شیئر کیجیے

اقوام متحدہ میں جنگ بندی قراردادپر امریکہ کی منظوری کیوں

سید خالد حسین، سنگاپور

متعدد کوششوں کے بعد بالآخر 25 مارچ 2024 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے صہیونی ریاست اسرائیل کے ہاتھوں غزہ پٹی میں تقریباً چھ ماہ سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لئے رمضان کے دوران جنگ بندی کی ایک قرارداد منظور کرلی۔ اس طویل عرصے میں سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی یہ چھٹی قرارداد تھی۔ پہلی چار قراردادیں امریکہ کے ویٹو کر دینے کی وجہ سے منظور نہیں ہو سکی تھیں اور پانچویں امریکہ کی پیش کی ہوئی قرارداد کو چین اور روس نے مسترد کر دیا تھا۔ تازہ ترین قرارداد بھی صرف اس وجہ سے منظور ہو پائی کہ امریکہ نے، جو کہ پندرہ ممبران پر مشتمل سلامتی کونسل میں پانچ میں سے ایک ویٹو پاور ہے، قرارداد پر ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ نے ایسا اس لئے کیا کہ غزہ میں اسرائیلیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے معاملے میں اس کی پالیسی ساری دنیا سے متضاد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہا امریکہ نے ووٹ دینے سے اجتناب اخلاقی وجوہات کی بنا پر نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حمایت جاری رکھنا اس کے لیے بہت مہنگا پڑ رہا ہے اور امریکہ کو خود اپنے شہریوں کی جانب سے سیاسی اور معاشی طور پر بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ امریکہ کے ووٹ دینےسے اجتناب کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ پورا عالمی جنوب (جس میں چین، ہندوستان، انڈونیشیا، برازیل، پاکستان، نائجیریا اور میکسیکو آتے ہیں )، پوری مسلم دنیا، BRICS کی قیادت، عرب اور مسلم حکمران اور بنیادی طور پر کرۂ ارض کی پوری آبادی غزہ میں امریکہ کی “اسرائیلی بریگیڈ” کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف متحد ہو چکی ہے۔ امریکہ کا یہ قدم امریکی صدر جو بائیڈن کی اسرائیلی قیادت، جو کہ قرارداد کے منظور ہونے کے باوجود غزہ میں اپنی بربریت اور درندگی جاری رکھے ہوئے ہے، کے ساتھ بڑے پیمانے پر بڑھتی ہوئی مایوسی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اس قرارداد کو منظور کرنے میں چھ ماہ لگنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ لیکن افسوس کہ امریکہ کو عالمی اتفاق رائے کو جزوی طور پر غالب کرنے کی اجازت دینے کے لئے 30ہزار سے زیادہ بے گناہ فلسطینیوں کی جان سے کھیلنا پڑا اور تقریباً ایک لاکھ افراد کو زخمی اور سولہ لاکھ افراد کو بے گھر کرنا پڑا۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکہ ووٹنگ سے باہر اس لئے نہیں ہوا کہ اس کو اس میں سے کسی بھی بات کی پرواہ تھی، بلکہ اس کو اپنے ووٹرکی پرواہ تھی جو دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اسرائیل، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک جنگ شروع بھی اپنے مفادات کے لئے کرتے ہیں اور ختم بھی اپنے مفادات کے لئے کرتے ہیں ۔ یہ ممالک اپنے مفاد کے لئے بنیادی انسانی اخلاقیات کو بھی قربان کرنے سے نہیں چوکتے۔

