شیئر کیجیے

ہند چین تنازع: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

سہیل انجم

اس وقت بیشتر ہمسایہ ملکوں سے ہندوستان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ان ملکوں میں پاکستان اور چین سرفہرست ہیں۔ حالانکہ 2014 میں جب پہلی بار نریندر مودی کو وزیر اعظم کے منصب کا حلف اٹھانا تھا تو انھوں نے جنوبی ایشیائی ممالک کی تعاون کی تنظیم سارک کے سربراہان مملکت کو مدعو کیا تھا اور ان سے دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے سلسلے میں طول طویل مذاکرات کیے تھے۔ اگر چہ سارک میں چین شامل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس سے اس وقت تک اور اس کے بعد بھی اچھے رشتے رہے ہیں۔ ہاں کبھی کبھار سرحدی تنازع پیدا ہو جاتا تھا لیکن اسے باہمی گفت و شنید سے حل کر لیا جاتا۔
اس تقریب حلف برداری میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی شرکت کی تھی۔ لیکن بعد میں پاکستان کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کافی کشیدہ ہو گئے۔ اس کشیدگی کی وجہ ہندوستان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں ہیں جن کے بارے میں ہندوستان پاکستان پر الزام عاید کرتا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک کئی بڑی وارداتیں ہو چکی ہیں جن میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ، اڑی کے فوجی ٹھکانے پر حملہ اور پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ شامل ہیں۔ پلوامہ حملے کے بعد تو ہندوستان اور پاکستان جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے لیکن بہر حال عالمی رہنماؤں کی مداخلت کی وجہ سے جنگ کا اندیشہ ٹل گیا۔ لیکن حالات اب بھی انتہائی خراب ہیں۔ اس سے قبل بھی ہندوستان اور پاکستان آمنے سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن چین کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے ہوں۔ اس کے ساتھ 1962 میں ایک جنگ ہوئی تھی جس کے بعد چین نے ہندوستان کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے بعد بھی سرحد پر چینی افواج کی پیش قدمی یا دراندازی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کی باتوں پر یقین کریں تو 1962 کے بعد چین نے ہندوستان کی تقریباً 43 ہزار مربع کلومیٹر زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ بی جے پی کے موجودہ صدر جے پی نڈا کا الزام ہے کہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ہندوستان کی اتنی بڑی اراضی چین کو سرینڈر کر دی۔ جون 2017 میں چینی افواج نے ڈوکلام پر قبضہ کیا اور وہاں انھوں نے سڑکیں اور دیگر تعمیرات کیں۔ چین کا دعویٰ ہے کہ ڈوکلام کا علاقہ اس کا ہے جبکہ اس پر بھوٹان کا بھی دعویٰ ہے۔ بہرحال اس وقت ہندوستان کے فوجیوں نے سکم کی سرحد عبور کی اور ڈوکلام میں جا کر چینی فوجیوں کی تعمیرات منہدم کر دیں۔ یہ تنازع 73 دنوں تک جاری رہا لیکن اچھی بات یہ رہی کہ کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کسی جانب جانی یا مالی نقصان ہوا تھا۔ دونوں ملکوں کے نمائندوں کے باہمی مذاکرات نے اس مسئلے کو حل کر لیا تھا۔


لیکن اب مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں جو تنازع پیدا ہوا ہے وہ اب تک کا سب سے خطرناک اور خوں ریز تنازع ثابت ہوا ہے۔ ابتداس دونوں ملکوں کے فوجی جوانوں میں مار پیٹ اور دھکا مکی سے ہوئی تھی لیکن پندرہ جون کو دونوں کے جوانوں میں خونی تصادم ہو گیا۔ جس میں ہندوستان کے بیس فوجی ہلاک ہوئے۔ ہندوستانی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ چین کے 45 فوجی یا تو ہلاک ہوئے یا زخمی ہوئے لیکن چین اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ وہ اس کا اعتراف تو کرتا ہے کہ اس کو بھی جانی نقصان ہوا ہے لیکن یہ نہیں بتاتا کہ کتنے فوجی مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ اس خونی ٹکراؤ میں گولیاں نہیں چلیں کیونکہ ضابطہ اخلاق کے مطابق ایسے تصادم کے دوران آتشیں اسلحہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جو خبریں اور رپورٹیں موصول ہوئیں ان سے پتہ چلا کہ چینی فوجی کافی تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ انھوں نے خاردار تار لگے لوہے کے پائپوں اور اسی طرح کے دیگر ہتھیاروں سے ہندوستانی جوانوں کو نشانہ بنایا۔ چونکہ وہاں موسم انتہائی سرد ہے اور دریائے گلوان کا پانی منجمد ہونے کی حد تک سرد تھا اس لیے چینی جوانوں نے ہندوستانی جوانوں کو زدو کوب کیا اور بہت سے لوگوں کو دریا میں پھینک دیا جہاں ان کی موت ہو گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس تصادم کی وجہ چینی افواج کی جانب سے ہندوستانی علاقے میں دراندازی ہے۔ ہندوستانی فوجی فنگر آٹھ نامی مقام تک پہلے گشت کیا کرتے تھے لیکن چینی جوانوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا اور ہندوستانی جوان صرف فنگر پانچ تک ہی گشت کر پا رہے تھے۔ چینی فوجیوں نے ان علاقوں میں پختہ تعمیرات کیں اور اپنے اڈے بنا لیے۔بہر حال اس تصادم کے لیے دونوں ملک ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ اس تصادم سے قبل ہندوستان وہاں ایک سڑک اور پل کی تعمیر کر رہا تھا جس پر چین کو اعتراض تھا۔ دونوں ملک ایک دوسرے پر کنٹرول کی حقیقی لائن سے، جسے ایل اے سی کہتے ہیں یا جسے ہم دونوں ملکوں کی سرحد کہہ سکتے ہیں، چھیڑ چھاڑ اور سرحد کو اپنے طور پر بدلنے کا الزام لگاتے ہیں۔ در اصل ہندوستان اور چین کے درمیان ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے جس کا حقیقی تعین ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ فلاں مقام تک ہمارا علاقہ ہے اور چین کا کہنا ہے کہ فلاں مقام تک ہمارا علاقہ ہے۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کے علاقوں کے اندر اپنا علاقہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ کچھ ایسے علاقوں پر جن پر ہندوستان کا قبضہ ہو خود قبضہ کر لیتا ہے اور پھر وہ وہاں بیٹھ جاتا ہے۔ پھر اسی کو وہ ایل اے سی بنا دیتا ہے۔ اس کی اس حکمت عملی کے نتیجے میں سرحد پر 24 مقامات ایسے ہیں جو متنازعہ ہیں اور جن کے سلسلے میں دونوں میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ پندرہ جون کے خونی تصادم کے بعد ایسا لگا تھا کہ دونوں ملکوں میں جنگ ہو جائے گی لیکن بہر حال یہ نوبت نہیں آئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان کمانڈر سطح کے کئی ادوار کے مذاکرات ہو چکے ہیں اور ہر بات چیت کے بعد یہی بیان دیا جاتا ہے کہ دونوں سرحد پر امن قائم کرنے کے پابند ہیں اور خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی ہے اور جلد ہی یہ مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔ رپورٹوں کے مطابق چینی فوجی جو کہ ہندوستانی علاقے میں داخل ہو گئے تھے کچھ پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ہندوستانی فوجیوں کو بھی پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے کی حکمت عملی پر عمل کرتا ہے اور جب بھی وہ ہندوستانی علاقے پر قبضہ کرتا ہے تو وہاں تھوڑا سا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اس طرح وہ ہندوستان کے نئے نئے علاقوں پر قابض ہوتا جا رہا ہے۔ مقامی باشندوں کی باتوں پر یقین کریں تو چین نے ہزاروں کلومیٹر کی ہندوستانی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے اور متعدد چراگاہیں اس کے کنٹرول میں چلی گئی ہیں۔ بہر حال اس تنازع کو 13 اگست کو ہی سو دن ہو چکے ہیں اور ابھی تک مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔
