شیئر کیجیے

سنکیانگ: عرب دنیا کی خاموشی!

 

سنکیانگ، ایغور خود مختار علاقے میں چینی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر شہریوں کی نظربندی کا جو پروگرام جاری ہے، اس پر بحث کا اہم نقطہ ’’عرب حکومتوں‘‘کی خاموشی بھی ہے۔قطر واحد عرب ملک ہے جس نے پندرہ لاکھ مسلمان اقلیتوں کونام نہاد Re-education Campsـ کے نام پر چینی حکومت کی جانب سے نظربند کرنے پر تنقید کی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے چین کے اس اقدام کی انسدادِ دہشت گردی کی پالیسی کے ایک حصے کے طور پر توثیق کی ہے۔
کچھ مبصرین عرب دنیا کے اس رویے کو خطے میں چین کے معاشی اثرورسوخ سے منسوب کرتے ہیں۔اس مضمون میں مبصرین کی اس رائے کو چیلنج نہیں کیا جا رہا ہے، بلکہ خطے میں چین کے معاشی کردارکی موجودہ تفہیم اور’’سافٹ پاور‘‘کے ذریعے مفادات کے حصول کی تفہیم کی تکمیل کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔’’سافٹ پاور‘‘کی یہ مہم اسلامی اداروں اور چینی حکومت کے زیر اثر چلنے والے عربی زبان کے نشریاتی چینلوں کے ذریعہ چلائی جاتی ہے۔اس مہم میں مرکزی کردار ’’چینی اسلامک ایسوسی ایشن‘‘ادا کرتی ہے۔
اس مضمون میں بیجنگ کی جانب سے مسلمانوں کی نگرانی میں اضافے کے بعد سے ہونے والے تین بڑے واقعات کے بعد چینی اسلامک ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں کی چینی حکومت کے زیر نگرانی چلنے والے عربی چینل پرکوریج ہے۔
پہلا واقعہ ۲۰۰۹ء میں ارومچی فسادات کا ہے، جس میں دو سو(۲۰۰) لوگ مارے گئے۔ دوسرا واقعہ یکم مارچ ۲۰۱۴ء کو مبینہ طور پر ایغور کی جانب سے چاقو کے ذریعے حملے کا ہے، جس میں ۳۰ افراد ہلاک اور ۱۰۸؍افراد زخمی ہوئے تھے۔ اور تیسرا خود بڑے پیمانے پر جاری نظربندی کاپروگرام ہے، جو کہ ۲۰۱۷ء سے جاری ہے۔
جیسا کہ اس مضمون میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ کس طرح چینی اسلامک ایسوسی ایشن کے ریاستی نمائندوں نے عربی سامعین کے لیے سنکیانگ کے معاملے پر تین جہتی بیانیہ تشکیل دیا ہے۔ اس بیانیے میں چینی اسلام کی انفرادیت کا دفاع،غیر ملکی مداخلت کا خدشہ اور حج پالیسی میں کردار،ساتھ ساتھ مسلمان رہنماؤں اور اداروں سے تبادلہ خیال شامل تھے۔
چینی اسلامک ایسوسی ایشن کی ابتدا:
چینی اسلامی ایسوسی ایشن کی بنیاد ۱۹۵۳ء میں سنکیانگ کے پہلے گورنر برہان شاہدی نے ڈالی تھی۔ان دنوں کمیونسٹ حکومت اپنی رِٹ قائم کرنے کے لیے مذہبی عدالتوں کو زبردستی ’’پیپلز کورٹ‘‘میں تبدیل کر رہی تھی،ایسے وقت میں یہ مسلمانوں کی واحد قانونی انجمن تھی۔
۱۹۶۶ء میں ماؤزے تنگ کی حکومت نے ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف ملک افراتفری کا شکار ہو گیا بلکہ ریاست کے اقلیتوں سے تعلقات بھی نہایت خراب ہو گئے۔چینی حکومت نے مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا یا،ان کی مساجد کو شراب خانوں میں تبدیل کر دیا گیا، مسلمان علما کو کھلے عام خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا۔بہت سے مسلمانوں کو چینی ’’ریڈ گارڈز‘‘نے تشدد کر کے جاں بحق کر دیا ۔پورے ملک میں مسلمانوں کی مقامی انجمنوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ماؤزے تنگ نے مذہب کو پسماندگی اور توہم پرستی قرار دے دیا۔۱۹۷۶ء میں ثقافتی انقلاب کا اختتام ہوا تو چین پوری دنیا میں تنہا ئی کا شکار ہو چکا تھا،اور سوویت یونین کے ساتھ اس کے تعلقات دن بدن خراب ہوتے جا رہے تھے۔