اسرائیلی کمپنیوں کے بائیکاٹ کا اثر

دراصل یہ دو باکسروں کے درمیان 12 راؤنڈ کی ایک لڑائی جیسا ہے۔ دونوں باکسروں کو پہلے یا دوسرے راؤنڈ میں لڑائی ختم کرنے کی امید ہوتی ہے، لیکن جب ایسا نہیں ہوتا ہے تو وہ آخری گھنٹی تک لڑتے رہتے ہیں ۔ ایک راؤنڈ کے بعد دوسرا راؤنڈ، ایک مکے کے بعد دوسرا مکا۔ اس طرح وہ ایک دوسرے کو زخمی کرتے رہتے ہیں ۔ امریکہ اسرائیل کی کارنر ٹیم کی حیثیت سے اپنے باکسر سے اب یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنے مخالف سے التجا کرے کہ وہ اسے ہار ماننے دے، نہ صرف اس لیے کہ وہ واضح طور پر جیت نہیں سکتا بلکہ اس لیے بھی کہ انھیں یہ بات پتہ چل چکی ہے کہ دنیا کے تمام “طاقتور لوگوں ” نے اس لڑائی پر شرط لگا دی ہے اور وہ شرط ان کے اپنے باکسر کے خلاف لگائی ہے۔ یہ طاقتور لوگ ہیں Owners and Controllers of Global Financialised Capital (OCGFC) (عالمی مالیاتی سرمائے کے مالکان اور کنٹرول کرنے والے) اور ان میں وال سٹریٹ، سٹی آف لندن اور بلیک راک وغیرہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت بڑے خودمختار دولت کے فنڈز والی حکومتیں شامل ہیں ۔ در اصل OCGFC نے اسرائیل کے خلاف اور مشرق وسطیٰ میں استحکام، امن اور خوشحالی کے حق میں شرط لگادی ہے۔

ہر مظاہرہ اور احتجاج کرنے والے نے، ہر اس شخص نے جو گزشتہ چھ ماہ سے صیہونیوں سے منسلک کمپنیوں کا بائیکاٹ کر رہا ہے اور ہر اس فرد نے جو سوشل میڈیا پر غزہ اور فلسطین کے حق میں مواد پوسٹ کر رہا ہے OCGFC کو باور کرا دیا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ عالمی معیشت کو نام نہاد ترقی پذیر دنیا، عالمی جنوب، مشرق اور جنوب میں کامیابی کے ساتھ منتقل کریں تو آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ صیہونیت کاروبار کے لیے اچھی چیز نہیں ہے، اور لاتعداد افراد نے سڑکوں پر آکر اور بڑی بڑی صیہونی کمپنیوں کا بائیکاٹ کر کے یہ متعدد بار ثابت کر دیا ہے۔ حقیقتاً امریکہ اسرائیل کے خلاف قرارداد سے اس لئے دور رہا کیونکہ ہم صیہونیوں کو اپنا پیسہ دینے سے دور رہے۔ ہمارے اس عمل نے OCGFC کو یقین دلا دیا کہ صیہونیت میں کوئی منافع بخش مستقبل نہیں ہے۔

نیتن یاہو کا مستقبل

اب آگے کیا ہوگا؟ مبصرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کے پاس اس جال سے نکلنے کا ایک موقع ہے جس میں اس کی سیاسی زندگی کی کچھ جھلک ابھی تک نظر آرہی ہے۔ اس جنگ میں ہار دیکھتے ہوئے وہ اپنے سخت گیر حلیفوں میں اپنی خفت چھپانے کے لئے یہ کہہ سکتا ہے کہ بین الاقوامی دباؤ بہت زیادہ ہے اور امریکہ کو الگ کرنا بہت نقصان دہ ہے اس لئے اس کے پاس نسل کشی کو ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اگر وہ یہ نسل کشی جاری رکھ سکتا ہے تو جاری رکھے گا، حالانکہ اس کے ہاتھ سے سب کچھ نکل چکا ہے۔ لیکن اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ امریکہ کی مخالفت جاری رکھے گا اور جنگ بندی کی قرارداد کو نظر انداز کردے گا۔ نتیجتاً امریکہ یا تو کچھ جوڑ توڑ کرے گا یا نیتن یاہو کی حکومت سے علیحدگی کے لیے مذاکرات کرے گا، جو وہ اس وقت سے کرنا چاہ رہا ہے جب سے اس کے منصوبوں کو عرب ممالک نے مسترد کیا ہے۔ عالمی مسلم معاملات کے سرکردہ سیاسی مبصر شاہد بولان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن ان دنوں “صرف تھپڑ کھانے کے لیے مشرق وسطیٰ جاتے ہیں “۔ عرب دنیا کی امریکی منصوبوں کو مسترد کرنے کی پالیسی کو BRICS، چین، روس اور OGCFC نے مزید تقویت بخش دی ہے۔ لہذا کسی نہ کسی طرح نیتن یاہو کو جانا ہی پڑے گا۔ آخری حربہ وہ یہ استعمال کر سکتا ہے کہ استغاثہ سے استثنیٰ کے لیے سودا کرنے کی کوشش کرے، اور شاید اس کے ذہن میں ابھی یہی بات ہے۔

