الیکٹورل بانڈ-بدعنوانی کا نیا عنوان

قاسم سید
اپریل 2024

الیکٹورل بانڈ آزاد ہندستان کا اب تک کا سب سے بڑا گھوٹالہ اور جمہوریت کے چہرے پر سب سے بدنما داغ ہے ۔سپریم کورٹ کی مہربانی سے اس گٹر کا ڈھکن کھول دیا گیا ، لیکن جو تعفن باہر آیا ہے اس سے عام ہندستانی چکراگیا اور پہلی بار سیاسی پارٹیوں کی برہنہ بدعنوانی اور خاص طور سے حکمران پارٹی کے چہرے سے “بدعنوانی سے کوئی سمجھوتہ نہیں ” کا نقاب اتر گیا ۔

اسٹیٹ بینک کی ہر ممکن حیل وحجت کو درکنار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسے الٹا لٹکا دیا اور اس کے حلق سے وہ تمام راز اگلوا لئے جن پر پردہ ڈالنے کے لئے سرکار نے تمام جتن کر ڈالے تھے ۔ سرکار ،کارپوریٹ ،انڈسٹری کی کالی دنیا نیز سرکاری ایجنسیوں مثلا سی بی آئی ،ای ڈی اور انکم ٹیکس کا خوفناک گٹھ جوڑ طشت از بام ہوگیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پس پشت کیا گورکھ دھندہ چل رہا تھا اور پوری سرکار کس طرح ہفتہ وصولی کا گھناؤنا کھیل بنام “بھرشٹاچار مکت بھارت “چلارہی تھی۔ ملک کی دولت کا ارتکاز چند مٹھیوں کے حوالے سےبے دردی سے کیا جارہا تھا- ساری طاقت اور فیصلے ایک شخص کے ارد گرد سمٹ گئے تھے۔کارپوریٹ اور سرکار کے درمیان غیر تحریری رشتے عوام کی سیاسی و اقتصادی غلامی کی زنجیریں تیار کررہے ہیں ۔ 80کروڑ لوگوں کو پانچ کلو راشن کے عوض، مزاحمت ،جدوجہد اور اپنے حقوق سے سمجھوتہ، آرام طلب ،مفت خور اور بے غیرت و بے حس بنایا جارہا ہے تا کہ اس کی گردن کبھی اوپر نہ اٹھ سکے اور وہ کسی تحریک چلانے کے قابل نہ رہے ۔وہیں اپوزیشن کے خلافُ پرانے کیسوں میں کارروائی کرکےان کے لیڈران کو جیل میں ڈالا جارہا ہے ۔ ان کے اوپر دباؤ ہے کہ یا تو بی جے پی کے نام وفاداری کا پٹہ لکھ دو ورنہ جیل کی ہوا کھاؤ۔تمام آئینی اداروں کی گردن مروڑی جاچکی ہے جن کی نسیں کچھ سخت ہیں ان کا بھی “معقول انتظام”کیا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکار چاہتی کیا ہے؟ یہ پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے اور کیوں ؟ دوسرے کیا یہ کھیل اب رک جائے گا اور یہ کہ کیا ہمارا جمہوری نظام و آئین آخری سانسیں لے رہا ہے یا ابھی امید کی کچھ رمق باقی ہے ؟

