شیئر کیجیے

پارلیمانی انتخاب اور مہاراشٹر کا سیاسی منظرنامہ

نہال صغیر

دو سو اٹھاسی رکنی مہاراشٹر ریاستی اسمبلی میں کل 48پارلیمانی سیٹ ہیں ۔ اتر پردیش کے بعد سب سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ مہاراشٹر سے آتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹر بھی ان چند اہم ریاستوں میں سے ہے جو مرکز میں حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہاں سے 2019 میں بی جے پی کو 23 شیو سینا کو 18این سی پی کو 4سیٹیں ملی تھیں ۔ اسمبلی الیکشن 2019میں بی جے پی کو 105 شیو سینا 56کانگریس 44 اور این سی پی کی 54 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں ۔ اسمبلی الیکشن بی جے پی اور شیو سینا نے مشترکہ طور پر لڑا تھا لیکن الیکشن کے بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے پر تنازع کھڑا ہوا اور نتیجہ کے طور پر شیو سینا اور بی جے پی میں دہائیوں پرانا اتحاد ختم ہوگیا۔ سیاسی تجزیہ نگاربتاتے ہیں کہ اس تکرار میں اہم کردار شرد پوار کا رہا۔ انھوں نےشیو سینا کی کم ہوتی سیٹوں پر ادھو ٹھاکرے اور سنجے راوت کو احساس کرایا کہ اگر وہ بی جے پی کے ساتھ رہے تو کہیں ان کے وجود پر ہی سوالیہ نشان نہ لگ جائے۔ حالاں کہ سیٹیں تو بی جے پی کی بھی کم ہوئی تھیں اس کو 2014میں 122سیٹیں ملی تھیں لیکن 2019میں 105پر ہی سمٹ جانا پڑا۔ بی جے پی کو یہ نقصان کانگریس اور این سی پی کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے ہوا تھا۔

بہر حال طویل رسہ کشی کے بعد این سی پی اور کانگریس کی حمایت سے شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس پورے معاملہ میں بی جے پی کو مہاراشٹر کے اقتدار سے باہر ہونا پسند نہیں آیا اور ابتدا سے ہی موجودہ نائب وزیر اعلیٰ دویویندر فڑنویس حکومت کے گرجانے کی پیش گوئی کرتے رہے اور بالآخر بی جے پی موجودہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو شیو سینا سے توڑنے میں کام یاب ہوگئی۔ اس کا ایک لمبا ڈرامہ چلا جس میں کئی ایم ایل اے کے ساتھ ایکناتھ شندے آسام میں روپوش رہے اور جب حالات سازگار ہوئے تو واپس آئے اور 30جون 2022سے وہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ہیں ۔

ماضی میں مہاراشٹر کی سیاست میں کانگریس این سی پی اور شیو سینا کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کا کوئی خاص عمل دخل نہیں رہا ہے۔ لیکن بی جے پی ہمیشہ سے علاقائی پارٹیوں کے تعاون سے اپنی قوت کو ہندی ریاستوں کے علاوہ بھی مضبوط کرتی رہی ہے۔ یہاں بھی بی جے پی شیو سینا کے اشتراک سے قدم جمانے میں کام یاب ہوئی اور اب وہ شیو سینا سے بھی زیادہ مضبوط نظر آنے لگی ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ شیو سینا نے اپنے وجود کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کرلی۔ موجودہ حکومت میں دو باغی پارٹیاں شامل ہیں اور اس کے برسر اقتدار آنے کے بعدسے ہی فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور انھوں نے اپنی نفرت انگیز مہم کی شروعات کردی۔ اس کے نتیجے میں مہاراشٹر کے کئی شہروں میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑے۔ تاہم یہاں فرقہ پرستوں کو کام یابی نہ ملنے کی وجہ عوام میں اس کی پذیرائی کا فقدان ہے۔ مہاراشٹر سماجی مصلحین کی زمین رہی ہے اور یہاں پسماندہ بنام استحصالی طبقہ کی جدو جہد کی طویل تاریخ ہے۔ اسی لیے فرقہ پرستوں کی کوششوں کے باوجود پوری ریاست نفرت کے الاؤ کے حوالے نہیں ہوپارہی ہے۔

