رام دیو کے گمراہ کن دعوے- سپریم کورٹ کا انتباہ

ابوظفر عادل اعظمی
مئی 2024

ابوظفر عادل اعظمی

گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک یوگا سکھانے سے لے کر کورونا کی دوا بنانے کا دعویٰ کرنے اور اس سے قبل یوپی اے کی حکومت پر بدعنوانی کا الزام لگاکر سرخیاں بٹورنے والے بابا رام دیو ایک بار سرخیوں میں ہیں۔ پچھلے کئی ہفتوں سے لگاتار رام دیو اور ان کے کاروباری شریک بال کرشن پر سپریم کورٹ کا عتاب جاری ہے۔رام دیو کی حرکتوں کی وجہ سے سپریم کورٹ کا غصہ اتنا شدید ہے کہ تادم تحریر کئی تاریخوں پر کورٹ کی دو رکنی بنچ نے ان کی بلاشرط معافی کی درخواست کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔ سپریم کورٹ نے سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ رام دیو اور بال کرشن کی معافی کی درخواست محض زبانی جمع خرچ ہے اور انہوں نے پورے ملک کو دھوکا دیا ہے۔
معاملہ کیا ہے؟
فروری 2021 میں ملک میں کورونا کی دوسری لہر آنے سے ٹھیک پہلے رام دیو نے ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی کمپنی پتنجلی نے کورونل نامی ایک ایسی دوا ایجاد کی ہے جس سے کورونا کا علاج کیا جاسکتا ہے ۔ رام دیو کا یہ بھی دعویٰ تھا یہ کہ کورونا کی پہلی ثبوت پر مبنی دوا ہے۔ دوا کی افتتاحی پریس کانفرنس میں رام دیو کے ساتھ اس وقت کے مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن اور کابینی وزیر نتن گڈکری بھی شریک تھے۔ کورونل کے بارے میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس کو بنانے کا سرٹیفکٹ لیا گیا ہے اور اس کو عالمی ادارہ صحت ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے بھی تسلیم کیا ہے۔ حالاں کہ ڈبلیوایچ او نے اس بات کی تردید کی کہ اس نے اس طرح کی کسی بھی ددا کا جائزہ لیا ہے یا اس کی تصدیق کی ہے۔
اس کے چند مہینے بعد رام دیو کا ایک ویڈیو وائرل ہوا، جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ایلوپیتھی ایک “احمقانہ اور دیوالیہ سائنس” ہے جو “لاکھوں لوگوں کی موت کی ذمہ دار ہے”۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جدید دوا کورونا کا علاج نہیں کر پارہی ہے۔ڈاکٹروں بالخصوص ایلوپیتھی ڈاکٹروں کی طرف سے اس بیان پر کافی غصہ کا اظہار کیا گیا اور ڈاکٹروں کی کل ہند تنظیم آل انڈیا میڈیکل ایسو سی ایشن (آئی ایم اے) نے رام دیو کو قانونی نوٹس بھیج کر معافی مانگنے اور بیانات واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس نے ایک بیان میں مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن سے اپیل کی کہ وہ رام دیو کے خلاف وبائی امراض ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کریں۔ اس معاملہ پر کافی ہنگامہ ہونے کے بعد پتنجلی یوگ پیٹھ نے وضاحت کہ رام دیو صرف واٹس ایپ پر موصول ایک پیغام کے کچھ حصے پڑھ رہے تھے ، وہ جدید سائنس کے خلاف نہیں ہیں۔ آئی ایم اے نے کورونل کا وزیر صحت کی موجودگی میں افتتاح اور اس کے لئے ڈبلیو ایچ او کے سرٹیفیکیشن کے “مضحکہ خیز جھوٹ” پر بھی اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا اور اس پر وزیر صحت سے ملک کے سامنے وضاحت دینے کا بھی مطالبہ کیا۔
اگست 2022 میں آئی ایم اے نے پتنجلی کے خلاف سپریم کورٹ میں گمراہ کن اشتہارات شائع کرنے کے خلاف ایک عرضی دائر کی ۔ پتنجلی نے اخبارات میں
Misconceptions Spread By Allopathy: Save Yourself And The Country From The Misconceptions Spread By Pharma And Medical Industry
کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کرایا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایلوپیتھی بہت ساری بیماریوں جیسے ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، تھائیرائیڈ اور گٹھیا وغیرہ کا شافی علاج کرنے میں ناکام ہے جب کہ پتنجلی نے ایسی متعدد بیماریوں کا شافی علاج کیا ہے۔اشتہار میں لوگوں سے یہ بھی اپیل کی گی تھی کہ فارما اور میڈیکل انڈسٹری کے ذریعے پھیلائی گئی غلط فہمیوں سے اپنے آپ کو اور ملک کو بچائیں۔
آئی ایم اے نے اپنی عرضی میں جدید ادویات کے بارے میں رام دیو کے پہلے ریمارکس کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ “غلط معلومات کا مسلسل،منظم اور بلا روک ٹوک پھیلاؤ” پتنجلی کی مصنوعات کے استعمال کے ذریعے بعض بیماریوں کے علاج کے بارے میں جھوٹے اور بے بنیاد دعوے کے ساتھ جاری ہے۔آئی ایم اے کا کہنا تھا کہ منشیات اور دیگر جادوئی علاج کے خلاف قانون(The Drugs and Magic Remedies (Objectionable Advertisements) Act, 1954) اس طرح کے دعوؤں کے خلاف قد غن لگاتا ہے اور مذکورہ اشتہار گمراہ کن ہے، جس پر کاروائی ضروری ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ قانون کی رو سے گمراہ کن اشتہار شائع کرنے کی سزا چھ ماہ سے ایک سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ صارفین کے حقوق سے متعلق بھی قوانین ہیں جس میں اس طرح کے اشتہارات پر بھاری جرمانہ اور قید ہوسکتی ہے۔
21,نومبر 2023 کوجب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو کورٹ نے پتنجلی کو ان دعووں کے خلاف خبردار کیا کہ اس کی مصنوعات ذیا بیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کا مکمل علاج کر سکتی ہیں اور کہا کہ اس کے ہر ایک پروڈکٹ پر ایک ایک کروڑ کا جرمانہ لگایا جاسکتا ہے ۔پتنجلی کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ ساجن پوویہ نے سپریم کورٹ میں یہ یقین دہانی کرائی کہ کسی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ بالخصوص پتنجلی کے ذریعہ تیار کردہ اور مارکیٹنگ کی جانے والی مصنوعات کی تشہیر یا برانڈنگ سے متعلق۔ اور دواؤں کی افادیت کا دعوی کرنے والے یا کسی کے خلاف کوئی بیان میڈیا کو کسی بھی شکل میں جاری نہیں کیا جائے گا ۔سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ پتنجلی کے خلاف کسی اور کورٹ میں زیرسماعت کوئی مقدمہ جاری رہے گا اور اس پر کوئی امتناع عائد نہیں ہوگا۔
27,فروری کو اگلی سماعت میں آئی ایم اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پتنجلی کی طرف سے گزشتہ تاریخ کو عدالت میں جو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اس طرح کا نہ تو کوئی اشتہار شائع کیا جائے اور نہ ہی بیان دیا جائے گا، پر عمل نہیں کیا گیا اور اس یقین دہانی کے دوسرے ہی دن یعنی 22,نومبر کو رام دیو نے ایک پریس کانفرنس کی۔ وکیل نے عدالت کو پریس کانفرنس کی ویڈیو کا یو ٹیوب لنک اور اس کی خبر پر مشتمل اخبار کا تراشہ بھی فراہم کیا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کو نامعلوم فرد کی جانب سے ایک خط بھی موصول ہوا جس میں 21, نومبر کے عدالت کے حکم نامہ کے بعد اشتہار شائع کرنے اور پریس کانفرنس کرنے کا ثبوت فراہم کیا گیا تھا۔ عدالت نے اس خط کو بھی اپنی کاروائی میں شامل کیا اور کہا کہ پتنجلی نے عدالت میں اپنی یقین دہانی کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ سپریم کورٹ نے رام دیو اور بال کرشن کو نوٹس بھی جاری کردیا اور دو ہفتے میں جواب مانگا کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے۔