کھیل کیا ہے

الیکٹورل بانڈ کے خلاف درخواست گزاروں کے وکیل پرشانت بھوشن نے اس معاملہ کو بڑی خوبصورتی سے سمجھاتے ہوئے دریا کو کوزے میں بند کردیاہے ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد انہوں نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آزاد ہندستان کا سب سے بڑا گھوٹالہ ہے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ اس کے ذریعہ چار زمروں میں بدعنوانی کی گئی ہے۔”پہلا چندہ دو اور دھندہ لو، دوسرا ہفتہ وصولی (بھتہ خوری) تیسرا رشوت دو ٹھیکہ لو، چوتھا فرضی کمپنیوں کے ذریعہ کالے دھن کی فراہمی”۔ جن کمپنیوں کی آمدنی کم تھی مگر انہوں نے کئی گنا چندہ دیااور بعض کمپنیوں کا توکہیں وجود تک نہیں ہے۔آگے اس کی روشنی میں پورے معاملہ کا جائزہ لیا جائے گا اور اس بات کا بھی کہ کیا اپوزیشن میں اتنا دم خم ہے کہ وہ اتنے بڑے ایشو کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرسکے۔عین الیکشن کے وقت یہ مسئلہ سامنے آیا ہے، جس سے بی جے پی کی چولیں تک ہل گئی ہیں ، تو کیا اپوزیشن مودی سرکار کے خلاف کوئی بیانیہ بنا سکے گی ۔بی جے پی لگاتار اس کے خلاف نئے نئے ایشوز اٹھارہی ہے،کبھی سی اے اے تو کبھی کسی بڑے لیڈر کی گرفتاری وغیرہ تاکہ وہ الیکٹورل بانڈ کو انتخابی ایشو نہ بنا سکے۔

سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے انڈین ایکسپریس میں لکھا تھا ’’یہ بہت اہم مسئلہ ہے (یہ بات یہاں یاد لانا ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن،اور آر بی آئی نے الیکٹورل بانڈ لانے کی مخالفت کی تھی مگر سرکار نے ایک نہ مانی بلکہ راستے کی رکاوٹیں ہٹانے کے لئے متعلقہ اداروں کا قانون تک بدل دیا) کیونکہ یہ سیاسی فنڈنگ سے جڑا معاملہ ہے۔‘‘ یہ مسئلہ ہماری جمہوریت کے کردار اور ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود سیاسی فنڈنگ میں شفافیت کی امید دم توڑ گئی ہے؟ ،دوسری طرف مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے حال ہی میں کہا ہے کہ سب کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرنا چاہئے،تاہم انتخابی بانڈ میں اصلاح کرکے اسے واپس لایا جانا چاہئے۔

سرکاراور ایجنسیوں کا گٹھ جوڑ

کھیل کی تمام پرتیں ہٹ چکی ہیں اپوزیشن اور تفتیشی صحافت نے سرکار اور ایجنسیوں کے گٹھ جوڑ کی کہانیاں واضح طور پربیان کردی ہیں ۔انڈین ایکسپریس کے مطابق RPGS کی Haldia Energy، DLF، فارما کمپنی Hetero Drugs، Welspun Group، Divis Laboratories اور Biocon کی کرن مجومدار شا نے بہت سارے بانڈز خریدے ہیں ۔لیکن یہ تمام خریداری مرکزی ایجنسیوں کی تحقیقات کے سائے میں کی گئی ہے۔مثال کے طور پر، سی بی آئی نے 2020 میں انتخابی بانڈز کی چوتھی سب سے بڑی خریدار ہلدیہ انرجی کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ درج کیا تھا۔ RPSG گروپ کی کمپنیوں ہلدیہ انرجی نے 2019 اور 2024 کے درمیان 377 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے۔مارچ 2020 میں ، سی بی آئی نے ہلدیہ انرجی اور اڈانی، ویدانتا، جندال اسٹیل، بی آئی ایل ٹی سمیت 24 کمپنیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ ان کمپنیوں پر مہانڈی کول فیلڈ لمیٹڈ کو 100 کروڑ روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔

سی بی آئی نے ڈی ایل ایف گروپ کی کمپنی نیو گڑگاؤں ہومز گروپ ڈیولپرز کے خلاف مقدمہ درج کیا ۔25 جنوری 2019 کو سی بی آئی نے کمپنی کے گروگرام آفس اور کئی مقامات پر چھاپے مارے۔ان اقدامات کے بعد DLF نے 9 اکتوبر 2019 سے انتخابی بانڈز کی خریداری شروع کر دی۔کمپنی نے کل 130 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے۔ایک بار پھر 25 نومبر 2023 کو ای ڈی نے گروگرام میں کمپنی کے دفاتر پر چھاپہ مارا۔ ای ڈی کی یہ کارروائی رئیل اسٹیٹ فرم سپرٹیک اور اس کے پروموٹرز کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں کی گئی تھی۔

