شیئر کیجیے

غزہ جنگ اسرائیل کے گلے کی ہڈی

قاسم سید

اسرائیل کی غزہ پر تھوپی گئی جنگ پانچویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے مگر اس دوران وہ اور زیادہ بے سمت، بے مقصد اور بے نشاں ہوتی جارہی ہے، اگرچہ عالمی طاقتوں کی اسے اب بھی پشت پناہی حاصل ہے، حالاں کہ اسرائیل کی نسل کشی پالیسی کی وجہ سے اس حمایت میں گہرے شگاف پڑگئے ہیں۔ اسرائیل نے اس جنگ کے اپنے جو اہداف دنیا کو بتائے تھے، وہ ان سے اب بھی کوسوں دور ہے، سوائے اس کے کہ اس نے اکتیس ہزار بے گناہ شہریوں کو اپنی وحشیانہ بمباری میں مار دیا ہے جن کی اکثریت بچوں اور خواتین پرمشتمل ہے، جب کہ ستر ہزارسے زائد شہری زخمی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل نے غزہ پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو پوری طرح مسمار کرکے رہائشی عمارتوں کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد اکیسویں صدی کے تنازعات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے 7 اکتوبر کو حماس کے آپریشن کے ردعمل میں جس جنگ کا آغاز کیا اور اہداف طے کیے تھے ان کے حصول کے لیے وہ اب بھی پرعزم ہے۔ جنگ کے آغاز کے بعد سے بارہا دہرائے گئے ایک بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے پھر کہا ’ہم حماس کو ختم کرنے، یرغمالیوں کو رہا کرنے اور اس وعدے کو پورا کرنے کے اپنے راستے پر گامزن ہیں کہ اسرائیل کو غزہ سے آئندہ کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ ‘ہم غزہ سے حماس کو مٹا دیں گے، اس کی قیادت کو ختم کردیں گے اور فلسطین سے اسے بے دخل کردیں گے۔ لیکن کیا اس راستے پر اسے کوئی پیش رفت حاصل ہوئی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اب اس بات کی بھی متوازی کوشش ہورہی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت میں ایک حکومت تشکیل دی جائے جس کا حماس حصہ نہ ہو۔ امریکہ، یورپ اور بعض عرب ممالک کی حمایت بھی اس غیر عملی منصوبہ کو حاصل ہے، مگر یہ بیل سر منڈھتے نظر نہیں آرہی ہے-لیکن کیا اسرائیل واقعی حماس کو ختم کر سکتا ہے یا اس نے اپنے لیے ایک ایسا ہدف مقرر کررکھا ہے جس کا حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ اس جنگ کو اپنے اوپر بوجھ کیوں سمجھ رہا ہے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ حماس یا فلسطین کی عالمی حمایت اور اسرائیل کی تنہائی میں مسلسل اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ بائیڈن اپنے صدارتی انتخاب پر اس کا کالا سایہ دیکھ رہے ہیں؟-یرغمالی مغربی دنیا کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں۔ دنیا کی طاقتیں جدید ٹیکنالوجی کے باوجود انھیں ڈھونڈنے میں کیوں ناکام ہیں۔ کیا اسرائیل کے لیے غزہ جنگ کی اس اندھی سرنگ سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی ہے؟

امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے جو منصوبہ سازی کی تھی سب کچھ اس کے برعکس ہوگیا ہے۔ غزہ کی جنگ اندھے کے سامنے ہاتھی کی شکل اختیار کرچکی ہے – اندھے کے لیے ناممکن ہے کہ وہ اس کے حجم، وسعت، سونڈ کی لمبائی کے بارے میں کچھ بھی حتمی طور سے بتا سکے – ہوا یہ ہے کے ختم نہ ہونے والی اس جنگ کا دائرہ پھیلتا ہی جارہا ہے- ایک طرف حزب اللہ نے ناک میں دم کردیا ہے تو دوسری طرف حوثیوں نے باب المنداب پر لگاتار حملے کرکے عالمی طاقتوں کی روح فنا کردی ہے-

