شیئر کیجیے

بی جے پی کو مدارس اسلامیہ کیوں کھٹکتے ہیں؟

سہیل انجم

ہندوستان کے مدارس اسلامیہ شروع سے ہی بی جے پی کے نشانے پر رہے ہیں۔ جب مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت بنی تھی تو اس وقت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر اخلہ ایل کے اڈوانی نےمدرسوں پر دہشت گردی کا الزام عاید کیا تھا۔ خاص طور پر ہند- نیپال سرحد پر واقع مدارس کے خلاف الزام تراشی کی جاتی تھی اور ان کے دہشت گردی کے مراکز ہونے کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔ لیکن مرکز میں یو پی اے کی دس سالہ حکومت میں یہ معاملہ دب سا گیا تھا۔ تاہم نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت قائم ہونے کے بعد اسے پھر اچھالا جا رہا ہے۔ ان کے دور حکومت کے ابتدائی برسوں میں مدراس کے خلاف اٹھنے والی آوازیں کچھ کم زور سی تھیں لیکن دوسری مدت بالخصوص حالیہ برسوں میں مدارس کے خلاف شدومد کے ساتھ کارروائی کی جانے لگی ہے۔ پہلے صرف اترپردیش کے مدرسے نشانے پر ہوا کرتے تھے لیکن پھر آسام اور اب دہلی اور اتراکھنڈ کے مدارس نشانے پر لے لیے گئے ہیں۔ حالاں کہ سیکورٹی اور انٹلی جنس ایجنسیوں کے ایک گروپ نے ملک کے مدارس کا سروے کیا تھا اور اپنی رپورٹ میں انھیں کلین چٹ دی تھی۔ یہ رپورٹ مودی حکومت کی وزارت داخلہ کو نومبر 2014 میں پیش کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسلامی مدرسے دہشت گردی اور انتہاپسندی کی نرسری نہیں ہیں۔ ان میں اسلامی نصاب بھی پڑھایا جاتا ہے اور عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اسی سال ستمبر میں وزیر اعظم مودی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان القاعدہ کے اشارے پر ناچتے ہیں تو وہ فریب خوردہ ہے۔ ہندوستانی مسلمان ملک کے لیے جئیں گے، ملک کے لیے مریں گے، وہ ملک کا برا نہیں چاہیں گے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں مدارس کی جدید کاری کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اب جو صورت حال ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ مدارس کی جدید کاری کے نام پر اسلامی نصاب کو ختم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اور حکوت کی امداد یافتہ بہت سے مدارس کے نصاب میں بنیادی تبدیلی کر دی گئی ہے۔

اسی درمیان اترپردیش کی یوگی حکومت نے 2022 اور 2023 میں اسلامی مدارس کے خلاف اپنی کارروائی تیز کر دی۔ پہلے حکومت نے غیر امداد یافتہ یا غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کروایا۔ جس میں طلبہ و اساتذہ کی تعداد، نصاب تعلیم اور بنیادی سہولتوں وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں۔ حکومت نے یہ بھی جاننا چاہا کہ ان مدارس کے ذرائع آمدنی کیا ہیں اوران کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان مدارس کا کسی نجی تنظیم یعنی کسی این جی او سے کوئی تعلق تو نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں حکومت کو مایوسی ہاتھ لگی۔ وہ اس بہانے سے مدارس کے انتظام وانصرام میں مداخلت کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں تھی لیکن مدارس کی صاف ستھری کارکردگی کی وجہ سے اسے یہ راستہ نہیں ملا۔ سروے کرنے والے حکومت کے ادارے نے اپنی رپورٹ حکومت کو سونپ دی جس میں مدارس کے معاملات کو بے داغ قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی حکومت کی تسلی نہیں ہوئی۔ لہٰذا اس نے 2023 میں دوبارہ جانچ شروع کر دی۔ اس بار جانچ دہشت گردی مخالف دستے یعنی اے ٹی ایس کے سپرد کی گئی۔ گویا یہ تاثر دینے کی باضابطہ کوشش کی گئی کہ ان مدارس کا دہشت گرد تنظیموں سے تعلق ہے۔ اس دوران بھی مدارس کو ملنے والے چندے کی جانچ کی گئی اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ان کی کسی دہشت گرد تنظیم سے فنڈنگ تو نہیں ہوتی۔

