شیئر کیجیے

پاکستان الیکشن: جمہوریت کا جنازہ ہےذرا۔ ۔ ۔

ابوظفر عادل اعظمی

پاکستان میں 8 فروری کے انتخابات کے بعد سیاسی صورت حال بہتر ہونے کے بجائے اور پیچیدہ ہوگئی ہے۔ دھونس، دھاندلی اور بدعنوانی کے متعدد الزامات کے درمیان پاکستانی عوام نے چار ریاستوں ؛ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ سمیت قومی اسمبلی کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ انتخابات میں واضح طور پر قومی اسمبلی سمیت ملک کی اکثر ریاستوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی (پی ٹی آئی) کی لہر تھی اور شروع کے نتائج میں زیادہ تر سیٹوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ہی آگے چل رہے تھے، لیکن ووٹ شماری جب آخری مرحلے میں داخل ہوئی تھی تو کئی مقامات پر دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کی جیت کا اعلان کردیا گیا۔ پی ٹی آئی کا یہ بھی کہنا ہے کہ فارم 45 جس میں ہر پولنگ بوتھ پر ہر امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کی تفصیل درج ہوتی ہےکے ریکارڈ سے بہت سارے مقامات پر پی ٹی آئی کے امیدوار جیت رہے ہیں، لیکن جب فارم 47 کا ریکارڈ چیک کیا گیا جو کہ فارم 45 پر درج ووٹوں کو ملا کر بنتا ہے تو کسی دوسرے امیدوار کو فاتح قراردے دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے علاوہ اس طرح کے الزامات دوسری پارٹیوں کے لیڈروں کی طرف سے بھی آئے ہیں۔

اگر پی ٹی آئی کے دعوے صحیح ہیں تو وہ قومی اسمبلی کی کل 336میں سے 180 سیٹوں پر جیت درج کراچکی ہے۔ جب کہ حکومت سازی کے لیے صرف 169سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو صرف93نشستوں پر فاتح قراردیا ہے۔ اسی طرح پنجاب، جو کہ پاکستان کا سب سے بڑاصوبہ ہے اور یہاں اسمبلی کی کل 371سیٹیں ہیں، میں مسلم لیگ نواز کو 138سیٹیں ملیں ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو صرف 116سیٹیں ملی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کا یہاں بھی دعویٰ ہے کہ اس کو 250 سیٹیں ملی ہیں لیکن دھاندلی کی وجہ سے وہ واضح اکثریت سے دور ہے۔ دوسری ریاستوں میں بھی اسی طرح کی الزام تراشیاں جاری ہے جب کہ تادم تحریر پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور سندھ میں پاکستان پیپلس پارٹی کی حکومت تشکیل پاچکی ہے۔

ان الزامات کو بعض سیاسی حلقوں نے یہ کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی کہ الیکشن میں جو گروپ ہار تا ہے وہ عام طور پر اس طرح کے الزامات عائد کرتا ہے۔ عام حالات میں یہ بات صحیح ہوسکتی ہےلیکن پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامہ میں یہ بات پوری طرح صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی مقامات پر فارم 45 موجود ہیں جواس بات کا ثبوت ہے کہ الیکشن کمیشن کے ذریعے فاتح قرار دیے گئے امیدوار صحیح نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ جماعت اسلامی پاکستان کے حافظ نعیم الرحمان کو سندھ اسمبلی کی کراچی سیٹ سے الیکشن کمیشن نے فاتح قراردیا تھا لیکن وہ خود میڈیا کے سامنے آئے اور کہا ان کو 26 ہزار ووٹ ملے ہیں، جب پی ٹی آئی کے امیدوار کو 31ہزار ووٹ ملے ہیں۔ لہذا عوام کے فیصلہ کا احترام کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے اپنی جیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

اسی طرح کچھ مقامات پر بیوروکریٹس نے خود آگے آکر اندر کی ملی بھگت اور سازش کا بھاندا پھوڑا ہے، جس میں راولپنڈی کے کمشنر لیاقت علی چٹھا کا نام سرفہرست ہے۔ انھوں نے ووٹ شماری کے چند دن بعد ہی ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ کس طرح مختلف ادارے بشمول چیف جسٹس آف پاکستان اس بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ ان اداروں نے ان الزامات سے انکار کیا اور چیف جسٹس نے یہ کہہ کر کہ صرف الزامات لگائے گئے ہیں، ثبوت فراہم نہیں کیے گئے، کمشنر راولپنڈی کے الزامات کو سرے سے خارج کردیا۔