فارما کمپنی Hetero Drugs بھی ان کمپنیوں میں شامل ہے جو سب سے زیادہ بانڈز خریدتی ہیں ۔ اس کمپنی نے اپنی ساتھی کمپنیوں Hetero Labs اور Hetero Biolabs کے ذریعے 60 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے۔یہ کمپنی 2021 سے محکمہ انکم ٹیکس کی نگرانی میں تھی۔اکتوبر 2021 میں محکمہ انکم ٹیکس نے کمپنی کے کئی دفاتر پر چھاپے مارے اور 140 کروڑ روپے سے زیادہ کی نقدی برآمد کی۔محکمہ نے دعویٰ کیا کہ اس نے کمپنی کی 550 کروڑ روپے کی آمدنی کا بھی پتہ لگایا جس کا حساب نہیں تھا۔اخبار لکھتا ہے کہ اسی طرح کی کارروائی ویلسپن، ڈیوس ڈیوس لیبارٹریز اور کرن مجومدار شا کی کمپنی بائیوکون کے خلاف بھی کی گئی۔

Divis Laboratories ملک میں سب سے بڑے API مینوفیکچررز میں سے ایک ہے۔اس کمپنی نے 2023 میں 55 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے۔ 14 سے 18 فروری تک کمپنی پر انکم ٹیکس کے چھاپے مارے گئے۔Biocon’s Shaw نے 6 کروڑ روپے کے انتخابی بانڈز خریدے ہیں ۔جون 2022 میں بایوکون کے بایولوجکس ایسوسی ایٹ کے نائب صدر ایل پروین کمار کو سی بی آئی نے رشوت ستانی کے معاملے میں گرفتار کیا تھا۔

اسی طرح ویلسپن گروپ نے اپنی بہت سی ایسوسی ایٹ کمپنیوں کے ساتھ 55 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے تھے۔کمپنی نے 2019 اور 2024 کے درمیان کئی قسطوں میں بانڈز خریدے۔ پہلی خریداری اپریل 2019 میں کی گئی تھی۔اس سے قبل جولائی 2017 میں محکمہ انکم ٹیکس نے گروپ کے کچھ مقامات پر چھاپے مارے تھے-

الیکشن کمیشن نے 14 مارچ کو انتخابی بانڈ کا ڈیٹا اپنی ویب سائٹ پر جاری کیا۔ اس کے مطابق بی جے پی الیکٹورل بانڈ کے ذریعہ سب سے زیادہ چندہ لینے والی پارٹی ہے۔ 12 اپریل 2019 سے 11 جنوری 2024 تک پارٹی کو زیادہ سے زیادہ 6060 کروڑ روپے ملے۔ پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ ای ڈی ،سی بی آئی اور محکمہ انکم ٹیکس کے چھاپوں کا سامنا کرنے والی 41کمپنیوں نے بی جے پی کو 2471کروڑ روپیوں کا چندہ دیا۔ان میں سے 1698کروڑ چھاپوں کے فوری بعد اور 121کروڑ چھاپوں کے تین ماہ میں دئے گئے ۔بی جے پی کو کل ملاکر 60ارب روپے کا چندہ ملا۔کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے ہفتہ وصولی،چندہ دو دھندہ لو کی کہانی کو یوں سمجھایا ہے ۔

