شیئر کیجیے

سی اے اے کا نفاذ اور اس کے مضمرات

سہیل انجم

ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا آر ایس ایس کا ایک صدی پرانا خواب ہے۔ اس کی سیاسی شاخ بی جے پی اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر رواں پارلیمانی انتخابات میں اسے ایک بار پھر کامیابی حاصل ہو گئی تو ہندوستان کے آئین کو بدل دیا جائے گا اور ہندوستان میں ہندو راشٹر کے نام پر آمریت قائم کر دی جائے گی۔ ایک ایسی آمریت جس میں صرف ہندوؤں کو ہی یہاں کا حقیقی شہری مانا جائے گا۔ اقلیتوں ، قبائلیوں ، دلتوں اور بالخصوص مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے گا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت مختلف قسم کے اقدامات کر رہی ہے۔ انہیں میں سے ایک قدم شہریت کے قانون میں ترمیم بھی ہے۔ مودی حکومت نے دسمبر 2019 میں اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود سی اے اے یعنی ’’سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ‘‘ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرا یا تھا۔ اس قانون کا مقصد تین ہمسایہ ملکوں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی ان اقلیتوں کو جو مذہب کے نام پر ستائے جانے کی وجہ سے ہندوستان آجائیں ، شہریت تفویض کرنا ہے۔ لیکن اس قانون میں ایک بہت بڑی خامی’’ مذہب کی بنیاد پر شہریت دینا ‘‘ ہے جو اسے غیر آئینی بناتی ہے۔ یعنی چھ اقلیتوں ہندوؤں ، سکھوں ، عیسائیوں ، پارسیوں ، جینیوں اور بدھشٹوں کو تو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمان اس کے حقدار نہیں ہوں گے۔ یعنی اگر ان ملکوں سے کوئی مسلمان ہندوستان آکر شہریت حاصل کرنے کی درخواست دیتا ہے تو اس قانون کے تحت اس کو شہریت نہیں مل سکتی۔ جب کہ ہندوستان کا آئین بلا لحاظ مذہب، ذات، نسل، علاقہ و زبان ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کی گارنٹی دیتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر شہریت تفویض کرنے کی مخالفت کرتا ہے۔

جب یہ قانون بنا تھا تو اس کی ہندوستان میں بھی دوسرے ملکوں میں بھی بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی تھی۔۔ متعدد ممالک نے اس قانون پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اسے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویہ برتنے والا قانون بتایا تھا۔ یہ قانون اس وقت سے لے کر اب تک جوں کا توں پڑا ہوا تھا۔ اس کے نفاذ کے لیے ضابطے تشکیل نہیں دیے جا رہے تھے۔ حکومت نے ضابطوں کی تشکیل کے لیے نو بار وقت مانگا تھا۔ لیکن جب پارلیمانی انتخابات کا وقت آگیا تو گیارہ مارچ کو اس کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق گجرات میں پاکستان سے آکر سکونت پذیر اٹھارہ ہندوؤں کو اس کے تحت شہریت دی جا چکی ہے۔ دراصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کے تحت مذکورہ ملکوں کے اقلیتی افراد کو شہریت دی جائے گی بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس کی آڑ میں مسلمانوں کی شہریت چھیننے کا انتظام کیا گیا ہے۔ سی اے اے کو این آر سی یعنی نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کی پیدائش ہی این آر سی کے بطن سے ہوئی ہے۔