سوویت یونین کے ساتھ چین کی جغرافیائی اور سیاسی رقابت نے چینی اسلامی ایسوسی ایشن کی سرگرمیوں کے بین الاقوامی سطح پر وسعت دینے میں اہم کر دار ادا کیا۔۱۹۷۹ء میں افغان سرزمین پر سوویت حملے نے بیجنگ کو خبر دار کر دیا۔ چینی پالیسی سازوں کو لگا کہ روس چین کو گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔سوویت یونین کی پیش قدمی کا خوف اس قدر تھا کہ چین نے خفیہ آپریشن کے ذریعے افغان مجاہدین کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کرنا شروع کر دیا۔دوسری جانب سوویت حملے نے چین کو یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ داخلی اوربین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو مسلم دنیا کا اتحادی ثابت کر سکے۔۵ جنوری ۱۹۸۰ء کو چینی اسلامی ایسوسی ایشن کی جانب سے بیان دیا گیا کہ ’’افغان عوام کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سے ہم سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کو برداشت نہیں کریں گے‘‘۔ جنوری ۱۹۸۰ء میں اسلام آباد میں ہونے والی مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں چین نے اسلامی ایسوسی ایشن کے ذریعے سوویت یونین کے خلاف لابنگ کی اور مسلمان ممالک کو یہ باور کرایا کہ مسلمان ممالک اگر سوویت یونین کی مخالفت نہیں کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ ماسکو کا اگلا ہدف کوئی اور مسلم ملک ہو‘‘۔
بیجنگ نے مسلم اکثریتی ممالک کے سامنے اپنی امیج بہتر کرنے کے لیے سنکیانگ کے مسلمانوں پر سے کچھ پابندیاں بھی اٹھائیں۔ثقافتی انقلاب کے دور میں لگنے والی پابندی کے بعد سنکیانگ اسلامک ایسوسی ایشن کو پہلی مرتبہ اپنا اجلاس بلانے کی اجا زت دی گئی۔ایغور زبان میں عربی حروف تہجی کو بحال کیا گیا۔اس کے علاوہ ہزاروں مساجد کو کھول دیا گیا اور ’’ورلڈ مسلم لیگ‘‘کے تعاون سے بہت سی مساجد کی ازسر نو تعمیر کی گئی۔
۲۰۱۳ء میں ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘منصوبے کے آغاز کے بعد وسط ایشیائی ممالک اور پوری مسلم دنیا سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے مسلم سافٹ پاور کو تیزی سے فروغ دیا گیا تاکہ ان ممالک سے وہ اپنی توانائی اورتجارتی ضروریات کو پورا کر سکے۔ بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی اور تیل کے بڑے ذخائر کے تناظر میں دیکھا جائے تو عرب ممالک چین کے لیے تزویراتی اہمیت کے حامل ہیں۔
اسلام کو چینی ثقافت میں ڈھالنے کا عمل
۲۰۱۸ء میں چینی اسلامک ایسوسی ایشن کونہ صرف چین کے تمام عربی چینلوں بلکہ الجزیرہ چینل نے بھی اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دی، جب اس تنظیم کے سربراہ Yang Famming نے بیجنگ میں ’’نیشنل پیپلز کانگریس‘‘ کے مشاورتی بورڈ سے خطاب میں مقامی مسلمانوں کو ’’اسلامائیزیشن‘‘ اور غیر ملکی مداخلت کے بارے میں متنبہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ مسلما ن مقامی رسم و رواج کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کریں،کیوں کہ چینی اسلام اپنی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔
Yang Famming کی تقریر کو جس طرح سے غیر معمولی کوریج دی گئی، اس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ آنے والے برسوں میں چینی اسلامک ایسوسی ایشن کو مسلمانوں کو پیغام دینے کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے گا۔اور اسلام کے چینی ماڈل کو تنظیمی نظریات کے ساتھ مربوط کیا جائے گا اور غیر ملکی اثرورسوخ کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔ ژی ژنگ کے دورِ حکومت میں ۲۰۱۶ء کے بعد سے ملک کے تمام مذاہب کو ’’چینی طرز‘‘پر ڈھالنے کی مہم میں غیر معمولی تیزی لائی گئی۔اس مہم کا بنیادی مقصد چینی اسلام اور عرب دنیا کے اسلام میں موجود مسابقت کو کم سے کم کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مساجد کے گنبدوں کو چینی طرز تعمیر میں تبدیل کر دیا گیا۔مذہب کو چینی طرز پر ڈھالنے کے عمل میں اور بھی بہت سی چیزیں شامل تھیں۔جیسےکہ مساجد کی داخلی گزرگاہوں پر چین کے جھنڈے لگانا،مذہبی رسوم پر پابندیاں،تدفین کے مذہبی طریقے پر پابندی،کاروبار میں اسلامی شناخت ظاہر کرنے والے عوامل کی روک تھا م وغیرہ۔
عرب عوام کے لیے بیانیے کی تشکیل میں چین نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی مہم کو چھپاکر جاری رکھا، اس کے ساتھ ساتھ ایغور کےمسلمانوں پر ظلم و ستم کو بھی منظر عام پر آجانے سے بچانےکے لیے ہر ممکن کو شش کی گئی۔ ایغور کے مسلمانوں کی شناخت کو تبدیل کرنے کے عمل سے انھیں خطے کے بقیہ مسلمانوں سے الگ کر دیا گیا تاکہ عرب دنیا کے لوگ ایغور کے مسلمانوں کو مظلوم نہ سمجھیں۔اسی طرح چینی حکومت نے غیرملکی غیر سرکاری تنظیموں کو محدود کرنے کے لیے لازم کر دیا کہ وہ حکومتی ریگولیٹری اتھارٹی سے اپنے آپ کو رجسٹر کروائیں۔
۵ جولائی ۲۰۰۹ء میں ارومچی میں ہونے والے فسادات کے بعد حکومت کی حکمت عملی کھل کر سامنے آئی۔۸ جولائی کو چین کے بڑے اخبار ’’پیپلز ڈیلی‘‘ نے چینی اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر Chen Guangyuan المعروف ہلال دین کا انٹرویو چھاپا،جس میں انھوں نے حملہ کرنے والوں کو فسادی قرار دیا اور اس عمل کو اسلام کی روح کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ یہ عمل قابل معافی نہیںہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے ان فسادات میں غیر ملکیوں کے ملوث ہونے کا بھی ذکر کیا۔ ۱۷ جولائی کو اسی اخبار نے تنظیم کے نائب صدر کا انٹرویو شائع کیا، جس میں انھو ں نے مساجد بند کرنے کے حکومتی اقدام کو اسلامی قوانین(جنگ اور وبائی امراض کے حوالےدے کر) کے مطابق قرار دیا۔ پانچ دن بعد ہی تنظیم کے ایک اور عہدیدار کا انٹرویو شائع کیا گیا، جس میں انھوں نے حکومت کے مذہبی زندگی کے حوالے سے ۲۰۰۶ء کے قوانین کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔
۲۰۰۹ء میں اخبار ’’پیپلز ڈیلی‘‘ نے اپنے طریقہ کار سے ہٹ کر ایک کالم کا عربی ترجمہ شائع کیا، جو دراصل ایک پروپیگنڈا کالم تھا،جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طر ح چینی اسلامک ایسوسی ایشن نفرت انگیز مواد کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہاہے اور ایغور مسلم نوجوان اس کا م کی مکمل حمایت کر رہے ہیں اور معاشرے سے عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے معاشرے کے تمام طبقے متحد ہیں۔