بال کرشن کے خلاف توہین عدالت کی نوٹس27, فروری کو جاری کی گئی۔ ان کے وکیل نے خود سپریم کورٹ سے اس کا جواب دینے کے لیے دو ہفتے کا وقت مانگا لیکن جب 19, مارچ کو معاملہ دوبارہ سماعت کے لیے آیا تو کورٹ کو بڑی حیرت ہوئی کہ اس وقت تک نوٹس کا کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے رام دیو کو بھی اسی طرح کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کو اور بال کرشن کو اگلی سماعت پر بذات خود عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ ان کے وکیل مکل روہتگی نے عدالت کو یقین دلایا کہ ان کی طرف سے جواب تیار ہے جو اسی دن عدالت میں جمع کردیا جائے گا۔
اگلی سماعت دو اپریل کو ہوئی جس میں رام دیو اور بال کرشن سپریم کورٹ میں پیش ہوئے لیکن پھر بھی رام دیو کی طرف سے عدالت میں نوٹس کا جواب جمع نہیں کرایا گیا تھا۔عدالت نے بال کرشن کی طرف سے جمع کئے گئے جواب کو ناکافی کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے وکلا ء نے کہا کہ تفصیلی جواب تیار ہے اور وہ شام تک جمع کرادیا جائے گا ۔ کورٹ نے ان کو ایک ہفتہ کا آخری موقع دیا۔ عدالت نے دونوں کو اگلی سماعت کے دوران پیش ہونے کا حکم دیا۔
اگلی سماعت 10 اپریل کو ہوئی۔ پتنجلی، رام دیو اور بال کرشن کے وکیل مکل روہتگی نے عدالت سے کہا کہ انہوں نے جواب جمع کردیا ہے اور 21 نومبر کو عدالت کے فیصلہ کی حکم عدولی کے لئے معافی مانگتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ شروع سے پورے معاملے کو دیکھنے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ اس معافی کی درخواست کو قبول نہیں کرسکتی۔ عدالت نے یہ بھی کہا جب رام دیو اور بال کرشن سے اس کے روبرو پیش ہونے کو کہا گیا تو اس میں بھی انہوں نے آنا کانی کی اور کہا کہ عدالت میں حاضر نہیں ہوسکتے کیوں کہ ان کو بیرون ملک کاسفر درپیش ہے۔عدالت نے کہا کہ ان لوگوں نے بیان حلفی اور عدالت میں حاضر نہ ہونے کی درخواست جمع کرائی ہے جس میں بیرون ملک سفر کا ٹکٹ بھی شامل ہے ۔ لیکن بیان حلفی پر 30 مارچ کی تاریخ درج ہے جب کہ ٹکٹ 31 مارچ کو جاری کیا گیا ہے۔عدالت کے بقول یہ دونوں لوگ عدالتی کاروائی سے فرار کے لیے ایسا کررہے تھے۔
بالآخر 22, اپریل کو پتنجلی نے اخبارات میں ایک چھوٹا سا معافی نامہ شائع کیا اور 23 اپریل کی سماعت میں عدالت کو اس کے بار ے میں جانکاری دی۔ جسٹس ہیما کولی نے رام دیو اور بال کرشن کے وکیل مکل روہتگی سے پوچھا کہ کیا اخبارات میں شائع معافی نامہ اتنا ہی بڑا ہے جتنا کہ اشتہار تھا؟ عدالت نے پورے معافی نامہ کو ریکارڈ پر نہ لانے پر ناراضگی کا بھی اظہار کیا ۔ مکل روہتگی نے جواب دیا کہ یہ معافی نامہ 67 اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں دسیوں لاکھ خرچ ہوئے ہیں۔ جسٹس ہیما کوہلی نے اسفتسار کیا کہ کیا اس پر اتنا ہی پیسہ خرچ کیا گیا ہے جتنا کہ اشتہار پر کیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا معافی نامہ کو اخبار سے نکال کر عدالت میں پیش کریں۔ عدالت اس کی سائز دیکھنا چاہتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ عدالت کو اسے خوردبین سے دیکھنا پڑے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معافی نامہ کی سائز کو فوٹو کاپی کے ذریعہ بڑا کرنے سے عدالت متاثر ہونے والی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کو غصہ کیوں آیا؟