آر ایس ایس اور بی جے پی کی جانب سے برسوں سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ آسام میں بنگلہ دیش سے مسلمان دراندازی کر رہے ہیں ۔ مودی حکومت میں یہ پروپیگنڈہ تیز ہو گیا۔ وزیر داخلہ امت شاہ بار بار یہ بیان دینے لگے کہ بنگلہ دیش سے گھس پیٹھ کرنے والے دراندازوں کو نکال باہر کیا جائے گا۔ وہ دیمک ہیں جو ہمارے ملک کو چاٹ رہے ہیں ۔ بی جے پی حکومت نے ان مسلمانوں کو جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ بنگلہ دیشی درانداز ہیں ، نکال باہر کرنے کے لیے این آر سی کی مہم شروع کی۔ اس کے تحت لوگوں سے ان کی شہریت طلب کی جانے لگی۔ لوگ پریشان ہو گئے۔ بہت سے لوگ تو واقعی بنگلہ دیش سے آئے تھے لیکن وہ درانداز نہیں تھے۔ بلکہ وہ روزی روٹی کی تلاش میں یہاں آئے تھے۔ ایسے لوگوں نے ہندوستان کے کاغذات بنوائے۔ انتظامیہ نے ان کے راشن کارڈ اور آدھار کارڈ وغیرہ بنوا کر دیے۔ لیکن انھیں نکال باہر کرنے کے لیے این آر سی کا سہارا لیا گیا۔ جب یہ مشق مکمل ہو گئی اور اس کی رپورٹ جاری ہوئی تو اس کے مطابق انیس لاکھ افراد غیر قانونی قرار دے دیے گئے۔ یعنی وہ اپنی شہریت ثابت ہی نہیں کر سکے یا مطلوبہ دستاویزات جمع نہیں کرا سکے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ ان میں سے 13لاکھ ہندو تھے اور صرف 6 لاکھ مسلمان تھے۔ حالانکہ مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہوتی اگر مقامی انتظامیہ نے ان کے کاغذات قبول کر لیتی۔ بہرحال اس رپورٹ نے صورت حال کو پلٹ دیا۔ کہاں حکومت مسلمانوں کو نکالنا چاہتی تھی اور کہاں ہندووں کی اکثریت اس کی زد میں آگئی۔

لہٰذا حکومت نے ان ہندووں کو شہریت دینے کا ایک چور دروازہ تلاش کیا اور شہریت کے قانون میں ترمیم کر دی۔ اس نے یہ چالاکی بلکہ بد دیانتی اس لئے کی کہ مسلمانوں کو شہریت حاصل کرنے کی سہولت سے محروم رکھنے کے لیے مذکورہ تینوں ملکوں کے اقلیتی افراد کو ہی اس زمرے میں رکھا۔ جب اس پر اعتراض کیا گیا تو امت شاہ نے یہ لولی لنگڑی دلیل دی کہ چونکہ ان ملکوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اس لیے ان کو شہریت نہیں دی جائے گی۔ دراصل اگر مسلمانوں کو بھی اس میں شامل کر دیا جاتا تو حکومت کا مقصد فوت ہو جاتا۔ اب حکومت جن بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو نکالنا چاہتی تھی ان کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ ابھی تو حکومت این آر سی کا نام نہیں لے رہی ہے۔ چونکہ انتخابات کا موقع ہے اس لیے اس نے اس معاملے پر پر اسرارخاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن ا س بات کا قوی اندیشہ ہے کہ انتخابات کے بعد اگر بی جے پی پھر سے برسراقتدار آئی تو وہ این آر سی لاگو کرے گی۔ امت شاہ بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ پورے ملک میں این آر سی بھی لاگو ہوگا اور این پی آر بھی۔ این پی آر یعنی شہریوں کا ایک رجسٹر بنایا جائے گا جس میں ان کے تمام کوائف درج ہوں گے۔ یہ مردم شماری جیسا ہوگا اور اس کے تحت بہت سے کاغذات کا مطالبہ کیا جائے گا۔ جو ان کاغذات کو پیش نہیں کر سکے گا، اسے غیر شہری قرار دے دیا جائے گا ،بالکل اسی طرح جیسے کہ این آر سی میں دستاویزات پیش نہ کر پانے کی وجہ سے غیر شہری بنا دیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ این آر سی ہو یا این پی آر یا پھر سی اے اے سب کے نشانے پر مسلمان ہی ہیں ۔ ان قوانین کا مقصد ہی مسلمانوں کی شہریت چھیننا ہے، ان سے ووٹ دینے کا حق واپس لے لینا اور دوسری سرکاری سہولتوں سے محروم کر دیناہے۔ لہٰذا انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کی صورت میں این آر سی اور این پی آر کو لاگو کر دیا جائے تو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ اس صورت میں ایک بار پھر پورے ملک میں ہاہاکار مچ جائے گا اور لوگ اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کاغذات کی تلاش شروع کر دیں گے۔

