شیئر کیجیے

غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور عالم اسلام

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

فلسطین کا ایشوسات اکتوبرسے شروع نہیں ہواجیساکہ مغربی صہیونی میڈیانے اس بات کا پروپیگنڈاکرنے پر پورازورصرف کردیاہے کہ اس سے پہلے سب کچھ ٹھیک ہی چل رہاتھا ،حماس کے اسرائیل پرحملہ نے اس کویہ موقع دیاہے کہ وہ فلسطینیوں کا قتل عام کرے اورغزہ کوتباہ کردے۔اس مسئلہ کی تاریخ توایک صدی سے بھی زیادہ پیچھے جاتی ہے۔اس مسئلہ میں عالم اسلام میں کبھی دورائیں نہیں رہیں کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے ،جسے مغربی استعمارنے عالم اسلام اورخصوصاً عالم عرب کے قلب میں خنجرکی طرح گھونپ دیاہے۔پہلے مسلمان اورخاص کرتمام عرب حکمراں اورعوام سب ایک ہی پیج پرتھے ۔پھربتدریج عرب حکمراں ایک ایک کرکے صہیونی کیمپ کا حصہ بنالیے گئے ۔عوام کے دل آج بھی غزہ ،فلسطین اورمسجداقصیٰ کے لیے دھڑکتے ہیں لیکن وہ مجبورہیں ۔زبان بندی ہے ،دلوں میں زبردست غم وغصہ ہے مگراس کا اظہارکرنہیں سکتے ۔اگرکوئی جرأت کربیٹھاتوحکومتوں کے طوق وسلاسل اورتعذیب خانے اس کے منتظرہیں ۔

عرب دنیاکے اکثرحکمرانوں نے اب قبلہ بدل لیاہے۔یہ صہیونی مظالم کی دبے لفظوں میں تھوڑی بہت مذمت کرتے بھی ہیں توبس اپنے عوام کودکھانے کے لیے ۔اوربعض امریکہ کے ایسے غلام بنے ہوئے ہیں کہ اپنی کرسی کی حفاظت کی ساری ذمہ داری اسی کوسونپ رکھی ہے ۔ اوریہ اپنے برے انجام سے ڈرتے ہیں کہ اگرمغربی قوتوں نے ان سے اپنی حفاظتی چھتری اٹھالی تویاتواپنے عوام کے ذریعہ مارے جائیں گے جیسے کہ لیبیاکے معمرقذافی ،مصرکے حسنی مبارک اورتیونس کے زین العابدین بن علی کے ساتھ ہوا اوریاخودمغربی قوتیں ان کوبربادکردیں گی جیسے کہ انہوں نے عراقی صدرصدام حسین کوکیایاجیسے شام کواپنے پراکسیوں سے تباہ وبربادکروادیا۔

آہ کس جگرسے یہ با ت لکھی اورکہی جائے کہ جب غزہ میں ہزارہابچے ،عورتیں ،بوڑھے دن دہاڑے شہیدکیے جارہے تھے،محلے کے محلے بموں سے اڑائے جارہے اوربلڈوزکیے جارہے تھے،غزہ پر فضااورزمین سے آگ برسائی جارہی اورمعصوموں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی اُس وقت حرمین کی سرزمین پاک پر ملوکیت جابرہ بے حمیتی وبے شرمی کا ایک نیاباب لکھ رہی تھی۔’’موسم الریاض‘‘ کے نام سے فحاشی کا نیارکارڈ بن رہاتھا۔دنیاکے مشہورڈانسرننگے ،عریاں اورگندے شوکررہے تھے !رسول رحمت کے امتی بے کسی اوربے بسی سے ذبح کیے جارہے ہوں اورکچھ فاصلہ پر کچھ امتی عیش و طرب میں ڈوبے ہوئے ہوں !اورنہلے پردہلایہ کہ سالم الطویل ،عبداللہ القصیراورصالح السہیمی وغیرہ سعودی شیوخ اس فعل حرام کوترویح النفس اورتفریح کہہ کرجوازدے رہے ہوں !سچ ہی توکہاتھااقبال نے ؎

