عتیق اور اشرف کاقتل

مشتاق عامر
مئی 2024

مشتاق عامر

ایسا لگتا ہے کہ یو پی میں مسلم سیاسی شخصیات کا منصوبہ بند طریقے سے خاتمہ کرنے کا تہیہ کر لیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ ایک برس پہلے الہ آبادمیں عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے پولیس حراست میں قتل سے شروع ہوا تھا جو کہ اب دن بہ دن درازتر ہوتا جا رہا ہے۔ پانچ بار ایم ایل اے اور ایک بار رکن پارلیمنٹ رہے عتیق احمد اور ان کے بھائی سابق ایم ایل اے خالد عظیم اشرف کو پولیس حراست میں سر عام قتل کر دینے کے واقعے کو ایک برس بیت گیا ہے۔ عتیق اور اشرف کو گولی مار کر قتل کردینے والے تین نوجوانوں کو پولیس نے موقع پر ہی گرفتار کر لیا تھا۔ ایک برس گذرنے کے بعد ابھی تک عدالتی جانچ کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی ہے اور نہ ہی عدالت کی طرف سے قاتلوں پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
گذشتہ سال 15 ؍ اپریل کورات ساڑھے آٹھ بجے الہ آباد کے گنجان علاقے میں واقع سرکاری کالون اسپتال کے باہر عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو اس وقت گولی مار کر قتل کر دیا گیا جب وہ سخت سکیورٹی کے درمیان میڈیکل چیک اپ کے لیے اسپتال لائے گئے تھے۔ تین نوجوانوں نے جو میڈیا پرسن کے بھیس میں تھے، عتیق احمد اور اشرف کو بالکل قریب سے گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔ جس وقت عتیق احمد اور اشرف کو گولی ماری گئی دونوں بھائیوں کے ہاتھ ایک ہی ہتھکڑی میں بندھے ہوئے تھے۔ پرہجوم سڑک کے کنارے دونوں بھائیوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ پولیس نے کسی مزاحمت کے بغیر ڈرامائی انداز میں تینوں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس نے سنی سنگھ عرف موہت، لولیش تواری اور ارون موریا کو ان کی آٹو میٹک پستول کے ساتھ گرفتار کر کیا تھا۔ سڑک کے کنارے ہونے والی اس بڑی واردات کو لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔
قتل کی وارادت نے پوری ریاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ قتل کے چند گھنٹے بعد ہی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے معاملے کی عدالتی جانچ کرانے کا اعلان کر دیا۔ 17؍ اپریل 2023 کو یوگی آدتیہ ناتھ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اروند کمار ترپاٹھی کی سر براہی میں تین رکنی جانچ کمیشن تشکیل دیا۔ اس جانچ کمیشن میں سابق ڈی جی ( انٹیلی جینس ) ایس کے سنگھ اور سابق ضلع جج برجیش کمار سونی کو بطور رکن نام زد کیا گیا۔ لیکن 7؍ مئی 2023 کو یوگی حکومت نے جانچ کمیشن میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی بی بھونسلے کو جانچ کمیشن کا سربراہ مقرر کیا۔ جھار کھنڈ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ویرندر سنگھ کو جانچ کمیشن کا رکن نامزد کیا گیا۔ اس طرح جانچ کمیشن کے ارکان کی تعداد بڑھ کر پانچ ہوگئی۔ جانچ کمیشن نے نو مہینے تک عتیق احمد اور اشرف قتل معاملے کی تحقیقات کی۔ کمیشن نے کئی بار جائے واردات کامعائنہ کیا اور قتل کے منظر کو’’ ری کری ایٹ‘‘ کیا۔ درجنوں عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کئے گئے۔ پولیس کی طرف سے جانچ کر رہی ایس ٹی ایف کی ٹیم سے بھی پوچھ گچھ کی۔ نو مہینے کی تفتیش کے بعد 18؍ جنوری 2023 کو عدالتی جانچ کمیشن نے اپنی رپورٹ یوگی حکومت کو سونپ دی۔ جانچ رپورٹ سونپے جانے کے تین ماہ بعد بھی یوگی حکومت نے اس رپورٹ کو جاری نہیں کیا ہے۔