دراصل اس تمام مہم کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے۔ ان کودوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے۔ ان کو نہ تو حکومت میں کوئی حصے داری دی جائے اور نہ ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں ان کی کوئی شراکت ہو۔ جب ایسا ہو جائے گا تو ہندوستان کو ایک ہندو ملک بنانے کا راستہ ہموار ہو جائے گا اس لئے کہ کسی کے پاس اس کے خلاف قانونی و عملی قدم اٹھانے کا حق ہی نہیں رہے گا۔ اس خطرنک صورت حال سے صرف ہندوستان کے بیدار اور باشعور شہری ہی واقف نہیں ہیں بلکہ غیر ملکی حکومتیں بھی واقف ہیں ۔ اسی لیے عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کی جانب سے بھی اس کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ مسلم ملکوں نے تو اس کی مخالفت کی ہی ہے امریکہ اور دیگر مغربی ملک بھی سی اے اے کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں ۔ جب یہ قانون بنا تھا اس وقت بھی انھوں نے احتجاج کیا تھا اور اب جب کہ اسے نافذ کیا گیا اس وقت بھی احتجاج کیا ہے۔ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن نے بھی اس قانون کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر شہریت دے کر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس کے خلاف میدان میں اتر پڑی ہیں ۔ وہ اس قانون کو فاشزم کا قانون قرار دیتی ہیں ۔

انتخابات کے وقت اس کے نفاذ سے بہت سے سوالات کھڑے ہو رہے ہیں ۔ مبصرین کے خیال میں اس کے نفاذ کا مقصد اس سے انتخابی فائدہ حاصل کرنا ہے۔ بہت سے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت سمجھتی تھی کہ رام مندر کے افتتاح سے عوام میں ایک جوش پیدا ہو جائے گا جس کا الیکشن میں فائدہ اٹھایا جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ لہٰذا سی اے اے نافذ کر دیا گیا ہے تاکہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ واضح رہے کہ اس قانون کے بننے کے اگلے روز ہی اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔ سب سے پہلے انڈین یونین مسلم لیگ نے اسے چیلنج کیا۔ اس کے بعد متعدد سیاسی پارٹیوں ، ان کے رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اسے چیلنج کیا گیا۔ ایسی درخواستوں کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ عدالت نے ان سب کو ایک جگہ یکجا کر دیا ہے۔ اب اس کے نفاذ کو بھی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مذہب، ذات برادری، رنگ، نسل اور علاقے کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جا سکتا اور کسی کو مساوی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ جب 2019 میں یہ قانون بنا تھا تو اس کو سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ 14 کی بنیاد پر ہی چیلنج کیا گیا تھا۔ این آر سی کی دفعہ چھ اے بھی، جو کہ آسام میں غیر ملکیوں کو شہریت دینے سے متعلق ہے، چیلنج کیا گیا ہے جو چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والے بینچ کے سامنے ہے۔ اس کے فیصلے اور سی اے اے کو چیلنج کیے جانے والی درخواستوں پر ہونے والے فیصلے کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکے گا۔ وہ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوں گے۔ سپریم کورٹ میں صرف سی اے اے کا معاملہ ہی التوا میں نہیں ہے بلکہ این آر سی اور این پی آر کا معاملہ بھی زیر التوا ہے۔ بہرحال گزشتہ دنوں اس معاملے پر سپریم کورٹ نے سماعت کی لیکن اس نے سی اے اے کے نفاذ پر اسٹے دینے سے انکار کر دیا۔ البتہ اس نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے اور اب اس معاملے پر نو اپریل کو سماعت ہوگی۔ فی الحال اس کی امید کم ہے کہ عدالت کوئی اہم فیصلہ دے گی۔