یہی شیخ حرم ہے جوچراکربیچ کھاتاہے گلیم بوذرؓ و دلقؓ و چادرزہراؓ

سات اکتوبرکے بعداسرائیل کی جارحیت میں عزت اسلام کا محافظ غزہ اب تک ۳۳ہزارسے زایدمعصوم جانوں کے نذرانے پیش کرچکاہے۔اسی ہزارسے زیادہ لوگ زخمی ہیں ۔غزہ کے سترفیصدمکانات تباہ وبربادہوچکے ہیں ۔شہیدوں اورزخمیوں میں بہت بڑی تعدادمعصوم بچوں اور عورتوں کی ہے۔مسجدوں ،اسکولوں ،کالجوں ،یونیورسٹیوں اوراسپتالوں کسی کوبھی اس ظالم نے تباہ کیے بغیرنہیں چھوڑا اور دنیا ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم ،گونگی بہری تماشادیکھ رہی ہے !حالانکہ جنگ کے مسلمہ آداب وقوانین میں سے ہے کہ سولینزاورِسول اداروں کوجان بوجھ کرنقصان نہیں پہنچایاجائے گا۔دنیابھرکا میڈیااورخاص کرمغربی میڈیا(جواصلاامریکہ کا غلام ہے)اسرائیل کے اس جھوٹے اورعذرلنگ کوپیش کرتاآرہاہے کہ حماس کے مجاہدسولینز(Civilian)آبادی اورشہری اداروں کی آڑمیں چھپے ہوئے ہیں اس لیے مجبوراًان پر بمباری کرنی پڑرہی ہے!

لیکن اہل غزہ کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہیں کوئی تزلزل نہیں ۔لاتزال طائفۃ من امتی منصورہ لایضرہم من خزلہم کی تفسیرآج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔آج غزہ بھک مری کے خوف سے جوجھ رہاہے۔انسانی امدادکے ہزاروں ٹرک بارڈر پر کھڑے ہیں انہیں اسرائیل اندرجانے نہیں دیتا۔

اوآئی سی کاہنگامی جلسہ ہواجس کی سائڈمیں عرب لیگ کی سربراہ کانفرنس ہوئی لیکن کوئی بھی ایسی قراردادمنظورنہیں کی گئی جس کا کوئی پریشر اسرائیل پر پڑتا۔مسلم ممالک آزربائیجان اورقزاقستان اسرائیل سے ۹۰فیصدتجارت کرتے ہیں ،مجال ہے کہ اس میں ذرابھی کمی آئی ہو!سفارتی تعلقات بھی کسی ملک نے ختم نہیں کیے۔کچھ ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی بات اٹھائی تو متحدہ عرب امارات ، بحرین اورمصرنے سختی سے انکارکردیا۔ترکی بہت بڑے پیمانے پر اسرائیل سے تجارت کرتاہے ،اردوغان زبانی جمع خرچ کرتے رہے اوراب تک کررہے ہیں ۔’’بنجامن نتن یاہوکی میں کال نہیں اٹھاؤں گا‘‘۔’’نتن یاہوآج کا ہٹلرہے‘‘ نتن یاہوبچوں کا قاتل اورقسائی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔اسرائیل نے سب الفاظ ان کے منہ پر دے مارے !رفع بارڈرپراسرائیل نے اپنی طرف سے اورمصرنے اپنی طرف سے سینکڑوں امدادی ٹرک روک رکھے ہیں اگرمصرمیں ذرابھی شرم وحیااورانسانیت ہوتی تووہ اپنی طرف سے رفح کراسنگ کوکھول سکتاتھا۔وہ یہ عذرپیش کرتاہے کہ اگراس نے دروازے کھول دیے تواسرائیل فلسطینیوں کومصری سرحدکی طرف کھدیڑدے گا۔لیکن اس عمل کواپنی فوج کے ذریعہ روکاجاسکتاتھامگرامدادی سامان کوتواندرآنے دیتے !

