شیئر کیجیے

پرگیہ ٹھاکر کی ورن آشرمی بھاشا

انتظار نعیم

بھوپال کی ممبر پارلیامنٹ اور زبان دراز سادھوی پرگیا ٹھا کرنے سیہور، مدھیہ پردیش میں 13 دسمبر کو ایک چھتریہ سبھا میں اظہار خیال کرتے ہوئے حیرت انگیز طریقے پر بلا سبب ملک کی عظیم دلت آبادی پر نشتر زنی کر دی ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے دھرم شاستر وں میں چار’ورن‘ طے کیے گئے ہیں ۔ ان میں سب سے نچلی سطح کا ورن ’شودر‘ ہے۔لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ کسی شودر کو شودر کہہ دو تو اسے بہت برا لگتا ہے۔ظاہر ہے کہ اس کا سبب نا سمجھی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی ممبر پارلیامنٹ سادھوی کی یہ بات تو درست ہے کہ ورن آشرم، یعنی انسانوں اور انسانوں کے درمیان تفریق کرنے والے نظم کا اہتمام ان کے دھرم شاستر وں میں ہی کیا گیا ہے۔ جیسے:
’’ پرجاپتی( عوام کے مالک و بادشاہ نے انسانی معاشرہ کےروپ میں جس ’پُرش ‘کی تخلیق کی ہے اس کی توجیہ کتنی طرح سے ہوتی ہے ۔اور پرُش کا منہہ کیا ہے ؟ اس کے دونوں بازو کون ہیں؟ کون اس کی دونوں جانگھیں ہیں اور اس کے دونوں پاؤں کون ہیں؟
اس پر ش کا منہہ برہمن ہیں، بازو چھتریہ ہیں ،جانگھیں ویشیہ ہیں اور پاؤں شودر ہیں۔‘‘
رگ وید، منڈل : 10، سوکت : 90، منتر 12-11
یہی بات مختلف انداز سے دیگر تمام دھرم شاستر و ںمیں بھی کہی گئی ہے۔ اسی تعلیم کے مطابق رِگ وید کے زمانے سے آج تک بھارتیہ سماج میں شودروں کےساتھ سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔اس امتیازی سلوک کو ختم کرنے کے لیے آزاد ہندوستان کے ملکی دستور میں شودروں یعنی پسماندہ اور محروم دَلِت طبقات کوخصوصی مراعات دی گئیں۔ ان کو ریزرویشن کی سہولت فراہم کی گئی۔
سادھوی پرگیا جیسے لوگوں کو دستور ہند میں ملک کے عوام کو فراہم کی گئی دولت مساوات کے مقابلے میں اپنے دھرم شاستر وں کی تفریق زیادہ پسند ہے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے دلتوں کی اسی پانچ ہزار سالہ زبوں حالی کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا تھا:
آہ! شودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے
اسی درد ناک تاریخی حقیقت کی پردہ پوشی کے لئے بی جے پی کے ایک دوسرے ممبر پارلیامنٹ اور پارٹی کے ترجمان ڈاکٹر وجئے سونکر شاستری نے مجموعی طور پر 992 صفحات کی حامل اپنی تین ہندی کتابوں،’’ ہندو چرم کارجاتی‘‘، ’’ہندو والمیکی جاتی‘‘ اور’’ ہندو کھٹیک جاتی‘‘نے سادھوی پرگیا کے برعکس ان تینوں ہندوستانی ذاتوں کو ہندو قوم کا انتہائی فنکاری کے ساتھ حصہ بتایا ہے۔اس طرح پارٹی کا ووٹنگ پاور بڑھانے کے لیے یہ فرضی کہانی گھڑی ہے ہے کہ یہ تینوں ذاتیں ملک کی حکمراں ذاتیں رہی ہیں ۔یہ ذاتیں مظبوط ، بہادراور جنگ جو رہی ہیں اور غیر معمولی عزت وشرف اور وقار و خودداری کی حامل رہی ہیں۔ ان کو تو غیرملکی مسلمان حملہ آوروں نے ان کی موجودہ ذلتناک کیفیت سے دوچار کیا۔ راجیہ سبھا ممبرنے یہ الزامات بغیرثبوت اور دلیل کے عائد کیے ہیں۔
