شیئر کیجیے

پارلیمانی انتخابات: تلنگانہ اور آندھرا کے رائے دہندوں کا رجحان کیا ہوگا؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک میں پارلیمانی انتخابات کا مرحلہ قریب آچکا ہے۔ جنوبی ہند کی دو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بھی انتخابی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں ۔ تلنگانہ میں لوک سبھا کی 17نشستیں ہیں جب کہ آند ھرا پردیش میں 25سیٹیں ہیں ۔ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد تیسری مرتبہ لوک سبھا الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد 2؍ جون 2014کو علیحدہ ریاست تلنگانہ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ تحریک تلنگانہ میں ریاست کے تمام طبقات، جن میں مسلمان بھی شامل ہیں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ریاست کے قیام کے بعد ہونے والے پہلے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں رائے دہندگان نے تلنگانہ راشٹرا سمیتی ( ٹی آر ایس ) کے حق میں ووٹ دیتے ہوئے اسے حکومت بنانے کا موقع دیا۔ دوسری مرتبہ بھی2018میں ٹی آر ایس نے کام یابی حاصل کرتے ہوئے حکومت بنائی۔ لیکن 2023میں ہوئے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بی آر ایس ( سابق ٹی آر ایس ) کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ کانگریس دس سال کے وقفے کے بعد تلنگانہ میں بر اقتدار پر آئی ہے۔

اس وقت کانگریس کے عزائم کافی بلند ہیں ۔ کانگریس نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے پہلے عوام سے چھ وعدے کیے تھے۔ ان میں سے دو وعدوں پر حلف برداری کے دوسرے ہی دن سے عمل آوری شروع ہو گئی۔ خواتین کے لیے مفت بس سفر کی سہولت اور آروگیہ شری اسکیم کے تحت علاج کے لیے 10لاکھ روپئے کی منظوری۔ اب مزید دو ضمانتوں پر بھی پر 27فروری سے عمل شروع ہو جائے گا۔ یہ دو ضمانتیں غریب عوام کو بڑی راحت پہنچانے والی ہیں ۔ ان میں سے ایک 500روپیوں میں مستحق افراد کو گیس سلینڈر کی فراہمی اور 200یونٹ مفت بجلی سپلائی۔ ظاہر ہے کانگریس اپنی ان اسکیموں کو روبہ عمل لاکر لوک سبھا کی زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر اپنی جیت درج کرانا چاہتی ہے۔

