شیئر کیجیے

شہریت کا نیا سیاہ قانون اور عالمی رائے عامہ

سہیل انجم

مرکزی حکومت نے گیارہ دسمبر 2019ء کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا( راجیہ سبھا) میں کئی گھنٹے تک جاری تیکھی بحث کے بعد بالآخر شہریت کے نئے قانون سی اے اے کو منظور کرا لیا۔ اس سے قبل اسے ایوان زیریں (لوک سبھا )سے منظور کرایا جا چکا تھا۔ اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور اور افغانستان سے مذہبی بنیاد پر ستائے جانے کے بعد ہندوستان آنے والے چھ مذہبی اقلیتوں کے افراد کو ہندوستان کی شہریت دینے کا انتظام کیا گیا ہے۔ یہ مذہبی اقلیتیں ہیں: ہندو، سکھ، جین، پارسی، بودھ اور عیسائی۔ اس پر نہ صرف پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور اس کی پرزور مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس میں تین مسلم ملکوں کو اس لیے شامل کیا گیا تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ مسلم ملکوں میں مذہبی اقلیتوں پر ظلم ہوتا ہے۔
اس میں دوسرے ہمسایہ ملکوں کو کیوں نہیں شامل کیا گیا اس کا کوئی جواب حکومت نہیں دے پا رہی ہے۔ وہ اس کا بھی کوئی معقول جواب نہیں دے پا رہی ہے کہ اس میں ان ملکوں کے مسلمانوں کو کیوں نہیں شامل کیا گیا۔ اس بارے میں اس کی لولی لنگڑی دلیل یہ ہے کہ چونکہ مذکورہ تینوں ملکوں میں مسلمان اقلیت میں نہیں ہیں اس لیے ان کو اس سے باہر رکھا گیا ہے۔ کیونکہ بقول اس کے وہاں مسلمانوں پر ظلم نہیں ہو رہا ہے۔ ظلم صرف اقلیتوں پر ہو رہا ہے۔ اس سیاہ قانون کی شدید مخالفت اس لیے کی جا رہی ہے کہ یہ آئین کے خلاف ہے۔ آئین میں ہر شہری کو مساوی حقوق تفویض کیے گئے ہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی کو مذہب کی بنیاد پر شہریت نہیں دی جا سکتی۔ حکومت یہ دلیل دیتی ہے کہ پہلے بھی ان مذہبی اقلیتوں کے افراد کو شہریت دی جاتی رہی ہے، لہٰذا اب بھی دی جا سکتی ہے۔ لیکن وہ یہ بات گول کر جاتی ہے کہ ان کو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کے حالات کی بنیاد پر شہریت دی جا رہی تھی۔ اس لیے بہت سے مسلمانوں کو بھی دی جاتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی گلوکار عدنان سمیع کو بھی شہریت دی گئی اور اسی حکومت نے دی۔ جبکہ ان کے والد پاکستانی فوج میں ایک اعلی منصب پر فائز رہے اور ہندوستان کے خلاف جنگ میں شامل رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے اس قانون سازی کے پس پردہ ایک بہت بڑی سازش کارفرما ہے۔ دراصل آسام میں حکومت یا بی جے پی کے حسب منشا این آر سی کے نہ ہونے اور این آر سی سے باہر رہنے والے 19؍ لاکھ افراد میں سے غالباً 13؍ لاکھ ہندو ہونے کی وجہ سے حکومت سی اے اے لانے پر مجبور ہوئی۔ کیونکہ اگر وہ سی اے اے نہیں لاتی تو باہر رہ جانے والے ہندووں کو ہندوستانی بنانے اور حکومت میں برقرار رہنے کا اس کا منصوبہ پورا نہیں ہو پاتا۔ سیاسی تجزیہ کاروں اور اس پہلو کی باریکیوں پر نظر کھنے والوں کا کہنا ہے کہ در اصل جو ہندو این آر سی سے باہر رہ گئے ہیں ان کو سی اے اے کے تحت شہریت دے دی جائے گی۔ چونکہ اس قانون میں مسلمان نہیں رکھے گئے ہیں اس لیے باہر رہ جانے والے مسلمان شہریت سے محروم ہو جائیں گے۔ جب ملک گیر این آر سی ہوگا اس وقت میںیہ قانون کام آئے گا۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت نہ صرف مسلمان بلکہ بڑی تعداد میں ہندو بھی دستاویزات نہیں دکھا پائیں گے اور ان کے سروں پر بھی این آر سی سے باہر رہنے کی تلوار لٹک جائے گی۔ ایسے میں ان کو سی اے اے کے تحت شہریت دے دی جائے گی۔
