شیئر کیجیے

مودی کا اصلی کارنامہ -مسلمان سیاسی طور پر بے اثر

عبدالباری مسعود

اس امر میں دو رائے نہیں ہے کہ مئی 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کی بیس کروڑ سےزائد مسلم آبادی کو دیگر طبقات ( بشمول عیسائی ، دلت اور قبائل ) کے مقابلے میں سب سے زیادہ مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ان دس برسوں میں مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو نیز مذہبی شناخت پر چیرہ دستیوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ۔ لنچگ اور بلڈوزر جسٹس ہندتوا سیاسی کلچر میں فرقہ وارانہ سفاکیت کے نئے عنوان بن گئے ۔ آزادی کے بعد سےہی مسلمانان ہند امتیازی سلوک اور فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں رہے ہیں ۔ ان کا قا فیہ تنگ کرنے کا سلسلہ آج بھی بلا روک ٹوک جاری ہے۔ یہ کوئی سنسنی خیز انکشاف یا محض الزام نہیں بلکہ ایک دائمی اور تلخ حقیقت ہے کہ پولیس، فوج اور انتظامی شعبوں میں مسلم نمائندگی آج بھی برائے نام ہی ہے ۔ تاہم اس تجزیہ میں گزشتہ دس سالوں میں پارلیمنٹ، صوبائی قانون ساز اسمبلیوں اور حکمرانی کے دیگر آئینی اداروں میں دانستہ طور پر مسلم نمائندگی کو کس طرح کم کیا گیا اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شاید آزادی کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے جب وفاقی حکومت میں ایک بھی مسلم چہرہ نہیں ہے اور نہ ہی حکمراں جماعت کے دونوں ایوان کے ارکان پارلیمنٹ کی فہرست میں نقوی یا شا ہنواز جیسے نام کا بھی کوئی چہرہ نہیں ہے۔27 ریاستوں میں سے 15 صوبائی حکومتوں میں کوئی ایک وزیر بھی مسلم طبقہ سے نہیں ہے ۔ بقیہ 10 ریاستی حکومتوں میں مسلمان وزیر ضرور ہیں لیکن ان کے پاس اقلیتی امور جیسےغیر اہم قلمدان ہیں ۔ ہندوستان کی کسی بھی ریاست میں کوئی مسلمان وزیر اعلیٰ نہیں ہے۔ اس عرصہ میں انہیں سیاسی طور پر کمزور کرنے کے تمام جتن کیےگئے ۔ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ غیر آئینی و غیر جمہوری انداز سے چھینا گیا اور اسے گزشتہ چھ برسوں سے جمہوری حقوق سے بھی محروم رکھا گیا۔ حالانکہ ملک کی گیارہ ریاستوں کو کسی نہ کسی درجہ میں خصوصی درجہ حاصل ہے لیکن کسی ایک کو بھی چھوا تک نہیں گیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی اسمبلیوں میں مجموعی طور پر 4908 نشستیں ہیں ۔ جس میں راجیہ سبھا کی 245، لوک سبھا کی 543، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے قانون ساز اداروں میں بقیہ 4120 نشستیں شامل ہیں ۔ تاہم حکمران بی جے پی، جو خود کو ”دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت” کہتی ہے کے تقریباً 1,000 ارکان اسمبلی (ایم ایل اے )میں سے ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ حکمراں جماعت ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کا نعرہ تو ضرور لگاتی ہے لیکن یہ نعرہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔اس کے قول و فعل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ 17 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں اسے اکثریت حاصل ہے۔ لیکن چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے اس کے ارکان کی صف کوئی ایک مسلمان بھی نظر نہیں آئے گا ۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ دانستہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔سیاسی محاذ پر مسلمانوں کو کمزور کرنے میں بہت سے عوامل کا رفرما ہیں ۔ ان میں برہمنی نظام کی علمبردار طاقتوں کا عروج اور سماج کی شدت پسندی بھی شامل ہے۔ ہندوستانی امور کے نامور فرانسیسی تجزیہ کار کرسٹوف جفرلو( Christophe Jaffrelot) ) نے اپنی کتابMajoritarian State: How Hindu Nationalism Is Changing India” میں اس نکتہ کو اجاگر کیا ہے کہ بی جے پی کے عروج کا مطلب ہندوستان میں قانون ساز اداروں میں مسلم نمائندگی کی کمی ہے۔کتاب کے مطابق1980 اور 2014 کے درمیان ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں مسلم اراکان کی تعدادبہت زیادہ کم ہو گئی ہے۔ یہ تنزل اس لحاظ سے بھی سب سے زیادہ اہم ہے کہ اسی عرصے کے دوران ہندوستانی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاً ان کی آبادی کا تناسب (جو 11.1 سے بڑھ کر 14.2% ہو گیا) اور لوک سبھا میں ان کے منتخب نمائندوں کے درمیان فرق پانچ گنا بڑھ گیا۔ اس سیاسی تنزل کے لیئے بنیادی طور پر بی جے پی ہی ذمہ دار ہے جس نے بہت کم مسلم امیدواروں کی حمایت کی ہے ۔ خیال رہے 1980 میں 7ویں لوک سبھا انتخابات میں 49 کے قریب مسلمان ایوان زیریں کے لیے منتخب ہوئے تھے جو آج تک کا ایک ریکارڈ ہے ۔ تاہم بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کو جیسے جیسے عروج حاصل ہوتا گیا ویسے ویسے مسلمانوں کی نمائندگی گھٹتی چلی گئی۔ جب کہ 2014کی 16ویں لوک سبھا میں محض 22 مسلمان ہی منتخب ہوپائے نیز سب سے بڑی ریاست اتر پردیش، جہاں سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے، وہاں سے ایک بھی مسلمان کامیاب نہیں ہو پایا ۔ یہ فرقہ وارانہ لہر کی شدت کا نتیجہ تھا۔ یہ وہی ریاست ہے جہاں سے 1980 کے الیکشن میں 18 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ اس ریاست کو آزادی کے بعد سے سب سے زیادہ مسلم نمائندے بھیجنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ گوکہ موجودہ 17ویں لوک سبھا میں مسلم اراکان کی تعداد میں قدرے بہتری ہوئی ہے جو کہ اس وقت 27 ہے۔لیکن 2017 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں مسلم نمائندگی 2012 میں 17.1 فیصد سے گھٹ کر محض 5.9 فیصد ہی رہ گئی تھی۔ماضی میں انتظامی سطح سےمسلم نمائندگی کو کم کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہی ہے- ان کوششوں میں قابل لحاظ مسلم آبادی والے انتخابی حلقے، شیڈول کاسٹ یا شیڈول ٹرائبس کے لیےمحفوظ کردینا اور انتخابی حلقوں کی حد بندی کچھ اس طرح کرنا کہ مسلم ووٹوں کی تعدادبے وزن ہوکر رہ جائے۔ ان دس سالوں میں جموں و کشمیر اور آسام (جو 35 فیصد کے ساتھ ملک میں دوسری بڑی مسلم اکثریت والی ریاست ) میں نئے حدبندی کمیشن کے ذریعہ انتخابی حلقوں کی تراش خراش کچھ اسی طرز پر کی گئی کہ مسلم نمائندگی گھٹ جائے۔ جموں و کشمیر کے ساتھ ایک اور بڑی ناانصافی اور ظلم یہ کیا گیا کہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام لے لیا گیا۔ اقلیتوں سے متعلق ادارے جیسے قومی اقلیتی کمیشن، قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات وغیرہ کو عضو معطل بنا دیا گیا یا ان کے عہدوں سے مسلمانوں کو ہٹادیا گیا۔ اس کے علاوہ بعض فعال مسلم تنظیموں پر بلا کسی ٹھوس ثبوت کے پابندی لگا دی گئی جن میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا قابل ذکر ہے ۔ دراصل یہ دوسری مسلم تنظیموں کے لئے بھی ایک انتباہ ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کے زیر قیادت بی جے پی کے پہلے دور حکومت میں 2001 میں اسٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا اور کچھ دیگر ملی تنظیموں پر پابندی عائد کرکے انہیں غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اور اب تک اس تنظیم پر آٹھ بار پابندی لگائی جاچکی ہے، جن میں سے سات معاملے2001 سے سپریم کورٹ میں پر ابھی تک زیر التوا ہیں ۔ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے ملی گزٹ کے ایڈیٹر اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کہتے ہیں کہ “اس کا سلسلہ آزادی سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا جب برٹش دور حکومت میں داخلی حکمرانی کے دور میں کانگریس نے مسلم لیگ کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ اس پالیسی نے آزادی کے بعد ٹھوس شکل اختیار کرلی جب مسلم تحفظات یا ریزرویشن کو ختم کر دیا گیا۔ سرکاری سطح پر اردو کو دفتری زبان کے طور پر ختم کر دیا گیا اور اردو میڈیم سرکاری اسکولوں کو ختم کر دیا گیا۔ آزادی کے بعد ہندوستان ہجرت کرنے والے غیر مسلموں کو ”مہاجرین” کے طور پر خوش آمدید کہا گیا جب کہ ہندوستان واپس آنے والے مسلمانوں کے ساتھ ‘ غیر ملکی ” کے بطور پر سلوک کیا گیا، جنہیں ہندوستان واپس آنے کے لیے خصوصی اجازت نامے کی ضرورت تھی۔ 1950 کے آرڈر کے ذریعے مسلم اور عیسائی دلتوں کے تحفظات کو یکلخت ختم کر دیا گیا۔ ان تمام دہائیوں میں پارلیمنٹ اور مقننہ میں مسلمانوں کی نمائندگی بمشکل ان کے حق کا ایک تہائی ہی رہی ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں زیادہ ترفرضی دہشت گردی کے مقدمات میں مسلم نوجوانوں کو پھنسایا گیا ۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی بھرتی آبادی میں ان کے تناسب کاچار فی صد بھی نہیں رہی ۔ سچر کمیٹی نے 2006 میں اپنی رپورٹ میں یہ حقیقت وا کردی کہ مسلمان بعض شعبوں میں ایس سی/ایس ٹی سے بھی نیچے چلے گئے ہیں ۔” یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نمائندگی کے معاملے میں کانگریس بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔ 1947 میں ملک بھر میں اے آئی سی سی کے1000 ارکان میں سے صرف 3 فیصد مسلمان تھے۔ جب اس دور کی مسلم لیگ نے کہا کہ کانگریس ایک ’’ہندو پارٹی‘‘ ہے تو یہ طعنہ بیجا نہیں تھا ۔ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں بی جے پی نے ایسا ہی انداز اپنایا۔ ڈاکٹر خان نے نشاندہی کی کہ 2014 کے بعد سے بی جے پی کے دور حکومت میں صور ت حال مزید خراب ہوگئی ہے۔ اگر پہلے کی حکومتوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو پسماندہ کرنے کی ٹھوس پالیسی پر عمل کیا تو ہندوتوا کھلے عام ہندوستانی مسلمانوں (اور عیسائیوں ) کو دوسرےدرجہ کا شہری بنانے کی وکالت کرتا ہے۔ 2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات کو کوئی بھولا نہیں ہے۔ اس کے بارے میں کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلی کو ـ موت کے سوداگر سے تشبیہ دی تھی جو مسلمانوں کو ان کے لباس سے پہنچانے کا بھرے جلسہ میں مشورہ دے چکے ہیں ۔ آزاد ہندوستان میں پہلی بار حکمران جماعت کے پاس ایک ٹوکن مسلم وزیر یا ایم پی بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے والی سابقہ حکومتوں کی شروع کی گئی اسکیموں کو آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے۔ مسلم پرسنل لاء کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مدرسہ بورڈوں کے تحت قائم مدارس کو ختم کیا جا رہا ہے، جیسا کہ اتراکھنڈ، آسام، اور اب یوپی سے خبریں آرہی ہیں ۔ کئی علاقوں میں مساجد، مزارات اور مدارس کو منہدم کیاجا رہا ہے۔ حکومت کے حامی میڈیا کی طرف سے مسلمانوں کو رسوا کرنے کا معاملہ اب ایک معمول کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ احتجاج کرنا، ہر ہندوستانی کا جمہوری حق ہے لیکن یہ مسلمانوں کے لیے اب انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرنے والوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ان کے گھروں اور دکانوں کو منہدم کرنا معمول بن گیا ہے۔ منڈل سیاست یا سماجی انصاف کی سیاست کمزور ہو نے سے شمالی ہند کی ریاستوں جیسے یوپی، بہار اور جھارکھنڈ میں بی جے پی کے ابھار میں اہم کردار ادا کیا۔ ترکی میں مقیم صحافی افتخار گیلانی کے بقول ہندوؤں کی درمیانی اور نچلی ذاتیں جو مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوتی تھیں ، اب ایسا نہیں کر رہ ہی ہیں ۔ یہ لوگ اب تعلیم یافتہ ہیں اور یوپی اور بہار میں او بی سی اکثریتی حکومتوں کی پالیسیوں کی بدولت سرکاری اور نجی شعبے میں اہم عہدوں پر فائز ہیں ۔ اب وہ ایک خواہش مند طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور تعلیم اور کامیابی کے معاملے میں اعلیٰ ذات کے درجے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو حالیہ برسوں میں تیزی سے پسماندہ ہو گئے ہیں ۔ خواہشمند طبقہ اس شخص کو دیکھتا ہے جو ان سے آگے ہے نہ کہ پیچھے والے کو۔ مسلم کمیونٹی میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو دوسروں کو ان کی تقلید کرنے یا ان کے ساتھ سماجی طور پر اتحاد قائم کرنے کی ترغیب دے۔ دلت اپنے امیدوار کو ووٹ دیں گے، لیکن اگر ان کا اپنا امیدوار کمزور ہے، تو وہ بی جے پی کی طرف چلے جائیں گے، اور یہی بات او بی سی میں بھی ہے۔ایسے ہی خیالات کا اظہار تجزیہ کار قمر اشرف نے بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی نظام سےمسلمانوں کا اخراج ان کے ساتھ غیرملکی جیسا سلوک کیے جانے کے وسیع رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ اشرف کے مطابق کانگریس کے ”ہندو اکثریت پسندی” کی طرف مسلسل قدم نے ہندوستان میں دائیں بازو کی سیاست کے ابھرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ ڈاکٹر خان کے مطابق “ہندوتوا کے وسیع ترپروپیگنڈے کا یہ اثر ہے کہ مسلمانوں کے جائز حق میں اٹھایا گیا کوئی بھی قدم یا بیان ”مسلمانوں کی خوشنودی” قرار پاتاہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں مسلمانوں سے فاصلہ بنائے رکھتی ہیں ۔ مسلمانوں کو اب پارٹی عہدے نہیں دیے جا تے، ریلیوں کے دوران کسی بھی اسٹیج پر موجود رہنے کے لیے نہیں کہا جاتا یا اور انتخابات کے دوران صرف مہم چلانے والوں کے طور پر کام کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ یہ ہندوتوا ایجنڈے کی بڑی کامیابی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر دوسری پارٹیاں ہندوستان پر حکومت کرنے آئیں گی تو بھی مستقبل قریب میں منظر نامہ کچھ زیادہ نہیں بدلے گا۔ مسلمان تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے بیگانہ رہیں گے۔‘‘قمر اشرف بھی یہی خیال ہے کہ ’’میڈیا نے مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، جس سے وہ سماجی طور پراب تنہا محسوس کرنے لگے ہیں ۔ میڈیا کا ایک اہم حصہ ’’انتخابی فتح‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف حکومت کے امتیازی اقدامات کا دفاع کرتا ہے۔ درحقیقت میڈیا نے ’’جمہوریت اور موبوکریسی‘‘ کے درمیان کی لکیر کو تیزی سے دھندلا کر دیا ہے۔ جب کہ ٹیلی ویژن چینلوں پر شاذ و نادر ہی کسی مثبت موضوع پر بحث ہوتی ہے ۔ پرنٹ میڈیا کے منظر نامے میں خواتین، درج فہرست قبائل اور درج فہرست ذاتوں کی نمائندگی پر بحث میں یہ بتایا جاتا کہ ہے مسلمان اس پر قابض ہیں ۔ حکمراں بی جے پی اور اپوزیشن پارٹیاں دونوں نے عوامی سطح پر مسلمانوں کی حمایت کرنے سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔ حکمراں جماعت اور ارباب اقتدار بغیر کسی عار کے مسلمانوں کو کھلے عام نشانہ بناتے ہیں اور اپنے منصب کے منافی بیانات دیتے ہیں ، ان میں وزیراعظم سمیت بعض وفاقی وزراء اور بعض وزرا ء اعلی جیسے یوگی آدیناتھ ، ہیمنت بسوا سرما شامل ہیں جنہوں نے کمیونٹی کے خلاف ایک معاندانہ ماحول پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اس کے ذریعہ مسلم مخالف جذبات کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر خان کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں کی درماندگی اتنی شدید کبھی نہیں تھی جتنی کہ اب ہے ۔وہ متنبہ کرتے ہیں کہ اگر مودی کو انتخابات میں دوبارہ بر سر اقتدار آنے کا موقع ملتا ہے تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں ۔ تاہم اس سلسلہ میں سابق ہاکی اولمپیئن اور مرکزی وزیراسلم شیر خان ذرا مختلف موقف رکھتے ہیں ۔ وہ مدھیہ پردیش کے بیتول حلقہ سے پانچ بار پارلیمانی انتخاب لڑ چکے ہیں جن میں انہیں دو بار کامیابی ملی۔وہ کہتے ہیں سیاست میں مسلم کمیونٹی کے زوال کی دو اہم وجوہات ہیں : پہلی، انہوں نے بابری مسجد کے انہدام کے بعد کانگریس پارٹی سے بڑی حد تک ترک تعلق کرلیا اور اپنے ووٹوں کو بی ایس پی، ایس پی اور دیگر جماعتوں میں تقسیم کر کے کانگریس پارٹی کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنے سے روکا۔ دوسرے،1980 کی دہائی کے بعد پارٹیوں کے ذریعہ امیدوار منتخب کرنے کے معیار میں تبدیلی آئی ۔ اب سماج میں اچھی ساکھ اور ایماندار شخص کی جگہ کروڑ پتی اور طاقتور افراد کو ٹکٹ دیا جانے لگا کہ وہ مارکیٹ سے کتنے ووٹ خرید سکتا ہے اور کتنی دھونس و دھاندلی کی طاقت رکھتا ہے۔ ان کے خیال میں کمیونٹی کو مایوسی سے باہر نکلنے اور خود اعتمادی کا دوبارہ مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اپنی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیتول حلقہ میں صرف چار فیصد مسلم ووٹ ہیں لیکن وہ اس سیٹ سے دو بار سر خرو ہوئے ۔ اسلم خان کے بقول تقریباً 150 سیٹوں پر مسلم ووٹوں کی اہمیت ہے اور وہ ہندوستان کو پھر سے صحیح سیاسی راہ پر ڈالنے کی صلاحیت اور حو صلہ رکھتے ہیں ۔