غزہ کے باہر بشمول لبنان، شمالی اسرائیل، بحیرہ احمر اور عراق میں ہونے والی پریشان کن تبدیلیوں اور واقعات نے موجودہ صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے کیوں کہ ان علاقوں میں پیش آنے والے واقعات نے اُن کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے جن کی وجہ سے امریکا اب تک اس تنازع کو پھیلنے سے روکنے میں کام یاب رہا تھا۔ امریکی حکام کو تشویش ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو حماس کے حملے روکنے میں اپنی حکومت کی ناکامی پر تنقید کے بعد اب لبنان میں فوجی آپریشن کو اپنی سیاسی بقاء سمجھ رہے ہیں۔

چائنیز میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا جہاں ایک طرف سفارتی کوششیں کر رہا ہے، وہیں دوسری طرف وہ یمن، عراق اور شام میں فوجی کارروائیوں میں اضافہ کر رہا ہے جس سے امریکا کی منافقت سے بھری سوچ واضح ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلنکن کے متعدد دوروں کے باوجود مشرق وسطیٰ ریجن کے لیے کیے جانے والے اقدامات آگ بجھانے میں ناکام رہے ہیں – نتیجتاً مغربی ممالک کی جانب سے گذشتہ کئی دہائیوں سے اختیار کردہ فوجی مداخلت کی پالیسی کو ایک زبردست دھچکا لگا ہے۔ جسے مغربی ممالک کی بڑی ناکامی سمجھا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ یمن کی مسلح تحریک ’’انصار اللہ‘‘ (حوثیوں ) نے اسرائیل اور غزہ کے جاری تنازع میں خود کو ایک فعال فریق کے طور پر شامل کر لیا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں تجزیہ کیا گیا ہے کہ پہلے تو حوثی باغیوں نے اسرائیل کی جانب چھوٹے موٹے حملے کرکے بیلسٹک اور کروز میزائل فائر کرکے کارروائیوں میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن اب اس تنظیم نے بحر احمر میں اسرائیلی بحری جہازوں کی آمد و رفت کو بند کرنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ اسرائیل کے شہر ایلات کی بندرگاہ جانے والے بحری جہاز اور کشتیوں کے لیے یہ راستہ بند کر دیا گیا ہے۔ حوثی باغیوں کی جانب سے چند بحری جہازوں پر قبضہ کرنے اور دیگر پر ڈرون حملے کرنے کے بعد ایلات بندرگاہ پر سرگرمیاں 85؍ فیصد تک کم ہوگئی ہیں۔ امریکہ کی جوابی کارروائیاں حوثیوں کو نقصان پہنچانے میں ناکام ہیں۔

وہیں برطانیہ، فرانس اور لاطینی امریکی ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف غصہ عوام میں لگاتار بڑھتا جارہا ہے۔ اسرائیل کی عالمی حمایت میں کمی، فلسطین یا حماس کی حمایت میں اضافہ، اور سب سے بڑھ کر عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی طرف سے نسل کشی کے خلاف مقدمہ کو عالمی برادری کی تائیدواسرائیل کے خلاف عارضی فیصلے نے صہیونی طاقت کے پاؤں تلے سے مظلومیت کی قالین کھینچ دی ہے-

اب حماس مخالفیں کی ساری کوشش یہ لگتی ہے کہ رمضان سے قبل طویل جنگ بندی کے عوض یرغمالوں کو رہا کرالیا جائے ورنہ خوں ریزی بڑھنے کے اندیشے بڑھ جائیں گے -بظاہر بمباری کا کوئی فائدہ نہیں رہا کیوں کہ شہریوں کے ادھر سے ادھر ہوجانے اور بے گناہوں کی اموات میں اضافہ کے باوجود فلسطینی عوام کے اندر حماس کے خلاف بغاوت نہیں ہوئی وہ آج بھی چٹان کے مانند حماس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ حماس کے مالی سوتے بند کرنے کے بعد بھی عالمی سطح پر اسے تنہا نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کو قابل قبول بنانے اور اقتدار سونپنے کی کوششوں کو کسی قسم کی پذیرائی مل رہی ہے-