بیس ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ہندوستان کے اندر کافی غم و غصہ پیدا ہوا اور چینی مصنوعات کے بائیکاٹ اور چین سے تجارتی تعلقات منقطع کر لینے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ حکومت نے متعدد چینی ایپس پر پابندی لگا دی اور کئی معاہدوں کو رد کر دیا۔ حکومت کی جانب سے یکے بعد دیگرے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور چینی کمپنیوں کو مختلف قسم کی سرگرمیوں سے الگ کیا جا رہا ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں چینی کمپنیوں نے اتنی سرمایہ کاری کر رکھی ہے کہ وہ اس پر سے اپنا انحصار ختم نہیں کر سکتا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی مصنوعات کے بائیکاٹ سے ہندوستان کو ہی نقصان پہنچے گا۔ لیکن بہر حال حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ عوامی غم و غصے کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ ورنہ چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا آسان نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان ایسی بہت سی اشیا جو خود بناتا ہے ان کے پارٹس چین سے درآمد کرتا ہے۔ چین سے ہندوستان کی درآمد بہت زیادہ ہے اور برآمد کم ہے۔ جس کی وجہ سے ہندوستان کو تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ چونکہ چینی اشیا سستی ہوتی ہیں اس لیے یہاں ان کی مانگ زیادہ ہے۔ اگر ہندوستانی کمپنیاں ان اشیا کو خود بنائیں گی تو ان کی قیمت زیادہ ہوگی۔ ایسی بہت سی پیچیدگیاں ہیں جو ہندوستان کو چین سے تجارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کر لینے کے برعکس ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان اس میدان میں کہاں تک جاتا ہے اور کتنا کامیاب ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے موقع پر جبکہ پوری دنیا کروناوائرس سے جنگ لڑ رہی ہے چین نے یہ قدم کیوں اٹھایا اور اس نے ہندوستانی علاقے پر قبضہ کیوں کیا۔ در اصل کرونا وائرس کی ابتدا چین سے ہی ہوئی تھی۔ وہاں کے ووہان شہر سے اس کا آغاز ہوا اور اب یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور بعض دیگر ممالک کی جانب سے چین پر انگشت نمائی کی جا رہی ہے کہ اس وائرس کا ذمہ دار وہی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے جس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ یہ وائرس چین کے ایک لیب میں تیار کیا گیا تھا اور اس کا مقصد اپنے دشمن ملکوں کے اندر اسے چھوڑنا اور پھر اس کی آڑ میں سپر پاور بننا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے میں سب سے زیادہ جارح ثابت ہوئے ہیں۔ وہ ابھی تک چین کی جانب انگشت نمائی کر رہے ہیں۔ بلکہ ایک بار تو انھوں نے کرونا وائرس کو چینی وائرس بھی کہا تھا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ اس الزام سے بہت زیادہ گھبرا گئے اور اسی لیے انھوں نے اپنی افواج کو ہندوستانی علاقے میں داخل ہونے کا حکم دیا تاکہ کرونا وائرس کے سلسلے میں چین پر جو الزام ہے اس سے دنیا کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے یہ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ ا س وقت چین کئی ملکوں سے الجھ رہا ہے اور ممکن ہے کہ اس کا مقصد مذکورہ الزام سے دنیا کی توجہ ہٹانی ہی ہو۔ ایک دوسری وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ صدر شی جن پنگ کو اپنی پارٹی یعنی چینی کمیونسٹ پارٹی میں مخالفتوں کا سامنا ہے اور کچھ لوگ ان کے متبادل کے طور پر ابھر رہے ہیں۔ اس لیے داخلی کشمکش سے توجہ ہٹانے اور اپنے ملک کے اندر قوم پرستی کا جذبہ پیدا کرنے کے مقصد سے انھوں نے یہ قدم اٹھایا تاکہ ان کو اندرونی سطح پر جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان کو ختم کیا جا سکے۔
