شیئر کیجیے

پارلیمانی انتخابات: اندیشے اور امکانات

قاسم سید

وزیر اعظم نریندر مودی نے گذشتہ 22 جنوری کو رام للا پران پرتیشٹھا کے موقع پر کہاتھا”یہ پل صدیوں کے طویل انتظار کے بعد آیا ہے۔ اس پل کو کھونا نہیں ہے۔ یہ بھارت کے نئے کال چکر کا آغاز ہے۔ ہمیں اس وقت آئندہ کے ایک ہزار سال کی بنیاد رکھنی ہے۔ دیو کے دیش اور رام سے قومی شعور کی بنیاد رکھنی ہے۔ ملک صدیوں کی غلامی توڑ کر باہر آگیا ہے۔ اس موقع پرآر ایس ایس سرسنگھ چالک ان کے بغل میں بیٹھے تھے۔

کہا گیا کہ وزیراعظم نے عوام بلکہ ہندو اکثریت کو یہ پیغام دیا کہ یہ ہندوؤں کی بالادستی کی علامت ہے۔ بی جے پی ملک میں ہندوتہذیب و ثقافت کی سب سے بڑی محافظ ہے اور ہندو افتخار وتسلط کی طرف اب تیزی سے گامزن ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم نے لگاتار اپنے طرزعمل سے ریاست اور مذہب کے درمیان ملک کے سیکولر ڈھانچہ کے ذریعے قائم لکیر کو بھی بے رحمی مٹادیا ہے۔ رام مندر تعمیر کے پروگرام میں ان کی شرکت اس کے تابوت میں آخری کیل تھی۔ تکلف، لحاظ، تذبذب، شش و پنج کے تما م پردے نوچ دیے گئے۔ ریاست، جمہوریت اور سیکولر فریم سے نکل کر ہندو اکثریتی ازم یعنی ہندو میجورٹینز م میں عملا تبدیل ہوگئی ہے۔ رہی سہی کسر 2024 کے عام انتخابات کے بعد پوری ہوجائے گی، جس میں بی جے پی نے مودی کی گارنٹی کے ساتھ نعرہ دیا ہے “اب کی بار چارسو پار” اور یہ بیانیہ دہرایا جارہا ہے کہ” آئے گا تو مودی ہی”۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مودی نے بہت محنت سے بھارت کے سیکولر اسٹرکچر کاتہہ وبالا کردیا ہےاور 75 سال کی محنت کو برباد کردیا ہے، جہاں صرف اقلیتوں کا مستقبل ہی پر سوالیہ نشان نہیں ہے بلکہ دیگر مظلوم طبقات بھی آزمائشوں کی دھوپ میں آگئے ہیں ۔ تمام آئینی ادارے پاؤں تلے کچل دیے گئے ہیں اور یک نفری راج یا جمہوری ڈکٹیٹر شپ ظہور میں آیا چاہتی ہے۔ کیوں کہ ملک کے ہر زاویے اور فریم میں، پبلک ٹوائلٹ سے لے کر ریلو ےاسٹیشنوں تک، صرف اور صرف ایک تصویر نظر آرہی ہے۔

لہذاچند سوال پیدا ہوتے ہیں جن کا کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ مثلا کیا ملک اپنی قدیم روایات جیسے گنگا جمنی تہذیب، ہندو مسلم ہم آہنگی، عدم تشدداور رواداری کی دیرینہ روایت کو کھورہاہے۔ کسی خاص طبقہ کو دباکراوراس کے خلاف خوف و نفرت کی فضا کی بنیاد پر ہندو راشٹروادکے نظریہ کو پختہ تر کیا جارہا ہے۔ کیامسلمانوں کی تہذیبی علامات کو مٹانے، سیاسی اور معاشی طور پر کم زور کرنے کے ساتھ انھیں تیسرے درجہ کا شہری بنانے کی مہم 2024 کے بعد مزید شدت اختیار کرلے گی۔ کیا مسلمان اپنی کم زورقیادت اور لولی لنگڑی اپوزیشن کی بدولت اپنے وجود کو بچانے میں کم زورتر ہوجائیں گے-اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام قائم ہوگا اور آئینی ادارے جو پہلے ہی کیچوے بنا دیے گئے ہیں، صرف کاغذی رہ جائیں گے،؟کیا آئین کی جگہ منوسمرتی کا سماجی نظام سوشل جسٹس کی جگہ لےلے گا؟سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں 2024کے بعد سیکولرز م اپنی اصل روح کے ساتھ باقی رہ پائے گا یا اس کی تجہیزوتکفین کا باقاعدہ اعلان ہوجائے گااور اکثریتی فا شزم آنے والے بھارت کی شناخت ہوگا۔

