شیئر کیجیے

’’لو جہاد‘‘ پر ہنگامہ اور’’پریم یُدھ‘‘ شباب پر

ظہیر الدین صدیقی

ملک کی فرقہ پرست تنظیموں کی جانب سے فرضی ’ لو جہاد‘ کی افواہوں پر طوفان مچا ہوا ہے۔ گودی میڈیا سے لے کر پرنٹ میڈیا تک اور ڈیجیٹل میڈیا میں فرقہ پرست عناصر کی طرف سے جوبے تُکے بیانات شائع ہورہے ہیں اُسے سن کر دیکھ کر اور پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کی ہونے والی شادیوں میں ہر دوسری تیسری شادی لو جہاد کا نتیجہ ہے، جب کہ معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہے۔ لوجہاد کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ خود حکومت نے ایوان میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ لو جہاد کا کوئی معاملہ رجسٹر نہیں ہوا ہے۔ ’لو‘ اور’ جہاد‘ دو متضاد چیزیں یکجا کیسے ہو سکتی ہیں؟ نہ اسلام اس طرح کی محبت اور شادی کی تعلیم دیتا ہے، اور نہ ہی شادی کے لیے اسلام قبول کرنے کو پسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں بین المذاہب شادی کا رجحان آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

لیکن اگر ہم رجسٹرار آف میریج کی ویب سائٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر ماہ سینکڑوں غیر مسلم لڑکے مسلم لڑکیوں سے شادی کے لیے درخواست دے رہے ہیں۔ صرف ممبئی کے رجسٹرار آفس میں ماہ نومبر دسمبر2020 کے دوران کم سے کم 25 ایسے معاملہ درج ہیں جہاں غیر مسلم افراد نے مسلم لڑکیوں سے شادی کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔ یہی حال دیگر بڑے شہروں (میٹرو سیٹیز) کا ہے، ان کا اگر اوسط نکالا جائے تو پتہ چلے گا کہ صرف مہاراشٹرا کے36 ؍ اضلاع کے رجسٹرار آف میریج دفاتر میں یہ تعداد سینکڑوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اس حساب سے اگر پورے ملک کا جائزہ لیا جائے تو یہ تعداد یقینا اتنی ضرور ہو جائے گی جس کا ہندو یوا واہنی نے اعلان کیا تھا کہ’ ’ہم ہر سال 2100 مسلم لڑکیوں کو ہندو بنائیں گے‘‘۔ ان کی تنظیموں نے تو ببانگ دہل یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ اگر کوئی ہندو نوجوان کسی مسلم لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اس کے رہنے سہنے کے انتظام کے علاوہ چھ ماہ کا راشن بھی مہیا کر وایا جائیگااور نقد رقم بھی دی جائے گی۔ شائد اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندو نوجوان مسلم لڑکیوں پر ڈورے ڈالنے اور انھیں اپنی محبت کے دام میں پھنسانے کے لیے با ضابطہ طریقہ سے کام کر رہے ہیں۔ ہر ماہ سینکڑوں لڑکیا ں اس فریب کا شکار ہو رہی ہیں۔

ہمارے پاس ایسا کوئی نظام یا ایسی کوئی تنظیم نہیں ہے جو مسلسل اس بات کا پتہ لگائے کہ کس رجسٹرار آفس میں کتنی درخواستیں داخل ہورہی ہیں اور نہ ہی اس کے کوئی سرکاری اعداد و شمار دستیاب ہوتے ہیں کہ ہر سال یا ہر ماہ کتنی مسلم لڑکیوں نے غیر مسلم مردوں سے شادی رچائی ہے۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اب تک کتنی مسلم لڑکیا ں ’’ پریم یُدھ‘‘ کی سازش کے تحت ارتداد کا شکار ہو کر اپنی عزت و عصمت گنوا بیٹھی ہیں۔ اس بات کی بھی کوئی جانکاری دستیاب نہیں ہے کہ شادی کے بعد ان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آتا ہے؟ آیا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ اگر زندہ ہیں تو کس حال میں ہیں؟اپنے شوہر کے ساتھ با عزت زندگی گزار رہی ہیں؟ یا کسی چکلہ خانہ کی زینت بن گئی ہیں؟ یا پھر شرم کے مارے بے کس، بے سہارا کہیں گمنامی کی زندگی گزار رہی ہیں؟اکثر دیکھنے میں تو یہی آیا ہے کہ چوں کہ گھر والوں سے اور سماج سے بغاوت کر کے شادی کی تھی اس لیے گھر واپسی کے تمام دروازے خودپر بند پاتی ہیں اور شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد یہ لڑکیاں ظلم و زیادتی کا شکار ہو کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے اور اپنی زندگی گزارنے کے لیے جسم بیچنے پر مجبورہو جاتی ہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ان شادیوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے ہی ’’لو جہاد‘‘ کی ایک فرضی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے اور ہر خاص و عام کو اس مسئلہ میں الجھا کر رکھ دیا گیا ہے، اور مسلسل اس پر بحث و مباحثہ اور بیان بازی کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان لڑکے غیر مسلم لڑکیوں کے ساتھ لو جہاد میں مصروف ہیں۔