اس بارے میں حکومت کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ غیر ملکی چندے سے دہشت گردانہ سرگرمیوں اور تبدیلی مذہب کی حوصلہ افزائی کی اطلاعات ملنے کے بعد مدارس کی فنڈنگ کی تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا۔ ایس آئی ٹی کی جانب سے ان مدارس کو نوٹس جاری کرکے ’’فارن ایکسچینج ارننگ اکاؤنٹ‘‘ (ای ای ایف سی) کے لین دین سے متعلق تفصیلات معلوم کی گئیں۔ تحقیقات کے بعد غیر ملکی چندہ حاصل کرنے والے مدرسوں کی ایک فہرست بنائی گئی اور یہ پتہ لگانے کی بات کہی گئی کہ ان کو کن ملکوں سے چندہ ملتا ہے اور ان کا استعمال کہاں ہو تا ہے۔ حالاں کہ مدارس کے ذمہ دار کسی بھی قسم کی تخریبی سرگرمی میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن مدارس کو اندرون ملک یا بیرون ملک سے چندہ ملتا ہے وہ تعلیم اور تعمیر پر خرچ ہوتا ہے کسی تخریبی سرگرمی میں نہیں۔ حکومت جانچ کرانا چاہتی ہے تو کرا لے۔ جن مدار س کو ایف سی آر اے کے تحت غیر ملکی چندہ ملتا ہے وہ ہر تین ماہ پر چندے کی رقم، کہاں سے ملا ہے اس ملک کا نام اور چندے کے مقصد کی تفصیل محکمۂ انکم ٹیکس اور وزارت داخلہ میں داخل کرتے ہیں اور سال پورا ہونے پر اخراجات کا گوشوارہ پیش کرتے ہیں۔ مدارس میں صرف دینی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ وہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے متعدد طلبہ آئی اے ایس کا امتحان پاس کر چکے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کو میڈیکل، قانون، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں میں بھی داخلہ ملتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تمام اداروں پر یکساں قانون نافذ ہونا چاہیے۔ یعنی اگر تمام مذاہب کے اداروں کی جانچ ہو رہی ہے تو ٹھیک ہے اور اگر اس کا مقصد صرف مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے تو یہ قابل مذمت ہے۔ بہرحال یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ یوگی حکومت نے جن مدارس کا سروے اور جانچ کرائی تھی اس رپورٹ میں کیا ہے۔

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست اتر پردیش میں 25 ہزار مدارس ہیں۔ جن میں ساڑھے سولہ ہزار اترپردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں۔ گذشتہ سال اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ اترپردیش کے 80 مدارس کو تین سال کے اندر سو کروڑ روپے کا غیر ملکی چندہ ملا ہے۔ یہ اطلاع مدارس کی جانچ کے لیے تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی نے دی تھی۔ رپورٹوں کے مطابق یہ رقوم ان مدارس کے اکاؤنٹ میں براہ راست آئی تھیں۔ حالاں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مدرسے اگر غیر ملکی چندہ لیتے ہیں تو ملکی قوانین کے تحت لیتے ہیں اور یہ چندہ انھی مدارس کو ملتا ہے جو حکومت کے ایف سی آر اے قانون کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یا کوئی ادارہ اس قانون کے بغیر غیر ملکی فنڈ حاصل کرنے کی کوشش کرے تو اسے فنڈ نہیں مل سکتا۔ اگر ملے گا بھی تو دست بدست ملے گا۔ لہٰذا اگر مدرسوں کو کروڑوں روپے کا چندہ ملا ہے تو یہ کوئی غیر قانونی بات نہیں ہے۔ لیکن اس خبر کو اس انداز میں اخبارات نے شائع کیا کہ جیسے مدارس نے غیر قانونی طور پر فنڈ کی حصولیابی کی ہے۔ واضح رہے کہ اس معاملے میں میڈیا اور مسلم دشمن طاقتیں حکومت سے بھی تیز ہیں۔ حکومت اگر ایک بار ان مدارس کے خلاف بیان دے تو یہ طاقتیں دس بار دیتی ہیں۔ مسلم دشمن طاقتیں مدرسوں کو دہشت گردی کے اڈے بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔

ادھر آسام میں بھی اسلامی مدارس کے خلاف پوری قوت سے سرکاری کارروائی کی گئی ہے۔ ہیمنت بسوا سرما کی حکومت کا الزام ہے کہ اسلامی مدارس میں دہشت گرد سرگرم ہیں۔ دہشت گردی کے الزام میں متعدد مدارس کو منہدم بھی کر دیا گیا ہے۔ جب کہ سرما نے اپنے اس اعلان پر کہ وہ مدرسوں کو اسکولوں میں بدل دیں گے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے تقریباً تیرہ سو مدارس کو اسکولوں میں تبدیل کر دیا ہے جہاں اب اسلامی تعلیم کا بند و بست صفر کے برابر ہو گیا ہے۔ سرما کا الزام ہے کہ ان مدارس میں بنگلہ دیش سے دراندزی کرکے آنے والے بہت سے مدرس تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ حالاں کہ اکا دکا کسی کا رشتہ کسی مشکوک تنظیم سے ثابت ہوا ہو تو وہ الگ بات ہے ورنہ مدارس کے مدرسین کا دہشت گرد تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن آسام کی حکومت ایسا تاثر دیتی ہے کہ جیسے تمام مدارس دہشت گردی کے اڈے ہیں۔

ادھر دہلی اور اتراکھنڈ میں بھی مدرسوں کے خلاف کارروائی تیز ہو گئی ہے۔ دہلی کے مہرولی علاقے میں ایک چھ سو سال قدیم مسجد کے انہدام کے دوران وہاں چل رہے مدرسے کو بھی منہدم کر دیا گیا جس کی وجہ سے وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔ اسی طرح اتراکھنڈ میں ہلدوانی کے بن بھولپورہ علاقے میں ایک پرانے مدرسے اور اس سے ملحق مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔ حالاں کہ اس مدرسے کا معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا اور آٹھ فروری کو کورٹ نے اگلی سماعت کے لیے چودہ فروری کی تاریخ مقرر کی تھی۔ کارپوریشن کے عملے کا کہنا تھا کہ مدرسہ سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کرکے تعمیر کیا گیا ہے۔ حالاں کہ صفیہ ملک نامی ایک خاتون کے نام اس جگہ کا پٹہ تھا اوراسے لیز پر لیا گیا تھا۔ کارپوریشن کے عملہ سے مقامی ائمہ کے ایک وفد نے ملاقات کی تھی اور اسے کچھ نہیں ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ اس کے باوجود اسے منہدم کر دیاگیا جس کی وجہ سے وہاں تشدد پھوٹ پڑا اور چھ افراد ہلاک ہو گئے۔

دراصل بی جے پی کو اسلامی مدارس سے پرانی پرخاش ہے۔ وہ ان مدارس کی ہئیت ختم کرکے ان کی شناخت مٹانا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ان اداروں میں اسلامی تعلیم نہ دی جائے بلکہ صرف عصری تعلیم دی جائے۔ تاکہ مسلمانوں کی آنے والی نسلیں اسلامی شریعت سے نابلد رہیں اور ان کی اسلامی شناخت ختم ہو جائے۔ ان کا اپنے مذہب سے کوئی تعلق نہ رہے۔ ان کے معمولات زندگی میں اسلامی اقدار کا کوئی رنگ ڈھنگ نہ رہے۔ وہ ذہنی طور پر اسلامی شریعت سے برگشتہ ہو جائیں تاکہ اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے میں آسانی ہو۔ کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ ہندوتو کی مخالفت جہاں بہت سے برادران وطن کرتے ہیں وہیں شریعت کے پابند مسلمانوں کی جانب سے بھی ہوتی ہے اور ان کی مخالفت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ مسلمان جانتے ہیں کہ اگر ہندوستان ہندو ملک بن گیا تو ایسے بہت سے فیصلے کیے جائیں گے جو اسلامی شریعت اور اسلامی اقدار و شناخت سے متصادم ہوں۔ اس کا آغاز کر بھی دیا گیا ہے۔ ایسے فیصلے کیے جا رہے ہیں جو شریعت مخالف ہیں اور جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی لیے مدارس کے خلاف گھناونا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ لیکن بی جے پی کے ذمہ داروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب مسلمانوں نے انگریزوں کی اسلام مخالف سازشوں کو ناکام بنا دیا تو پھر ان کی سازشوں کو بھی ناکام بنا دیا جائے گا۔ اگر چہ کچھ مفاد پرست لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں جو ذاتی فائدے کے لیے اپنے مذہب کے منافی اقدامات اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت اسلام پر مر مٹنے کے لیے تیار ہے۔ لہٰذا بی جے پی کی ایسی کوئی بھی سازش کام یاب نہیں ہوگی۔