یہاں تاریخی اعتبار سے یہ یاد کرنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ مودی نے رام مندر کی بنیاد رکھی مگر اس کا آغاز آزادی کے بعد سومناتھ مندر کی سرکاری سرپرستی میں تعمیر سے ہی شروع ہوگیا تھا جس کا افتتاح ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد نے نہرو کی شدید مخالفت کے باوجود کیا تھا۔ 1952میں انھوں نے خط لکھ کر سوال اٹھایاتھاکہ “ہم سے پوچھا جا رہا ہے کہ ایک سیکولر حکومت اس طرح کے واقعات سے کیسے منسلک ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر جب اس پروگرام کو مذہبی احیا کے طور پر پیش کیا جا رہا ہو۔ ” مگر پی ایم مودی سے یہ سوال پوچھنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ہندوتوا کی سیاست سے ابھرے اور نہرو برطانوی سلطنت سے آزادی کی لڑائی سے ابھرےتھے۔ نہرو کی قوم پرستی نوآبادیات کے خلاف تھی، جس کے مرکز میں اکثریت پرستی نہیں بلکہ تکثیریت تھی۔ مودی کی قوم پرستی ان کی پارٹی کی مدرآرگنائیزیشن آر ایس ایس کی قوم پرستی سے وابستہ ہے۔ بہت سے مورخین کا خیال ہے کہ آر ایس ایس نے نوآبادیاتی مخالف قوم پرستی کے بجائے مذہب پر مبنی قوم پرستی کو اپنایاہے۔ اور آج مودی ملک کو اسی سمت میں لے جارہے ہیں

کیا جمہوریت خطرے میں نہیں ہے اس پر بی جے پی کے سوپن داس گپتا کا بی بی سی سے کہنا تھا “اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوتوا ایک سیاسی نظریہ ہے، مذہب اس کا ایک حصہ ہے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ریاست اور مذہب کو ضم نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایودھیا میں ریاست شامل تھی لیکن ریاست خود اتنی الگ نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہندوستان میں سیکولرازم خطرے میں ہے۔ اگر مذہب کی بنیاد پر امتیاز ہوتا ہے تو ہم ایسا کہہ سکتے ہیں ۔ ”

نہرو چاہتے تھے کہ حکومت مذہبی پروگراموں سے دور رہے جب کہ مودی خود رام مندر میں پران پرتیشٹھا تقریب کا مرکزی کردارتھے۔ مؤرخ مکل کیسوان ان دونوں واقعات کو ہندوستانی سیاست کے لیے بہت اہم مانتے ہیں ۔ ، “نہرو کسی بھی حالت میں مذہب اور ریاست کے درمیان لکشمن ریکھا کو توڑنا نہیں چاہتے تھے۔ دوسری طرف نریندر مودی نے مذہب اور ریاست کے درمیان کی لکیر کو تقریباً مٹا دیا ہے۔

بی جے پی اس وقت بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہے اور اپنی خواہشات کے مطابق ہندوستانی جمہوریہ کی تشکیل کر رہی ہے۔