اصل میں مصراورمتحدہ عرب امارات میں بھی صہیونی عرب اقتدارمیں ہیں جن کی لگام امریکہ کے ہاتھ میں ہے اورامریکہ کی ڈوری اسرائیل ہلاتاہے!اوآئی سی نے ایک وزارتی گروپ تشکیل دیاتھاجس نے لندن ،برلن اورواشنگٹن کے دورے کرکے مغربی آقاؤں سے گہارلگانی تھی کہ اسرائیل کوروکیں ۔وہ اِس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ بظاہرامریکہ دنیامیں سپرپاورماناجاتاہے مگراسرائیل پر اس کوکوئی اختیار نہیں ہے۔دنیامیں یہ غلط فہمی عام ہے کہ امریکہ چاہے توایک فون کال پر اسرائیلی جارحیت کورکواسکتاہے ۔سوال یہ کہ جب خودواشنگٹن میں ایک صہیونی صدربیٹھاہواہے توامریکہ ایساکیوں چاہے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں حکومت رپبلیکن یاڈیموکریٹ کسی بھی پارٹی کی ہومگراسرائیل کا ہرقیمت پر تحفظ دونوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔وہاں یہودی لابی اِس قدرمضبوط ہے اوراس درجہ ملک کے حساس اداروں ،تھنک ٹینکوں ،انٹیلیکچولز،بزنس مینوں اورمیڈیامیں سرایت کیے ہوئے ہے کہ کوئی امریکن صدرچاہ کربھی اسرائیل کے خلاف نہیں جاسکتا۔قارئین یادکریں کہ براک اوباماکے دورمیں سفاک اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہونے امریکی ایوان بالاسے خطاب کیاتھااورتمام سینیٹرزنے کھڑے ہوکراُس کا ایساوالہانہ استقبال کیاتھاکہ امریکی صدرنیتن یاہوکے سامنے بوناپڑگیاتھا۔اورنتن یاہونے اپنے خطاب میں امریکی صدرکوڈانٹ پلائی تھی اوراس کوبھیگی بلی بن کریہ کڑواگھونٹ پیناپڑاتھا۔جوبائڈن کی خواہش کے علی الرغم آج بھی نتن یاہوامریکی کانگریس سے زوم پر خطاب کررہاہے بلکہ اس کو(امریکی صدرسے بالاہی بالا)امریکہ آنے کا نیوتابھی دیاجارہاہے۔اسی طرح اقوام متحدہ میں اسرائیل کا مستقل مندوب پوری رعونت سے بولتاہے بلکہ کئی موقعوں پرسیکریٹری جنرل کی بے عزتی بھی کرچکاہے مگراس کوبھی کوئی ٹوکنے والانہیں کیونکہ اس کی پشت پر بڑی قوتیں حمایت کے لیے موجودہیں ۔

اوپراوآئی سی اورعرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں عرب وزراء کی بات آئی تھی کہ ایک گروپ تشکیل دیاگیاجسے مختلف بڑے اوراہم ممالک کا دورہ کرکے اسرائیلی جارحیت کورکواناتھا۔یہ گروپ برلن ،لندن اورواشنگٹن گیامگراِس کے دوروں کا کوئی اثرنہیں ہوا۔اردن کے بادشاہ عبداللہ دوم نے واشنگٹن وغیرہ کا دورہ کیاکافی کھل کرباتیں کیں مگرکوئی اثرنہیں پڑا۔امریکہ نے پوری ڈھٹائی اوربے شرمی سے یواین میں ظالمانہ طورپر اسرائیل کے حق میں اپناویٹواستعمال کرنے کی مکروہ روایت برقراررکھی۔اورتین بارجنگ بندی اورسیزفائرکی قرارداد کو ویٹوکیا۔اوراسرائیل کو ہتھیاروں ،فوجی ماہرین اورفوجی سازوسامان کی سپلائی جاری رکھی۔

تاہم اِس شرسے خیرکا ایک پہلویہ نکلاکہ دنیابھرمیں خاص کرمغرب میں فلسطینی ڈائسپورا(تارکین وطن )سرگرم ہوگیا۔فلسطینی نژادنوجوان امریکی لڑکے لڑکیاں متحرک ہوئیں اورآج مغرب کے بڑے بڑے شہروں میں فلسطین کے حق میں بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں ۔جس کے نتیجہ میں آج دنیامیں اسرائیل کے سلسلہ میں دوکیمپ بن گئے ہیں :

(۱)امریکہ ،اسرائیل جرمنی اوریوکے وغیرہ (۲)باقی پوری دنیا۔

جبکہ جرمنی اوریوکے اورامریکہ میں بھی عوام کی بہت بڑی تعدادفلسطین کے حق میں ہے۔اوراسرائیل وامریکہ کوتنہائی کا سامناہے۔نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب وہائٹ ہاؤس کونہ صرف اسرائیل کے بارے میں تشویش ہے کہ عالمی رائے عامہ اس کے خلاف ہوچکی ہے بلکہ خودآئندہ صدارتی انتخاب میں جوبائڈن کولینے کے دینے پڑجانے کا خدشہ لاحق ہوگیاہے۔اوروہ کچھ نہ کچھ Damage control کی کوشش کررہاہے۔اسی طرح امریکہ پوری دنیاکے سامنے مکروفریب ،اورشروخبث کابہت بڑاعلمبرداربن کراکسپوزہوگیاہے۔اس کے تہذیب وثقافت اورانسانی حقوق کے تمام دعووں کی قلعی کھل گئی ہے۔اب خودبہت سے مغربی ممالک امریکہ واسرائیل کی مرضی کے بغیرہی فلسطین کوتسلیم کرنے کی بات کرنے لگے ہیں ۔

