شیئر کیجیے

بابری مسجدپر سپریم کورٹ کا فیصلہ

جلیل الرحمن ندوی، غازی آباد

9،نومبر 2019ء کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ کے بابری مسجد پر متفقہ فیصلے سے بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی، سماجی اور قومی نقطۂ نظر سے مسلم ملت کی عزتِ نفس اور ملّی وقار مجروح ہوا ہے اور ہندوستان کی عدالتِ عظمیٰ نے اکثریت کی بالادستی کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مسلم قائدین اور عام مسلمانوں کی طرف سے اس فیصلے پر دکھ اور افسوس کے ساتھ مایوسی کا اظہار کیا گیا۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے بابری مسجد کے قضیے کی سیاسی، سماجی اور قومی حیثیت سے زیادہ دینی اورمذہبی حیثیت ہے۔ اگر قومی اور گروہی کشمکش کے بجائے خالص اسلامی اور دینی نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو موجودہ حالات میں یہ مسئلہ ہمارے لیے دینی اعتبار سے بھی کلیدی حیثیت کا حامل نہیں ہے کیونکہ ملتِ اسلامیہ ہند کے لیے بابری مسجد کے تحفظ سے کہیں زیادہ اہم مسائل درپیش ہیں جن کی جانب انشاء اللہ مضمون کے آخر میں نشان دہی کی جائے گی۔ جب کہ فریقِ مخالف کے سیاسی قائدین نے اپنی توہّم پرست اور دیو مالائیت کی پرستار قوم کے سامنے اس مسئلے کو ان کے سوابھمان(قومی وقار) کے لیے سب سے اہم اور کلیدی حیثیت سے پیش کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مختلف مقامات پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا قوم پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمے داری نہیں ڈالتا۔ یہاں تک کہ خود انبیائے کرام بھی دعوت کے اس بنیادی اصول سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ لہٰذا قرآنِ کریم کے اس اصول کی روشنی میں بابری مسجد کے سلسلے میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس چیز کا مکلف بنایا ہے وہ صرف یہ ہے کہ کوئی مسلمان فرد یا مسلمانوں کا کوئی گروہ مرکزِ توحید یعنی اللہ کی عبادت گاہ کو مرکزِ شرک(بت خانے) میں تبدیل کرنے کے لیے رضامند یا معاون نہ بن جائے۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ خود اپنی آخرت ہی ناکام کر ے گا۔
آج کل کچھ مسلمان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ سے مقدمہ واپس لے کر مسلمانوں کی جانب سے مصالحت کا کوئی معاملہ کر لیا جاتا تو بغیر کسی کشمکش کے باہمی رضامندی کے ساتھ پانچ ایکڑ خطۂ زمین سے کہیں زیادہ زمین اور دیگر مراعات حاصل ہو سکتی تھیں۔ یہی بات تقریباً ایک سال قبل شری شری روی شنکر اور مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب نے مصالحت کا ایک فارمولہ طے کرنے کے بعد کہی تھی۔ اوراپنے تیار کردہ صلحِ کُل کے فارمولے کی تائید میں فقہِ حنبلی کے مطابق دلیل پیش کی تھی کہ کسی ناگزیر اجتماعی یا عوامی ضرورت کے لیے مسجد کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے، اور بہت سے عرب ممالک میں اس پر عمل بھی کیا گیا ہے۔ راقم الحروف نے اسی وقت ایک مضمون تحریر کیا تھا جو مولانا موصوف کی خدمت میں ارسال کرنے کے ساتھ سہ روزہ دعوت میں بھی شائع ہوا تھا، جس کا حاصل یہ تھا کہ’’ ایسی ناگزیر عوامی ضرورت -جس کی بنا پر مسجد کو منتقل کیا جاسکتا ہو- بہ قول آپ کے بھی صرف شارعِ عام یعنی ہائی وے کی توسیع کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ جس عبادت گاہ میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر ’’ایّاک نعبد وإیّاک نستعین‘‘ کے عہد واقرار کے ساتھ صرف اسی کے لیے رکوع اورسجدہ ریزی کی جارہی ہو، اس جگہ کو معبدِ شرک یا بت خانے میں تبدیل کرنے کا جواز یا تعاون ورضامندی کی گنجائش کہاں ہے؟ ‘‘