ہندوستان کی فرقہ وارانہ اور مذہبی اکثریتی سیاست پر ایک کتاب لکھنے والے رام پنیانی کہتے ہیں، ’’آر ایس ایس کو لگتا ہے کہ 1947 سے 1950 کے درمیان لکھے گئے ہندوستانی آئین میں ہندوستان کی روح کو کچل دیا گیا تھا اور اب اس کے پاس موقع ہے کہ وہ آئین بناسکے اپنی خواہش کے مطابق۔ ”

اب سوال یہ ہے کہ کیا مودی کی متواتر پالیسیوں کے سبب ہندوستان میں سیکولرازم کی تعریف ناکام ہو رہی ہے؟ یا سیکولرازم کو مختلف نظروں سے دیکھنے کی ضرورت ہے؟ سیکولرازم کی اقدار کو بچانے کے لیے سیاسی طبقے اور معاشرے کو کیا کرنا چاہئیے؟کیا صرف انتخابی عمل کے ذریعے ہی اسے روکا جاسکتا ہے۔ شاید نہیں جس طرح ہندو معاشرہ کی اکثریت میں مسلمانوں کے خلاف، قطرہ قطرہ زہر انجکٹ کیا جارہا ہے۔ اس نے طاقتور ووٹ بینک پیدا کردیاہے جس کا مقصد ہر وقت مسلمانوں کو گالیاں دھمکیاں دینا، جینوسائڈ کے لیے اکسانے والے عناصر کی سرکاری حوصلہ افزائی کرنا، نام نہاد دھرم سنسددوں کے انعقاد سے نفرت کی فیکٹریاں تیار کرنا، مذہبی جلوسوں کےبہانےمسجدوں کےسامنےاشتعال انگیزی، تلواریں لہرانا، انتہائی گندے اور ناقابل تحریر نعرے لگانا جس میں مار کاٹ کی باتیں کرنا، ماب لنچنگ کی طوفانی رفتار، میوات جیسے فسادات، چھوٹی اور جھوٹی شکایتوں کی بنیاد پر گھروں کو بلڈوز کرانا، شہریت کے لیے سی اے اے کے تحت مذہبی شناخت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا۔ ایسے قوانین جو امتیازی سلوک کرتے ہیں وجود میں لانا، تہذیبی علامات وشناخت کو ختم کرنا جیسے حجاب، پبلک مقامات پر نماز کی ادائیگی، انکروچمنٹ کے بہانے مقدس مزارات و صدیوں پرانی مساجد کی مسماری، متھرا، کاشی، خواجہ اجمیر کی درگاہ اور ہزاروں مساجد پر دعویداری کی نئی لہر، اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کی بیخ کنی، مدارس سسٹم کو کم زور کرنے کی کوشش، ، مذہبی شناخت کی بنیاد پر شہریوں کی نسل کشی جیسے اقدامات سے بی جے پی نے ووٹروں کی اکثریت کے ذہنوں میں یہ احساس بٹھادیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو دکھایا جائے کہ ہندوستان ایک ہندوراشٹر ہے۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کی توہین و تذلیل کو ملک میں بڑھتی ہوئی ہندو سیاسی طاقت کی علامت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بتایا جارہا ہے کہ آئین ایک سر بریدہ لاش میں بدل دیا گیا جو باقی تو رہے گا مگر بغیر روح کے، اس کے ساتھ چھیڑچھاڑ ہوتی رہے گی مگر سمان برقرار رہے گا۔ 2024 میں یہ خطرات ہر طرح کے تکلفات کی چادر اتار کر، برہنہ ناچ کریں گے۔ جمہوریت کا شامیانہ اور سیکولرازم کا سائبان سروں سے اتر جائے گا؟

معروف مورخ رام چندر گوہا کا خیال ہے کہ مودی کی ہندو قوم پرستی جسے ہندوتوا کے نام سے جانا جاتا ہے، نے یہ صورت حال پیدا کردی ہے اگر یہ زیادہ دیر تک رہتا ہے تو مودی سرکار کوہندستانی تکثیریت کے خاتمے کے لیے اتنا ہی یاد کیا جائے گا جتنا کہ ہندستانی جمہوریت ختم کرنے کے لیے۔