دوسری طرف دنیامیں موجودہ مسلم روایتی قیادت (حکمراں اورجرنیل )سب بے نقاب ہوگئے ہیں ۔۱۳مسلم ممالک دنیامیں ایسے ہیں جن کی فوج چارلاکھ سے لے کردس لاکھ تک ہے اوربعض تو اپنی افواج پر سالانہ ستربلین ($69.1)ڈالرتک خرچ کرتے ہیں ۔مگریہ سارالاؤلشکراوراسلحے کے ذخیرے کس لیے ؟ان کی دیکھی آنکھوں میں غزہ میں ۱۳ہزارمعصوم بچے بے رحمی سے قتل کردیے گئے اوریہ اف تک بھی نہ کرسکے!

کیااِن کوقرآن کی یہ آیت یادنہیں آتی:

ومالکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنااخرجنامن ہذہ القریۃ الظالم اہلہاواجعل لنامن لدنک ولیاواجعل لنامن لدنک نصیرا(النساء :75)(اورآخرتم اللہ کی راہ میں جہادکیوں نہ کروگے جبکہ دبے کچلے مردوعورت اوربچے کہہ رہے ہیں یعنی دعاکررہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے باشندے ظالم ہیں اوراپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حمایتی متعین کردے اورہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مددگارمقرر فرمادے )

کیااِن ممالک سے ان کی امیرحکمرانوں اورطاقتورافواج سے اس بارے میں بازپرس نہ ہوگی !

ملوکیت کے زیراثرچلنے والے ادارے بھی بے نقاب ہوگئے۔برصغیربلکہ ساری دنیاکے ان علماء سے ہم شکوہ کناں ہیں جنھوں نے احتجاجارابطہ عالم اسلامی جیسے ملوکیت کے غلام ادارے سے استعفاتک نہیں دیا!

پاکستانی جنرل اِس دوران امریکہ کا دورہ کرتے ہیں مگرمجال ہے کہ امریکہ بہادرسے غزہ کے بارے میں کوئی احتجاج بھی کرسکیں !سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات نے بے حسی اوربے حمیتی کی سار ی حدیں پارکرکے اسرائیل کوغذائی اشیاء پہنچائیں جویمن کے حوثی مجاہدین کی غزہ کی حمایت میں بحری کارروائیوں کے نتیجہ میں اشیاء صرف کی قلت سے دوچارتھا۔جبکہ اسی اسرائیل نے غزہ کا معاشی محاصرہ کیاہواہے!اس کی اجازت کے بغیرامدادی اشیاء وہاں پہنچنے ہی نہیں پاتیں ۔چنانچہ غذائی اشیاء کی شدیدقلت کا بحران غزہ میں پیدا ہوچکا ہے۔اوربچے سوء تغذیہ سے مررہے ہیں ۔مریض آپریشن نہ ہوسکنے اوردوائوں کے نہ ملنے سے دم توڑرہے ہیں ۔یہاں تک کہ اندرآنے والے آٹے دال اورچاول حاصل کرنے کے لیے قطارلگائے نہتے فلسطینیوں پر بھی اسرائیل نے بمباری کی اورکئی سولوگوں کوشہیدکردیا۔

اسرائیل اب رفح پرحملہ کرنے کی تیاری کررہاہے جبکہ امریکہ سمیت دوسرے ممالک بھی اس سے بازرہنے کے لیے کہہ رہے ہیں مگرظالم اورضدی نتین یاہواپنی ضد پر اڑاہواہے۔وہ فضائی حملے توجاری رکھے ہوئے ہے اب زمینی حملہ بھی کرناچاہتاہے۔روزانہ سودوسوفلسطینی رمضان میں شہیدہورہے ہیں اورایک ارب سے زیادہ مسلمان اور۵۷ملکوں پر نام نہاداوآئی سی کے رکن ممالک اُس کوروکنے میں بالکل ناکام ہیں ۔خلیج کے عرب ملکوں کے پاس دولت کی ریل پیل ہے مگر ؎

