شیئر کیجیے

بنگال میں سیکولر جماعتوں کی کام یابی مسلم ووٹر زپر منحصر

نور اللہ جاوید

محض ایک دہائی قبل تک بنگال میں انتخابات ’روٹی، کپڑا اور مکان ‘ کے نام پر لڑے جاتے تھے اور اس نام پر ووٹروں کو مطمئن کرنے والی جماعت کو کامیا بی نصیب ہوتی تھی۔ مگر حالیہ برسوں میں بنگال کی سیاست ملک کے دیگر حصوں بالخصوص شمالی ہند کی سیاست سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ بنیادی ایجنڈےسیاست سے غائب ہوگئے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کو اندیشہ ہے کہ اگر انھوں نے اپنے انتخابی مہم اور منشور میں ہندتو کا تڑکانہیں لگایا تو انھیں ریاست کے 70فیصد اکثریتی طبقے کی بے التفاتی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تاہم ریاست کے30فیصدمسلم ووٹر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چناں چہ ایک طرف مسلم ووٹروں پر اجارہ داری قائم رکھنےکی فکر ہے، وہیں ہندتو کی سیاست بھی جاری ہے۔ چناں چہ اس سال بجٹ میں ممتا بنرجی نے بنگال کے سیاحتی شہر دیگھا میں بنگال حکومت کی نگرانی میں 100ایکڑ سے زمین پر تعمیر ہونے والےجگن ناتھ مندر کے فنڈ میں اضافے کے ساتھ کلکتہ شہر میں واقع کالی مندر کی تزئین و آرائش کے لیے بھی سرکاری خزانے سے فنڈ مختص کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سیکولر کردار کی حامل ممتا بنرجی سے کسی نے بھی سوال نہیں کیا کہ کیا مذہبی مقامات کی تعمیر کے لیے سرکاری خزانے کا استعمال غیر آئینی نہیں ہے؟۔ دوسری طرف توازن قائم کرنے کے لیےملک کی ایک مشہور مسلم تنظیم کو دیگھا میں مسجد کی تعمیر کی ذمہ داری دی گئی ہے اور ایک قطعہ اراضی بھی مختص کردیا گیا ہے۔ گرچہ ابھی اس کا باضابطہ سرکاری طور پراعلان نہیں ہوا ہے۔

بنگال کے سیاسی منظرنامے میں بتدریج مسلمانوں کی موجودگی اور اقلیتوں کے ترقیاتی ایشوز غائب ہوتے جارہے ہیں ۔ مگر مسلم ووٹوں پر اجارہ داری کو لے کر سیاسی جماعتوں میں مقابلہ آرائی اندرون خانہ جاری ہے۔ چناں چہ ایک طرف ترنمول کانگریس کو یہ خوف ستارہا ہے کہ کانگریس سے اتحاد نہ ہونے کی صورت میں اگر مسلم ووٹوں کی تقسیم ہوتی ہے تو اس کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ لہذا ایک طرف ترنمو ل کانگریس بنگال میں تنہا انتخاب لڑنے کی بات کررہی ہے تو دوسری طرف کانگریس سے اندرون خانہ بات چیت بھی جاری تھی۔ کانگریس کی ریاستی قیادت بائیں محاذ کے ساتھ اتحاد کے حق میں ہے جب کہ مرکزی قیادت ممتا بنرجی کے ساتھ چلنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا جوڑ توڑ اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ بنگال کے عوام کیا سوچ رہے ہیں؟ کیا ممتا بنرجی گذشتہ انتخابات کی طرح مسلم ووٹر پر اپنی پکڑباقی رکھ پائیں گی؟مگر اس سےبھی بڑا سوال یہ ہے کہ ممتا بنرجی جو اپوزیشن اتحاد کی سب سے بڑی داعی تھیں وہ کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے گریز کیوں کررہی ہیں؟ان کے بیانات میں کانگریس کے تئیں اس قدر تلخیاں کیوں ہے؟ اور ریاست کے 30فیصد مسلم ووٹر کیا سوچ رہے ہیں ۔