اس چینی حرکت کی ایک اور وجہ بتائی جا رہی ہے اور وہ وجہ ہندوستان کی جانب سے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ختم کرکے اس کی خصوصی نیم خود مختاری کا خاتمہ کرنا اور جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام دو الگ الگ علاقے بنانا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے اس قدم کی سخت مخالفت کی گئی تھی اور اب بھی کی جا رہی ہے۔ پاکستان نے متعدد عالمی فورموں پر اس معاملے کو اٹھایا اور چین کی مدد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس میں بھی اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ چین بھی لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے اور ہندوستان کے وزیر داخلہ امت شاہ کے اس اعلان سے کہ اقصائی چین اور پاک مقبوضہ کشمیر پر بھی ہم قبضہ کر لیں گے، ناراض ہے۔ اس معاملے پر چین مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں چین نے سی پیک سمیت کافی کچھ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ پاکستان سے اس کے مفادات وابستہ ہیں۔ اس لیے وہ پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے۔ جموں و کشمیر کے معاملے پر پاکستان اتنا آگے جا چکا ہے کہ اس کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کو او آئی سی کا اجلاس طلب کرنے کے لیے دھمکی تک دے دی جس سے دونوں کے رشتوں میں کشیدگی یا سرد مہری آگئی جسے دور کرنے کے لیے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سعودی عرب کا دورہ کرنا پڑا۔ بہر حال جموں و کشمیر کے معاملے پر چین مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ ہے۔
گلوان وادی کا تنازع تادم تحریر جاری ہے۔ دونوں جانب سے بڑی تعداد میں فوجی تعینات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت بھی ہو رہی ہے۔ فی الحال اس بات چیت کا بہت کم نتیجہ سامنے آیا ہے۔ اس معاملے پر ہندوستان کا رویہ نرم اور چین کا جارحانہ ہے۔ یہاں تک کہ نئی دہلی میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ نہ تو کوئی ہماری سرحد کے اندر داخل ہوا نہ وہ وہاں ہے اور نہ ہی ہماری کسی فوجی چوکی پر اس کا قبضہ ہے۔ ان کے اس بیان پر ملک کے اندر کافی ہنگامہ ہوا اور خاص طور پر کانگریس اور اس کے سابق صدر راہل گاندھی نے بار بار وزیر اعظم کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اب بھی بنا رہے ہیں۔ کانگریس کی دلیل ہے کہ اگر چین ہمارے علاقے میں داخل نہیں ہوا تو پھر دونوں ملکوں کی فوجیوں میں ٹکراؤ کیوں اور کہاں ہوا اور ہمارے بیس فوجی کیوں مارے گئے۔ لیکن حکومت کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا جا رہا ہے۔ جبکہ وزارت خارجہ کے بیانات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ چین نے ہماری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ البتہ وزارت دفاع کی ویب سائٹ سے اس مواد کو ہٹا لیا گیا ہے جس میں اس کا اعتراف کیا گیا تھا کہ چین نے لداخ میں ہمارے تین مقامات پر دراندازی کی ہے۔ چین کی جارحیت کی وجہ سے صورت حال حساس ہو گئی ہے اور یہ معاملہ طویل عرصے تک جاری رہ سکتا ہے۔ وزارت دفاع کی جانب سے اس مواد کو ہٹا لیے جانے پر بھی کانگریس نے حکومت کی سخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ چین اب بھی ہماری زمین پر بیٹھا ہوا ہے۔ بہر حال یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے اور فوجی ذرائع پر یقین کریں تو یہ صورت حال لمبے عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بہر حال چین کو ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کا حقیقی تعین نہیں ہو جاتا اس وقت تک ایسی صورت حال پیدا ہوتی رہے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس تنازعے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
[email protected]