ظاہر ہے کہ الزام تو کوئی بھی لگا سکتا لیکن ایک بڑے افسر کی طرف سے اتنے بڑے عہدے پر بیٹھے شخص کے خلاف اتنےسنگین نوعیت کا الزام لگانا کوئی عام بات نہیں ہےاور اس کو یوں ہی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ اور ایسے میں جب کہ مذکورہ کمشنر خود کوبھی مورد الزام ٹھہرارہا ہو اور اپنے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کررہا ہو۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس معاملہ کی اعلیٰ سطح پر تفتیش ہوتی جس میں سپریم کورٹ کے جج کے علاوہ کئی سینئر بیورو کریٹس اور سینئر سیاسی لیڈران شامل ہوتے، لیکن اس طرح کی کئی خبریں صرف میڈیا کی زینت بن کر رہ گئیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی عدلیہ، الیکشن کمیشن سمیت دیگر اداروں کا رول نہ صرف یہ کہ غیر تسلی بخش ہے بلکہ بڑی حد تک تشویش ناک بھی۔ اپریل 2022 میں جب سے عمران خان کی حکومت کو بے دخل کیا گیا ہے تب سے ان کے اوپر200 سے زائد مقدمات قائم کردئے گئے ہیں۔ ان کی پارٹی کے سینکڑوں کارکنا ن اور اعلیٰ عہدیداران کو بھی روزآنہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی طرف سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ عدالتوں کا رویہ بھی اس حوالے سے کافی افسوس ناک ہے۔ ان ہراسانیوں کے خلاف عدالتوں نے عام طور پر کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔ دوسرے، جس طرح کے الزامات لگاکر عمران خان اور ان کے دست راست شاہ محمودقریشی کو سزا دلوائی گئی ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک شرم ناک باب کے طور پر لکھا جائے گا۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکومت چاہے جس بھی پارٹی کی ہو، اصل راج پاکستانی فوج کا ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہےکہ عمران خان کو حکومت سے بے دخل کیے جانے کے بعد فوج نے سارے اداروں کو ان کے خلاف لاکھڑا کردیاہے۔ 3نومبر 2022 کو ان پر قاتلانہ حملہ ہواجس میں وہ زخمی ہوئے اور ان کی پارٹی کےمتعددلوگ ہلاک اورزخمی ہوئے۔ اس کے بعد ان کے خلاف مقدمات کا ایک محاذ کھول دیا گیا۔ پھر 9مئی کا ڈرامہ رچا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعات منصوبہ بند طور پر اس لیے واقع ہوئے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف جبر کو نہ صرف تقویت دی جائے بلکہ اس کے لیے اخلاقی اور قانونی جواز بھی پیدا کیا جاسکے۔