2011میں ممتا بنرجی جب پہلی مرتبہ اقتدار میں آئیں تو ان کے پیچھے مسلم ووٹوں کے اتحاد کا کلیدی کردار تھا۔ تاہم مسلم اکثریتی اضلاع مالدہ، مرشدآباد اور شمالی 24دیناج پور میں کانگریس کادبدبہ باقی رہا۔ 2016کے اسمبلی انتخابات میں بھی ان اضلاع میں کانگریس نے بہتر ین کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ مگر بی جے پی کا عروج ممتا بنرجی کےلئےمواقع لے کر آیا۔ ترنمول کانگریس مسلم ووٹوں کو پولرائز کرنے میں کام یاب رہی۔ 2021کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور بایاں محاذ صفر پر پہنچ گے اس کے پیچھے مسلم ووٹروں کی بے اعتنائی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ تاہم 2021کے اسمبلی انتخابات میں مغربی بنگال کی مشہور خانقا ہ فرفرہ شریف جن کے دیہی علاقوں بالخصوص شمالی 24پرگنہ، جنوبی 24پرگنہ، ہوڑہ اور ہگلی میں ماننے والے کی تعداد لاکھوں میں ہے، سے تعلق رکھنے والے عباس صدیقی کی قیادت میں ایک سیاسی جماعت آئی ایس ایف وجود میں آئی۔ عباس صدیقی کی نوجوانوں میں مقبولیت کا انداز ہ لگاتے ہوئے بائیں محاذ اور کانگریس نےان سے اتحاد کیا۔ محض تین ماہ قبل تشکیل پانے والی سیاسی جماعت آئی ایس ایف 2021کے اسمبلی انتخابات میں نہ صرف ایک سیٹ جیتنے میں کام یاب رہی بلکہ نصف درجن سیٹوں پروہ دوسری پوزیشن پر رہی اور معمولی ووٹوں سےاس کے امیدواروں کو شکست ہوئی۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جس کے کارکنا ن غیر منظم ہوں، اس کے حامیوں کی بیشتر تعداد غریب مسلمانوں میں سے ہو، اس کے باوجود اس کی یہ کام یابی نہ صرف حیران کن تھی بلکہ ترنمول کانگریس کے لیےکسی الآرم سے کم نہیں تھی۔ چناں چہ گذشتہ تین برسوں میں ترنمول کانگریس نے آئی ایس ایف کو توڑنے اور اس کو کم زور کرنے کی بھر پور کوشش کی۔ لیکن پھر بھی 2022میں ہوئے پنچایت انتخابات میں جنوبی 24پرگنہ میں آئی ایس ایف ترنمول کانگریس کا مقابلہ کرنے میں کام یاب رہی اور سیاسی تشدد، ہنگامہ آرائی کے باوجود اپنے امیدواروں کو کام یاب کراپائی۔ 2021کے اسمبلی انتخابات بائیں بازو، کانگریس اور انڈین سیکولر فرنٹ (ISF) کا مشترکہ ووٹ شیئر10فیصد تھا۔ مگر پنچایت انتخابات کے بعد 20فیصد تک پہنچ گیا۔ سیاسی تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ اگر انتخابات پرامن ماحول میں ہوتے توان تینوں جماعت کا ووٹ شیئر 30فیصد تک پہنچ جاتا۔ بی جے پی جس نے 2019کے لوک سبھا انتخابات میں 40فیصد ووٹ حاصل کیا تھا، اس کا ووٹ فیصد گرگر 23فیصد تک آگیا۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اساتذہ تقرری گھوٹالہ، راشن گھوٹالہ، مویشی گھوٹالہ اور دیگر گھوٹالوں میں ترنمول کانگریس کے لیڈروں کے ملوث ہونے اور دیہی علاقوں میں غنڈہ گردی میں اضافہ کی وجہ سے عام لوگوں میں ناراضی ہے۔ ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ترنمول کانگریس کے مقابلے بی جے پی کو ووٹ دینا نہیں چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان تین جماعتوں کے اتحاد کو لے کر ممتا بنرجی میں تشویش پائی جاتی ہے۔ 22 جنوری کو رام مندر کے افتتاح کے جواب میں ممتا بنرجی نے کلکتہ میں ’’فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘ ‘ ریلی نکالی اور اس کے بعدشہر کے مسلم علاقہ میں واقع پارک سرکس میدان میں مسلمانوں کے اجتماع سے خطاب میں انھوں نے بی جے پی مخالف ووٹوں کی تقسیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کی کسی بھی طرح مدد نہیں کی جانی چاہیے۔ ووٹوں کی تقسیم کرکے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والوں کو خدا معاف نہیں کرے گا‘‘۔ اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم ووٹوں کی تقسیم ممتا بنرجی کے لیے کتنی پریشان کن ہے۔ بنگال کی 42سیٹوں میں کم سے کم 30ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن پوزیشن میں ہے۔ مسلم ووٹوں کے انتشار سے بی جے پی کو براہ راست فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ گذشتہ انتخابات میں مالدہ، رائے گنج جہاں مسلم ووٹروں کی شرح 50فیصد ہونے کے باوجود یہاں سے بی جے پی کو کام یابی ملی تھی۔