بی جے پی کے دونوں ممبران پارلیامنٹ میں سے ملک کی عظیم آبادی کو شودر بنانے کے سلسلےمیں کس کی بات حقیقت پر مبنی ہے؟یعنی اس آبادی کی درد ناک صورت حال پرگیہ کے قول کے مطابق دھرم شاستروںکی تعلیمات کے نتیجے میں پیدا ہوئی، جبکہ ڈاکٹر سونکر کے دعوے کے مطابق اس کے ذمہ دار مسلم حملہ آور ہیں ۔اس کا فیصلہ ایک ہی پارٹی کے یہ دونوں ممبر پارلیمنٹ باہم ملاقات کرکے کر سکتے ہیں۔
پرگیہ کے مطابق شو دردھرم شاستروں کی پیداوار ہیں اور دھرم شاستر وں کی تعلیم کے مطابق ہی گزشتہ پانچ ہزار سال تاریخ میں ان کو کبھی انسانی درجہ نہیں دیا گیا ۔ ان پر ہر طرح کی ناانصافی اورظلم و زیادتی کو روا رکھا گیا۔سادھوی پرگیہ کے سیہور کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کل کے شودر اور آج کے دَلِت اپنے خلاف ہو رہے مظالم اور عدم مساوات کے سلوک کوبر داشت کریں ،چپ رہیں، برا نہ مانیںاور اپنی دشا کے پری ورتن کے لیے کچھ نہ سوچیں؛ ’’بھٹکو تمام عمر کبھی راہ پر نہ آؤ‘‘
ورن آشرمی ذہنیت کی حامل پرگیہ ٹھاکر نے دلتوں پر قیامت گزر جانے کی صورت میں بھی انہیں برا نہ ماننے کی تلقین کی ہے۔انہوں نے ایسے موقع پر بھی یہ شکچھا دینا ضروری سمجھا جبکہ انہیں کی پارٹی بی جے پی کے شیو راج سنگھ چوہان کی ریاستی سرکار کی سرپرستی میں دلتوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی چند مہینے قبل مدھیہ پردیش کے کے گناضلع کے ایک دلت خاندان کو پولیس نے انتہائی بے رحمی اور سفاکی کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر لاٹھی ڈنڈوں اور لات گھونسوںکی برسات کردی۔دلت خاتون کو گھسیٹ گھسیٹ کر مارا پیٹا اور بےعزت کیا گیا۔یعنی منو اسمرتی کی تعلیم کو روبہ عمل لانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔
حالانکہ بعد میں گنا ضلع کے ایس پی اور کلکٹر کو معطل کر دیا گیا، لیکن کیا اس معطلی سے دلت خاندان کے ساتھ کئے گئے وحشیانہ سلوک کی تلافی ہو گئی؟ سوال یہ ہے کہ شیوراج سنگھ کی پولیس کا دلتوں کے ساتھ مسلسل یہ غیر دستوری اور غیر انسانی رویہ کیوں ہے ؟ کیا اسی مدھیہ پردیش سے منتخب ممبر پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر کو گنا میں دلت خاندان پر ہوئی پولیس کی سفاکی کا علم نہیں تھا؟ گر علم تھا تو کیا اس خاندان کو انصاف دلانے کے لئے یا اس دلت خاتون کی دل جوئی کے لئے پرگیہ ٹھاکر اس کے گاؤں اور اس کے گھر گئی تھیں؟ شاید نہیں ! ایک غریب دلت عورت پر ہوئے پولیس کے مظالم سے بھی سادھوی کا دل نہیںپسیجا تھا۔حالانکہ پرگیہ کے پاس 13 دسمبر کوسیہور کی چھتریہ کانفرنس میں اس کی تلافی کا ایک موقع تھا جب وہ وہاں پر خطاب کر رہی تھیں۔ وہ چھتریہ برادری کی قوت بازو کو للکارتے ہوئے کہہ سکتی تھیںسبھا سے ایک چھتریہ وفد اپنی روایتی بہادری کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ساتھ گنا چلے اور دیر سے ہی سہی ،دلت خاندان سے اظہار ہمدردی کرے اور انہیں انصاف دلانے کی ہر ممکن کوشش کرے، لیکن شاید سادھوی کے دل میں میں نرمی و گدازی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ انہوں نے اپنا انسانی اور عوامی نمائندگی کا فرض ادا کرنے کے بجائے دلتوں کو ایک اور زخم لگاتے ہوئے ان کی ناسمجھی کی تحقیق کرلی اور اور اس کا کا برسرعام اظہار بھی کر دیا۔
دل بہرحال نہ تھا تم سا ستم گر یارو
تم نے کس شہر پہ برسادیئے پتھر یارو

٭٭٭