لیکن کیا کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ مودی بلاشبہ مقبول ہیں ۔ وہ حقیقی طور پر خود ساختہ اور محنتی ہیں، ہنرمند مقرر ہیں، کم زور سیاسی حریف ہیں؟انھوں نےہندوقوم پرستانہ جذبات کا موثر طریقہ سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک زیرک پروپیگنڈہ اور کام یاب سوشل میڈیا مہم کی قیادت کرتے ہیں اور جذباتی طور ذہین ہیں ۔ اندرا کےبعد وہ پہلے سیاستداں ہیں جنھوں نے مذہبی استحصال کی کام یاب قیادت کی ہے اور بی جے پی کے آگے سب کا چراغ بجھا دیاہے۔

آئینی اداروں کی بے توقیری

مودی نے جمہوریت کے صرف چار پایوں کو ہی کم زور نہیں کیا ہے بلکہ ان کو تقویت دینے والے اداروں کو بھی بے دانت کا شیر بنادیا ہے۔ سرکار کی لگام کسنے والے انسٹی ٹیوٹ بے دم کردئیے گئے ہیں خواہ الیکشن کمیشن ہو یا سی اے جی انفارمیشن ہو یا انسانی حقوق کے ادارے ان کے علاوہ مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ۔ اور میڈیا سب ہانپ رہے ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں اور کابینہ کو بھی ففتھ کالم میں تبدیل کردیا ہے جو ان کی انتخابی جیت کو ممکن بناتے ہیں ۔

مقننہ کی کیا حیثیت رہ گئی ہے ایک مئیر کے چناؤ سے لے کر راجیہ سبھا کے ارکان کے انتخاب تک میں کیا کھیل ہورہا ہے، سرکاریں اکھاڑنے وفاداراریاں بدلنے کے لیے، ای ڈی، سی بی آئی کا کھلم کھلا استعمال ہورہا ہے۔ اور آئی ٹی پر بی جے پی کا سیل بننے کا الزام لگ رہا ہے -سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگانا جیسے راہل کو گذشتہ سال ہتک عزت کے الزام میں قصور وار ٹھہرایا گیاتھا اور دوسال قید کی سزا سنائی گئی تھی، مہوا مؤئتراکو نااہل قرار دیاگیا۔

دسمبر 2023کے آخر میں بی جے پی نے پارلیمنٹ کے 141اپوزیشن اراکین جو سیکورٹی خامی کے خلاف احتجاج کررہے تھے کو معطل کرادیا-ہماچل میں راجیہ سبھا ممبر کے انتخاب کے وقت کانگریس کے کئی ممبران اسمبلی کوسی آر پی کی نگرانی میں ہریانہ کے ہوٹل میں قیام کرایاگیا، یہی معاملہ مہاراشٹر میں بھی دیکھنے کو ملا۔ راجستھان اور اب جھارکھنڈ کی سرکارکوگرانے کے لیے تمام گھوڑے کھول دئےگئے۔ رہی بیوروکریسی یا انتظامیہ تو وہ کس طرح سرکار کے اشاروں پر کام کررہی ہے وہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں، جن اداروں کا اوپر ذکر آگیا ہے ان کی کارکردگی سے ظاہر ہے۔