حمیت نام ہے جس کا گئی تیمورکے گھرسے

سابق امریکی صدرڈونلڈٹرمپ نے صفقۃ القرن یاصدی کی ڈیل کے ذریعہ یواے ای ،بحرین ،مراکش اورعمان وغیرہ کومجبورکردیاتھاکہ وہ صہیونی ریاست کوتسلیم کرلیں اوراُس کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کریں ۔کیونکہ قطر،عراق ،امارات،بحرین اورسعودی عرب میں امریکی فوجی اڈے موجودہیں اورحکم عدولی پر منٹوں میں ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ان حکومتوں کی بڑی مجبوری یہ ہے کہ ان کے حکمراں یاتوجابربادشاہ ہیں یافوجی آمرہیں جن کی طاقت کا سرچشمہ ان کے عوام نہیں بلکہ امریکی سنگینیں ہیں ۔اگرامریکہ ایک دن کے لیے بھی اپنی حمایت ان سے کھینچ لے تویہ سب دھڑام سے نیچے آگریں اورعوام ان کی بوٹیاں نوچ ڈالیں ۔

موجودہ امریکی صہیونی صدرنے دوقدم آگے بڑھ کرسعودی عرب کوبھی مجبورکیا تھاکہ اسرائیل سے اپنے سفارتی وتجارتی تعلقات قائم کرے اور سعودی عرب اوراسرائیل دونوں معاہدے کے فیصلہ کن پڑاؤپر پہنچ چکے تھے کہ حماس اوردوسرے فلسطینی جہادی گروپوں نے طوفان الاقصیٰ کا بڑااقدام کرڈالا۔

مجاہدین حماس نے طوفان الاقصیٰ کی پلاننگ تواچھی کی تھی اورحملہ بھی بروقت کیاتھامگران کوغالباًیہ اندازہ نہیں تھاکہ عالم ا سلام ان کویوں یکہ وتنہاچھوڑ دے گااورفلسطینی عوام کو تنہاآگ وخون کے حوالے کرکے چین کی بانسری بجائے گا۔اس کا کوئی سیاسی وسفارتی فعال ومؤثررول نہ ہوگا۔اوروہ بس قراردادیں پاس کرکے امریکہ ومغربی قوتوں سے فریادکرتارہ جائے گا۔ان کومعلوم نہ تھاکہ کئی عرب ممالک کے حکمراں اندرسے صہیونی ہیں اوروہ خودفون کرکرکے بنجامن نیتن یاہوسے غزہ پرحملے جاری رکھنے کوکہیں گے!!

سعودی عرب میں جوسماجی ومعاشرتی انقلاب لایاجارہاہے اورفواحش کی سرکاری سرپرستی کی جارہی ہے اُ س کی جڑوں میں بھی حکومت کی شدیدغفلت ہے۔سعودی حکمرانوں نے عوا م کے لیے عیش وطرب کے سارے سامان مہیاکیے ہیں ۔خودرائیل فیملی اورسعودی شہزادے شہزادیاں مغرب میں دادعیش دیتے آئے ہیں ۔یہ بگڑے امیرزادے وہاں رہ کریومیہ ملینوں ڈالراڑاڈالتے ہیں ۔مگرتعلیمی نظام میں مملکت خودکفیل نہیں ہوئی۔سعودی یونیورسٹیوں اورکالجوں میں علم سیاسیات تک نہیں پڑھا یاجاتا ۔ وہاں سارا زورعقیدہ کی درستگی اورشیخ محمدبن عبدالوہاب ؒکی فکر کی ترویج پررہا۔اسی کی کوکھ سے مداخلہ جیساتکفیری فرقہ پیداہوا۔ مداخلہ کے تکفیری خیالات کی زایدہ ISIS جماعت ہے۔جسے اپنے مقاصدکے لیے خودامریکی ایجنسیوں نے کھڑاکیاتھا۔سعودی شہریوں کے پاس پیسہ تھاانہوں نے اپنے بچوں کو لندن،پیرس اورواشنگٹن ونیویارک بھیجناشروع کردیا۔اب سے ۲۰ سال پہلے تقریباہرگھرانہ کا چشم وچراغ اعلی تعلیم کے لیے مغرب میں تھا۔اب جویہ نسل مغرب سے پڑھ کرآئی ہے وہاں کی مادرپدرآزادیوں ‘فحا شیوں اورعیاشیوں کی دلدادہ ہے۔یہ نسل مطوع کے ادارہ سے قابومیں آنے والی نہ تھی بلکہ اِس نے لوٹتے ہی سب سے پہلے اسی ادارہ کا خاتمہ کروایا۔نئے جوان ولی عہد(اصلاًحکمراں )MBSکا تعلق اسی نسل سے ہے۔وہ اس نسل کا ہیروہے اوران کا آئڈیل ہے۔علماء ومشائخ ملوکیت کا آلہ ٔکاربننے پر مجبورہیں ،اورجونہیں بنتے وہ زندان میں ڈال دیے جاتے ہیں ،چنانچہ شیخ حذیفی ،(اب انتقال ہوگیا)عوض القرنی،سلمان العودہ،سفرالحوالی،بدرالمشاری اورخالدالراشدوغیرہ علما اورداعی سب جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں ۔محمدبن سلمان کے مطالبہ پر ایک فتوی ٰتیارشدہ مل جاتاہے۔تاریخ اپنے آپ کودہرارہی ہے۔اسلام کی طویل تاریخ کے ملوکِ جابرہ کی یادتازہ ہورہی ہے۔