تلنگانہ میں الیکشن سہ رخی ہو گا۔ بر سرِ اقتدار پارٹی کا اصل مقابلہ ریاست کی اہم اپوزیشن پارٹی بی آر ایس سے ہوگا۔ تلنگانہ اسمبلی میں بی آر ایس کے 39ارکان ہیں ۔ پارٹی کے قائد اور سابق چیف منسٹر تلنگانہ کے۔ چندر شیکھرراؤ لوک سبھا الیکشن میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں گے۔ کانگریس اور بی آر ایس کے ساتھ بی جے پی بھی تلنگانہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتی جا رہی ہے۔ ریاستی اسمبلی میں اس کے آٹھ ارکان ہیں ۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں غیر متوقع طور پر بی جے پی مزید چار لوک سبھا حلقوں میں کا میاب ہوئی تھی۔ اب بی جے پی اپنی تعداد کو دوگنی کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ شمالی تلنگانہ میں بی جے پی اپنے قدم جمانے میں کا میاب رہی ہے۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں بھی اسی علاقہ سے بی جے پی کے امیدوار کا میاب ہوئے۔ سوائے ملعون راجہ سنگھ کے جو حیدرآباد کے حلقہ گوشہ محل سے کا میاب ہوا۔ بی جے پی جس طرح سارے ملک میں فرقہ وارانہ زہر پھیلا کر کام یابی حاصل کرنا چاہتی ہے یہی نسخہ تلنگانہ میں آزمایا جا رہا ہے لیکن اس بات کے امکانات موہوم ہیں کہ یہاں کی عوام بی جے پی کے فریب میں آئے۔ اس لیے کہ جنوبی ہند میں فرقہ پر ستی کا وہ ز ہریلا ماحول نہیں ہے جوشمالی ہند کی ریاستوں میں ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ لوک سبھا الیکشن کے آ نے تک تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں سیاسی صف بندیاں کس نوعیت پرہوتی ہیں ۔ تلنگانہ میں کانگریس اکیلے مقابلہ کرے گی۔ ہو سکتا کہ سی پی آئی کو ایک لوک سبھا سیٹ دے کر کانگریس اسے اپنا ہمنوا بنالے۔ بی آر ایس( سابق ٹی آر ایس) لوک سبھا الیکشن میں کیا موقف اختیار کرے گی۔ آیا وہ بی جے پی سے اتحاد کرے گی یا پھر وہ بھی تنہا الیکشن میں حصہ لے گی، یہ بات ابھی واضح نہیں ہوئی ہے۔ بی جے پی سے مفاہمت کی صورت میں مسلمانوں کے ووٹوں سے بی آر ایس محروم ہوجائے گی۔ اسی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے بی آرایس کے قائدین یہ کہہ رہےہیں کہ بی جے پی سے ان کا کوئی رشتہ نہیں ہے اور نہ لوک سبھا الیکشن میں وہ ان کے ساتھ جائیں گے۔ لیکن سابق واقعات بتاتے ہیں کہ جب جب مرکز میں بی جے پی کو تائید کی ضرورت پڑی بی آر ایس نے اس کا ساتھ دیا۔ سابق چیف منسٹر کے سی آر کی دختر کے۔ کوتیا کے بیانات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بی آر ایس کے دل میں بی جے پی کے لیے نرم گوشہ باقی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں تلنگانہ کی 17نشستوں پر کسی ایک پارٹی کی کام یابی ممکن نہیں ہے۔ کانگریس 10تا 12سیٹوں پر کا میابی حاصل کر سکتی ہے۔ بی آر ایس 4تا6نشستوں پر کا میاب ہو سکتی ہے۔ بی جے پی 3تا4حلقوں میں کام یابی حاصل کرسکتی ہے۔ ابھی الیکشن کے لیے وقت ہے اس لیے حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کس پارٹی کو کتنی سیٹیں حاصل ہوں گی۔ لیکن کانگریس کا پلڑہ بحرحال بھاری رہے گا۔ اس لیے کہ ابھی ابھی اس نے ریاست میں اپنی حکومت بنائی ہے اور عوام کو بھی اس سے کافی امیدیں وابستہ ہیں ۔ تلنگانہ میں انڈیا الائنس یا این ڈی اے جیسے کسی محاذ کا وجود نہیں ہے۔ بی آر ایس، اگر بی جے پی سے مفاہمت کرتی ہے تو این ڈی اے وجود میں آئے گا۔ تلنگانہ میں بغیر کسی محاذ کے تینوں پارٹیوں، کانگریس، بی آرایس اور بی جے پی کے درمیان راست مقابلہ ہوگا۔ حیدرآباد کے پارلیمانی حلقہ پر 1984سے کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کا قبضہ ہے، 2024 کے الیکشن میں بھی یہ برقرار رہے گا۔ یہ بات واضح رہے کہ تلنگانہ میں مسلمان 13 فیصد ہیں ۔ ان کے ووٹ بھی حکومت بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ سابق میں ٹی آر ایس کو برسرِ اقتدار لانے میں اور 2023 میں دوبارہ کانگریس کے ہاتھوں میں حکومت کی زمام کار دینے میں مسلمانوں کا رول کلیدی رہا ہے۔ لوک سبھا الیکشن میں بھی انھیں بہت دانشمندی سے اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہو گا خاص طور پر شمالی تلنگانہ کے مسلمانوں کو سیاسی سمجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا۔ کثیر مسلم آبادی والے حلقوں سے بی جے پی کی کام یابی بہر حال ان کے لیے ایک لمحہ فکر ہے۔

آندھرا پردیش کی سیاسی صورت حال بڑی گنجلک ہے۔ برسرِ اقتدار پارٹی وائی۔ ایس۔ آر۔ کانگریس اور تلگو دیشم کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔ اس کے علاوہ بی جے پی اور کانگریس بھی ریاست میں اپنے قدم جماتے جا رہی ہیں ۔ علیحدہ ریاستِ تلنگانہ کے قیام کے نتیجہ میں کانگریس کو دس سال قبل کافی نقصان ہوا تھا۔ وہ دونوں ہی ریاستوں میں الیکشن ہار گئی۔ دو ریاستوں کے بننے کے بعد آندھرا پردیش میں تلگو دیشم کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن گز شتہ اسمبلی الیکشن میں وائی ایس آر کانگریس کے حق میں راے دہندوں نے ووٹ ڈالا۔ حالیہ دنوں میں آندھرا پردیش کے چیف منسٹر وائی ایس جگن موہن ریڈی کی بہن وائی ایس شرمیلا کو آندھراپردیش کانگریس کا صدر بنایا گیا۔ اس سے کانگریس کے امکانات کا فی بڑھ گئے۔ تلگودیشم کے صدر این۔ چندرابابو نائیڈو بھی گھاگ سیاستدان ہیں ۔ بی جے پی، علاقائی پارٹیوں کو رجھانے میں لگی ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آندھرا پردیش میں کس پارٹی کو لوک سبھا میں کتنی نشستیں حاصل ہوں گی۔