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ 2022 میں آیا تھا لیکن اس کی باقاعدہ سماعت گزشتہ سال نومبر سے شروع ہوئی۔ لیکن رام دیو، بال کرشن ودیگر کا رویہ اول روز سے اچھا نہیں تھا۔ پہلے تو انہوں نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور لگاتار ایسی حرکتیں کی جو سپریم کورٹ کی برہمی کا سبب بنیں ۔ مثا ل کے طور پر عدالت کی نوٹس کا نہ تو بروقت جواب دیا گیااور نہ ہی عدالت سے مزید مہلت کی درخواست کی گئی۔ عدالت نے جب اپنا رخ سخت کیا اور دونوں کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا تو بہانہ بنایا کہ ان کو بیرون ملک کا سفر درپیش ہے اور عدالت میں آنے سے آنا کانی کی۔ جب کہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ نوٹس ملنے، بیان حلفی بنوانے کے بعد ٹکٹ خریدا گیا۔ عدالت نے یہ بھی نوٹس کیا کہ رام دیو اور بال کرشن نے معافی کورٹ کے پاس جمع کرانے سے پہلے میڈیا کو دی۔ یعنی وہ پبلسٹی پر زیادہ یقین رکھتے ہیں اور سنجیدہ نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ معافی صرف کاغذ پر ہے اور یہ صرف عدالتی کاروائی سے بچنے کے لئے مانگی جارہی ہے۔ ایک موقع پر کورٹ نے اتراکھنڈ کے لائسسنسگ اتھارٹی کے وکیل سے پوچھا کہ ان تمام گمنام لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے پتنجلی کی ان دوائیوں کا استعمال کیا ہے جو ایسی بیماریوں کے علاج کے لیے بیان کی گئی ہیں جن کا علاج نہیں کیا جا سکتا؟ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اتھارٹی اور پتنجلی کی ملی بھگت سے یہ سارا کھیل کھیلا گیا ہے۔
آئی ایم اے نے اپنی عرضی میں مرکزی وزارت آیوش اور وزارت صحت کے علاوہ ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈس کونسل آف انڈیااور سینٹرل کنزیومر پروٹیکشن اتھارٹی کو بھی فریق بنایا ہے۔ اس کے علاوہ چوں کہ پتنجلی کا صدر دفتر ہری دوار اتراکھنڈ میں واقع ہے اس لیے اتراکھنڈ کی ریاستی لائسنسنگ اتھارٹی بھی اس معاملے میں فریق ہے۔ سپریم کورٹ نے 21, نومبر کی سماعت میں مرکزی حکومت کے وکیل کو اس پورے معاملے میں حکومت نے عدالت کے حکم کو نافذ کرنے کے لئےکیا اقدامات کیے کو واضح کرنے کے لئے بیان حلفی جمع کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن 27فروری کو جب یہ معاملہ دوبارہ سماعت کے لئے آیا تو سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی طرف سے جمع بیان حلفی کو ناکافی قرار دیا اور اس بیان حلفی کو واپس لےکر دوبارہ ایک تفصیلی بیان حلفی جمع کرنے کا حکم دیا۔ لیکن 19, مارچ کو جب دوبارہ یہ معاملہ زیر سماعت آیا توسپریم کورٹ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے حلف نامہ ریکارڈ پر نہیں تھا کیوں کہ وہ ایک دن قبل شام کو ہی جمع کرایا گیا تھا۔ عدالت نے یہ ایک بار پھر مرکزی حکومت کو دو ہفتے کا وقت دیا اور کہا کہ حلف نامہ جمع کراکے سارے فریقین کو دیا جائے بصورت دیگر اگلی سماعت پر عدالت اس پر مناسب فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