بہر حال یہ قانون آئین کے منافی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور اس کے آئین کو پوری دنیا میں ایک وقار اور اعتبار حاصل ہے۔ اسی لیے جب مذکورہ قانون منظور کیا گیا تو دنیا بھر میں اس کے خلاف احتجاج ہونے لگا۔ اقوام متحدہ ہو یا امریکہ یا دوسرے ممالک سب اس قانون کے خلاف آواز بلند کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوتریس ابھی چند روز قبل پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ انھوں نے سی اے اے کے حوالے سے کہا کہ وہ ہندوستان میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کے تعلق سے بہت متفکر ہیں۔ ان کو اس قانون پر بہت تشویش ہے۔ انھوں نے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ڈان کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انھیں خدشہ ہے کہ اس قانون کی وجہ سے بیس لاکھ مسلمان بے وطن ہو جائیں گے۔ ان کے بقول وہ اس قانون کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے امتیاز پر تشویش زدہ ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے بھی اس قانون پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کے ترجمان جیری لارینس نے جینوا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہندوستان کے اس نئے شہریت قانون پر جو کہ بنیادی طور پر مذہبی امتیاز پر مبنی ہے، ہمیں بہت تشویش ہے ۔ ان کے مطابق ترمیم شدہ قانون آئین ہند میں دی گئی مساوات کی یقین دہانی کے منافی ہے۔ ساتھ ہی یہ قانون شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق عالمی قوانین اور نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق کنونشن کے بھی منافی ہے۔ ہندوستان نے اس کنونشن پر دستخط کیے ہیں اسے اس کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے۔
امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھی اس پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس نے بھی اس قانون کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کے بے وطن یا Stateless ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ (جب این آر سی نافذ ہوگا اور مسلمان اپنے دستاویزات نہیں دکھا پائیں گے تو) مسلمانوں کو یا تو ملک سے نکال دیا جائے گا یا انھیں ڈٹینشن سینٹرس یا حراستی مراکز میں طویل مدت تک ڈال دیا جائے گا۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی کی نگرانی کے ذمہ دار ایک اعلیٰ امریکی سفارتکار بھی اس قانون کے سلسلے میں فکر مند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہم ہندوستان کے اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن سی اے اے کے مضمرات کے بارے میں ہمیں تشویش ہے۔ امریکہ نے بارہا کہا ہے کہ کہ وہ ہندوستان کے اس قانون کا باریکی سے جائزہ لے رہا ہے اور اسے اس کے نتائج پر تشویش ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق مذہبی آزادی کا احترام اور قانون کے تحت سب کے ساتھ مساوی سلوک دونوں جمہوریتوں کی مشترکہ قدریں ہیں۔
ملیشیا نے تو اس قانون کے خلاف اور کشمیر سے دفعہ 370؍ کے خاتمے کے خلاف انتہائی سخت رخ کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے ہندوستان سے رشتے خراب ہونے کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں۔ ابھی رشتے خراب تو نہیں ہوئے ہیں لیکن ہندوستان نے ملیشیا کے وزیر اعظم مآثر محمد کے سخت موقف کی وجہ سے اس سے پام آئل کی خرید کم کر دی ہے۔ اس نے اس سلسلے میں اپنے قانون میں تبدیلی کی ہے۔ پہلے ہندوستانی کمپنیاں جب اور جتنا چاہتی تھیں اس سے خوردنی تیل خرید لیتی تھیں۔ لیکن اب انھیں حکومت سے اجازت لینی ہوگی۔ اجازت کے بعد ہی وہ پام آئیل ملیشیا سے خرید سکیں گی۔ لیکن ملیشیائی وزیر اعظم نے کہا کہ اگر چہ ہندوستان کے اس قدم سے ان کے ملک کو زبردست مالی نقصان ہو رہا ہے لیکن وہ حق بات کہتے رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے جبکہ وہ مسلمانوں کی شہریت چھیننے کے اقدامات کر رہا ہے۔ اگر ہم ملیشیا میں ایسا کریں گے تو مجھے معلوم نہیں کہ یہاں کیا ہوگا۔ ہر طرف افراتفری پھیل جائے گی اور ہر کوئی اس سے متاثر ہوگا۔ اس قانون کی نہ تو ضرورت تھی او نہ ہی یہ درست ہے۔ ترکی، ایران اور عراق میں بھی سی اے اے کے حلاف سخت رد عمل دیکھا گیا۔ ترکی نے بیان دیا ہے کہ یہ قانون انسانیت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ جبکہ ایران میں جگہ جگہ اس کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیںاور بعض دوسرےمسلم ملکوں میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔
مسلم ملکوں کے پلیٹ فارم ’’اسلامی تعاون تنظیم‘‘ (او آئی سی) نے بھی سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اس نے ہندوستان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مسلم اقلیت کو متاثر کرنے والے حالیہ اقدامات کا باریکی سے جائزہ لے رہی ہے۔تنظیم نے مودی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں مسلم اقلیت کی حفاظت اور ان کے مذہبی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کشیدگی بڑھ سکتی ہے اور پورے خطے میں امن و استحکام کے حوالے سے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔
یوروپی یونین نے بھی سی اے اے کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔ اس کی جانب سے اس قانون کے خلاف ایوان میں چھ قراردادیں پیش کی گئیں اور ان میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے امتیازی سلوک پر اظہار تشویش کیا گیا۔ ان قراردادوں پر ووٹنگ کی تاریخ بھی مقرر کی گئی لیکن پھر اسے مؤخر کر دیا گیا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یوروپی یونین نے سی اے اے کو انتہائی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ یوروپی ملکوں میں اس سیاہ قانون کے خلاف درجنوں مظاہرے ہوئے اور ان مظاہروں میں اس قانون کی جم کر مخالفت کی گئی۔ امریکہ میں بھی مظاہرے ہوئے اور برطانیہ میں بھی۔ ان مظاہروں میں لوگوں نے کھل کر کہا کہ ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے۔ لیکن اب مودی حکومت اسے ہندو اسٹیٹ بنانے کی کوشش کر رہی ہے جس کی شدید الفاظ میں مذمت ہونی چاہیے۔ اب بھی کہیں نہ کہیں مظاہرہ ہوتا ہی رہتا ہے۔
عالمی میڈیا نے بھی اس قانون پر رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمس، دی وال اسٹریٹ جرنل اور گارجین وغیرہ نے اپنے صفحہ اول پر ہندوستان میں اس قانون کے خلاف جاری احتجاجوں کی رپورٹنگ کی ہے۔ ان میں سے بعض اخباروں نے حکومت ہند کے اس قدم کے خلاف اداریے بھی تحریر کیے ہیں اور شہریت ترمیمی ایکٹ کو مسلم دشمن اور فسطائی قرار دیا ہے۔ دیگر ملکوں کے اخباروں نے بھی سی اے اے کو مسلم دشمن اور ہندوتو وادی قانون قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔ متعدد عالمی رہنماؤں نے بھی اس قانون کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے اور ہندوستان جیسے سیکولر ملک کو ایک ہندو اسٹیٹ میں تبدیل کیے جانے کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ اس طرح اگر ہم دیکھیں تو پوری دنیا میں اس کے خلاف زبردست ماحول ہے اور اس کے خلاف اب بھی احتجاج جاری ہے۔ لیکن حکومت پر ان احتجاجوں کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ وہ اسے اپنا اندرونی معاملہ بتاتی ہے لیکن دنیا اسے ہندوستان کا اندرونی معاملہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