اگلے برس مئی میں ایک دفعہ پھر ’’پیپلز ڈیلی‘‘ میں چینی اسلامک ایسوسی ایشن کا بیان شائع ہوا، جس میں تنظیم نے American International Religious Freedom Committee کی جانب سے چینی مسلمانوں پر حکومتی تشدد کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں کی مذمت کی تھی۔ Chen جسے مقامی اما م ظاہر کیا گیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ امریکی ادارہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے حوالے سے منافقانہ رائے رکھتا ہے۔ امام صاحب کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے افراتفری پھیلائی وہ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے اور چینی مسلمان ان انتہاپسندوں کے خلاف حکومت کے ہر اقدام کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔اس طرح کالم مختلف مواقع پر پیپلز ڈیلی میں چھپتے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس اخبار کے عربی شمارے میں بھی یہ پروپیگنڈا جاری رہاہے۔ کچھ عرصے بعد چینی اسلامی ایسوسی ایشن نے مقامی مسلمانوں میں حب الوطنی کے جذبے کو ابھارنے کے لیے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے مختلف قسم کے لٹریچر کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا اور مقامی مسلمانوں کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ ان تراجم سے رہنمائی حاصل کریں۔اور آئندہ بھی اس قسم کے تراجم وغیرہ شائع کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
حج ڈپلومیسی:
چینی اسلامک ایسوسی ایشن ۱۹۵۵ء سے ہر سال حج کے انتظامات وغیرہ کا اہتمام کرتا ہے اور ہر سال گزشتہ برس کی کامیاب سرگرمیوں کی رپورٹ بھی شائع کرتاہے۔ جس میں حاجیوں کی تعداد ان کی فلائٹو ں کی تعداد اور ان کو دی جانے والی سہولیات کا بھی ذکر ہوتا ہے،اور ساتھ ساتھ حکومتی اقدامات کی تعریف بھی کی جاتی ہے۔جس سال ارومچی میں فسادات ہوئے اس کے اگلے سال جو رپوٹ شائع ہوئی اس میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا تھا کہ مخصوص علاقے سے حاجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔
پیپلز ڈیلی نے چینی اسلامی ایسوسی ایشن کی حج سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر اپنے اخبار میں جگہ دی اوراس کے ساتھ ساتھ نیشنل جیوگرافک اور China International Movie TV-Center نے مل کر چینی مسلمانوں کے حج کے سفر پر ایک دستاویزی فلم تیار کی، جس میں چینی حکومت کے اقدامات اور ایغور مسلمانوں کو دی جانے والی سہولیات کا ذکر تھا اور اس دستاویزی فلم کی پیپلز ڈیلی نے بھر پور تشہیر کی۔ اس دستاویزی فلم کو خصوصی طور پر اس دن ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا جو کہ حضرت محمدﷺ کا یوم پیدائش تھا۔ ۲۰۱۷ء تک تو چینی اسلامک ایسوسی ایشن کی یہ مہم بغیر کسی تنقید کے جاری رہی لیکن ۲۰۱۷ء کے بعد ایک عربی اخبار میں ایک کالم شائع، جس میں حج پر جانے والے ایغور مسلمانوں نے چینی حکومت کی طرف سے گلے میں ٹریکر لگائے جانے پر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔جس کا چینی اسلامک ایسوسی ایشن نے یہ کہہ کر جواب دیا کہ یہ ٹریکر حفاظتی اقدامات کے تحت لگائے گئے تھے۔
مسلم رہنماؤں اور اداروں کے وفود کے تبادلے:
ایسوسی ایشن مسلم رہنماؤں اور اداروں کے ساتھ باضابطہ طور پرتبادلوں کا اہتمام بھی کرتا ہے۔عرب دنیا سے آئے مختلف رہنما جب چین آتے ہیں تو یہاں کے مسلمانوں سے ملاقات کے وقت چینی ایسوسی ایشن کے عہدیدار خاص طور پر ساتھ موجود رہتے ہیں، تاکہ وہ چین کی بہتر امیج پیش کر سکیں۔ دوسری صورت میں یہی مسلم رہنما چین کے سب سے بڑے نقاد ہو سکتے تھے۔ ۲۰۰۹ء ارومچی فسادات کے بعد پہلا دورہ اسلامی تعاون تنظیم کے نمائندوں نے کیا تھا۔ ۵۷ مسلمان ملک اس تنظیم کے ارکان ہیں۔ فسادات کے بعد اسلامی تعاون تنظیم نے اعلیٰ سطح کا ایک وفد سفارت کار قاسم المصری کی قیادت میں چین روانہ کیا۔ وہاں اس وفد نے بیجنگ، سنکیانک اور نینگ شیا کا دورہ کیا۔ وہاں حکومتی اہلکاروں کے علاوہ چینی اسلامی ایسوسی ایشن کے سربراہ Chen Guangyuan سے بھی ملاقات کی۔
