شیئر کیجیے

کیا ہندوتوا کی سیاست کا دم نکل رہا ہے؟

عبد الباری مسعود

اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ قانون بننے کے بعد آسام کی بی جے پی حکومت نے 23 فروری کو آسام مسلم شادی اور طلاق رجسٹریشن ایکٹ 1935 کو منسوخ کر دیا۔ یہ فیصلہ وزیر اعلی ہمنتا بسوا سرما کی صدارت میں ریاستی کابینہ کی میٹنگ میں کیا گیا۔ یہ قدم اتراکھنڈ جو ملک میں یکساں سول قانون سازی کرنے والی پہلی ریاست ہے کے فیصلہ کے تین ہفتے بعد اٹھایا گیا۔ یہ اقدامات آنے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل حکم ران بی جے پی کی مایوسی و بدحواسی کو ظاہر کرتے ہیں – کیوں کہ ایسا لگتا ہے کہ تاریخی بابری مسجد کے کھنڈرات پر تعمیر کردہ ایک نامکمل رام مندر کا افتتاح مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہا۔ حالیہ مہینوں میں قدیم مساجد کو نشانہ بنانے، انھیں منہدم کرنے، نفرت انگیز تقاریر اور پرتشدد کارروائیوں کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

چوں کہ ہندوتوا طاقتوں کے پاس کوئی مثبت ایشو یا نعرہ نہیں ہوتا اس لیے وہ عام طور پر انتخابات میں سادہ لوح ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے تین چیزوں پر فوکس کرتی ہیں : گائے، پاکستان اور مسلمان۔ جس طرح 2014کے انتخابات میں گائے کے ایشو نے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا تھا اسی طرح 2019 میں پوری توجہ پاکستان پر مرکوز کی گئی اور اس سے پورے ملک میں ایک فضا بنائی گئی جس سے بی جے پی کو انتخابات میں کافی فائدہ ہوا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ 2024 کے انتخابات کا نشانہ براہ راست مسلمان ہوں گے۔ دس سالہ مودی حکومت کے دور میں کوئی ایسا کام نہیں ہوا جس کی بنیاد پر وہ عوام میں جاسکے۔ لہذا چھوٹے موٹے تنازعات بھی مقامی انتظامیہ کی مدد سے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔

حالیہ واقعات جیسے وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے شہید بابری مسجد کی جگہ پر نامکمل رام مندر کا افتتاح، وارانسی میں گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت، دہلی کے مہرولی میں قطب مینار کے قریب ایک 800 سال پرانی مسجد کی شہادت۔ باغپت ضلع برناوا موضع میں شیخ بدرالدین کے مزار کی ملکیت والی 100 ہیکٹر اراضی کو ہندوؤں کے حوالے کرنا، مدرسہ اور مسجد کا انہدام اور ہلدوانی میں پولیس کی فائرنگ میں پانچ افراد کی موت، اور یکساں سول کوڈ کی منظوری، بی جے پی کے تحت ریاستی حکومتوں کے ذریعے گڑھے گئے تنازعات کی واضح مثالیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے حالیہ بجٹ میں اقلیتوں سے متعلق کئی پروگراموں کے لیے فنڈ یا تو ختم کر دیے گئے یا کافی حد تک کم کر دیے گئے۔ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بھی بغیر کسی دلیل کے بند کردیا گیا۔

ہم بی جے پی کے زیر اقتدار آسام کے حالات کا ذکر کررہے تھے، مئی 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے، وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما مسلسل مسلمان، جو ریاست کی کل آبادی کا تقریباً 35 فیصد ہیں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ سب سے پہلے انھوں نے برطانوی دور سے چل رہے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو ختم کیا اور اس سے ملحق تمام 610 سرکاری مدارس کو ہائی ا سکولوں میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے ریاست کے مختلف مسلم علاقوں میں غیر قانونی قبضہ ہٹانے کے بہانے بے دخلی مہم شروع کی۔ مئی 2021 سے 6450 سے زیادہ خاندانوں کو، جن میں زیادہ تر بنگالی نژاد مسلمان ہیں، ان کے گھروں سے اجاڑا گیا۔ حال ہی میں آسام کے سونیت پور ضلع میں حکام نے 2500 سے زیادہ خاندانوں کو بے خانماں برباد کیا۔ اس علاقے میں رہنے والے زیادہ تر لوگ بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔ حکام نے دو مساجد کو بھی مسمار کر دیا۔