ہر مسلمان کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو امتِ خیر، امتِ وسط اور ایک داعی گروہ بناکر اس دنیا میں بھیجا ہے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کا خالص دین ’اسلام‘ اور اس کی اصلی کتاب ’قرآن کریم‘ صرف آپ کے پاس محفوظ ہے جو اپنے مخاطب ہر انسان کو تفہیم وتدبر اور کائنات میں اللہ کی توحید کی نشانیوں میں تفکر کی دعوت کے ساتھ عقلِ سلیم کو اپیل کرتی ہے۔ اس کی سب سے پہلی آیت کا نزول ہی حصولِ علم کے حکم سے شروع ہواہے۔ جب کہ برادرانِ وطن کے جس طبقے سے آپ کا واسطہ ہے اس کے مشرکانہ عقائد اور توہم پرستی کی کوئی حد متعین نہیں۔ کوئی بھی مذہبی پیشوا جب چاہتا ہے ایک نیا عقیدہ اور نیا دیوتا ایجاد کر دیتا ہے۔ ان کی آستھا (عقیدت)میں عقل ودلیل اور علم وتدبر کا کوئی دخل نہیں ہوتا، جس کا وہ فخریہ انداز میں اقرار کرتے ہیں اور جس کی کچھ جھلکیاں سپریم کورٹ میں بحث کے دوران فریقِ ثانی کے معزز وکلاء کے بعض ریمارکس میں بھی نمایاں طور پر نظر آتی تھیں۔ایک جج صاحب نے ایک وکیل صاحب سے جب سوال کیا کہ کسی شخصیت کے جنم استھان ہونے کا مطلب یہ کیسے ہوگیا کہ وہاں لازماً مندر بھی ہو، تو وکیل صاحب نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اجودھیا کی حیثیت شہر مکہ اور کعبہ کی طرح ہے جو پروفٹ محمدؐ کی جائے پیدائش ہے۔ اس کے بعد جج صاحب نے مسلمان وکیل سے سوال کیا کہ خانۂ کعبہ کس نے تعمیر کیا تھا تو مسلم وکیل صاحب نے جواب دیا کہ خانۂ کعبہ حضرت محمدؐ کی پیدائش سے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے ایک اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا تھا۔ وہ کسی بھی پروفٹ کی جائے پیدائش نہیں تھی۔
اپنے اس منصب اور ذمے داری کو پیشِ نظر رکھ کر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے وہ اہم نکات -جن کو مسلمانوں کی قانونی فتح کہا جاسکتا ہے، مندرجہ ذیل ہیں۔ ان پر غیر جانبدارانہ غوروفکر کی ضرورت ہے:
1- ہمارا یہ فیصلہ کسی کی آستھا پر نہیں، بلکہ ثبوت وشواہد پر مبنی ہوگا۔
2-جنم استھان یا جنم بھومی بہ ذاتِ خود کوئی قانونی شخصیت نہیں ہو سکتی۔
3-ایسا کوئی ثبوت یا آثار نہیں ہیں کہ بابری مسجد کسی مندر یا دیگر عمارت کو منہدم کرکے بنائی گئی تھی۔(اس شق میں عدالت نے سنگھ پریوار کے تمام جھوٹے الزامات کی تردید کر دی ہے جو مسلم فریق کی سب سے بڑی قانونی فتح ہے، کیونکہ ان کے مقدمے کا مکمل دارومدار صرف اس بنیاد پر تھا کہ بابری مسجد رام کے مندر کو توڑ کر تعمیر کی گئی ہے، جب کہ اجودھیا شہر میں تقریباً ایک درجن مندر اس مفروضے پر قائم ہیں کہ یہی شری رام کا جنم استھان ہے۔)
4-1527ء میں مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں بابری مسجد کی تعمیر ہوئی اور تب سے1949ء تک مسجد پر مسلمانوں کا قبضہ رہا، اور1857ء سے22 دسمبر1949ء تک اس میں نماز ادا کی جاتی رہی، اگرچہ 1857ء سے پہلے مسلم فریق مسجد میں نماز کی ادائیگی کا ثبوت نہیں دے سکا۔