مغربی بنگال میں انتخابات ہمیشہ سے دو قطبی رہا ہے۔ سہ طرفہ مقابلہ یہاں کبھی بھی نہیں ہوا۔ تاہم پنچایت انتخابات کے نتائج جو آئے ہیں اگر یہی ٹرینڈ باقی رہا ہے تو گذشتہ انتخابات کی طرح بی جے پی کےلیے18سیٹوں پر کام یابی برقراررکھنا مشکل ہوگا۔ کیوں کہ بی جے پی نے گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں زیادہ تر سیٹیں جنوبی بنگال پرولیا، بانکوڑہ، مغربی مدنی پور، بشنوپوراور جھاڑ گرام میں جیتی تھیں ۔ اسی طرح شمالی بنگال میں دارجلنگ، جلپائی گوڑی، کوچ بہار، علی پور دوار، رائے گنج، بالور گھاٹ جیسی سیٹوں پر کام یابی حاصل کی تھی۔ جب کہ چند سیٹیں جنوبی 24پرگنہ کے بنگاؤں، بارک پور، رانا گھاٹ، ہگلی، بردوان اور آسنسول میں حاصل کی تھی۔ جنوبی بنگال میں پنچایت انتخابات کے دوران سی پی آئی ایم نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسی طرح شمالی بنگال کے مالدہ، مرشدآباد اور شمالی دیناج پور میں کانگریس نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسی طرح جنوبی اور شمالی 24پرگنہ میں آئی ایس ایف نے جم کرمقابلہ کیا تھا، تو ان اضلاع میں مقابلہ سہ طرفہ ہوسکتا ہے۔ جب کہ علی پور دوار، کوچ بہار اور جلپائی گوڑی میں ترنمول کانگریس نے واپسی کی ہے۔

جہاں تک سوال یہ ہے کہ ممتا بنرجی کانگریس کے لیےکوئی جگہ چھوڑنا کیوں نہیں چاہتی ہے؟۔ اس سوال کا جواب گذشتہ سال مارچ میں ہوئےمرشدآباد کے ساگر دیگھی حلقہ کے ضمنی انتخابات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ مارچ 2023 میں ہونے والے اس ضمنی انتخاب میں، بائیں بازو اور آئی ایس ایف کے تعاون سے کانگریس نے مسلم اکثریتی حلقہ ساگر دیگھی میں 98622 ووٹوں سے جیت حاصل کی۔ اس کا صاف پیغام تھا کہ مسلمانوں کا اعتمادترنمول پر سے متزلزل ہورہا ہے۔ ساگردیگھی میں مسلمانوں کی آبادی 68 فیصد سے زیادہ ہے، اور 2011، 2016 اور 2021 میں ترنمول کانگریس نے یہاں سے جیت حاصل کی تھی۔ 2021میں ترنمول کانگریس کے سبرتو ساہا نے دومرتبہ مسلم اکثریتی علاقے سے جیت حاصل کی تھی۔ 2021میں ترنمول کانگریس کو 50.95فیصد ووٹ ملے تھے۔

سیاسی تجزیہ نگار بسواجیت چکرورتی کا ماننا ہے کہ ممتا بنرجی کے لیے کانگریس اور بائیں بازو کے مقابلے بی جے پی کا اپوزیشن میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ کیوں کہ مذہبی خطوط پر ووٹوں کا پولرائزیشن سے دونوں کا فائدہ ہے۔ ساگردیگھی کے بعد، ممتا بنرجی کو احساس ہوا کہ وہ کانگریس کو کوئی جگہ دینے کی متحمل نہیں ہو سکتیں ۔ کیوں کہ کانگریس کے فائدے میں ان کا نقصان ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو چھ سیٹیں جیتنے کی اجازت دینے کا مطلب کانگریس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی اجازت دینا ہے۔ اس لیے سیاسی حکمت عملی کے تحت ترنمول کانگریس سیٹوں کی تقسیم کی بات چیت کو ناکام بناتی رہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ راہل گاندھی کے یاترا کے درمیان رخنہ ڈالتی ہوئی نظرآئیں اور کانگریس کی شدید تنقید بھی کی۔ چکرورتی کہتے ہیں کہ بائیں بازو اور کانگریس کے برعکس، ممتا کے پاس ریاست سے بی جے پی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی حقیقت میں کوئی نظریاتی وابستگی نہیں ہے۔ درحقیقت حکمت عملی کے اعتبار سےکم زور بی جے پی کی موجودگی ترنمول کانگریس کے لیےزعفرانی پارٹی کے خطرے کو ووٹرز کے سامنے پیش کرکے مسلم حمایت حاصل کر نا زیادہ آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں سندیش کھالی کا واقعہ، جس نے ملک بھر میں شہرت حاصل کی کوبی جے پی قیادت نے قبائلی بنام مسلمان بنانے کی کوشش کی۔ یہ بیانات دئیے گئے کہ سندیش کھالی میں مسلمان شاہجہاں شیخ کے ذریعے قبائلی خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ مگربی جے پی کی ان کوششوں کا ترنمول کانگریس کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