ایسا لگتا ہے کہ موجودہ وزیر اعلیٰ نے جو پہلے کانگریس پارٹی میں تھے، اس قبائلی اکثریتی ریاست کو ہندوتوا کی نئی تجربہ گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کی حکومت کا 1935 کے مسلم میرج اینڈ ڈیوورس رجسٹریشن ایکٹ کو منسوخ کرنے کا حالیہ فیصلہ ان کے ذہن کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ “آزادی سے پہلے کے فرسودہ قانون” کو کم عمری کی شادیوں کے ختم کرنے کے لیے منسوخ کیا گیا ہے۔ سرما نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ “اس ایکٹ میں دولہا اور دلہن کو 18 اور 21 سال سے کم پر بھی شادی کرنے اور رجسٹریشن حاصل کرنے کی اجازت کی دفعات شامل تھیں “۔ اس قدم کو ان کے کابینہ کے ممبر جیانتا ملابروا نے یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔

ملابروانے واضح کیا کہ اسپیشل میرج ایکٹ اب مسلم شادیوں اور طلاق سے متعلق تمام مسائل پر نافذ ہوگا۔ میڈیاسے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا “ضلع کمشنر اور ضلع رجسٹرار اب نئے نظام کے تحت مسلم شادی اور طلاق کو رجسٹر کریں گے۔ منسوخ شدہ ایکٹ کے تحت کام کرنے والے 94 مسلم رجسٹراروں کو بھی ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا جائے گا اور انھیں 2 لاکھ روپے کی یک مشت رقم ادا کی جائے گی۔ ” ملابروا نے کم عمری کی شادیوں کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے ریاستی اقدامات کے ضمن میں اس فیصلے کے وسیع تر اثرات کو بھی واضح کیا۔

ملابروا نے یہ بھی کہا “اس ایکٹ کو منسوخ کرنے سے انتظامیہ کو بچپن کی شادی کے مسئلے کو حل کرنے کی امید ہے، یعنی لڑکیوں کی شادی کے لیے کم سے کم عمر18 سال اور لڑکوں کی اور 21 سال ہونی چاہیے۔ ” آسام حکومت کے متنازعہ فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، اے آئی یو ڈی ایف کے صدر اور ایم پی بدرالدین اجمل نے انتباہ دیا کہ اس سے ریاست میں بی جے پی حکومت کا صفایا ہوجائے گا۔ اجمل نے گوہاٹی میں ایک پروگرام میں نامہ نگاروں کو بتایا، ’’وہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور ووٹروں کو اپنے حق میں پولرائز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس ایکٹ کی منسوخی کی مخالفت ضرور کریں گے، لیکن انتخابات کے بعد۔ ہم فی الحال خاموش رہیں گے”۔ ایکٹ کی منسوخی کے بعد مسلم میرج رجسٹراروں کو ان کی بحالی کے لیے دو لاکھ روپے کے یک وقتی معاوضے کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ قاضی بھکاری نہیں ہیں۔ اجمل نے کہا، “میڈیا کے ذریعے، میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حکومت سے ایک پیسہ بھی قبول نہ کریں۔ ”

