شیئر کیجیے

الیکٹورل بانڈ اسکیم غیر قانونی -عدالت عظمیٰ

عبدالباری مسعود

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، داغ دہلوی کا یہ مصرعہ سپریم کورٹ کے الکٹورل بانڈ یا گمنام عطیہ دہندگان اسکیم فیصلہ پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس اسکیم کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دینے میں سات سال لگادئےتب تک جمنا کے پل نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا اورپہلے سے ہی کھوکھلی ہوچکی جمہوریت کو جو نقصان ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اس ناجائز پیسہ کا استعمال متعدد الیکشنوں میں ہوا اور حکمراں جماعت نےاس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس مقدمہ میں غیر معمولی تاخیر کا سبب جب سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی سے پوچھا گیا تو وہ گویا ہوئے۔ انھیں یاد نہیں کہ یہ معاملہ ان کی عدالت کے سامنے آیا تھا۔ یہ وہی چیف جسٹس ہیں جنھیں بابری مسجد رام جنم بھومی مقدمہ کا فیصلہ سنانے کے عوض راجیہ سبھا کی سیٹ عنایت کی گئی تھی۔

15 فروری کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی والی پانچ رکنی بینچ نے ایک متفقہ فیصلہ میں الکٹورل بانڈ ا اسکیم کو غیر آئینی اور من مانی قرار دیا نیز ان گمنام عطیہ دہندگان جنھوں نے سیاسی جماعتوں کو چندہ دیاکے نام بھی افشاء کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ اسکیم آئین کی دفعہ 19 (1) الف کے تحت حق اطلاع کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے۔ عدالت نے انکم ٹیکس ایکٹ اور ریپرزینٹیشن آف پیپلز ایکٹ میں کی گئی ان ترمیمات کو بھی کالعدم کردیا جو گمنام سیاسی چندے کے لیئے جواز فراہم کرتی تھیں۔

انتخابی بانڈ شروع کرنے سے قبل انتخابی عطیات کے لیے جو نظام کام کرتا تھا اسے الیکٹورل ٹرسٹ کہا جاتا تھا۔ انتخابی بانڈ کے اجراء کے بعد انتخابی ٹرسٹ کا نظام تقریباً معدوم ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ٹرسٹ کیوں کام کر رہا ہے اور کچھ کمپنیاں اب بھی اس ٹرسٹ کے ذریعے چندہ کیوں دے رہی ہیں؟ کیوں کہ حالیہ برسوں میں زیادہ تر رقم صرف ایک پارٹی کے کھاتوں میں گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بند طر یقہ سے انجام دیا جارہا تھا۔ پوری حزب اختلاف اور حتی ٰ کہ ابتداء میں الیکشن کمیشن بھی اس اسکیم کے خلاف تھے، لیکن بعدمیں کمیشن نے خاموشی اختیار کرلی۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے بھی اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اسکیم غلط ہے۔

یاد رہےکہ Anonymous Electoral Bond کی اسکیم 2017-18 کے مالیاتی سال کے بجٹ میں فائناس بل 2017 کے ذریعے منظور کی گئی۔ اس کے تحت ایک ہزار، دس ہزار، ایک لاکھ، دس لاکھ، اور ایک کروڑ روپئے مالیت کے بانڈ اسٹیٹ بنک آف انڈیا کی نامزد29 شاخوں سے حاصل کیے جاسکتے تھے۔ اس اسکیم کے نتیجہ میں حکم ران جماعت کے ہاتھ گویاقارون کا خزانہ لگ گیا تھا۔ اکیلے گذشتہ مالی سال یعنی 2022-23 کے دوران بی جے پی کے خزانہ میں 1,294.14 کروڑ روپے الکٹورل بانڈ کے توسط سے آئے جو سیاسی چند ے کی کل رقومات کا 54 فی صد ہے۔ جب کہ سب سے بڑی حزب اختلاف یعنی کانگریس کو بی جے پی کے مقابلے میں سات گنا کم چندہ ملا۔ اس اسکیم کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک ایک تخمینہ کے مطابق 16,000 کروڑ روپے مالیت کا چندہ جمع ہوا ہے جس میں اکیلے بی جے پی کی جھولی میں دس ہزار کروڑ سے زائد چندہ گیا۔ چناں چہ حکم ران جماعت کے جو ” سیاسی کارنامے اور کمالات ہیں ” وہ اسی پیسہ کی بدولت رونما ہوئے ہیں۔ چاہے وہ الیکشن میں کام یابی ہو یا ارکان پارلیمان و اسمبلی کی خرید و فروخت یا اپوزیشن کی حکومتوں کا توڑنا۔