“ میگھا انجینئرنگ اور انفرا نے 800 کروڑ روپے کا عطیہ دیا ہے۔ کمپنی نے اپریل 2023 میں 140 کروڑ روپے کا عطیہ دیاتھا ۔ ٹھیک ایک ماہ بعدکمپنی کو 14,400 کروڑ روپے کا تھانے۔بوریولی ٹوئن ٹنل پروجیکٹ ملا۔ جبکہ جندل اسٹیل اینڈ پاور نے 7 اکتوبر 2022 کو 22 کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔ صرف 3 دن بعد، 10 اکتوبر کو، گیئر پالما کول مائن کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔

بی جے پی کی ہفتہ وصولی کی حکمت عملی بہت آسان تھی۔ بی جے پی ED، CBI اور IT کے چھاپوں کے ذریعے ہفتہ وار چندہ اکٹھا کرتی تھی۔ سب سے اوپر 30 عطیہ دہندگان میں سے 14 کے خلاف چھاپے مارے گئے ہیں ۔ شرڈی سائی الیکٹریکلس پر دسمبر 2023 میں چھاپہ مارا گیا تھا۔ اس کے بعد جنوری 2024 میں کمپنی نے 40 کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔ فیوچر گیمنگ کمپنی میں بھی یہی رجحان دیکھا گیا ہے۔

کچھ کمپنیوں نے مرکزی حکومت سے پروجیکٹ ملنے کے فوراً بعد بی جے پی کو چندہ دے کر احسان لوٹا دیا ہے۔ ویدانتا گروپ کی طرح رادھیکاپور ویسٹ پرائیویٹ کو کوئلہ کان 3 مارچ 2021 کو ملی۔ کمپنی نے اگلے ہی مہینے بی جے پی کو 25 کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔

اس سے پہلے کسی بھی کمپنی کے منافع کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ( % 7)عطیہ کیا جا سکتا تھا۔ یہ پابندی الیکٹورل بانڈ اسکیم کے آنے کے بعد ہٹا دی گئی تھی۔ اس سے شیل کمپنیوں کے لیے کالا دھن عطیہ کرنے کا راستہ صاف ہوگیا۔ الیکشن کمیشن کی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ کوئیک سپلائی چین لمیٹڈ نے 410 کروڑ روپے کا عطیہ دیا، جب کہ اس کمپنی کا پورا شیئر کیپٹل صرف 130 کروڑ روپے ہے۔”

سرکار کی من مانی جاری رہی

ان انکشافات کے بعد بھی سرکار نے “ہمت “نہیں ہاری اور اپنا “کام”جاری رکھا۔ الیکٹورل بانڈ کے معاملے کی اکتوبر 2023 میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے سماعت شروع کی۔ یہ سماعت 31 اکتوبر کو شروع ہوئی اور یکم اور 2 نومبر تک جاری رہی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا- دلچسپ مگر چونکانے والی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد بھی حکومت نے نئے انتخابی بانڈز کی چھپائی کا کام جاری رکھا۔آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل کردہ معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ 8,350 انتخابی بانڈز کی آخری کھیپ سال 2024 میں پرنٹ کی گئی تھی اور دستیاب کرائی گئی تھی۔

یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم چلانے والے اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے کمیشن کے طور پر حکومت سے تقریباً 12 کروڑ روپے (جی ایس ٹی سمیت) کا مطالبہ کیا ہے، جس پر حکومت نے 8.57 کروڑ روپے ادا کیے ہیں ۔نیز حکومت کو انڈیا سیکورٹی پریس، ناسک میں بانڈز پرنٹ کرنے کے لیے 1.93 کروڑ روپے (بشمول جی ایس ٹی) کا بل موصول ہوا ہے، جس میں سے 1.90 کروڑ روپے ادا کر دیے گئے۔ خفیہ طور پر کروڑوں روپے دینے والے کسی شخص یا کمپنی سے کوئی سروس چارج نہیں لیا گیا۔اور اس اسکیم کو چلانے کے لیے، جسے بالآخر سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا، تقریباً 13.98 کروڑ روپے کا خرچ عوامی خزانے سے کیا گیا، یعنی ٹیکس دہندگان کےپیسے سے۔