5-22/ اور 23/ دسمبر 1949ء کی درمیانی شب میں بابری مسجد کے اندر ایک سازش کے تحت مورتیاں نصب کرائی گئیں اور مسجد میں تالا لگا کر مسلمانوں کو جبراً نماز پڑھنے سے روک دیا گیا۔
6-بائیس دسمبر 1949ء کو ایک سازش کے تحت بابری مسجد کے اندرونی حصے میں درمیانی گنبد کے نیچے مورتیاں رکھنا انتہائی غیر قانونی اور مجرمانہ عمل تھا۔
7-6دسمبر 1992ء کو دن کے وقت شرپسندوں کے ذریعے بابری مسجد کو منہدم کرنا ایک غیر قانونی اور انتہائی مجرمانہ عمل تھا۔(ان دونوں نکات کے ذریعے سپریم کورٹ کے ذریعے آئندہ کبھی بھی ایسے افعال کی مثال کو غیر قانونی اور مجرمانہ عمل قرار دینے کی نظیر قائم کر دی گئی ہے۔ قانون داں حضرات اس کو بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں۔)
یہاں تک مندرجہ بالا نکات پکار پکار کر مسلم فریق کی قانونی فتح کا اعلان کر رہے ہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے فیصلے میں مجرمانہ اعمال کے مرتکبین کو سپریم کورٹ نے پوری متنازعہ زمین کا مالک کیوں بنا دیا؟ اس تمام کارروائی کے لیے سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے بہ ظاہر صرف مندرجہ ذیل نکات کا سہارا لے کر اپنا غیر منصفانہ فیصلہ تیار کر لیا:
۱-کچھ غیر ملکی سیاحوں نے لکھا ہے کہ مسلمان بابری مسجد کے اندر نماز پڑھتے تھے اور ہندو مسجد کے باہری حصے میں پوجا پاٹ کیا کرتے تھے۔ جب کہ یہ بات مسلمانوں نے بھی تسلیم کی ہے کہ ہندو 1885ء کے بعد سے مسجد کے باہر ایک چبوترہ پر،جس کو وہ رام کا جنم استھان کہتے ہیں، پوجاپاٹ کیا کرتے تھے۔
۲-مسلم فریق کے وکلایہ بات ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ 1528ء میں بابر کے سپہ سالار میر باقی نے بابری مسجد کی تعمیر کے لیے جو خالی زمین حاصل کی تھی وہ کس جائز طریقے(یعنی رضامندی،یا خرید وفروخت کے ذریعے) سے حاصل کی گئی تھی۔
گذشتہ سات نکات میں سپریم کورٹ نے مسلم فریق کی مکمل بے گناہی اور تمام جھوٹے الزامات سے براء ت کے بعد ان آخری دو نکات میں انتہائی ہوشیاری کے ساتھ اس جگہ کو متنازعہ جگہ قرار دے دیا۔ یعنی ایک یہ کہ دونوں فریقوں کی وابستگی اس جگہ کے ساتھ رہی ہے جس کو مسلمانوں نے بھی تسلیم کیا ہے، چاہے وہ مسجد کے باہری احاطے میں ہی کیوں نہ ہو،دوسرے یہ کہ قبضہ کے علاوہ جگہ کی ملکیت کے قانونی کاغذات دونوں فریق میں سے کوئی بھی پیش نہیں کر سکا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک فریق کا قبضہ تقریباً پانچ سو سال قدیم ہے اور دوسرے کا قبضہ 1986ء میں مسجد کا تالا کھلنے اور اور اندر جاکر پوجاپاٹ کرنے کے بعد ہوا ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ نے ملک کے امن کو برقرار رکھنے اور دو قوموں کو انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے جدید قبضے والے فریق کی کثرتِ تعداد کو دیکھتے ہوئے متنازعہ 2.77- ایکڑ زمین رام للّا کے نمائندوں کو دے کر مرکزی حکومت کو مندر کی تعمیر کے لیے ایک ٹرسٹ بنانے کا حکم دے دیا۔
دوسری طرف قدیم قبضے والا فریق اگرچہ وہ قدیم بھی تھا اور اس کی مدتِ قیام بھی جدید قبضہ والے فریق سے زیادہ طویل تھی،لیکن چونکہ وہ اقلیت میں ہے اس لیے اس کو منانا زیادہ آسان سمجھا گیا۔ لہٰذا اس کو خوش کرنے کے لیے 2.77- ایکڑ کے مقابلے میں تقریباً دو گنی یعنی پانچ ایکڑ زمین اجودھیا شہر کے اندر ہی کسی معیاری اور پسندیدہ جگہ پر مرکزی یا صوبائی حکومت کو مسلم فریق یعنی سنّی وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا جس میں ایک بڑی مسجد یا اسلامی سینٹر کی تعمیر کی جاسکے۔