اب تو اس کی گونج ریاستی حکومتوں کے ایوانوں میں بھی گونج رہی ہے۔ اتر پردیش، مدھیہ پردیش اورہریانہ کی حکومتیں اس پر قانون بنانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ملک میں پہلے ہی سے ایسے قانون موجود ہیں جس کے ذریعے جبراً کسی کا مذہب تبدیل کرنا یا کسی کا جنسی استحصال کرنا جرم قرار دیا گیا ہے اس لیے کسی نئے قانون کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس کے باوجود اگرحکومتیں اس پر قانون بنانا چاہتی ہیں تو ضرور بنائیں، مگر وہ قانون سب پر لاگو ہونا چاہیے، کسی بھی مخصوص طبقہ کو نشانہ بنایا نہ جائے۔ اس قانون کے ذریعے تمام بین المذاہب شادیوں پر پابندی لگا دی جانی چاہیے۔ تاکہ کوئی مسلم نوجوان ہندو لڑکی سے اور کوئی ہندو کسی مسلم لڑکی سے شادی نہ کر سکے۔ لیکن ان حکومتوں سے جن کی نیت صاف نہیں ہے ایسی امید نہیں کی جاسکتی۔ ایسا قانون بننے کی امید بھی کم ہی ہے کیوں کہ اس سے ’’پریم یُدھ‘‘ کا سازشی منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔ اس لیے ہمیں ہی مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ غیر مسلم لڑکیا ں اسی وقت مسلم لڑکوں کی طرف راغب ہو تی ہیں بلکہ خاص طور پر انہیں اپنی محبت کے جال میں پھنساتی ہیں جب انھیں یہ لگتا ہے کہ اس مسلم نوجوان کا کیرئر بہت روشن ہے۔ عام سے سیدھے سادھے مسلم لڑکوں کی غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کے واقعات شاذ و نادر ہی مشاہدہ میں آتے ہیں۔ فلم انڈسٹری سے لے کر کرکٹ کھلاڑیوں تک اور بیوروکریٹس سے لے کر وزراء اور سیاسی قائدین تک یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ غیر مسلم لڑکیوں نے ان ہی مسلم نوجوانوں کو ہدف بنایا جن کے پاس نام و نمود، عزت شہرت اور دولت کے انبار لگے ہوں یا اس کے امکانات ہوں۔ اس کی کئی مثالیں معاشرے میں موجود ہیں لیکن کسی غریب، ان پڑھ، جاہل، غیر معروف اور کم رتبہ والے مسلمان سے ہندو لڑکی کی شادی کی کوئی مثال پیش کرنا بہت مشکل ہے۔