پہلے ہی بہت سارے بانڈز موجود تھے۔ اس کے باوجود حکومت نے 8,350 کروڑ روپے کے نئے بانڈز چھاپے ۔حکومت کے وہم و گمان میں شاید یہ نہیں تھا کہ سپریم کورٹ اس سکیم کو غیر آئینی قرار دے کر ختم کر سکتی ہے۔ اس سے سرکار کی ڈھٹائی منمانی اور آئین و قانون سے خود کو بالا تر سمجھنے کی ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے – دراصل یہی وہ طرز عمل ہے جو جمہوریت کی روح کو کچل رہا ہے اور ملک آٹو کریسی کی طرف تیزی سے لڑھک رہا ہے ۔جہاں فرد واحد کی حکمرانی ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بی جے پی سرکار سے مودی سرکار اور اب مودی کی گارنٹی کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ پوری پارٹی اپاہج اور مفلوج بناکر رکھ دی گئی ہے صرف ایک شخص کا سکہ چلتا ہے۔ پارٹی کی چال ،چلن اور چرتر سب بدل گئے ہیں ۔

اب آخری سوال جو تفصیلی تجزیہ کا طالب ہے کہ آخر بی جے پی کو اتنے پیسے کی ضرورت کیوں ہےاور وہ کہاں خرچ ہورہا ہے ۔کیا یہ ملک ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی اڈانی اور امبانی کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا ہے ۔جہاں عام شہری کا حق پانچ کلو اناج تک محدود ہو گیا ہے ۔جہاں مظاہرے ممنوع اور غیر قانونی ہوں ۔ معمولی معمولی باتوں پر دفعہ 144لگاکر چار لوگوں کو جمع ہونے کی آزادی بھی سلب ہورہی ہے ۔مختارانصاری کے جنازے پر ڈی ایم کو یہی دلیل دیتے دیکھا گیا۔مخالفین یو اے پی اے اور پی ایم ایل اے قانون کے تحت جیلوں میں سڑائے جارہے ہیں اور ضمانت کا راستہ بند کردیا گیا ہے۔اور “عدالتیں بھی مجبور ہ ہوکر رہ گئی ہیں ۔

الیکٹورل بانڈ کا معاملہ واقعی ایک ایٹم بم سے کم نہیں ہے جو عام انتخابات کے وقت پھوٹا ہے،اس نے بھارت کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔سرکار نہیں چاہتی تھی کہ الیکشن کے دوران بھانڈا ٹھیک چوراہے پر پھوٹے مگر یہ ایسی سرکار ہے جس کوکسی چیز کی پرواہ نہیں ہے۔وہیں ای ڈی ،انکم ٹیکس محکمہ اور سی بی آئی کی تابڑ توڑ کارروائیوں سےہلکان،سہمی،بکھری، ٹوٹی اپوزیشن سے یہ توقع کرنا عبث ہے کہ وہ اس کارگر ہتھیار کو جارحانہ اور موثر انداز میں استعمال کرکے حزب اقتدار کودفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کرے گی ۔