جہاں تک مسلم ووٹرس کا سوال ہے تو یہ واضح ہے کہ مجموعی طور پرمسلمانوں کا رجحان ترنمول کانگریس کی طرف زیادہ ہے۔ ممتا بنرجی اب بھی مسلمانوں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں ۔ مگر مسلمانوں کے ایک بڑے حلقے میں احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی کے نام پر مسلمانوں کو خاموش کردیا جاتا ہے مگر مسلمانوں کوحکومت کی جانب سے کیا مل رہا ہے؟۔ ترنمول کانگریس نے اپنی پارٹی میں اور پبلک ڈسکورس میں ’’دبنگ مسلم‘‘ قیادت کوآگے بڑھایا ہے اور سنجیدہ و تعلیم یافتہ قیادت کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ’’دبنگ مسلم سیاسی قیادت‘‘یا پھر دبنگ مسلم سماجی کارکنان اقلیتوں کی ترقی کے لیےکام کرنے کے بجائے پارٹی کے ایجنڈے پر کام کرتے ہیں ۔ سندیش کھالی کا کلیدی ملزم شاہجہاں شیخ کاماضی داغدار رہا ہے اس کے باوجود وہ سندیش کھالی میں پارٹی کا چہرہ تھا۔ مغربی بنگال میں کئی ایسے علاقے ہیں جہاں دیہی باشندے حکمراں جماعت کی مرضی کے بغیر اپنے گھروں میں مہمان نوازی تک نہیں کرسکتے ہیں ۔ طالب علم لیڈر انیس الرحمن کے قتل، آئی آئی ٹی کھڑگپورمیں فیضان قتل معاملہ سے لے کر بیربھوم کے باگتوئی میں دس افراد کا زندہ جلایا جانا اور پھر پنچایات انتخابات کے دوران بھانگر اور دیگر مسلم اکثریتی علاقوں میں تشدد کے واقعات اور ایک درجن سے زائد افراد کی موت نے سنجیدہ مسلم طبقے کوسوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ممتا بنرجی کی فکر یہی ہے کہ اگر دس سے 15فیصد مسلم ووٹ بھی ان کے خلاف چلایا گیا تو اس کا نقصان ترنمول کانگریس کو ہی ہوگا۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ کیا انھوں نے مسلمانوں کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اگر راہل گاندھی مرشدآباد میں بیڑی مزدروں سے بات کرتے ہیں تو وہ برہم ہوجاتی ہیں مگر گذشتہ دس برسوں میں ممتا بنرجی نےمرشدآباد کے بیڑی مزدوروں کو لاوارث چھوڑدیا ہے۔ آج بھی بیڑی مزدور کے معاوضے کی رقم طے نہیں ہوسکی ہے۔ مسلم اکثریتی علاقے میں بے روزگاری اور جہالت کی وجہ سے بنگالی مسلم مزدور ملک کی دیگر ریاستوں میں سب سے زیادہ مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔ ساگر دیگھی ضمنی انتخابات کے بعدممتا بنرجی نے اقلیتی ترقیاتی بورڈ، اقلیت پروفیشل بورڈ اور لیبربورڈ کی تشکیل کی تھی۔ ایک سال گزرجانے کے باوجود ان تما م بورڈ ؤں کے کارنامے سامنے نہیں آئے۔

تاہم المیہ یہ ہے کہ مسلم قیادت وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھنے اورسیاسی جماعتوں کے چال سے بچنے اور مسلمانوں کی ترقی پر فوکس بنائے رکھنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔ سندیش کھالی کے واقعے کو ہندو مسلم یا پھر مسلم بنام قبائلی کہاجارہا تھا۔ مگر مسلم قیادت نےسندیش کھالی پر حق و انصاف کے ساتھ کھڑے ہوکر شاہجہاں شیخ اور اس کے قریبیوں کے مظالم کی مذمت کرنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی۔ اس سے بی جے پی یہ پیغام دینے میں کام یاب رہی کہ بنگال کے مسلمان شاہجہاں شیخ جیسے عناصر کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