میڈیا کا زوال: آزاد میڈیا پر بھی زوال آگیا ہے۔ رپورٹرس ودھ آؤٹ بارڈر(Reporters Without Borders) کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں صحافیوں کے خلاف تشدد، متعصب میڈیا اور میڈیا کی ملکیت کے ارتکاز سے ظاہر ہوتا ہے کہ آزادی صحافت بحران کا شکار ہے۔ 2014 سے 2023 تک ملک کی آزادی صحافت کی درجہ بندی میں اکیس درجہ کی کمی آئی ہے-وہیں میڈیا نے حکومت کی خوشامد، غلامی کا طوق پہن لیا ہے۔ دوسری طرف اقلیتوں کے خلاف وہ روانڈا ریڈیو بن گیا ہے۔ خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا نے اسلاموفوبیا اور مسلمانوں سے نفرت کی سپاری لے لی ہے -سپریم کورٹ کے سابق جسٹس نے کہا کہ میڈیا جمہوریت، آئین اور سچائی کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق جسٹس (ریٹائرڈ) جوزف نے کہا کہ” حقائق سامنے آنے کا جرات مندانہ اور سچا ورژن کسی کو نہیں ملتا اور جمہوریت کو سب سے بڑا دھچکا یہ ہے کہ چوتھے ستون نے ملک کو مایوس کردیاہے۔ پہلے تین ستونوں کو بھول جائیں ۔ چوتھا ستون میڈیا ہے اور وہ جمہوریت کے تحفظ میں ناکام رہا ہے۔ وہ آئین کا تحفظ کرنے میں بھی ناکام رہا۔ وہ سچائی کا دفاع کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔

جب ریاست کا شہری ہرطرف سے مایوس ونامراد ہوجاتا ہے تو اس کی آخری امید عدلیہ ہوتی ہے اور جب وہاں سےبھی انصاف نہ ملے پھر وہ کہاں جائے۔ جب یہ احساس عام ہوجائے کہ عدلیہ بھی اشاروں پر کام کررہی ہے تو یہ ناکام ریاست کی طرف لے جاتی ہے -عدلیہ کے مختلف معاملوں پر جو فیصلے آرہے ہیں ایک جانب چوروں، قاتلوں ڈکیتوں اور زانیوں کو کھلے عام پیرول، قید سے رہائی اور ضمانتیں مل رہی ہیں ۔ وہیں انسانی حقوق کے کارکن، سوشل ایکٹوسٹ، سیاسی کارکن ٹھوس وجوہات کے باوجود ضمانتوں سے محروم کیے جارہے ہیں ۔ ان میں بھی زیادہ تعداد اقلیتوں، دلتوں اور آدیواسیوں کی ہو تو انصاف کے پیمانے اعتبار کھو دیتے ہیں ۔ سی اے اے تحریک کے سیکڑوں کارکن جیلوں میں سڑائے جارہے ہیں، احتجاج کے راستے بند ہیں ۔ کسانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ان کی راہوں میں کیلیں، سیمنٹ کے روڑے اور کنٹینر ڈالے جارہے ہیں تاکہ وہ دہلی نہ پہنچ سکیں ۔ بند کی کال دینے والوں سے بازار بند سے ہونے والے نقصانات کی وصولی ریاستی دہشت گردی کی علامات بن گئی ہے۔

کھیل کے اصول مکمل طور پر اور ناقابل واپسی طور پر بدل گئے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ قیادت صرف ایک چیز پر یقین رکھتی ہے: غیر محدود اور بے لگام جنگ۔ جب تک کہ مخالف کو مکمل طور پر شکست نہ دےدی جائے اور وہ ہتھیار نہ ڈال دے۔