عتیق احمد اور اشرف قتل کے تینوں ملزمان یو پی کے چترکوٹ جیل میں بند ہیں۔ تینوں ملزموں کے جرم کو عدالت میں ثابت کرنے کی ذمہ داری یوگی حکومت کی ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے اس معاملے میں کسی طرح کی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہاہے۔ اگرچہ اس معاملے میں ایس آئی ٹی نے تین مہینے کی اپنی جانچ کے بعد 13؍ جولائی 2023 کو 56؍ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ اور تقریباً دو ہزار صفحات پر مشتمل کیس ڈائری ضلع عدالت میں داخل کر دی ہے۔ تاہم یو پی حکومت کی طرف سے عدالت میں پیروی کی پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔ جانچ کمیشن کی رپورٹ کو ابھی تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں یوگی حکومت کی تمام تر توجہ جیل میں بند قتل کے ملزموں کو سکیورٹی فراہم کرنے پر ہے۔ عتیق اور اشرف کے قتل کا ماسٹر مائنڈ سمجھے جانے والے سنی سنگھ اور اس کے دو ساتھی لولیش تیواری اور ارون موریا کی جیل کو دو بار تبدیل کیا جا چکا ہے۔ پہلے ان تینوں کو الہ آباد کی نینی سینٹرل جیل میں سخت سکیورٹی کے درمیان رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد ان کو پرتاپ گڑھ جیل لے جایا گیا۔ لیکن یہاں ان کی سکیورٹی کو خطرہ بتاتے ہوئے چترکوٹ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ملزموں کو جسمانی طور سے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے ان کو جیل سے ویڈیوکانفرنسنگ کے ذریعے عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس پیشی کے دوران قتل کے تینوں ملزم آسانی سے ضلع عدالت سے لمبی تاریخیں لینے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ تینوں ملزموں نے ضلع عدالت سے درخواست کی ہے کہ قانونی مدد کے لیے ان کو وکیل فراہم کیا جائے۔ ملزموں نے عدالت سے وکیل مقرر کرنے اور سماعت کی تاریخ بڑھانے کی گزارش کی ہے۔ عدالت نے ان کی درخواست کومنظور کر لیا ہے۔ اب اس معاملے کی سماعت آئندہ 16؍اگست کو متوقع ہے۔
عتیق اور اشرف کو پولیس حراست میں سر عام قتل کرنے والے سنی سنگھ، لولیش تواری اور ارون موریا کو میڈٖیا میں جس طرح پیش کیا جا رہا ہے اس سے میڈیا کی بددیا نتی واضح ہو تی ہے۔ میڈیا نے تینوں ملزموں کو ہیرو کی طرح پیش کیا ہے۔ ملزموں کے بارے میں میڈیا میں اس انداز سے خبریں دکھائی اور چھاپی گئیں جس سے لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی پیدا ہو جائے۔ قتل کی واردات انجام دینے والے خاندان کے افراد کے بیان دکھا ئے جانے لگے۔ خبروں میں ان کی غریبی اور خاندانی شرافت کا پرچار کیا گیا۔ جب کہ قتل کو سرانجام دینے والے تینوں ملزموں کے مجرمانہ رکارڈ موجودہیں۔ تینوں کے خلاف کئی معاملوں میں مقدمات پہلے سے درج ہیں۔
عتیق احمد اور اشرف کے قتل سے پہلے یوگی آدتیہ ناتھ نے اسمبلی اجلاس میں مافیاؤں کو مٹی میں ملا دینے کا اعلان کیا تھا۔ سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان نے میڈیا کوگویا ایک ایجنڈا دے دیا۔ اس بیان کے بعد مافیا گیری کے نام پر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جانے لگا۔ 24 ؍فروری 2023 کو الہ آباد کے سلیم سرائے علاقے میں راجو پال قتل کیس کے اہم گواہ امیش پال کا سر عام قتل ہو جاتا ہے۔ اس قتل میں عتیق، اشرف سمیت عتیق کے تین بیٹوں عمر، علی اور اسد کو ملزم بنایا گیا۔ عتیق اور اشرف کے قتل سے دو دن پہلے یو پی ایس ٹی ایف نے جھانسی میں اسد کا انکاؤنٹر کر دیا۔ عتیق کا سب سے بڑا بیٹا عمر لکھنؤ جیل میں بند ہے۔ اس کے خلاف 3 مقدمات درج ہیں جب کہ علی پر 11؍مقدمات درج ہیں۔ علی نینی سینٹرل جیل میں بند ہے۔ اسد کے انکاؤنٹراور عتیق و اشرف کےسرعام قتل نے میڈیا میں ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس معاملے میں میڈیا کا نفرتی کردار ایک بار پھرکھل کر سامنے آگیا۔ ایک ہی ہتھکڑی میں بندھے ہوئے عتیق احمد اور اشرف کے قتل کو جب ٹی وی پر لائیو دکھایا گیا تو اسے پولیس حراست میں قتل نہیں بلکہ ایک مافیا کو مٹی میں ملانے کی یوگی حکومت کی حصولیابی کے طور پر دکھایاگیا۔