دنیابھرکے مسلمان اِس صورت حال پردل گرفتہ ہیں بے چین ہیں مگرکچھ کرنہیں سکتے۔کیونکہ ان کے درمیان بھی درہم ودینارکی اسیرسیاسی ومذہبی قیادتیں موجودہیں ۔ یقینامولانامفتی تقی عثمانی ،امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ،مولانافضل الرحمان ،سینیٹرمشتاق احمد،اوریامقبول جان، ،مولاناسلمان حسینی ندوی،شیخ عبدالرحمن الددو،شیخ کمال الخطیب ،شیخ محمودابوالحسنات،شیخ یاسر قاضی ، شیخ عمرسلیمان اورسامی حمدی وغیرہم بہت سے حق پسندعلمااوراسکالروں نے کلمہ ٔحق بلندکیا،غزہ کے حق میں آوازاٹھائی اورمسلم حکمرانوں کی مذمت کی اوراس طرح مسجداقصیٰ کی لاج رکھی۔

حکومتوں کی سطح پر قطراورالجزائرکا کردارمناسب رہا۔ملائشیانے علانیہ حماس کی حمایت کی اورترکی نے بھی ۔مگرعملی سطح پر ترکی سے جس فعال کردارکی توقع تھی اس میں اس نے بہت مایوس کیا۔جوعلامتی اقدامات بعض غیرمسلم ممالک بلجیم،جنوبی افریقہ وغیرہ نے اٹھائے ترکی سمیت مسلم ممالک اس کی جرأت بھی نہ دکھاسکے۔ظاہرہے کہ زبانی جمع خرچ سے اورنیتن یاہوکوبرابھلا،دہشت گرد،بچوں کا قاتل ،دورجدیدکا ہٹلرکہنے سے کوئی فرق پڑنے والانہ تھااورنہ پڑا۔اُس سے کہیں زیادہ بہترکردارچھوٹے سے اورکمزوروغریب یمن کا رہا (جوخودبھی کئی سالوں سے خانہ جنگی ،بدامنی اورمعاشی بدحالی کا شکارہے)۔یمن کے مجاہدحوثییوں نے اپنی ظاہری کمزوری کے باوجودبحراحمرمیں اسرائیل سے تجارت کرنے والی مغربی قوتوں کی ناک میں دم کردیا،اوراس کی قیمت بھی ان کوچکانی پڑی کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کریمن پر کئی بارتباہ کن حملے کیے۔