اپوزیشن کا رویہ : 2014 کی ہار کے بعد لگتا ہے اپوزیشن نے ہتھیار ڈال دیے ہیں ۔ وہ بی جے پی کی پچ پر کھیل کر لگاتار ہار رہی ہے اور جہاں جیتتی ہے، وہاں سرکار بچانا مشکل ہورہا ہے۔ بی جے پی کے نیریٹو (بیانیہ) اور perception کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں ۔ اس کے سب سے بڑے ووٹ بینک مانے جانے والے یعنی مسلمانوں کا ووٹ بے اثر کردیاگیا۔ قانون ساز اداروں میں ان کی نمائندگی کم ہورہی ہے۔ چناں چہ اپوزیشن پارٹیاں مسلمانوں تو دور اقلیت تک کا نام لینے سےبھی گریز کرنے لگی ہیں کہ ہندو ووٹ ہاتھ سے نہ چلا جائے-بی جے پی جارحانہ اقدامات ورویہ نے ان کا دم نکال دیا ہے۔ وہ نظریاتی جنگ ہارتے لگ رہیں ہیں ۔ اب ہندوتو، ہندوراشٹرواد اور ہندو اکثریت کی مسلم نفرت پر انگلی اٹھانے کی ہمت کرنے والے معدودےچند ہیں، جیسے راہل، تیجسوی، اسٹالن جب کہ ممتا اور نتیش سیاسی مفادات کی مجبوری کی ترازو دیکھ کر بولتے ہیں ۔ بدقسمتی سے اپوزیشن کے بیشتر رہ نما اور جماعتیں اب بھی ایسےہی کام کر رہی ہیں اور برتاؤ کر رہی ہیں جیسے 20ویں صدی میں سیاست ہو رہی ہو۔ جب سے بی جے پی نے بغیر کسی سرحد کے سیاسی جنگ کا ایک نیا دور شروع کیا ہے، اپوزیشن لیڈروں اور پارٹیوں کے پاس جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بی جے پی سرکش فوج کی طرح دام، دام، فنڈ ہر طرح کی حکمت عملی سے کام لے کر اپنے مقصد کی طرف بڑھتی جارہی ہے

مسلم لیڈر شپ کا رویہ

ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیڈرشپ نے زمینی حقائق و مسائل کا ادراک نہیں کیاہے۔ وہ نام نہاد سیکولر اپوزیشن پارٹیوں پر بھروسا کیے ہوئے ہے کہ ہماری جنگ وہی لڑیں گی۔

جب کہ ان پارٹیوں کے لیے اپنا وجود بچانا ہی مشکل ہوگیا ہے۔ پھر 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں ان کو یقین ہوگیاتھا کہ مودی الیکشن ہار رہے ہیں اور کانگریس کی قیادت میں سرکار آجائے گی۔ پھر 2022کے یوپی اسمبلی الیکشن میں لگا کہ یوگی کی ہار پکی ہےلیکن یسا نہیں ہوا۔ ایک بات جواس کی اسٹریٹجک غلطی کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے سرکار سے ڈائیلاگ کے تمام راستے بند کردئے ہیں ۔ اس نے سرکار اور اور پارٹی کے درمیان فرق نہیں کیا ہے حالاں کہ کھلے دشمنوں سے بھی رابطے رکھے جاتے ہیں اس کا نقصان پوری ملے بھگت رہی ہے۔

موجودہ صورت حال کے لیے صرف مودی ہی ذمہ دار نہیں ہیں، ان کو آئینی اداروں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور مسلمانوں کی جانب سے بھی واک اوور ملتا رہا ہے۔ مودی نے ایسی ٹیم تیار کی جوساتوں دن اور چوبیس گھنٹے کام کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ پوری پارٹی نظریاتی وفاداری کے ساتھ انتخابی مشنری میں ڈھل گئی ہے۔ 2025 میں آر ایس ایس کے سوسال پورے ہورہے ہیں اور ترنگا کی جگہ بھگوا جھنڈا دیش کی قومی شناخت بننے کا خواب پورا کرسکتا ہے۔

سوال پھر بھی یہی ہے کیا سارے امکانات ختم ہوگئے ہیں؟کیا خطرات و امکانات جو ان سطور میں ظاہر کیے گئے ہیں 2024ویسا ہی رنگ بھرے گا -مودی کی طاقت سب کچھ بھسم کردے گی یا پھر جمہوریت اور سیکولرزم کے کم زور ہوتی جسم میں کچھ چنگاریاں باقی ہیں ۔ آخر میں وہی بات یعنی 22جنوری کو نریندر مودی کس نئے کال چکر کی بات کر رہے تھے؟