ملک کی جمہوریت ہانپ رہی ہے۔ پیسے اور ایجنسیوں کے بل پر سرکاریں بنانے گرانے کا کھیل ہو یا ممبران کی خریدوفروخت ،ہر ضلع میں پارٹی کے شاندار دفاتر ہوں یا اپوزیشن کی صفوں میں بھگدڑ مچانے کا کھیل، ان سب کے لئے بے انتہا وسائل کی ضروت ہوتی ہے۔ بی جے پی بلاشبہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے بلکہ وسائل وقوت کے لحاظ سے بھی سب سے بڑی پارٹی ہے۔اس کی جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے کی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ جو ساتھ آنے سے انکار کرے اسے چھاپوں سے آدھ مرا کردو پھر بھی نہ مانے تو جیل میں سال دوسال کے لئے ڈال دو ۔ہیمنت سورین ،کیجریوال اس کی تازہ مثال ہیں ۔ اگر لالچ سے نہ مانے تو اسے ٹھونک دو ۔کارپوریٹ ملک کے وسائل جنگل ،دریا سمندر،اناج ،پانی سب پر کنٹرول کرتا جارہا ہے اس کے عوض چند سو کروڑ چندہ دیتا ہے اور پھر اسی سے ٹھیکے لے کرکئی گنا کماتا ہے۔یہ اس کے لئے گھاٹے کا سودا نہیں ہے مگر ملک اور عوام کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ ملک ایک اور غلامی کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہا اس بار حملہ آور بییرونی نہیں بلکہ اندر سے ہے۔ بھارتیوں نے ہمیشہ طاقت کی غلامی ہی نہیں پوجا بھی کی ہے ۔جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے وہ ایک داعی کی حیثیت سے تو اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہیں ہی انہوں نے ایک ذمہ دار شہری ہونے کا حق بھی ادا نہیں کیا ۔وہ صرف مطالبہ کرنے اور لینے والے بنے رہے مگر اپنا فرض ادا کرنے میں سنگین کوتاہی کے مرتکب ہیں ۔ وہ سول سوسائٹی میں موثر رول تو دور اس کا حصہ بھی نہیں بن سکے ۔اس کاخمیازہ وہ ہی نہیں پورا ملک بھگت رہا ہے ۔

سیاسی فینانس طویل عرصے سے ملک میں بدعنوانی کا ذریعہ رہا ہے۔ اوسط ہندوستانی کے لیے یہ کوئی بریکنگ نیوز نہیں ہے کہ سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کو ہوا دینے والے پیسے کا سایہ دار بہاؤ بڑی حد تک اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہندوستان میں بدعنوانی اب بھی لیگلائز کیوں ہے۔ چونکہ انتخابات کی لاگت بڑھ رہی ہے، سیاست دانوں اور ان کے ماتحت بیوروکریٹس نے آسانی سے نقد رقم کے بدلے اپنے اختیار میں ریگولیٹری اور پالیسی لیور کو مہارت سے جوڑ توڑ کرنے کے فن میں قدرت حاصل کر لی ہے۔ اور اگر کوئی خواہشمند امیدوار اعلیٰ عہدہ جیتنے کے لیے اتنا خوش قسمت ہے تو دوبارہ انتخاب کے لیے اپنے خزانے کو دوبارہ بنانے کی جستجو نئے سرے سے شروع ہو جاتی ہے۔ مہم کے اخراجات ایک سرمایہ کاری ہے – جو آپ کے دفتر میں ہونے کے بعد سود کے ساتھ واپس کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ حقائق سب کو معلوم ہیں ، لیکن سیاسی فنڈنگ کے تاریک دھارے عوام کی نظروں سے بڑی حد تک پوشیدہ ہیں ۔

بہر حال الیکٹورل بانڈ کا بھوت بی جے پی کے پیچھے تو پڑگیا مگر اس آگ کی آنچ کو اپوزیشن کتنا تیز کرسکتی ہے یہ بڑا سوال ہے۔ بی جے پی ہر طرح کے وسائل سے لیس ہے مگر صرف وسائل نہیں حوصلہ بھی کام کرتا ہے۔ ملک کو اس وقت ایک گاندھی اور جے پرکاش کی ضرورت ہے۔ زمیں تیار ہے، دانہ بھی پڑگیا ہے، کھاد پانی بھی موجود ہے،اس کھیت کو جو تنے والا درکار ہے ۔الیکٹورل بانڈ اپوزیشن کے لئے سنجیون ہے ۔عوام بڑی تبدیلی چاہتے ہیں ۔انڈیا شائننگ کی قلعی کھل گئی ہے اور وعدوں کا سحر سامری بھی ٹوٹ گیا ہے۔ بس عصائے موسیٰ کو حرکت میں لانے کی دیر ہے۔