اسی طرح دو اپریل کو عدالت نے اتراکھنڈ کی ریاستی لائسنسنگ اتھارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عدالت نے اتھارٹی کے کام کاج کے طریقہ پر متعدد سوال کھڑے کرتے ہوئے ایک ہفتہ کے اندر جواب مانگا۔ اگلی سماعت پر عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اتراکھنڈ کی ریاستی لائسنسنگ اتھارٹی نے گمراہ کن اشتہارات پر قدغن لگانے کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ صرف وہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتی رہی۔ عدالت نے کہا کہ 2018 میں ہی اتھارٹی کو گمراہ کن اشتہارات کے بارے میں اطلاع مل گئی تھی لیکن اس کے بعد اس کے اہلکار گہری نیند میں رہے۔ عدالت نے 2018 سے لے کر اب تک کے سارے افسران کو حلف نامہ جمع کرنے کی ہدایت دی جس میں پتنجلی کے ذریعہ گمراہ کن اشتہارات پر کاروائی کی تفصیل دینے کا حکم صادر کیا۔
واقعہ یہ ہے کہ ورزش اور علاج کی آڑ میں یہ کھیل تقریبا پچھلی دو دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کھیل میں حکومت،مختلف سیاسی پارٹیاں ، بیوروکریسی اور میڈیا سب شامل رہے ہیں۔ رام دیو نے یوگا کی وجہ سے کافی لوگوں کو اپنا ہم نوا بنایا ہے اور بی جے پی جیسی پارٹیوں نے سیاسی فوائد کے لئے ہمیشہ ان کی حمایت کی۔ رام دیو کی کمپنی سے بی جے پی کو کافی چندہ بھی ملتا رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر ان کی کمپنی کے پروڈکٹس جھوٹے دعوؤں کے ساتھ بکتے اور پھلتے پھولتے رہےاور قانون کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔ 2014 میں مرکز میں بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد یہ کاروباربنا کسی روک ٹوک کے گویا سرکاری سرپرستی میں آگے بڑھا۔حد تو اس وقت ہوگئی جب کورونل کی افتتاحی پریس کانفرنس میں اس وقت کے وزیر صحت ہرش وردھن، جو کہ خود ایک ڈاکٹر ہیں اور وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری بھی شریک رہے۔ گویا کورونل کو پوری طرح سے حکومتی سرپرستی حاصل رہی۔
میڈیا نے بھی اس کی خوب پذیرائی کی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پتنجلی کی طرف سے ان کو لاکھوں کا اشتہار ملتا تھا دوسرے میڈیا کا وہ طبقہ جس کے لئے گودی میڈیا کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، اس نے پتنجلی اور رام دیو کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اشتہار کے علاوہ میڈیا کے اس طبقہ نے کورونل کو دوا اور ویکسین کے طور پر متعارف کیا،جس پر حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا اور غالبا یہ ابھی سپریم کورٹ کی نوٹس میں نہیں آیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رام دیو کا غرور آسمان کو چھونے لگا اور انہوں نے دوسری پیتھیوں خاص طور پر ایلوپیتھ کے خلاف اناپ شناپ بکنا شروع کیا۔آئی ایم اے نے حکومت سے اس طرح کے پرو پیگنڈہ کو روکنے کی درخواست کی، لیکن حکومت کوئی ایکشن لینے میں ناکام رہی تب آئی ایم اے نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکٹایا۔ حالاں کہ یہ انتہائی سنجیدہ ایشو تھا کیوں کہ اس سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی صحت کا سوال جڑا ہوا تھا لیکن حکومت نے اس پر کوئی خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا۔ بہر حال پاپ کا گھڑا یک دن پھوٹنا تھا۔ سپریم کورٹ میں کاروائی جاری ہے۔ رام دیو اور بال کرشن کے علاوہ سپریم کورٹ نے سرکاری مشینری پر بھی سخت سوال کھڑے کیے ہیں ۔ امید ہے کہ کورٹ کے اس سخت رویہ کے بعد کروڑوں ہندوستانیوں کی صحت اور جان سے کھلواڑ رک جائے گا اور خاطیوں کو قرار واقعی سزا ملے گی۔