شیئر کیجیے

علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کےاقلیتی کردار کا مسئلہ

راحت ابرار

ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے مقدمے کی سماعت مکمل کر لی ہے اور سات رکنی بنچ نے جس کی قیادت چیف جسٹس چندر چوڑ کر رہے تھے، نے اپنافیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اس سات رکنی بنچ میں جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس جے پی پاردی والا، جسٹس دیپانکر دتہ، جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ایس سی شرما شامل بھی تھے۔ اس مقدمے کے تین فریق ہیں – فریقین نےسارے قانونی اور تاریخی شواہد کو سوفٹ کاپی کی شکل میں عدالت کے سپرد کیا۔ سات رکنی بنچ کی پوری سماعت کئی مرحلوں میں انجام پائی، جسے سپریم کورٹ یو ٹیوب چینل پر عوام کے لیے سیدھا نشر کیا گیا۔ علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی جانب سے ماہر قانون ایڈوکیٹ راجیو دھون، اے ایم یو اولڈبوائز ایسو سی ایشن کی طرف سے ایڈوکیٹ کپل سبل، اے ایم یو لا ئرس فورم کی جانب سے ایڈوکیٹ سلمان خورشید کے علاوہ اس کیس کی پیروی شادان فراست نے بھی کی۔ اب تمام فریقوں کو فیصلے کا بے صبری سے انتظار ہے۔

مسلم یو نیورسٹی کے اقلیتی کردار کامسئلہ 15 جنوری2005 کواکیڈ مک کونسل کی ایک قرار داد جسے 19 مئی2005 کو ایکزیکیٹو کونسل نے اپنی منظوری دی تھی، سے شروع ہوا۔ اس میں میڈیکل شعبہ کے ایم ڈی اور ایم ایس میں 50 فی صد سیٹوں کو کل ہندسطح پر مسلم میڈیکل گریجویٹ کے لیے محفوظ کر نے کا فیصلہ لیا گیاتھا۔ مرکزی وزارات فروغ انسانی وسائل نے بھی یونیورسٹی انتظامیہ کو تحریری طور پر اس کی اجازت دی تھی کیوں کہ اقلیتی کردار حاصل ہو نے کی وجہ سے اے ایم یو کو اپنی پالیسی بنا نے کا حق حا صل تھا۔ جناب نسیم احمد کی وائس چانسلر شپ میں حکومت ہند کی منظوری اور پھر اکیڈمل کونسل اور ایزیکیوٹیو کونسل سے تصدیق کرنے کے بعد صرف ایم ڈی اور ایم ایس میں داخلہ پالیسی ترمیم کے خلاف ایک طالب علم نے الہٰ آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی جس پر جسٹس ارون ٹنڈن نے4 اکتوبر2005 کو یونیورسٹی کے ایم ڈی، ایم ایس سے متعلق 50 فی صد مسلم طلبہ کے داخلہ کے لیے ریزرویشن کو کا لعدم قراردے دیا۔ اس فیصلے کے خلاف مسلم یو نیورسٹی نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کی ڈویژنل بینچ میں اپیل دائر کی لیکن اس بینچ نے بھی جسٹس ارون ٹنڈن کے فیصلہ کو باقی رکھا۔ اس کے بعد الہٰ آبادہائی کورٹ کےان دونوں فیصلوں کے خلاف یونیورسٹی نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت نےبھی اقلیتی کردار کی اس لڑائی میں یونیورسٹی کا ساتھ دیا اور یونیورسٹی کے حق میں حلف نامہ دائر کیا۔ شروع میں سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے اس معاملے کو سنا۔ چوں کہ1968 میں عزیز پاشا بنام حکومت ہند کے فیصلے میں پانچ رکنی بنچ پہلے بھی یو نیورسٹی کے خلاف اپنا فیصلہ سنا چکی تھی اس لیے جسٹس رنجن گوگوئی نے 12 فروری2019 کوسات رکنی بنچ بنانے کی سفارش کی۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے20 اکتوبر1967 کو اپنے فیصلے میں مدراس کے عزیز پاشا کی اپیل کو مسترد کر تے ہوئے مسلم یو نیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیاتھا۔ عزیز پاشا نے مسلم یو نیورسٹی کے ترمیمی ایکٹ1965 کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں یو نین آف انڈیا نے اس وقت مسلم یو نیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلم نہیں کیا تھا۔ یہ پورا معاملہ اس وقت کے وائس چانسلرنواب علی یاور جنگ کے ساتھ مبینہ بدسلوکی اور پھربعد میں وزیر تعلیم ایم سی چھا گلا کا مسلم یو نیورسٹی کے خلاف رویہ کا نتیجہ تھا۔