جواب یہ ہے کہ2014 سے بہت کچھ ہو رہا ہے، ملک کے سیکولر اور جمہوری ڈھانچہ کو بدلنے کی کوششوں کےساتھ ہندوستان کی اقلیتوں میں عدم تحفظ پیدا کردیا گیاہے۔ اقلیتوں کو ہر سطح پر تذلیل وپسماندہ کیا جا رہا ہے۔

معروف صحافی نیلنجن مکوپادھیائے کا کہنا ہے، پی ایم نے کہاتھا کہ رام للا اب خیمے میں نہیں بلکہ دیوانی مندر میں رہیں گے۔ ” لیکن ہندوستان کے سیکولر آئین کی افضلیت اور عظمت کا کیا ہوگا؟پچھلے تین برسوں میں پی ایم مودی نے ایسے چار پروگراموں میں شرکت کی جس میں مذہب، سیاست اور ہندوستانی ریاست کو ملایا گیا تھا۔

چاروں میں پی ایم مودی نے میزبان کا کردار ادا کیا۔ سب سے پہلے، پی ایم مودی نے 5 اگست 2020 کو ایودھیا میں رام مندر کے لیے بھومی پوجن کیا۔ اس کے بعد دسمبر 2020 میں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا بھومی پوجن کیا گیا۔ تیسرا، پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح گذشتہ سال مئی کے مہینے میں ہوا تھا، جو مکمل طور پر ہندو علامتوں اور رسومات کے ساتھ کیا گیا تھا۔ ’’یہ اپنے آپ میں قابل اعتراض ہے کیوں کہ ایک سیکولر ملک کی پارلیمنٹ کا افتتاح ہندو رسومات کے مطابق کیا گیا تھا۔ گویا ہندو ازم ہندوستان کا ریاستی مذہب ہے۔ چوتھا، انھوں نے رام مندر کا افتتاح کیا اور خود میزبان بنے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان رسمی طور پرایک مذہبی ریاست بن گیاہے۔

کیا یہ مان لیا جائے کہ 2024 بی جے پی کے نام ہونے جارہا ہے اب کی با چارسو پار کا نعرہ دے کر اس نے ایک نفسیاتی اور اعصابی جنگ چھیڑدی ہے۔ دوسری طرف انڈیا گٹھ بندھن نیائے یاترا اور سیٹ گٹھ بندھن کے ساتھ پارٹی بچانے میں لگا ہے۔ ایسی صورت میں وہ چڑھتی ندی کا مقابلہ کیسے کرسکتا ہے۔ یاپھر بی جے پی انڈیا شائننگ کی طرح ایک بار پھر بڑا غوطہ کھا سکتی ہے -بظاہرایسا لگتا ہےکہ بی جے پی کی خود اعتمادی ہی اسے ہرا سکتی ہے۔ کیوں کہ perception اور narrative کی لڑائی میں اپوزیشن سے بہت آگے ہے۔ راہل بھلے کہیں کہ یہ وچاردھارا کی لڑائی ہے مگر ان کے پاس محبت کی دکان کے علاوہ کوئی وچاردھارانہیں ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کوہندوتو، ہندوتوواد، ہندوراشٹر، ہندو راشٹرواد، وندے ماترم، بھارت ماتا کی جے۔ سنکسرتی راشٹرواد، اسلامی فوبیا، مسلمانوں سے نفرت اور پاکستان، جیسے بیانیے کا جوابی بیانیہ تیار کرنا ہوگا۔ کیا اپوزیشن اس کے لیے تیار ہے۔ کیا مسلمان تیار ہیں ۔ مزاحمت اور جدوجہد کا راستہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ ہمت ہارنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مائنس کی لکیر کتنی بڑی کیوں نہ ہو پلس کا چھوٹا سا نشان اس کی طاقت و وقعت کھو دیتا ہے۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے کو ماچس کی ایک تیلی کی روشنی نگل لیتی ہے۔ 2024 میں کتنے ہی خدشات و اندیشے ہوں امکانات کی روشن ستارے بھی چمک رہے ہیں ۔