چینی اسلامی ایسوسی ایشن کے نائب صدر’’یانگ کیبو‘‘ نے اکتوبر ۲۰۰۹ء میں ’’پیپلز ڈیلی‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے عرب مسلمانوں کے ساتھ وفود کے تبادلوں کے نتیجے میں بننے والے تعلقات کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ ان میں سعودی عرب، کویت اور مصر کے ساتھ وفود کے تبادلوں کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ یانگ نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ تنظیم کی جانب سے اب تک ۴۰ طلبہ کو سعودی عرب پڑھنے کے لیے بھیجا جا چکا ہے۔ اور بہت سے طلبہ نے سعودی عرب میں مقابلہ حسن قرأت میں بھی حصہ لیا۔ یانگ نے اپنے انٹرویو میں Ningxia Islamic Food Expo،Hui Merchants’ Conference اور عربی خطاطی کی نمائش جیسے پروگرام منعقد کروانے پر چینی حکومت کی تعریف کی۔ یانگ کا کہنا تھا کہ یہ سرگرمیاں دو طرفہ تعلقات میں بہتری کا باعث بنتی ہیں۔
کونمینگ حملوں کے بعد ’’سافٹ پاور‘‘ کی اس حکمت عملی میں مزید توسیع دی گئی۔حملوں کے دو ماہ بعد چینی اسلامی ایسوسی ایشن نے ارومچی میں ایک مذہبی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں بین الاقوامی عہدیداروں سمیت عالمی اسلامی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس میں تنظیم کے صدر اور نائب صدر نے بھی تقاریر کیں۔اس کے کچھ عرصے بعد شاہ سلمان(جو اس وقت ولی عہد تھے)نے چین کا دورہ کیا۔اس دورے میں اس تنظیم کے لوگ شاہ سلمان کے ساتھ ساتھ رہے۔علاوہ ازیں ولی عہد نے تیس لاکھ ڈالر چین میں مساجد اور ثقافتی مراکز کی تعمیر کے لیے عطیہ بھی کیے۔
۲۰۰۹ء میں”Al-Ahram” اخبار نے ایک مضمون شائع کیا، جس میں چینی تنظیم اور جامعۃ الازہر کے درمیان ’’تبادلہ پروگرام‘‘ کی تعریف کی گئی تھی۔ جامعۃ الازہر مسلم دنیا کے معتبر ترین اداروں میں سے ایک ہے۔اس کالم میں چینی تنظیم کے سربراہ کے انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی مخالفت میں دیے جانے والے بیانات کی بھی تعریف کی گئی تھی۔اگست ۲۰۱۹ء میں چینی تنظیم کے سربراہ نے بیت اللہ کے امام شیخ عبدالرحمن السدیس سے بھی ملاقات کی اور حج کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔
اختتامیہ:
چین اور عرب کے مشترکہ مفادات کی اس دنیا میں ’’چینی اسلامی ایسوسی ایشن‘‘ سنکیانگ کے معاملے کو دبا کر رکھنے کے لیے چینی سافٹ پاور کے استعمال کانہ صرف ذریعہ ہے بلکہ سافٹ پاور کے استعمال کی بہترین مثال بھی ہے۔ اسلام کو چینی طرز پر ڈھالنے کا عمل، حج سفارت کاری، طلبہ اور دیگر وفود کے تبادلوں نے چین کی وہ امیج بنائی ہے، جو کہ معاشی سرگرمیاں تنہا نہیں کرسکتی تھیں۔ اگرچہ چینی سافٹ پاور نے عرب دنیا کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں نہیں لیا ہے،تاہم وہ اس کے ذریعے اداروں اور بیوروکریسی کی سطح تک سرایت کر چکے ہیں اور سنکیانگ کے معاملے پر عرب دنیا کو خاموش کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)