نچلی عدالتوں کا رویہ تو پہلے سے ہی ان کے خلاف معاندانہ تھا لیکن جب سے جسٹس فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے ہیں تب سے سپریم کورٹ کا رویہ بھی بدل گیا ہے۔ عام پاکستانیوں میں یہ احساس شدید ہورہا ہے کہ عدالت عظمیٰ بھی فوج کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے جب پی ٹی آئی کے داخلی انتخابات کا بہانہ بناکر الیکشن سے محض کچھ دن قبل اس سے اس کا انتخابی نشان چھین کر پارٹی کاشیرازہ بکھیر دیا اور بعد میں اس کی توثیق ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی کردی۔ حالاں کہ دنیا جانتی ہے کہ داخلی انتخابات کے حوالے سے اکثر پارٹیوں میں جمہوریت کا فقدان ہوتاہے۔ اکثر پارٹیوں پر صرف ایک خاندان کا قبضہ ہے اور داخلی پارٹی انتخابات صرف نام کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن صرف ایک پارٹی کو نشانہ بناکر الیکشن سے کچھ دن پہلےاسے انتخابی نشان سے محروم کردیناایک سوچی سمجھی اسکیم معلوم ہوتی ہے۔ انتخابی نشان چھیننے کا نتیجہ یہ ہوا کہ پارٹی عملی طو ر پر بکھر گئی اور اس کے سارے لیڈروں کو آزاد امیدوار کے طور پر الگ الگ انتخابی نشان پرالیکشن لڑنا پڑا۔ ایسے حالات میں جب الیکشن میں صرف چند دن باقی رہ گئے ہوں، پارٹی کے لیڈران پر طرح طرح کی بندشیں ہوں، سوشل میڈیا اور فون پر قد غن ہو، پی ٹی آئی سے وابستہ لیڈران کے جلسے جلوس پر طرح طرح کی رکاوٹیں اور پولیس ایکشن ہو، ایسے میں پورے ملک کے کروڑوں ووٹروں کو ان کے حلقہ میں یہ بتا نا کہ انھیں کس انتخابی نشا ن پر ووٹ دینا ہے، اپنے آپ میں ایک مشکل ترین کام تھا۔ لیکن چوں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی لہر تھی لہذا جہاں لیڈران عوام تک پہنچ کر اپنا پیغام پہنچا رہے تھے وہیں عوام نے خوڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے پسندیدہ امیدواروں کو ووٹ دیا اور ان کوجتانے کی کوشش کی۔

8 فروری کی رات سے جب نتائج سامنے آنا شروع ہوئے تو پاکستان کی اشرافیہ اور فوج کے تصور کےبر خلاف پی ٹی آئی واضح اکثریت سے جیت رہی تھی، لیکن انھیں عوام کا مینڈیٹ راس نہیں آیا۔ الیکشن ختم ہوجانے کے بعد بھی نام نہاد سیکورٹی کے نام پر فون اور انٹرنیٹ بند رکھا گیا اور پھر دھاندلی کے نت نئے ہتھکندے آزمائے گئے۔

آئین پاکستان کے مطابق قومی اسمبلی میں 60 سیٹیں خواتین کے لیے اور 10 سیٹیں مذہبی اقلیتوں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں۔ یہ سیٹیں الیکشن کے بعد سیاسی پارٹیوں میں ان کے ذریعے جیتی گئی سیٹوں کے تناسب سے تقسیم کردی جاتی ہیں۔ چوں کہ پی ٹی آئی کے لیڈران نے آزاد طور پر الیکشن لڑا اور جیتا ہے اس لیے ان کو نتیجہ آنے کے تین دن کے اندر کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا ضروری تھا۔ پی ٹی آئی کے اکثر جیتے ہوئے لیڈروں نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی لیکن اس کے بعد بھی ان کو مذکورہ ریزور سیٹیں نہیں دی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے اس کے لیے یہ جواز دیا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن سے قبل مخصوص سیٹیوں کی کوئی ترجیحی فہرست فراہم نہیں کی تھی اور اس نے اس سیٹوں پر اپنا دعویٰ نتائج آنے کے بعد کیا ہے۔ گرچہ مسلم لیگ نواز کو کسی بھی طرح واضح اکثریت حاصل نہیں ہے اور سارے ہتھکندوں کے باوجود بھی پی ٹی آئی سب سے بڑی پارٹی ہے لیکن دھونس اور دھاندلی کے درمیان شہباز شریف دوبارہ وزیر اعظم بن گئے اور آصف علی زرداری صدر پاکستان بن گئے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کو وزیر اعلی پنجاب بنادیا گیا۔ حا لاں کہ پنجاب اور قومی اسمبلی دونوں جگہ ووٹ شماری میں دھاندلی کی شکایات الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہیں۔ امریکی کانگریس کے 30 اراکین نے باقاعدہ خط لکھ کر امریکی صدر جو بائیڈن سے نئی حکومت تسلیم نہ کرنے اور ووٹ شماری میں دھاندلی کی تفتیش کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح بننے والی حکومت کسی بھی طرح عوامی جذبات کی ترجمان نہیں ہوگی۔ اس سے معاشی اور سیکورٹی صورت حال بہتر ہونے کے بجائے اور بدتر ہوجائےگی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ اور اسٹبلشمنٹ اس سے کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