وجہ بہت صاف ہے۔ حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف شروع کی گئی مسلح تحریک کا مقصد اس کے مطابق اسرائیلی قبضے کو ختم کرنا اور ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ مغرب میں بہت سے لوگ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں -حالاں کہ اس جنگ میں میڈیا کے بڑے حصہ نے غزہ جنگ کے دوران اسے دہشت گرد لکھنے سے گریز کیا ہے- عرب دنیا کا ایک حصہ بھی اسے دہشت گرد نہیں بلکہ مزاحمتی تحریک مانتا ہے۔ لیکن دوسری اسلامی تحریکوں کے برعکس جنھیں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے ’حماس کا (سیاسی) ایجنڈا صرف فلسطین تک محدود ہے۔ اس کے پاس دنیا یا دیگر ممالک میں مذہب اور اسلام کو فروغ دینے کے لیے کوئی عالمی بیانیہ نہیں ہے اور نہ وہ اسلامی انقلاب کو اسمگل کرنے پر یقین رکھتی ہے اس کا دائرہ عمل صرف ارض فلسطین تک محدود ہے۔

دوسرے اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کو چھپا کر نہیں رکھتا۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ایسا کرنا اس کے لیے بے حدمشکل ہے۔ حماس صرف ایک فوجی تنظیم نہیں ہے، اور نہ ہی محض ایک سیاسی تحریک ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے اور اس نظریے کا خاتمہ مشکل ہے، خاص طور پر اسرائیلی ہتھیاروں کے زور سے۔ ‘ گویا اسرائیل نہ تو اول ہدف یعنی یرغمالوں کو بندوق کی نوک پر رہا کراسکا اور دوسرا ہدف یعنی حماس کا خاتمہ اور اسے صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی اس کی خواہش ہی پوری نہ ہوسکی- چند ہزار لڑاکوں کا مارا جانا جنگ کا حصہ تو ہوسکتا ہے لیکن اسے خاتمہ نہیں کہہ سکتے – وہیں اسرائیل کو بھی سخت جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہےاور اس کی جی ڈی پی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے-

اسرائیل کے اتحادیوں کے ساتھ بعض عرب ممالک کی بھی یہ خواہش تھی کہ اگر حماس ختم نہ ہو سکے تو کم ازکم اتنی کم زور تو ضرور ہوجائے کہ وہ فیصلہ کن پوزیشن میں نہ رہ سکے۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ اسے اقتدار کے سوا کوئی اور خواہش نہیں ہے، نہ مضبوط لیڈرشپ ہے اور نہ پختہ نظریہ اور نہ ہی نہ عوامی حمایت اسے حاصل ہے۔ نہ عالمی سطح پر اسے کوئی پشت پناہی حا صل ہے اور نہ ان میں کوئی قربانی کا جذبہ ہے، عوامی تحریک چلانے کی اہلیت و ہمت سے بھی وہ محروم ہیں۔ اب قطر سمیت حماس کے دوست ملک بھی چاہیں گے کہ فلسطینی قیادت فلسطین سے دستبردار ہوکر کہیں عیش کے ساتھ سیاسی جلاوطنی قبول کرلے۔ القسام بریگیڈیئر کے یحییٰ السنوار کو کسی پسندیدہ ملک جانے پر آمادہ کرلیا جائے اور عالمی طاقتیں وہاں ایک کٹھ پتلی سرکار قائم کرسکیں اور پھر سعودی حکومت سمیت دیگر باقی رہ گئے ملکوں کو بھی ابراہیمی معاہدے میں شامل کرلیا جائے یا فلسطین میں ایک بفر زون قائم کردیا جائےتاہم غزہ کے شہریوں کے عزم و استقلال کے سامنے اب ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ اسی طرح حماس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک مستحکم، سخت جان، جنگی اعتبار سے پوری طرح لیس اور ایک مستقل مزاج قوت کا نام ہے- اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے- اس کے مکمل خاتمہ، اس کی سیاسی وجنگی قیادت کو قتل کرنے کا منصوبہ صرف اسرائیل ہی نے نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے وفادار حلیفوں نے بھی عیاں کردیا تھا مگر ناکام رہے۔ یہی جھلاہٹ کبھی امریکہ کو لبنان اور کبھی شام لے جاتی ہے۔ حوثیوں اور حزب اللہ نے ابھی جنگ کی کھڑکیاں کھولی ہیں اگر محاذ جنگ کھل گیا تو اسرائیلی اتحادی بمباری اور ڈرونز کے سوا کچھ نہیں کرسکیں گے۔ وہ آسمان میں تباہی پھیلا سکتے ہیں، مگر زمیں پر جو انگارے بھڑکیں گے ان کو بجھانا بے حد مشکل ہوگا –