ایک ایسا ملک جہاں 145 ملین یا تقریبا پندرہ کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتے ہوں، پچاس فی صد آبادی کے تصرف میں ملکی دولت و وسائل کا فقط تین فی صد حصہ ہو اور اس کے برعکس محض پانچ فیصد اشرافیہ ( نام نہاد اعلی ذاتوں کی اکثریت ) کا قومی وسائل کے 60 فی صد پر قبضہ ہو۔ چھ کروڑ سے زائد بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوں۔ ایسے ملک میں انتخابی نتائج پر پیسہ اثر انداز نہیں ہوگا تو اور کہاں ہوگا؟ یومیہ اجرت پر کام کرنے والی آبادی کا ایک بڑا حصہ آج بھی نظام حکومت سے بیگانہ ہے۔ وہ تو انتخابات کے موقع پر صرف وقتی فائدہ نقد کی شکل میں دیکھتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ بلدیہ سے لے کراسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات میں کروڑ پتی امیدواروں کی تعداد نہ صرف بڑھتی جارہی ہے بلکہ ان کی کام یابی کا تناسب بھی بہت زیادہ ہے۔

مثال کے طور پرالیکشن کمیشن کے مطابق 2019کے عام انتخابات میں بی جے پی نے 12ہزار چھ سو کروڑ سے زائد خرچ کیا تھا۔ جب کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے لوک سبھا اور اسمبلی حلقے کا الیکشن لڑنے کے لیے خرچ کی حد مقرر ہے۔ لوک سبھا کے لیےایک امیداور زیادہ سے زیادہ 95لاکھ اور اسمبلی کے لیے70 لاکھ روپے خرچ کرسکتا ہے۔ بی جے پی نے پارلیمان کی 543 نشستوں میں سے437پر امیدوار کھڑے کیےتھے۔ اس لحاظ سے پارٹی کا کل خرچ 415کروڑ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ جب کہ سنٹر فار میڈیا اسٹڈیز کے ایک جائزہ کے مطابق بی جے پی نے ان انتخابات میں 270ارب روپے جھونک ڈالے جو تمام سیاسی جماعتوں کے کل انتخابی اخراجات کا45 فی صد ہے۔ اس کھلی خلاف ورزی کے باوجود الیکشن کمیشن نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ چناں چہ پیسہ کے زور پر بی جے پی کو زبردست کام یابی ملی اس میں ای وی ایم کا فیکٹر بھی شامل ہے۔ اس کے کام یاب امیدواروں میں ستر فی صد سے زائد کروڑ پتی ہیں۔

یہ اسکیم حکومت مخالف کمپنیوں کوبلیک میل کرنے کا بھی ذریعہ رہی ہے۔ نیوز لانڈری اور دی نیوز منٹ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق تقریباً 30 کمپنیاں، جنھوں نے گذشتہ پانچ مالی برسوں میں بی جے پی کو تقریباً 335 کروڑ روپے کا عطیہ دیا ہےکو مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے چھاپوں کا سامنا رہا ہے۔ یعنی پہلے چھاپہ پھر چندہ۔ دوسرے، چھاپے کے بعد چندہ کی رقم بڑھ جاتی ہے۔ کچھ کمپنیوں نے کارروائی کے فوری بعد مہینوں تک غیر متوقع طور پر عطیات کی رقم میں اضافہ کیا۔

