شیئر کیجیے

کانگریس میں قیادت کا بحران

ابو زعیم

آزادی کے بعد سے ملک کے اقتدار پر تقریباً 54 سال تک فائز رہنے والی کانگریس جماعت آج قیادت کے حوالے سے جس بحران کا شکار نظر آتی ہے اس سے پارٹی کو ماضی میں شاید ہی کبھی سابقہ پڑا ہو ۔ عبوری صدر سونیا گاندھی کی میعاد صدارت میں مزید چھ ماہ اضافہ کرکے بظاہر اس بحران کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم پارٹی کی صفوں میں زیر سطح بے چینی برقرار محسوس ہوتی ہے۔
یہ بحران ایک مکتوب کی شکل میں منظرعام پر آیا ۔ جو سونیا گاندھی کو لکھا گیا تھا کہ پارٹی کو نئے سرے سے توانا اور منظم کرنے کے لیے ایک کل وقتی فعال صدر منتخب کیا جائے ۔ اس کے علاوہ خط میں پارٹی کی اعلی فیصلہ ساز کمیٹی یعنی کانگریس ورکنگ کمیٹی کا الیکشن کرانے اور ریاستی اکائیوں کی قیادت کو زیادہ آزادی دینے نیز بی جے پی پر دبائو بنانے کی غرض سے ایک نئی حکمت عملی تیار کرنے وغیرہ مطالبات شامل تھے۔اس خط پر کپل سبل، منیش تیواری، غلام نبی آزاد‘ آنند شرما‘ ویرپا موئیلی’بھوپندر سنگھ ہڈا’ششی تھرور’پرتھوی راج چوہان اور پی جے کورین مکل واسنک ایسے پارٹی کے 23 بڑے لیڈروں نے دستخط کیئے تھے ۔تاہم اس خط کے بعض مشمولات کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے ایک دن پہلے یعنی 23 اگست کو ’ افشاء ‘ ہوگئے ۔ بس کیا تھا ایک ہنگامہ سا برپا ہوگیا۔ پارٹی میں خوشامد پرست حلقہ فوراً حرکت میں آگیا اور ان 23 رہنمائوں کونشانہ بنانے لگا کہ یہ بی جے پی کی ساز باز کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ ان میں سے کسی کا بھی ٹریک ریکارڈ ایسا نہیں ہے کہ اس پر شک کیا جائے ۔ ان میں متعدد سابق مرکزی وزراء ، پانچ سابق وزرائے اعلی اور پارٹی کے اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
خط میں ایسی کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی جس پر ان لیڈروں کو مطعون کیا جاتا ۔ دراصل اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعض استثناء کے کسی بھی سیاسی جماعت میں داخلی جمہوریت کا فقدان ہے ۔ الزام لگانے والوںمیں خود سابق صدر راہل گاندھی بھی شامل ہیں ۔ گو بعدازاں انہوں نے اس بارے میں وضاحت بھی پیش کی کہ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا تھا۔
خط کا یہ معاملہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں چھایا رہا ۔ پے درپے شکستوں کے نتیجہ میں پارٹی کی صفوں میں جو بددلی اور مایوسی کی فضاء پیدا ہوئی ہے اس کی صاف جھلک اس میں نظر آتی تھی ۔سات گھنٹے تک جاری رہے اجلاس میں سونیا گاندھی نے عبوری صدر کے عہدے سے مستعفی ہونے کی پیشکش کی جنہیں گزشتہ سال دسمبر میں راہل کے استعفی کے بعد صدر بنایا گیا تھا جو اپنی ناساز طبیعت کے باعث یہ ذمہ داری بہتر طور پر انجام نہیں دے پارہی ہیں۔ حالانکہ وہ کانگریس کی سب سے زیادہ عرصہ تک قیادت سنبھالنے والی خاتون صدر ہیں اور 2004اور2009 کے عام انتخابات میں پارٹی کو فتح سے ہمکنار کراچکی ہیں ۔