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسرائیل غزہ جنگ کے کسی بھی ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے تو اب اس کے سامنے بے عزتی و عالمی رسوائی کے ساتھ اب غزہ میں رہنے اور رکنے کاکیا جواز ہے۔ وہ اپنا قیام اور طویل کرلےتب بھی حماس کی گردن بھی نہیں چھوسکتا۔ شاید اسی لیے اسرائیل غزہ سے متعلق منصوبوں کے حوالے سے متضاد پیغامات دیتا رہا ہے۔ اسرائیلی رہ نماؤں کا کبھی کہنا ہے کہ وہ غزہ پر قابض نہیں ہونا چاہتے۔ پھرانہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی فورسز شدید لڑائی کے بعد غزہ میں آزادانہ نقل و حرکت چاہتا ہے-آپریشن کی طوالت کا جہاں تک سوال ہے تو اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے کہ اسرائیلی فورسز غزہ کے اندر کب تعینات رہیں گی۔ بعض حکام میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ فلسطینیوں کو سرحد سے دور رکھنے کے لیے ایک بفرزون بنادیا جائے۔ رفح اس کی دھار پر ہے ایک اور قتل عام کی تیاری ہے مگرکیا یہ جاں شکستہ فلسطینیوں کے حوصلے توڑ سکے گا؟یقینا نہیں۔ اقوام متحدہ سمیت سبھی اسے وارننگ دے چکے ہیں امریکہ سمیت دیگر نے غزہ میں فلسطینی اتھارٹی کی واپسی پر زور دیا ہے۔ مگر یہ بھی مشکل ہونے والا ہے تو پھر کیا ہوگا یا ہونا چاہیے اس قتل وغارتگری کا کوئی تو حل ہوگا؟اس کے لیے ہمیں بین اقوامی رجحان کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ موجودہ تناظر میں اسرائیل کا خاتمہ ممکن نہیں ہے جو ایک اسٹیٹ ہے اور نہ حماس کا جو اسٹیٹ نہ ہوکر بھی اسٹیٹ ہے-اس لیے یہ نظریہ ناقابل عمل ہے۔ امریکہ لگاتار دو ریاستی حل پر زور دے رہا ہے، خود غیر جانب دار ممالک بھی اس، کے حق میں ہیں حتی کہ اب حماس بھی دبے الفاظ میں ہی سہی اس کی بات کرنے لگی ہے

فلسطین کے دو ریاستی حل کی اہمیت و عملیت الم نشرح ہے اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس حل کو واضح طور پر اور متواتر مسترد کیا جانا ناقابل قبول ہے۔ دو ریاستی حل اور فلسطینیوں کے لیے علیحدہ ریاست کے حق سے انکار کا نتیجہ لامتناہی تنازعے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے بہت بڑے خطرے کی صورت میں برآمد ہو گا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ سبھی کو فلسطینیوں کا اپنی آزاد ریاست تعمیر کرنے کا حق تسلیم کرنا چاہیے اور اس سے انکار کو پُرزور انداز میں مسترد کیا جانا چاہیے۔ دو ریاستی حل اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی جائز خواہشات کی تکمیل کا واحد راستہ ہے۔