اس سے قطع نظر، نفرت انگیز تقاریر اور جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ ملک کے لیے اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ انڈیا ہیٹ لیب (IHL) نے سال 2023 میں ملک میں نفرت انگیز تقاریر کے واقعات پر ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے 668 واقعات جن کا اس رپورٹ نے سال بھر میں تجزیہ کیا ہے، 75فیصد بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ہوئی ہیں۔ جب کہ ان میں سے 43فیصدواقعات صرف مہاراشٹر، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں ہوئے۔ وشو ہندو پریشد اور اس کے نوجوانوں کی شاخ بجرنگ دل پور ے سال میں نفرت انگیز تقاریر کے معاملے میں سرفہرست تھیں۔ IHL کے مطابق حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہونے والے تمام واقعات میں ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کی کوششوں میں 25 فیصد سے زیادہ فرقہ وارانہ تنازعات میں اسرائیل اور غزہ کا معاملہ لایا گیا۔

نفرت انگیز تقاریر کا مختلف فرقوں کے درمیان فسادات بھڑکانے اور تناؤ پیدا کرنے میں بڑا حصہ ہوتا ہے۔ جنوری میں نفرت انگیز تقاریر کے سات واقعات کو میڈیا نے ریکارڈ کیا تھا۔ عام طور پر ان نفرت انگیز تقاریر میں مساجد کو منہدم کرنے، مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے والے مبینہ لو جہاد کے غلط دعوے، حلال سرٹیفیکیشن والے گوشت کا بائیکاٹ کرنے، مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر استعمال کرنے اور میرا روڈمیں فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں میں بی جے پی کے سیاست داں اننت کمار ہیگڑے، بی جے پی ممبر پارلیمنٹ اور کرناٹک کے لیڈر کے ایس ایشورپا، ایم ایل اے ٹی راجہ، مہاراشٹر کے سولا پور اور ممبئی میں ایم ایل اے نتیش رانے اور ممبئی میں ایم ایل اے گیتا جین شامل تھے۔

سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرازم کی طرف سے کی جانے والی فرقہ وارانہ تشدد کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق جنوری کے مہینے میں ہونے والے پانچ میں سے چار فرقہ وارانہ فسادات ایودھیا کے پران پرتیسٹھا سے براہ راست متعلق تھے۔ ان چار فرقہ وارانہ فسادات میں سے دو مہاراشٹر کےممبئی اور ناگپورمیں ہوئے، ایک گجرات کے بڑودہ اور ایک مدھیہ پردیش میں ہوا اور ان تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2022 اور 2023 میں پورے ملک میں ایسے 28 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن کا براہ راست تعلق رام نومی کے جلوسوں سے تھا۔ رام مندر کے افتتاح سے پہلے اور بعد کے پچھلے مہینے میں جو کچھ ہوا ہے وہ کافی تشویش ناک ہے۔

رام مندر کے افتتاح کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادات کو مسلمانوں کی جائیدادوں کو مسمار کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ عام اور روزمرہ کے تنازعات کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا اور جان بوجھ کر ان کوایسے اہم واقعات کے طور پر پیش کیا گیا جس سے مسلمانوں کے خلاف “اجتماعی سزا” کا مطالبہ کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر ممبئی کے میرا روڈ میں مسلمانوں کی جائیداد کو فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں منہدم کر دیا گیا۔ یہ تمام واقعات اور حالات سے یہ واضح ہے کہ ہندوتوا کی سیاست، جو تاریخی افسانوں پر مبنی ہے کا دم نکل رہا ہے۔ اس فسطائی نظریہ میں کوئی کشش باقی نہیں رہی کہ اس کے بل پر انتخابات میں کام یابی حاصل کی جاسکے۔ ہندوستان جرمنی و اٹلی کی طرح یک لسانی، یک مذہبی ملک نہیں ہے۔ یہاں ذاتوں، زبانوں اور ثقافتوں کی اس قدر بھرمار ہےکہ آر ایس ایس اور اس کے سیاسی بازو بی جے پی کا ون نیشن، ون رلیجن، ون لینگویج والا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، چاہے وہ اس ملک کی دوسری بڑی مذہبی اکثریتی آبادی کو مختلف عنوانات سے کتنا ہی نشانہ بنانے کی کوشش ہی کیوں نہ کریں۔