شیئر کیجیے

وال اسٹریٹ جرنل اور ٹائم میگزین نے بی جے پی اور فیس بک کے درمیان سیاسی مقاصد کے لئے ’’ سودے بازی‘‘ کو کیا بے نقاب

اے بی مسعود

مشہور امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی 14 اگست کی اشاعت میں دنیا کے سب سے بڑے سوشل میڈیا ’فیس بک ‘ اور انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کے مابین ’’ ناپاک گٹھ جوڑ ‘‘کا جو پردہ فاش کیا ہے اس نے حکمراں جماعت کو عملاْ کٹہرے میں لاکھڑا کردیا ہے ۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس ’مذموم سودے بازیـ‘ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے جانچ کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سنسنی خیز انکشاف نے بی جے پی کی سوشل میڈیا پر مسلم مخالف اور حزب مخالف کے خلاف منظم جھوٹی مہم کو بے نقاب کردیا ہے ۔ وہیں فیس بک ( ایف بی )کی اس حرکت سے ملک میں جمہوریت کے لئے ایک سنگین خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور اس کا دوہرا معیار بھی آشکار ہوگیا ۔

خیال رہے دنیا میں فیس بک کے سب سے زیادہ یعنی 216ملین یا ساڑھے اکیس کروڑ سے زائد صارفین انڈیا میں ہیں جنکی نجی تفصیلات کو خطرہ لا حق ہونے کے ساتھ ساتھ وہ نفرت انگیز مواد، غلط اور جھوٹی معلومات اور خبروں وغیرہ کا بھی غیر محسوس طریقہ سے نشانہ بنتے ہیں ۔ 2014 کے عام انتخابات کے موقع پر فیس بک کی ا نڈیا کی ذمہ دار افسر انکھی داس اور بی جے پی کے سینئر لیڈروں اور ارکان پارلیمنٹ کے در میان ’راز و نیاز‘ پر سے اب پردہ ہٹ گیا ہے ۔ وال اسٹریٹ نے فیس بک کے عہدیداروں کے مابین داخلی میمو، بات چیت اور ای میل کے تبادلے کے حوالہ سے بتایا کہ 2012 سے 2014 کے درمیان فیس بک اور بی جے پی کے درمیان کس نوعیت کی سودے بازی ، مالی و سیاسی مفاد ات کی آبیاری ہورہی تھی ۔ اس کی تفصیلات خود کمپنی کے افشاں ہوئے میمووں سے بے نقاب ہوتی ہیں۔

جولائی 2012 کے ایک میمو کے مطابق جس میں فیس بک کی پبلک پالیسی کے عالمی نائب صدر، مارن لیون ایک بند کمرے میں ہوئی میٹنگ کے دوران لین دین کے ضوابط کا ذکر کیا ہے جس پر اس وقت کے وزیر برائے قانون و انصاف اور انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کپل سبل حزب اختلاف کے ممبران پارلیمنٹ سے ان قوانین کو وضع کرنے پر تبادلہ خیال کر نے والے تھے ۔ اس سلسلہ میں یہ حقائق سامنے آئے ہیں:

  • ٭انکھی داس نے بی جے پی ارکان پارلیمنٹ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ وزیر موصوف سے یہ کہیں کہ چونکہ یہ معاملہ ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہے اور انہیں یہ دلیل پیش کر کے آئی ٹی قوانین میں ٹھوس تبدیلیوں سے باز رکھنا چاہیے … ہم نے گوگل اور YI کی مقامی پالیسی سے اس بارے میں بات کی ہے کہ وہ کن نکات پر وزیر موصوف سے بات کریں گے ‘‘ ‘ ہم نے ایک خاکہ بھی تیار کیا جو راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈا ارون جیٹلی آئی ٹی ضوابط پر بحث کے دوران استعمال کرسکتے ہیں ۔‘‘
  • ٭ اسی میمو میں پرائیویسی یا رازداری کے قانون کا بھی تذکرہ تھا اس قانون کا مسودہ ریٹائرڈ جسٹس اے پی شاہ کی سربراہی میں‘پرائیویسی ماہرین کا ایک گروپ’ تیارکررہا تھا۔’’انکھی (داس) اس کمیٹی میں حکومت کے نامزد ارکان سے رابطہ قائم کئے ہوئے تھی … لیکن کمیٹی کے ارکان ڈی پی اے یا Data Protection Act کی ہیئت اور ان کے اختیارات کے بارے میں صاف صاف نہیں بتا رہے تھے۔‘‘
  • ٭ اسی دوارن فیس بک سپریم کورٹ میں آئی ٹی ایکٹ کے کچھ پہلوؤں کو چیلنج کرنے والے مقدمہ کے حوالے سے ’’ کولیشن ‘‘ کی میٹنگوں میں سرگرمی سے حصہ لے رہا تھا۔ عدالت میں مفاد عامہ کی چار عرضیوں پر سماعت ہو رہی تھی ۔ ایک عرضی ممبر پارلیمنٹ راجیو چندر شیکھر نے دائر کی تھی۔ ( جو اب بی جے پی کے باضابط رکن ہیں اور ارنب گو سوامی کے ساتھ ری پبلک ٹی وی کے مالک ہیں۔)
  • میمو میں بتایاگیا ہے کہ ’’ حکومت ہند کے خلاف مفاد عامہ کی یہ کل چار عرضیاں جن پر سماعت فروری سے اپریل 2013 کے درمیان ہوں گی اور حکومت کو اپنا دفاع کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔‘‘
  • ٭اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے مختلف گروپوں کی میٹنگ کی ہے اور طے کیا کہ اس مسئلے کو پریس میں زندہ رکھا جائے گا تاکہ عدالت کے سامنے عوام کے جذبات پیش ہو سکیں ۔ وزیر کپل سبل نے کہا ہے کہ اب ان معاملات کا فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی۔ ہم نے ایک اخبار کی خدمات حاصل کی ہیں ۔۔۔۔۔۔ وہ ہمارے مقصد کی خبر یں شائع کرے گا۔
  • ٭ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے اعلان کے ایک دن بعد یعنی 17 مئی 2014 کو انکھی داس نےایک مضمون لکھا ۔جس میں دعوی کیا گیا کہ ’’ انڈیا کے 2014 کے انتخابات بہت ساری وجوہ کی بناء پر یاد رکھے جائیں گے لیکن خاص طور پر: سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کی وجہ سے ، جو 2011 سے حکومت کی بندشوں ( سنسرشپ ) سے نبر د آزما تھے اس کے باوجود وہ انتخابی مہم کا ایک اہم ذریعہ بن گئے اور آزادانہ سیاسی اظہار اور منظم مہم چلانے کا مرکز بن گئے ‘‘۔
  • ‘‘ہم نے 4 مارچ کو اپنا انتخابی ٹریکر شروع کیا اور پوری انتخابی مہم کے دوران بی جے پی مسلسل اول مقام پر رہی اور نریندر مودی سر فہرست لیڈ ر ۔۔۔۔ ‘
  •  بی بی سی کی رپورٹ / مضمون میں فیس بک کے ترجمان اور پالیسی کمیونی کیٹر، منیجر اینڈی اسٹون کے حوالے سے کہا کہ
