوق حاصل نہیں تھے۔ ستی پرتھا کو پسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ مطلقہ کی دوبارہ شادی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ہندوؤں نے ان میں سے اکثر رواجوں کو ختم کردیا ہے اور اسلام سے استفادہ کرتے ہوئے انہوں نے بھی مطلقہ مرد اور بیواؤں کی شادی کی اجازت دی ہے۔ عورتوں کے لیے وراثت کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ یہاں بھی انھوں نے اسلام سے ہی سیکھ لی ہے۔ اسلا م واحد مذہب ہے جس نے عورتوں کو والدین، بچوں اور شوہروں کی وراثت میں حق دیا۔

جہاں تک جدید نظاموں کا تعلق ہے تو وہ بالکل ناقابل قبول ہیں ، کیونکہ وہ عورت سمیت انسان کو انسان کے بجائے مال تجارت سمجھتے ہیں ۔یہاں جائز وناجائز کی تمام حدیں مادی مفادات کے گرد گھومتی ہیں ۔ مارکیٹ کے زیر کنٹرول فیمنزم نے ماضی کے کسی بھی نظام کے مقابلے میں ہر کسی کو خاص طور پر خواتین اور بچوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