اس کے علاوہ یو نیورسٹی کی طرف سے اس کیس میں دانستہ اور غیردانستہ طور پر پیروی ہی نہیں کی گئی اور نہ ہی یو نیورسٹی کو پارٹی بنا یا گیا۔ اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر عبدالعلیم ایم سی چھاگلاکےنامزد کر دہ وائس چانسلر تھے۔ سالیسٹر جنرل آف انڈیاتشار مہتہ نے اب سپریم کو رٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا وہ پوری طرح مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کر دار کے خلاف موجودہ حکومت کا موقف پیش کرتاہے۔ اپنی بحث میں ان کا سب سے زیادہ زور اس بات پر تھا کہ 1951 میں جب علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کی گئی تو اس کا اقلیتی کردار ختم کر کے یونیورسٹی کورٹ جو اس ادارے کی سپریم گورننگ باڈی ہےکو باختیار بنایا گیا تھا جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کو بھی نمائندگی کا حق دیا گیا تھااور دینیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کے بجائے اختیاری مضمون کے طور پر پڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یو نیورسٹی کے اس ایکٹ میں ترمیم مولانا ابو الکلام آزاد کی وزارت کے دوران کی گئی جب کہ ڈاکٹر ذاکر حسین یو نیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ ملک کی آزادی کے بعد26, جنوری1950 کو دستور ہند کا نفاذ عمل میں لایا گیا اور 1951 میں دستور ہند کی وجہ سے ملک کے متعدد اداروں بشمول بنارس ہندو یونیورسٹی کےایکٹ میں ترمیم کی گئی۔ ملک کے جمہوری اور سیکولر نظام کے تحت یہ ترمیمات لازمی تھیں۔ 1951 کے مسلم یو نیورسٹی کے ایکٹ میں جو بنیادی ترمیم کی گئی تھی اس میں کہا گیاتھا کہ یو نیورسٹی کورٹ کی رکنیت صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ سیکولر ہندوستان کا ہر شخص یو نیورسٹی کو رٹ کا رکن بن سکے گا۔ اس کو مسلم یو نیورسٹی نے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔ دستور ہند نے مسلم یو نیور سٹی کے تاریخی اور علمی مرتبہ کو تسلیم کر تے ہو ئے دستور کے ساتویں شیڈول میں دوسرے اداروں کی طرح علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کو ـ’’ قومی اہمیت کا حامل ادارہ (Institutions of National Importance) ‘‘ قرار دیا جس پر حکومت ہند کے اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو ادارہ قومی اہمیت کا حامل ادارہ ہوـ وہ اقلیتی ادارہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت ہند کی طرف سےمسلم یو نیورسٹی کے اقلیتی کردار کی مخالفت میں دو الگ الگ حلف نامے داخل کیے گئے تا کہ یو نیورسٹی اپنی صفائی میں جو دلیل پیش کر نا چاہتی ہے اسے پیش کرے۔ اس حلف نامہ میں یونیورسٹی کےبانی سر سید احمد خان کی شخصیت کو داغدار کرنے کے لیے ان کی کتاب لائل محمڈنس آف انڈیا کے بعض اقتباسات بھی پیش کیے گئے اور انھیں علیحدگی پسندی کی علامت بھی کہا گیا۔ قیام پاکستان کے بانی محمد علی جناح کو بھی اس بحث میں لایا گیا۔ سول اپیل نمبر2318 سال2006 پر جو حلف نامہ پیش کیا گیا تھا اس میں عزیز پاشا کیس کو بنیاد بنا یا گیا۔ حکومت ہند کے سرکاری وکیل نے ہندوستانی پارلیمنٹ سے منظور شدہ مسلم یو نیورسٹی کے تیسرے ترمیمی ایکٹ1981 کے خلاف بھی جواز پیش کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون ساز مجلس ہے اور اس کے اختیارات اور اس کے فیصلوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ حکومت بدلنے سے پارلیمنٹ کے فیصلے نہیں بدلتے تا وقتیکہ پارلیمنٹ میں ترمیم نہ ہو۔ سالیسیٹر جنرل کے اس حلف نامہ کے خلاف آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے قائد اسدالدین اویسی نے پارلیمنٹ میں کہا کہ اپنی نوعیت کا یہ پہلا کیس ہے جس میں ایک لا آفیسرنے اس آئین ساز مجلس کے خلاف حلف نامہ داخل کیا ہے۔ خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سماعت کے دوران جو ریمارکس دیے وہ بھی یونیورسٹی کے حق میں تھے۔ مسلم یو نیورسٹی کا تیسراترمیمی ایکٹ عزیز پاشا اور 1972 کے ایکٹ کے خلاف ہے۔ اس ایکٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مسلم یو نیورسٹی بنیادی طور پر ایک اقلیتی ادارہ ہے جسے مسلمانوں نے قائم کیاہے۔ ساتھ ہی1981 کے ایکٹ میں مسلم یو نیورسٹی کو حق و اختیارات بھی دیے گئے تھے۔

یونیورسٹی ایکٹ کی دفعہ5(2)(C) کے تحت مسلم یو نیورسٹی کے حوالے سے یہ حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیم و ثقافت کے فروغ کے لیے کام کرے۔ غرض یہ کہ مسلم یو نیورسٹی کے قیام کی تحریک میں علی گڑھ والوں کا اصل مطالبہ یہی تھا کہ اس یو نیورسٹی کی کل ہند حیثیت ہو اور ملک بھر کے تمام مسلم اداروں کوالحاق کا قانونی حق دیا جائے مگر 1981 کے ترمیمی ایکٹ نے مسلمانوں کے تعلیمی اور ثقافتی فروغ کی خصوصی ذمہ داری بھی اس ادارے پر عائد کی ہے اور اس ادارے کو اپنی داخلہ پالیسی بنانے کا حق بھی دیا ہے جس کو پہلے الہ آ باد اور بعد میں سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ مسلم یو نیورسٹی کے تاریخی کر دار کی جیت ہو تی ہے یا پھر قانونی طریقہ سے اسے مزید الجھادیا جاتا ہے۔