غزہ میں امداد یرغمالیوں کا معاملہ

بائیڈن کے حکام نے اسرائیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کو مزید امداد کی اجازت دے، لیکن انہوں نے اب تک ان مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے اسرائیل کو دی جانے والی امداد پر شرائط عائد کرنے سے انکار کیا ہے۔ امریکی جہازوں کے ذریعے بحرہ روم میں اوپر سے گرانے والی امداد کو حاصل کرنے کی کوشش میں غزہ کے اٹھارہ لوگ ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ حماس نے امریکہ سے جہازوں سے امداد گرانے کو روکنے کی درخواست لیکن امریکہ نے کہا کہ وہ ہوائی امداد جاری رکھے گا۔ حماس نے اسرائیل سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید امدادی ٹرکوں کو جنگ زدہ علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دے۔

اگر رمضان جنگ بندی واقعتاً نافذ ہوتی ہے تو شاید یہ ایک پائیدار جنگ بندی کا باعث بن جائے۔ اگر کم از کم دو ہفتوں کے لیے قتل و غارت گری رک جاتی تو پھر اس بات کا زیادہ امکان ہوتا کہ جنگ بندی میں توسیع ہوجائے گی۔ لیکن اسرائیلی فوج نے قرارداد منظور ہونے کے باوجود غزہ پر اپنی بمباری کو جاری رکھتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ قرارداد کی منظوری نے جنگ جاری رکھنے کے اسرائیل کے عزم کو متزلزل نہیں کیا ہے۔

جنگ بندی قرارداد میں حماس کے زیر حراست تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ حماس اس پر عمل کرے یا نہ کرے، یہ ایک کلیدی عنصر بننے جا رہا ہے۔ لیکن بنیادی سوال یقیناً اسرائیل، بمعنی نیتن یاہو، کی طرف سے سلامتی کونسل کی قرارداد کی تعمیل ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ وہ اس وقت تک تعمیل نہیں کرے گا جب تک کہ اسے امریکہ سے اپنی ذات کے بارے میں کسی قسم کی گارنٹی نہ مل جائے کیونکہ وہ ایک “مکمل نفسیاتی مریض” ہے۔

شاہد بولان کا ماننا ہے کہ غزہ کے مسئلہ کو اقوام متحدہ سے باہر لے جانا پڑ سکتا اور اسے اسرائیل اور BRICS، خلیجی ریاستوں ، مصر اور چین وغیرہ کے درمیان کسی نہ کسی طرح کی بین الاقوامی امن کانفرنس میں کثیر الجہتی مذاکرات کے ذریعے حل کی جانے کی بات ہو سکتی ہے۔ چینی حکومت نے حال ہی میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ سے ملاقات کی ہے جو کہ ایک اہم قدم ہے۔ فی الحال اقوام متحدہ میں یہ فتح صیہونیوں کے لیےایک مضبوط دھچکا ہے اور ان شاءاللّٰہ یہ غزہ میں قتل عام کے خاتمے کے لئے ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