  • فیس بک کے نمائندے نے بی بی سی سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انکھی داس نے ’’ مسٹر سنگھ کو خطرناک شخصیت بتانے کے سیاسی عواقب سے باخبر کیا تھا مگر اس کا کہنا تھا کہ مسٹر سنگھ کو فیس بک پر جگہ دینے کی وجہ صرف داس کی مخالفت نہیں تھی ۔‘‘
  •  26 مارچ 2018 کو وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کے ہر رکن پارلیمنٹ کو تلقین کی کہ ہ وہ اپنے فیس بک پیج پر کم سے کم تین لاکھ لائئک ( likes) حاصل کریں۔
  •  ستمبر 2018 میں امت شاہ نے راجستھان میں بی جے پی کے سوشل میڈیا کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے بڑے فخر سے یہ انکشاف کیاکہ ’’ہم کسی بھی پیغام کو عوام تک منٹوں میں پہنچا سکتے ہیں ، چاہے وہ میٹھا ہو یا کھٹا، سچا ہو یا جھوٹا ۔‘‘ انہوں نے 2017 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے ایک کارکن کے ذریعہ ایک جھوٹی خبر کو وائرل کرنے کی مثال پیش کی ۔اس جھوٹی خبر میں دعوی کیا گیا تھا کہ اکھلیش یادو نے، جو اس وقت یوپی کے وزیر اعلی تھے اپنے والد ملائم سنگھ کو تھپڑ مارا ہے ۔‘‘ اور ہم یہ خبر اس لئے پھیلا سکے کیونکہ ہمارے واٹس ایپ گروپوں میں 32 لاکھ افراد موجود ہیں ۔‘‘
  •  بی جے پی نے 2019 کے عام انتخابات کے دوران سیاسی اشتہاروں کے لئے سب سے زیادہ سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا میں جگہ حاصل کی۔
  •  2018 میں ایک میگزین نے امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کے خلاف بدعنوانی کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ شائع کی لیکن اس رپورٹ کو فیس بک نے اپنے یہاں چھپنے نہیں دیا۔
  •  کاروان میں چھپی ایک امریکی صحافی (انجی پینی) کی رپورٹ۔ انکھی داس نے مانیکا بیکرٹ (ہیڈ آف گلوبل پالیسی مینجمنٹ، فیس بک) کی موجودگی میں ’’ خواتین کو رائٹ ونگ گروپوں اور زبانی دھمکیوں کے بارے میں فیس بک کی پالیسی کے حوالے سے جواب دیا کہ ’’آپ امریکہ میں رہ رہے ہیں؛ آپ انڈیا کو نہیں سمجھ پائیں گے۔‘‘
  •  جون 2017 میں انڈیا کے الیکشن کمیشن نے رائے دہندگان میں بیداری مہم کے لئے فیس بک انڈیا کے ساتھ شراکت کا آغاز کیا۔ ایک سال بعد 23 مارچ 2018 کو چیف الیکشن کمشنر او پی راوت نے اعلان کیا کہ ڈیٹا کی چوری کے خدشات کے پیش نظر الیکشن کمیشن فیس بک انڈیا کے ساتھ اپنی شراکت پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس شراکت سے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تاہم بمشکل چار دن بعد ہی الیکشن کمیشن نے ان ’’ خدشات ‘‘ کونظر انداز کرکے فیس بک انڈیا سے اپنی شراکت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
  •  اخبار کے مطابق فیس بک کے اندرونی پلیٹ فارم کے 11 ملازمین نے کمپنی کے افسران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ’’ مسلم مخالف مواد ‘‘ کی مذمت کریں اور فیس بک کی غیر جانبدارانہ اور سیکولر پالیسی کا تحفظ کریں ۔