عدالت میں عتیق اور اشرف کے قاتلوں کو سزا دلانے میں حکومت کی عدم دلچسپی اور عدالتی کمیشن کی جانچ رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے سے یوگی حکومت کی منشا ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ عتیق احمد اور خالد عظیم اشرف پر درجنوں قسم کے سنگین مقدمات درج تھے۔ ان میں بعض مقدمات کی سماعت آخری مرحلے میں تھی۔ کچھ معاملوں میں ان کو سزا بھی سنائی جا چکی تھی۔ سزا سنائے جانے کے بعد تو عتیق احمد کا سیاسی کیرئیر تقریباًختم ہو چکا تھا۔ لیکن پولیس حراست میں ان کے قتل کو کسی بھی طرح درست نہیں قرار دیا جا سکتا۔ یہ صریح طور سے ماورائے عدالت قتل کا معاملہ ہے۔ ان کے قتل نے ایسے سوالوں کو جنم دے دیا ہے جس کا جواب لازماً دیا جانا چاہئے۔
عتیق احمد پہلی بار 1989 میں الہ آباد شہر کے مغربی حلقے سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ اس حلقے سے وہ لگاتار پانچ بار ایم ایل اے رہے۔ عتیق احمد نے زیادہ تر انتخابات آزاد امید وار کی حیثیت سے جیتے۔ 2004 میں عتیق احمد نے سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر پھولپور پارلیمانی حلقے سے لوک سبھا کی سیٹ سے اپنی جیت درج کرائی۔ لیکن 2007 میں الہ آباد میں بہوجن سماج پارٹی کے ایم ایل اے راجو پال کے قتل کے واقعے کے بعد عتیق احمد اور ان کے بھائی خالد عظیم اشرف کے سیاسی زوال کی شروعات ہوئی۔ راجو پال کے قتل کا الزام دونوں بھائیوں پر لگا۔ اس وقت یو پی میں مایا وتی کی حکومت نے عتیق احمد کو موسٹ وانٹیڈکریمنل قرار دیا۔ در اصل مایا وتی حکومت نے ہی سب سے پہلے عتیق احمد پر اپنا شکنجا کسا تھا۔ دہلی سے عتیق احمد کی گرفتاری ہوئی۔ اس بعد سے وہ زیادہ تر جیل میں ہی رہے۔ عتیق احمد کے جیل جانے کے بعد سماج وادی پارٹی نے بھی ان سے دور ی بنانی شروع کر دی۔ اکھلیش یادوکے پارٹی صدر بننے کے بعد تو عتیق احمد کو پوری طرح سے کنارے کر دیا گیا۔ عتیق احمد نے اپنا آخری الیکشن 2019 میں بنارس سے نریند مودی کے خلاف لڑا تھا۔ عتیق نے یہ الیکشن سابر متی جیل میں رہتے ہوئے لڑا تھا۔ اس ٔ میں ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عتیق کے چھوٹے بھائی اشرف سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ سے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ لیکن پولیس حراست میں ہونے والے دونوں بھائیوں کے قتل کو ایک ایسے مافیا کے قتل کے طور پر پیش کیا گیا جیسے اس کی سزا یہی تھی کہ ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ یہ ابھی تک نہیں پتہ چل پایا کہ عتیق احمد اور اشرف کے قتل کے وجہ کیا تھی اور اس کے پس پردہ کون سے عزائم کام کر رہے تھے۔ انتہائی سخت سکیورٹی کی موجودگی میں قاتل ان تک کیسے پہنچ گئے۔ پولیس نے قاتلوں کو ان کے قریب کیسے جانے دیا۔ جب عتیق اور اشرف کو الہ آباد لایا گیا تو میڈیا کو ان کے قریب پھٹکنے نہیں دیا جا رہا تھا۔ لیکن 15؍ اپریل کی رات کو اسپتال کے سامنے سڑک کنارے میڈیا کے مشکوک افراد کو بڑی آسانی سے ان کے قریب کیسے جانے دیا گیا۔ میڈیا پرسن کے بھیس میں آئے قاتلوں کو پولیس فورس کے سامنے اتنا موقع کیسے مل گیا کہ انہوں نے پستول نکال کر عتیق اور اشرف کو موقع پر ہی قتل کر دیا۔ اس دوران پولیس نے ان کو روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ جس ڈرامائی انداز سے پولیس نے ان کو قابو میں کیا وہ اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے۔ ایسے بہت سے سوال ہیں جن کا جواب ممکنہ طور سے عدالتی جانچ کمیشن کی رپورٹ سے مل سکتا ہے۔