دراصل ایسے متنازعہ معاملات میں آئین کا آرٹیکل 142، سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ متنازعہ مقام کے جائے وقوع کے حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی صواب دید سے فیصلہ صادر فرمادیں۔ اس کو ہماری فقہی زبان میں اجتہاد کہا جاتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا مذکورہ بالا فیصلہ نہ تو ثبوتوں کی بنیاد پر ہے اور نہ ہی صرف آستھا یا عقیدے کی بنیاد پر،بلکہ یہ آرٹیکل 142 کے تحت متنازعہ خطہ کے جائے وقوع کے حالات کے پیشِ نظر جج صاحبان کے اپنے اجتہاد پر مبنی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ ان کا اجتہاد فریقِ ثانی، جس کو وہ خود ہی شرپسند اور مجرم قرار دے رہے ہیں، کی مرضی کے مطابق کیوں ہوا۔ اس کا مختصر اور سادہ جواب یہ ہے کہ 1949ء میں اگر فوراً مورتیاں ہٹا کر اور متنازعہ مقام قرار دے کر تالا لگا دیا جاتا اور کانگریس کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی سرپرستی میں 1986ء میں مسجد کا تالا کھول کر پوجا پاٹ کی اجازت نہ دی جاتی،1989ء میں بابری مسجد کے قریب ہی راجیو گاندھی کے ذریعے مندر کا شیلا نیاس(سنگِ بنیادرکھنا) نہ کرایا جاتا اور 6 دسمبر 1992ء کو مرکزی کانگریسی حکومت اور اتر پردیش کی بی جے پی حکومت کی مشترکہ سازش کے تحت بابری مسجد کی شہادت یا انہدام کا عمل نہ ہوا ہوتا بلکہ مسجد اپنی اصل صورت میں تالا بند ہی سہی ،قائم رہتی تو سپریم کورٹ کے موجودہ جج صاحبان کا مشترکہ اجتہاد یا متفقہ فیصلہ اس کے برعکس مبنی بر حق ہونے کا کہیں زیادہ امکان تھا۔ لیکن اب موجودہ قابلِ عمل صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے پانچ جج صاحبان -جن میں ایک مسلمان بھی شامل ہیں، نے جو اجتہادی فیصلہ کیا ہے اس پر باریک بینی سے غور کیا جائے تو اس میں بھی مسلمانوں کی قانونی اور اخلاقی کامیابی پوشیدہ ہے۔ جس میں ہمارے وکلاء کی محنت اور بھرپور تیاری کا بھی موثر کردار رہا ہے۔ قانونی کامیابی یہ ہے کہ یہ بات واضح اور منقح ہوکر پوری دنیا کے سامنے آگئی کہ بابری مسجد کسی مندر یا دیگر کسی عمارت کو توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی۔ 1949ء میں مسجد کے اندر مورتیاں کسی دیومالائی کہانی کے طرز پر پرکٹ(ظاہر) نہیں ہوئی تھیں، بلکہ وہ چند شرپسند مجرمین کا ایک غیر قانونی عمل تھا۔ اور 6 دسمبر1992ء کو بابری مسجد کی عمارت کو غیر قانونی طور پر اور انتہائی مجرمانہ تخریب کاری کے طریقے سے شہید کیا گیا جب کہ اس سے قبل مجرمین کی جانب سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی سلامتی اور حفاظت کا حلف نامہ بھی داخل کیا جاچکا تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ ریمارک مستقبل میں اس طرح کے مجرم عناصر کو قانونی طریقے سے کیفرِ کردار تک پہنچانے کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