راہل نے خط تحریر کئے جانے کے وقت پرسوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب پارٹی کی صد ر اسپتال میں تھی اس وقت یہ خط کیوں لکھا گیا۔ نیز راجستھان میں حکومت کا بحران بھی ابھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوا تھا ۔ اسے بی جے پی کی ایماء پر لکھا گیا خط قرار دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے سینئر لیڈروں کو جو شکایتیں تھیں اسے بیان کرنے کی صحیح جگہ ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ تھی نہ کہ میڈیا۔ پرینکا گاندھی نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے ان لیڈروں بالواسط طور پر نکتہ چینی کا ہدف بنایا لیکن سابق مرکزی وزیر کماری شیلجہ نے ایک قدم آگے بڑھ کر ان لیڈروں کو بی جے پی کا’’ ایجنٹ ‘‘ قرار دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ اس الزام تراشی پر ان لیڈروں کو خفا ہونا فطری تھا۔ جن کی زندگیاں کانگریس میں کھپ رہی ہیں جبکہ مفاد پرست اور ابن الوقت لیڈران کانگریس کو ڈوبتی کشتی سمجھ کر اس چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی ایسانہیں ہے جو بی جے پی سے پینگیں بڑھا سکتا ہے ۔راہل کے بیان پر سب سے سخت ردعمل غلام نبی آزاد کا آیا ۔ آزاد نے کہا کہ اگر ان پر بی جے پی سے سازباز کا الزام ثابت ہوجائے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں گے۔کپل سبل نے بھی اپنے دفاع میں کہا کہ وہ گزشتہ تیس سال کی سیاسی زندگی میں بی جے پی کو ہمیشہ نشانہ بناتے آئے ہیں ۔ بہرحال اس سر راہ باہمی سر پھٹول سے پارٹی کو ہورہے نقصان کا ادراک کرتے ہوئے دونوں طرف سے معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں ۔ گودی میڈیا کو تو ایک مسالہ مل گیا تھا جو اسے مزید مرچ لگاکر پیش کررہا تھا ۔ سونیا اور راہل دونوں نے غلام نبی آزاد سے فون پر بات کرکے معاملہ صاف کرنے کی کوشش کی ۔ راہل نے کہا کہ انہوں نے آزاد کا نام ہی نہیں لیا تھا ۔اس خط کے لیک ہونے کے بعد ورکنگ کمیٹی کی 24 اگست کو منعقدہ میٹنگ میں سونیا گاندھی نے اسے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ کہا کہ جو ہوا سو ہوا۔ اب ہمیں آگے بڑھنا چاہئے ۔ اس سے مجھے تکلیف ضرور پہنچی ہے مگر میرے دل میں کسی کے خلاف کوئی رنجش نہیں ہے۔
پارٹی کے ٹی وی پینل سے ہٹائے گئے رکن سنجے جھا کی بات پر یقین کیا جائے توسونیا گاندھی کو 100 سے زائد پارٹی لیڈروں نے خط لکھا تھا جس میں کئی امور کی طرف توجہ دلائی اور پارٹی قیادت میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔یہ مطالبہ بیجا نہیں تھا کیونکہ پارٹی سر دست ایک مستقل صدر سے محروم ہے اور سونیا بوجہ صحت اب اتنی سرگرمی سے کام نہیں کرسکتی ہیں ۔ تاہم 23 لیڈروں کے خط کے درپردہ مقصد کے بارے میں ایک سینئر کانگریسی لیڈر کا دعوی ہے کہ پارٹی کے ایک حلقہ کی طرف سے راہل گاندھی کو دوبارہ صدر بنانے کے مطالبے کی ہوا نکالنے کے لئے ہی یہ خط لکھا گیا تھا۔ ہر چندکہ راہل اور پرینکا دونوں نے یہ بار بار کہا کہ پارٹی کا صدر گاندھی خاندان سے باہر کسی فرد کو منتخب کیا جائے ۔ مگر پارٹی میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ دوسری صف کی قیادت کو ابھرنے نہیں دیا گیا ۔ اور گاندھی خاندان کے باہر قیادت جاتی ہے تو اس بات کے خدشہ کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پارٹی متحد نہیں رہ پائے گی ۔ اس امر میں دو رائے نہیں کہ اس وقت پارٹی اپنی تاریخ کےبدترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس کے لئے وہ بھی خود بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ کیونکہ ایک طویل عرصہ تک وہ مرکزی اقتدار پر قابض رہی لیکن اس نے جس مغرب سے جمہوریت کا نظام لیا اس پر ایمانداری سے عمل نہیں کیا اور پارٹی کو عملاً جاگیردارانہ نظام کا ایک پرزہ بنا دیا۔ چنانچہ اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جمہوریت صحت مند بنیادوں اور اقداروں پر پروان نہیں چڑھ سکیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کے برخلاف یہاں بعض استثناء کے جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں وہ سب شخصی یا خاندانی جماعتیں ہیں اور ان میں داخلی جمہوریت برائے نام ہے۔ اصل چیز چاپلوسی اور خوشامد ہے جو پارٹی اور اقتدار میں منصب پانے کا اصل وسیلہ ہوتے ہیں جو لیڈر کسی معاملہ میں اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے یا پارٹی موقف سے ہٹ کر کو ئی بیان دیتا ہے تو اسے باغی اور منحرف قرار دیا جاتا ہے۔
سردست الیکشن کمیشن میں درج شدہ سیاسی جماعتوں کی تعداد 2598, ہے ان میں سے 8 قومی اور 52 علاقائی سطح کی مسلم جماعتیں بھی ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ سب کا یہی حال ہے ۔ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ۔ بی جے پی کانگریس پر خاندانی راج کا الزام لگاتی ہے مگر وہ اس لعنت میں سب سے زیادہ لت پت ہے۔ وہ بالکل ایک آمرانہ انداز میں کام کر رہی ہے ۔ نیز وہ تمام تر ہتکھنڈوں اور بے پناہ وسائل کے باوجود کانگریس کے مقابلے میں اب بھی ملک گیر حیثیت نہیں رکھتی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کانگریس میں یہ بحران ایک ایسے وقت میں ابھرا ہے جب ملک پر فسطائیت کے سایے گہرے ہوتے جارہے ہیں اور اسے ایک جماعتی نظام کی طرف تیزی سے دھکیلا جارہا ہے۔ ایسے ملک میں ایک ایسی مضبوط اور متحرک حز ب اختلاف کی ضرورت ہے جو اس بڑھتے ہوئے طوفان کا مقابلہ کر سکے ۔کیونکہ کانگریس ہی واحد جماعت ہے جو ملک گیر سطح کی حیثیت رکھتی ہے اسی لئے بی جے پی نے ’کانگریس مکت بھارت‘ کا نعرہ دیا۔، وہ جانتی ہے کہ اس کی راہ میں کانگریس ہی مزاحمت کرسکتی ہے ، گو اس وقت وہ متعدد معاملوں میں بی جے پی کی بی ٹیم نظر آتی ہے اور فرقہ پرست نظریہ ’’ ہندتو‘ کے نظریہ کو نرم ’ ہندتو‘ کے نظریہ سے شکست دینا چاہتی ہے ۔ چنانچہ وہ سیکولرزم کے معاملہ میں وہ مضبوط رویہ اور موقف اختیار نہیں کر پارہی ہے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر وہ بی جے پی اس تنگ نظر فکر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ بابری مسجد کی جائے پر رام مندر کی تعمیر کے بارے میں اس کا موقف انتہائی قابل گرفت رہا ۔ گو وہ بابری مسجد میں چوری چھپے بت رکھےجانے سے لےکر اسے ہندتو انتہاپسندوں کے ہاتھوں انہدام اور وہاں عارضی مندر کی تعمیر جیسے سب معاملوں کے لئےبرابر کی ذمہ دار ہے۔
حالانکہ راہل کے آر ایس ایس کے بارے میں خیالات بڑے واضح ہیں اور وہی اس وقت مودی حکومت سے لوہا لے رہے ہیں لیکن ان کی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔ اسی لئے پارٹی کے سینئر لیڈران چاہتے ہیں ان کے پاس پارٹی کی کمان دوبارہ نہ جائے۔ اب دیکھنا ہے کہ چھ ماہ بعد قیادت کا مسئلہ پارٹی کس انداز میں حل کرتی ہے ۔ وہی پرانی ڈگراور روش پر چلتے ہوئے کمان گاندھی خاندان کے ہاتھ میں سونپی جاتی ہے یا جس مغرب سے جمہوری نظام کی نقالی کی گئی ہے اس پر عمل کرتے ہوئے پارٹی میں ہر سطح پر صحیح معنوں میں الیکشن کراکے تنظیمی عہدیداروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