یہ فیس بک انڈیا اور بی جے پی کے مابین ملی بھگت کی متعدد مثالیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فیس بک نے اپنی روایتی پالیسی کے برخلاف ہندو فرقہ پرست قوتوں کے نفرت انگیز اور زہریلے ایجنڈے کو تقویت پہنچانے میں پورا پورا تعاون فراہم کیا ۔ اس کی اصل وجہ پیسہ ا ور مالی فائدہ کا لالچ ہے۔فیس بک کے زیر ملکیت واٹس ایپ لائسنس کا منتظر ہے۔ انڈیا میں اس کے کاروبار کے زبردست امکانات ہیں جہاں اس میسیجنگ ایپ یعنی واٹس اپ کے 40 کروڑ صارفین ہیں۔ یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ فیس بک نے مکیش امبانی کی ریلائنس جیو کمپنی کے دس فی صد شیئر جن کی مالیت 43,574 کروڑ ہے حاصل کئے ہیں جو دنیا میں کہیں بھی ٹیک کمپنی کے ذریعہ اقلیتی حصص کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔

امریکی اخبار نے جو دنیا کے متعدد شہروں سے شائع ہوتا ہے اپنی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا کہ فیس بک نے بی جے پی کی الیکشن میں ہر طرح سے مدد کی تھی ۔اس نے پاکستانی فوج اور کانگریس پارٹی کے غیر مصدقہ فیس بک پیج اور بی جے پی سے متعلق جھوٹی خبروں والے پیج ہٹادئیے تھے ۔ بی جے پی کے تلنگانہ سے ایم ایل اے ٹی راجا اور بی جے پی ممبرپارلیمنٹ اننت کمار ہیگڑے منافرانہ پوسٹوں کو نہیں ہٹایا ۔ یہ دونوں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں کافی شہرت رکھتے ہیں۔ تاہم وال اسٹریٹ کے مطابق جب ا نکھی داس سے اس معاملہ پر باز پر س کی گئی تو انہوں نے ’’ فیس بک اسٹاف ممبروں کو بتایا کہ ’’مسٹر مودی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی طرف سے فیس بک کے قواعد کی خلاف ورزی پر تادیبی کارروائی کے نتیجہ میں انڈیا میں کمپنی کے کاروباری امکانات کو نقصان پہنچے گا‘‘ ۔

انکھی داس کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کے بی جے پی اور آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی سے کافی پرانے رشتے ہیں ۔ اس کی جڑواں بہن رشمی داس نہ صرف جے این یو میں اے بی وی پی جنرل سکریٹری تھی بلکہ وہ وہ اب بھی اس تنظیم کی ایک سرگرم رکن ہے ۔ جے این یو کیمپس میں اے بی پی والوں نے جو مار کاٹ اور تشددکا بازار گرم کیا تھا وہ اس کی کھل کر حمایت کر رہی تھی ۔ مزیدبراں یہ کہ 17 اگست کو انکھی داس نے موت کی دھمکیاں ملنے کے بارے میں ایک شکایت پولیس میں درج کی تھی ۔ اس شکایت میں اس نے چھتیس گڑھ کے سینئر صحافی اویش تیواری کا نام بھی شامل کیا جو ہندی نیوز چینل سوراج ایکسپریس کے چھتیس گڑھ کے چیف ہیں۔ تیواری نے ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے داس کے خلاف ’’فرقہ وارانہ نفرت و عداوت پھیلانے ‘‘ کے الزام میں ایک ایف آئی آر درج کروائی ہے ۔ انہوں نے دی کوئنٹ نامی ویب سائٹ کو بتایا کہ داس نے پلوامہ، سی اے اے۔ این آر سی، اور قبائلی امور پر ان کے مضامین کو فیس بک پر پوسٹ ہونے نہیں دیا تھا جس میں مرکزی حکومت کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے فیس بک کے چیئرمین اور سی ای او مارک زکربرگ کو ایک خط ارسال کرکے مطالبہ کیا کہ وہ فیس بک انڈیا کی قیادت اور حکمران بی جے پی کے درمیان مبینہ سانٹھ گانٹھ کی اعلی سطح پر تحقیقات کریں۔ خط میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ انکوائری کی رپورٹ ایک یا دو ماہ میں فیس بک کے سامنے بورڈ میں پیش کی جائے اور اسے عام کیا جائے۔اپنے ٹویٹر ہینڈل پر اس خط کو ذکر کرتے ہوئے کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے کہا کہ تمام شہریوں کو فیس بک سے سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نفرت ، فرضی خبروں اور نفرت انگیز تقاریر کے ذریعہ جمہوریت کو کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔ جیسا کہ وال اسٹریٹ اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ فیس بک انڈیا میں نفرت انگیز مواد اور جھوٹی خبرییں پھیلانے میں ملوث ہے ۔

راہل نے کہا کہ ’’بی جے پی اور آر ایس ایس انڈیا میں فیس بک اور واٹس ایپ کو کنٹرول کرتے ہیں وہ اس کے ذریعے جھوٹی خبریں اور نفرت پھیلاتے ہیں اور اس کے ذریعہ ووٹروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہرحال اب امریکی میڈیا نے فیس بک کی اصلیت کو عوام کے سامنے لادیا اور بی جے پی کو کٹہرے میں کھڑ اکردیا ہے ۔ راہل کے ان ٹویٹس سے بی جے پی بوکھلا اٹھی ۔ اور اس نے ان کا جواب دینے کے بجائے کیمبرج اینالیٹیکا Cambridge Analytica کے ڈیٹا کا معاملہ اٹھایا ۔ اس بارے میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ برطانیہ میں واقع اس کمپنی نے کانگریس کو فیس بک کا کچھ ڈیٹا ( معلومات ) فراہم کی تھی تاکہ وہ 2019 کے عام ا انتخابات میں ووٹروں کو متاثر کر سکے ۔

مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے کانگریس کو شکست خوردہ جماعت قرار دیتے ہوئے ٹویٹ کیا، ”آپ انتخابات سے قبل کیمبرج اینالیٹیکا اور فیس بک سے ڈیٹا لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے ، پھر بھی ہم سے سوال کر نے کی جرات کر رہے ہیں۔ــ‘‘ حکمراں جماعت نے اپنی خجالت مٹانے کے لئے الٹے فیس بک کولیٹر لکھا کہ اس کے پلیٹ فارم سے ’’ نفرت انگیز‘‘ مواد نشر ہوتا ہے۔

کانگریس، سی پی آئی (ایم) کے علاوہ، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا اور دیگر پارٹیوں نے بھی فیس بک کے اس رویہ کی شدید مذمت کی ہے ۔ ان جماعتوں نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کی تحقیقات کے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ کوئی بھی ایسی حرکت جو جمہوریت کی بنیادوں کو کمزور کرتی اور ہماری معاشرتی ہم آہنگی کو خراب کر تی ہے اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

ویلفیئر پارٹی کے قومی صدر ڈاکڑ سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا گروپس عوامی پلیٹ فارم ہیں ،جنہیں ہر تعصب اور سیاسی جانبداری سے بالا تر ہونا چاہیے۔برسرِاقتدار پارٹی بی جے پی اور فیس بک کے درمیان جو ناجائز گٹھ جوڑ اور ساز باز سامنے آیا ہے وہ انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ڈاکٹر الیاس نے آگے کہا کہ ایسی اشتعال انگیز اور نفرت آمیز تقاریر نہ صر ف عوام کو تشدد پر ابھارتی ہیں بلکہ انتخابات کے وقت عوام کو پولورائز کرکے انتخابی عمل کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ فیس بک کا یہ رویہ اس کی عالمی پالیسی جس کا ہر حال میں اسے لحاظ کرنا چاہیے کے نہ صرف منافی ہے بلکہ غیر اخلاقی اور غیر معیاری بھی ہے۔

پارلیمنٹری اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹکنالوجی کے چیئرمین اور کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ،ڈاکٹر ششی تھرور نے بھی 2 ستمبر کو فیس بک اور وزارت آئی ٹی وزارت کے نمائندوں کو طلب کیا ہے ۔ کمیٹی نے دو ڈھائی گھنٹے تک فسی بک کے افسران سے سخت باز پرس کی ۔ بی جے پی نے فیس بک افسران کا طلب کرنے کے اقدام کی مخالفت کی تھی ۔۔ اس کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے لوک سبھا اسپیکر کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے تھرور کو پارلیمانی پینل کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا ۔ کمیٹی نے فیس بک کے نمائندوں کو دوبارہ بلانے کا قصد کیا ہے ۔

اس تحریر کے قلم بندکئے جانے تک وال اسٹریٹ جرنل نے مزید دو خصوصی رپورٹیں شائع کیں جن میں نئے انکشافات کئےگئے ۔ اسی طرح ٹائم میگزین نے بھی ، جس کے نتیجہ میں فیس بک پر دبائو بڑھ گیاہے۔

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بی جے پی پارلیمنٹ کی جانچ سے کیوں گھبرا رہی ہے؟ جب فیس بک کی پیشہ ورانہ دیانت پر سوالات کھڑےکئے جاتے ہیں تو کوئی اور نہیں بلکہ مرکزی وزیر برائے قانون و انصاف روی شنکر پرساد کے فیس بک کے دفاع کے لئے میدان میں آجاتے ہیں۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ خود وزیر اعظم اپنی جماعت کے ارکان پارلیمان سے فیس بک صفحات پر کم ازکم تین لاکھ لائک کی تلقین کر کے فیس بک کو فروغ دیتے ہیں اور اس کے عوض فیس بک ا س بات کو یقینی بناتا ہے کہ اپنی مسلمہ عالمی پالیسی کے بر خلاف بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کو تقویت پہنچانے کے لئے ان کے منافرانہ مواد اور تقریروں کو فیس بک پر جگہ دیتا ہے ۔