ہماری اخلاقی ودینی کامیابی یہ ہے کہ معبدِ توحید(اللہ کی مسجد) کو معبدِ شرک(صنم خانے) میں بہ رضا ورغبت تبدیل کرنے جیسے بدترین گناہ(ظلمِ عظیم) سے عند اللہ مسلمانوں کے تمام افراد (چند منافقین سے قطعِ نظر) اور گروہ یا ادارے محفوظ رہے۔لہٰذا بہ حیثیتِ مجموعی ملتِ اسلامیہ ہند دینی وشرعی اعتبار سے جس بات کی مکلف تھی یعنی پُرامن طریقۂ کار سے آخری حد تک قانونی چارہ جوئی کرنا،الحمد للہ اس میں وہ پوری طرح کامیاب ہے، جس میں اس کے لائق ومحترم وکلاء(جن میں خصوصاً ڈاکٹر راجیو دھون نے بھی حضرت ابوطالب کا کردار ادا کیا ہے) نے اس مقدمے کو بہ حسن وخوبی پایۂ تکمیل کو پہنچایا جس کے لیے وہ سب لائقِ ستائش اور قابلِ مبارک باد ہیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے فیصلہ پر ریویو پیٹیشن(درخواستِ نظرِ ثانی) کی جو گنجائش رکھی گئی تھی عند اللہ قانونی چارہ جوئی کی اتمامِ حجت کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعے اس کو بھی عملی جامہ پہنایا جاچکا ہے۔لہٰذا اس تمام قضیہ میں اب ہم صرف مندرجہ ذیل امور کے مکلف ہیں:
1-1992ء میں مسجد کے انہدام کے مرتکبین کو سپریم کورٹ مجرم قرار دے چکا ہے۔لہٰذا ان کو ممکنہ حد تک سزا دلانے کی بھرپور قانونی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ دیگر اسلامی مراکز کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے اور فرقہ پرست شر پسند عناصر کے عزائم پر لگام لگائی جاسکے۔
۲-سپریم کورٹ کے فیصلے اور حکم کے مطابق حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو دی جانے والی پانچ ایکڑ اراضی کسی کا احسان نہیں،بلکہ مسلمانوں کا قانونی استحقاق ہے۔ اوپر کی تفصیلات کے مطابق ہم بابری مسجد کے تبادلے کے مرتکب نہیں ہوئے،بلکہ اس کو زبردستی ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ لہٰذا ملت کے سنجیدہ اور جید علمائے کرام کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہو سکتا ہے اس میں اللہ کی یہ مشیت کار فرما ہو کہ اجودھیا جیسے شہر میں ہی پُر امن طریقے سے ایک مسجد کے ساتھ اسلامی دعوتی مرکز(لائبریری) کا قیام بھی عمل میں آجائے اور مسجد کا نام بابری مسجد کے بجائے محمدی مسجد وغیرہ رکھا جائے تاکہ وہ دعوتی نقطۂ نظر سے زیادہ مفید ہو۔لیکن ہمیں اس تجویز پر اصرار نہیں ہے،بلکہ علمائے راسخین کو صرف غوروفکر کی دعوت ہے۔
جیسا کہ مضمون کے شروع میں عرض کیا گیا تھا کہ فی الحال ملتِ اسلامیہ ہند کے لیے بابری مسجد کے علاوہ بھی دیگر متعدد اہم مسائل درپیش ہیں جن میں سب سے نمایاں شریعتِ مطہرہ(مسلم پرسنل لاء) کا تحفظ ہے۔ مرکزی حکومت کے نئے قوانین، سی اے اے،این پی آرا اور پھر این آر سی کے خوف کی تلوار ہے۔ اس کے علاوہ جموں وکشمیر کو ہندوستان کا علاقہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ملت کے لیے ذہنی اور نفسیاتی تشویش کا باعث ہے اور ان تمام مشکلات ومسائل کی شاہ کلید صرف مسلمانوں کا باہمی اتحاد اور ان کے اندر ان کے فرضِ منصبی یعنی ایک داعی امت ہونے کا احساس بیدار کرنا ہے،یعنی کلمۂ توحید کی بنیاد پر اتحاد اور فریضۂ دعوت کی اجتماعی طور پر ادائیگی ہی وہ چابی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ساتھ تمام مسائل کے حل کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ورنہ اللہ کی اس کائنات کے نظام کے مطابق ہمارے غیر مسلم برادرانِ وطن اپنی زبانِ قال سے نہیں بلکہ زبانِ حال سے یہ کہتے رہیں گے کہ تم ہماری آخرت کی خرابی کے ذمے دار ہو،لہٰذا ہم تمہاری دنیا خراب کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ملتِ اسلامیہ کے تمام قائدین اور اکابرین کو مذکورہ شاہ کلید کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!