آئندہ پارلیمانی الیکشن کو بی جے پی ہر قیمت پر جیتنا چاہتی ہے۔ اسی لیے اس نے یہاں کی ادھو ٹھاکرے کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی اور اس میں وہ کام یاب بھی ہوگئی۔ لیکن چوں کہ وہ عوام کے مزاج کو سمجھ رہی ہے اس لیے اسے خوف بھی ہے۔ اسے یہ ڈر ہے کہ عوام کہیں اس کا کھیل نہ بگاڑ نہ دیں ۔ اسی وجہ سے اب تک میونسپل کارپوریشنوں کے انتخابات نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک سروے رپورٹ میں بھی یہ انکشاف ہوا کہ ابھی الیکشن ہوا تو مہاوکاش اگھاڑی کو ہی عوامی حمایت ملے گی۔ ان سیاسی حالات نے بی جے پی کو خوف میں مبتلا کررکھا ہے۔ معروف صحافی کمار کیتکر نے بھی اسی بات کااظہار کیا کہ بی جے پی کو2024میں اکثریت نہیں ملنے والی۔ ان کا تجربہ کافی پرانا ہے انھوں نے 2014میں بھی کانگریس کو باخبر کیا تھا کہ وہ انتخاب ہاررہی ہے۔

مہاراشٹر میں گرچہ بی جے پی نے دو اہم سیاسی ستونوں کو گراکر کچھ حد تک اطمینان کرلیا ہے کہ اسے یہاں سے اتنے ایم پی مل جائیں گے جس سے مرکز میں حکومت بنانے میں معاونت ملے گی۔ لیکن اس کے لیے ریاست کی راہیں آسان نہیں ہیں ۔ اس کی راہ میں کئی عوامی تحریکات اور مسائل میں منھ پھاڑے کھڑے ہیں ۔ کئی ماہ سے جرانگے پاٹل نام کے ایک غیر معروف مراٹھا نے حکومت کی نیندیں اڑا رکھی ہیں ۔ جرانگے پاٹل نے اپنی تحریک کئی بار حکومت کے وعدوں پر واپس لی ہے۔ جرانگے کی ریزرویشن تحریک نے مراٹھوں کو غیر معمولی طور پر متحدکیا ہے اور وہ بی جے پی کے خلاف ہی ہیں ۔ حکومت جرانگے کی وجہ مراٹھوں کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ اس نے دو مراٹھوں کو اسی مقصد کے تحت اپنے ساتھ ملایا ہے۔ شرد پوار کے بھتیجے اجیت دادا پوار اور کانگریس سے اشوک چوان کو بی جے پی میں شامل کرکے راجیہ سبھا کا ممبر بنوا دیا۔

ممبئی میں شیو سینا سے وابستہ اور سماجی کارکن عاکف دفعیدار نے بتایا کہ اگر بی جے پی کو یہاں کی سیٹ کے تعلق سے اعتماد ہوتا تو وہ یہ توڑ پھوڑ نہیں کرتی۔ اسے تشویش ہے اسی لیے موجودہ حکومت نے اب تک میونسپل الیکشن کا اعلان نہیں کیا ہے۔ کیوں کہ اس سے عوام کے مزاج کا پتہ چل جائے گا۔ جب پندرہ برسوں تک یہاں کانگریس این سی پی کی حکومت رہی تب بھی میونسپل کارپوریشنوں میں شیو سینا کا دبدبہ تھا۔ عاکف دفعیدار کے مطابق نوے فیصد شیو سینا کے ووٹر اب بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہیں ۔ صرف دس فیصد ہی ایک ناتھ شندے خیمہ میں جائیں گے۔ لیکن دوسری طرف جہاں کانگریس کو اشوک چوان کے جانے سے زیادہ نقصان نہ ہونے کی امید ہے، وہیں این سی پی میں بغاوت کی وجہ سے شرد پوار کو نقصان ہوسکت ہے۔ این سی پی باغی گروپ جو اب قانونی طور پر اصل این سی پی ہے کے قومی ترجمان اور اقلیتی شعبہ کے سربراہ سید جلال الدین کہتے ہیں اجیت دادا پوار کے ساتھ 44ایم ایل ہیں ۔ اس سوال پر کہ عوام کا رجحان کس طرف ہے؟ انھوں نے بتایا کہ مراٹھا سیاست ڈیری، شوگر اور بینکنگ کے سہارے چلتی ہے اور ان تینوں شعبوں کو حکومتی تحفظ کی ضرورت ہے اور یہ تحفظ جو فراہم کرے گا مراٹھا عوام اسی جانب جائیں گے۔

جرانگے کی ریزرویشن تحریک مراٹھوں کو بی جے پی اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتوں کےخلاف کررہی ہے۔ اس کے علاوہ خشک سالی اور کسانوں کی بڑھتی ہوئی خود کشی کے سبب موجودہ حکومت سے عوام برگشتہ ہو سکتے ہیں ۔ دیگر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ الیکشن میں بی جے پی اور اس کے ساتھ جانے والوں کو زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ ان کا سہارا بس ایک ای وی ایم ہے لیکن اس پر ابھی تک کوئی مضبوط آواز نہیں اٹھی ہے تاکہ عوام مطمئن ہوسکیں کہ الیکشن شفاف ہوگا۔