مسلم لڑکوں کی غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کا تناسب پہلے تو بالکل نہ کے برابر ہے دوسرے یہ کہ اس میں وہ عناصر بھی کہیں نظر نہیں آتے کہ لڑکی بہت قابل، اور تابناک مستقبل کی مالک ہے۔ ان واقعات کے پیچھے عام طور پر معصوم محبت، قلبی لگاؤ اور ذہنی سکون حاصل کرنے کا ایک جذباتی فیصلہ ہوتا ہے، جو تمام دنیاوی فوائد سے مبرا ہوتا ہے۔ اگر ایسی شادیاں ہوتی بھی ہے تو مسلم لڑکے اس شادی کو ایک مقدس رشتہ سمجھ کے تا عمر نبھاتے ہیں، اس کے پیچھے ان کا مقصد لڑکی کا استحصال ہر گز بھی نہیں ہوتا۔ اس کے بر خلاف غیروں میں جو شادیاں ہو رہی ہیں اس کے پیچھے ایک مخصوص سوچ کام کر رہی ہے، وہی سوچ نوجوانوں کو ورغلا رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مسلم لڑکیوں کو تباہ و برباد کریں، ان کی عزت و ناموس سے کھیلیں اور پھر انھیں بے یار و مدد گار کسی چوراہے پر بے سہارا چھوڑ دیں۔ یہ ایک مکمل منصوبہ بند سازش ہے جس کا اظہار کئی ہندو تنظیمیں اور ان کے فرقہ پرست قائدین بار بار کرتے رہتے ہیں۔ اس گھناؤنی سازش سے توجہ ہٹانے کے لیے خود ہی لو جہاد کا نعرہ لگا رہے ہیں تاکہ مسلمان صرف اپنا دفاع کرتے رہیں اور وہ لوگ خاموشی سے اپنا کام کر گزریں۔ مسلمانوں میں کچھ لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جو اس بات پر بہت خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ایک غیر مسلم لڑکی کو دائرہ اسلام میں شامل کر لیا ہے جس کا بڑا اجر و ثواب ملے گا۔ لیکن ہم ان سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ایک غیر مسلم کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے کا اجر و ثواب زیادہ ہے یا پچیس مسلمان لڑکیوں کے ارتداد کا گناہ زیادہ سنگین ہے؟ اگر ایک کے بدلے پانچ مسلم بہنیں غیر مسلم لڑکوں سے شادی کر کے اپنا دین و ایمان، دنیا و آخرت خراب کر رہی ہیں تو اس کا ذمہ دار کون؟ کیا آخرت میں ہم سب اس کے لیے جواب دہ نہیں ہوں گے؟ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ یہ واقعات کیوں رونما ہو رہے ہیں؟ کیا آج تک ہماری طرف سے ’پریم یُدھ‘ کے خلاف کوئی آواز اٹھائی گئی؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ ہماری سینکڑوں تنظیمیں، جماعتیں، این جی اوز اس پر خاموش کیوں ہیں؟ سینکڑوں مسلم لڑکیوں کے ارتداد، مذہب بے زاری اور بے راہ روی کے لیے ذمہ دار کون ہیں؟ کیا اس کے لیے پورے مسلم معاشرے کو ذمہ دار نہیں ٹہرایا جانا چاہیے؟ کیاہمارے علما دین سے لے کر ہر گلی اور محلہ کے خود ساختہ قائدین ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا ہمارے نوجوان ذمہ دار نہیں ہیں جو ایسی حور اور پری کی تلاش میں رہتے ہیں جو خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ، بر سر روزگار اور اچھی حیثیت کی مالک ہو تانکہ اپنے ساتھ بہت سارا جہیزلا سکے، اور جوڑے گھوڑے کے نام پر موٹی رقم دینے کے قابل ہو؟ کیا شادی بیاہ کی بے جاء رسم و رواج، اور خود ساختہ پیمانے اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیا لڑکیوں کی بے جا آزادی اورمخلوط ماحول اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے؟ کیا دینی تعلیم سے دوری اور مادہ پرستی کی نفسیات اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے؟ صرف حصول دنیا کی فکر اور آخرت سے لا پروای اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہے؟ یہ نہایت ہی سنگین سوالات ہیں جن کا جواب معاشرے کے ہر فرد کو خود سے پوچھنا چاہیے، اور یہی سوال ان سے آخرت میں بھی پوچھا جائے گا۔ ہم کیا جواب دیں گے اس وقت؟

ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے، دنیا و آخرت کی بھلائی اسلام میں پوشیدہ ہے، تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ایمان والی لڑکیاں اپنے دین و ایمان کا سودا کر کے غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں؟ اپنی دنیا و آخرت کے ساتھ ساتھ اپنی عزت و ناموس سے بھی محروم ہو رہی ہیں؟ یقینا اس کے لیے کہیں نہ کہیں ہمارا معاشرہ ذمہ دار ہے۔ اصلاح معاشرہ کے علم بردار، جلسے اور جلوس منعقد کرنے والے، ممبر و محراب سے تقاریر کرنے والے، سیمینار اور سمپوزیم کرانے والے کہاں ہیں، کیوں اس طرف توجہ نہیں دیتے؟ معاشرے کی اس برائی کو ختم کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا منصوبہ ہے؟ کون سی تحریک چلائی جارہی ہے؟ اور اگر کچھ نہیں کیا جارہا ہے تو آخر کیوں؟ ہم میں غیروں کے سازشی منصوبہ کو ناکام بنانے کا نہ عزم ہے نہ حوصلہ ہے۔ لیکن ہم غیروں کی سازشوں کو مد نظر رکھ کر کچھ پیش بندیاں تو کر سکتے ہیں۔ ہماری اپنی بہن بیٹیاں تو ہمارے اختیار میں ہیں، ان کی صحیح تربیت کرنا ہم پر فرض ہے، ان کی صحیح دینی رہ نمائی کرنا اور ان میں آخرت کا خوف پیدا کرنا تو ہمارے بس میں ہیں، سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد اسلامی احکامات کے تحت ان کی شادی میں عجلت کرنا تو ہمارے اختیار میں ہے، ان کی روز مرہ کی مصروفیات پر نظر رکھنا اور کوئی خلاف معمول بات نظر آئے تو فوری اس کی باز پرس اور آئندہ کے لیے احتیاط تو ہم کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمارا سارا زور لڑکیوں کو تعلیم دلانے اور خود کفیل بنانے میں صرف ہو رہا ہے۔ ہم لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں ہیں مگر حدود کی پاسداری کے ساتھ، اور حدود کی پاسداری اسی وقت ممکن ہے جب بچپن سے ہی انھیں اس کاپابند بنایا جائے۔ ان کی تربیت ہی کچھ اس انداز میں کی جائے کہ جوانی کی دہلیز پر ان کے قدم لڑکھڑا نہ جائیں۔ حُب دنیا آخرت کے خوف پر غالب نہ آجائے، اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ نا محرم سے پردہ کرنے کو وہ اپنے آپ پر لازم کرلیں۔ آج بھی ہماری کئی مسلم بہنیں ایسی ہیں جنھوں نے با حجاب اور با حیاء رہتے ہوئے تعلیمی میدان اور دیگر شعبوں میں اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑے ہیں، لیکن کبھی اپنی عزت و ناموس اور خاندانی شرافت پر حرف نہیں آنے دیا۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ بچپن سے اُن کی تربیت ہی کچھ اس انداز میں کی گئی کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر ان کے جذبہ ایمانی پر کوئی اور جذبہ غالب نہ آئے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ تعلیم کی کمی کو اچھی تربیت بڑی خوب صورتی سے ڈھانپ لیتی ہے مگر تربیت کی کمی کے شگاف کو تعلیم کبھی بھی پُر نہیں کر سکتی‘‘۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی لڑکیوں کی بہتر تربیت کریں اور ان کے بہتر مستقبل کے لیے حتی المقدور کوشش کریں لیکن خوب سے خوب ترجوڑے کی تلاش میں اتنی تاخیر بھی نہ کی جائے کہ لڑکی اپنے لیے خود کوئی بر تلاش کرلے۔ والدین مناسب رشتہ دیکھ کر بعجلت لڑکی کی شادی کر نے کی کوشش کریں باقی معاملات کو اللہ پر چھوڑ دیں۔ اپنے بچوں کی تقدیر اپنے ہاتھوں لکھنے کی کوشش نہ کریں۔ ملّت کے نوجوانوں سے ہماری پرخلوص درخواست ہے کہ وہ اپنے ملّی فریضہ کوسمجھیں، شادی کے لیے غیر ضروری مطالبات نہ کریں اور آگے بڑھ کر غریب، مسکین نیک اور شریف لڑکیوں کا ہاتھ مانگ لیں اور سادگی سے نکاح کرکے مفلس اور بے کسوں کی دعاؤں سے اپنے دامن کو بھر لیں۔ اپنی شادیوں کو غیر مسلم رسم ورواج اور اصراف سے پاک کرکے، سچے مومن ہونے کا ثبوت دیں۔

علمائے کرام اور ائمہ مساجد و خطبا سے مودبانا گزارش ہے کہ وہ اس مسئلہ کو ایک مشن سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کریں، ہر خطاب اور ہر اجتماع میں صرف اور صرف اسی موضوع پر گفتگو کی جائے، لڑکیوں کی صحیح تربیت اور سادگی کے ساتھ عقد نکاح کی اہمیت اور افادیت پر مسلسل گفتگو ہوتی رہے تو ان شاء اللہ کچھ ہی عرصہ میں اس کے بہترین نتائج ظاہر ہونے لگیں گے۔ چند دہائیوں قبل علمائے کرام، قارئین نکاح اور قاضی حضرات نے ایک فیصلہ کیا تھا کہ جس شادی میں بینڈ باجہ اور بارات نکلے گی ہم اس کا نکاح نہیں پڑھائیں گے۔ ابتداً تھوڑی دقت ہوئی لیکن دھیرے دھیرے بینڈباجہ اور بارات کا چلن بالکل ختم سا ہوگیا۔ مہر کی رقم کے لیے گو کہ اس بات کی گنجائش ہے کہ مہر بعد میں بھی ادا کیاجاسکتا ہے لیکن علما کی جانب سے بار بار مہر کی اہمیت اور نقد ادائیگی کی طرف متوجہ کرنے کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج اکثر شادیوں میں مہر نقد ادا کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ذمہ داران اگر کسی چیز کا فیصلہ کرلیں تو اس کو نافذ کیا جاسکتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ خلوص دل سے اس کے لیے کوشش کی جائے۔