ایران خودعرصہ ٔدراز سے مغرب اوراسرائیل کے نشانہ پر ہے۔موساداورسی آئی نے کئی آپریشن کرکے ایران کے جنرلوں اورسائنس دانوں کوقتل کیا ہے ۔ امریکہ نے اس پر اقتصاد ی پابندیاں عائدکررکھی ہیں ۔اُس کے باوجودایرانی نامساعدحالات کا مقابلہ سوچ سمجھ کرکررہا ہے۔حالیہ دنوں میں اس نے سعودی عرب سے بھی تعلقات بہتربنانے کی کوشش کی ہے جس میں چین نے ثالثی کارول اداکیا۔ساتھ ہی ایران حماس کی اخلاقی ومادی ہرطرح سے مددوحمایت بھی کرتاآیاہے۔حزب اللہ ایران کی پراکسی تنظیم ہے جس نے بلاشبہ محدودپیمانہ پر ہی سہی لبنان اسرائیل بارڈدرپر اسرائیل کواپنے چھٹ پٹ حملوں سے Engage کررکھاہے اوراس طرح غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں کچھ نہ کچھ تخفیف کا باعث بنی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ سیاسی سطح پرمسلم دنیاکا عمومی کرداربڑاہی شرمناک رہاہے۔پاکستان میں مشکل سے تین چاربڑی ریلیاں نکلیں ،مسلم ممالک کے عوام نے بھی اتنی حمیت کا مظاہرہ نہیں کیاجس کی توقع کی جارہی تھی۔مغرب کے عوام اورخا ص کروہاں رہنے والے فلسطینی نوجوانوں نے اورفلسطینی کازکے ہمدردوں اورانصاف پسندغیرمسلموں نے زیادہ بہتررول اداکیاہے۔تقریبا۳۳ ہزارمعصوم جانوں کے ضیاع کے بعداب ((25/03/2024 امریکہ نے سلامتی کونسل میں غیرحاضرر ہ کراورویٹونہ کرکے دوہفتہ کے لیے علامتی سیزفائرکی قراردادکوپاس ہوجانے دیا۔حالانکہ اس سے زمین پرکچھ نہیں بدلا۔لیکن اس میں بھی امریکی عیاری اورمکرکھل کرسامنے آگیاکہ ڈرافٹ کی زبان اس نے آخری لمحوں میں تبدیل کرائی اوراب بھی وہائٹ ہاؤس کا ترجمان بے شرمی سے کہہ رہاہے کہ یہ قرارداد Non Binding ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹینیو گوتیرس کہہ چکے ہیں کہ ا س کی پابندی کی جانی چاہیے۔مگریواین کی بھی امریکہ کے بغیرکہاں چلتی ہے۔اس قراردادکے پاس ہونے کے باوجودوہائٹ ہائوس یہ کہنانہیں بھولاکہ ہم اب بھی پوری طر ح اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اوراس کی حمایت جاری رکھیں گے۔اس قراردادسے ٹھیک ایک دن پہلے ہی امریکی کانگریس یک زبان ہوکراسرائیل کے ساتھ اظہاریکجہتی کرچکی ہے اوراس کے لیے ہرطرح کی مادی ومعنوی سپورٹ جاری رکھنے کا اعادہ بھی کرچکی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی قراردادکوکوئی اہمیت نہیں دی کیونکہ امریکی کانگریس اس کوپہلے ہی ہری جھنڈی دکھاچکی ہے۔

یہ بے ضررسی قراردادبھی اس لیے پاس کروادی گئی کہ دنیابھرمیں عوامی دباؤاب ناقابل برداشت ہوتاجارہاتھااورنیتن یاہوسے تھوڑی سی خفگی کا اظہاربھی امریکہ کے لیے اپنے عوام کوٹھنڈاکرنے کی خاطر ضروری ہوگیاتھا۔مسلم ممالک کے عوام اگرزیادہ بڑے پیمانہ پر ہرشہراورہرقریہ میں باہرنکل آتے۔اپنے ہرملک میں امریکی سفارت خانہ کوگھیرکربیٹھ جاتے اوراپنی حکومتوں کواس حدتک مجبورکرتے کہ وہ امریکی واسرائیلی کے سفیروں کو اپنے ملک سے نکال دیتیں ۔اسی طرح مسلم ممالک اسرائیل سے سفارتی وتجارتی تعلقات ختم کر دئے جاتے توشایداسرائیل کی جارحیت کو روکا جا سکتاتھااورہزاروں جانوں کوضایع ہونے سے بچایاجاسکتاتھا۔مسلمانوں نے عموماًجوسردمہری دکھائی وہ اِس قضیہ کے تئیں ان کی غفلت وبے حسی پردلالت کرتی ہے جس کا حساب امت کے اجتماعی ضمیرکوقادرمطلق کے دربارمیں دیناپڑے گا۔

٭ رسرچ ایسوسی ایٹ ادارہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