حالیہ برسوں میں بارہا یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ حکم ران جماعت نے مسلسل دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے انتخابی عطیات کی شکل میں زیادہ رقم حاصل کی ہے۔ بی جے پی کو انتخابی ٹرسٹ کے توسط سب سے زیادہ پیسہ ملا۔ 2022-23 میں کانگریس کو انتخابی ٹرسٹ کے کمپنیوں سے حاصل ہونے والی رقم میں سے بی جے پی کے کو ملنے والے فی 100 روپے کے مقابلے میں صرف 19 پیسے ملےہیں۔ الیکٹورل ٹرسٹ ایک اسکیم ہے جس میں کارپوریٹ کمپنیاں اپنے عطیات ٹرسٹ میں جمع کرتی ہیں۔ اس کے بعد ٹرسٹ ان کی شناخت کو خفیہ رکھتے ہوئے یہ رقم مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرتا ہے۔ 2013 سے جب اس اسکیم کو یو پی اے حکومت نے شروع کی تھی۔ لیکن اس کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوا ہے۔ پارٹی کو گذشتہ 10 برسوں میں مختلف ٹرسٹوں کے ذریعے 1,893 کروڑ روپے سے زیادہ کا عطیہ ملا ہے۔

اسی طرح بی جے پی کو الیکٹورل بانڈز سے بھی سب سے زیادہ رقم ملی۔ سال 2022-23 میں اسے تقریباً 1,300 کروڑ روپے ملے، جو اسی مدت کے دوران کانگریس کو ملنے والی رقم سے سات گنا زیادہ ہے۔ اس مدت کے دوران، بی جے پی کی فنڈنگ کا تقریباً 61 فیصد انتخابی بانڈز کے ذریعے تھا۔ 2018 سے 2022 کے دوران بی جے پی کو اس طریقہ سے موصول ہونے والے کل عطیات کا تقریباً 57 فیصد ملا۔

براہ راست چندہ کابھی بڑا حصہ بی جے پی کے کھاتے میں بھی گیا۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (ADR) کے مطابق 2022-23 میں قومی جماعتوں کو دیے گئے کل 850.4 کروڑ روپے میں سے صرف بی جے پی کو 719.8 کروڑ روپے ملے۔ اس دوران حکومت نے انتخابی بانڈز کی تعداد میں بھی اضافہ کیا۔

مارچ 2022 سے مارچ 2023 کے مالی سال کے دوران کل 2,800 کروڑ روپے کے انتخابی بانڈ فروخت کیے گئے۔ امسال فروری میں پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2019 سے اب تک 16,518 کروڑ روپے سے زیادہ کے بانڈ خریدے گئے ہیں۔ یہ بانڈز کس نے خریدے؟ شفافیت کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن کموڈور لوکیش بترا کی آر ٹی آئی سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق 2018 سے دسمبر 2022 تک1000 روپے کے بانڈز کل فروخت کا محض 0.01 فیصد تھے جب کہ 1 کروڑ روپے کے بانڈز 94.41 فیصد تھے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ یہ عطیات کچھ افراد یا شیل کمپنیوں کے پیچھے چھپے ہوئے کارپوریٹ فرموں نے دیے ہوں۔

بہرحال سپریم کورٹ نے اب اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو نئے بانڈ جاری کرنے سے روک دیا ہے۔ نیز الیکشن کمیشن آف انڈیا سے کہا گیا ہے کہ وہ 2019 سے موصول ہونے والی فنڈنگ کی تفصیلات کو عام کرے۔ تاہم اسکیم کی تازہ ترین قسط کے ذریعے موصول ہونے والی رقم حکم ران جماعت آئندہ انتخابات میں استعمال کرے گی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عدالت شفاف، غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیےاس ناجائز اور غلط طریقہ سے حاصل کی گئی دولت کو منجمد کرنے کا حکم دیتی تھی تا کہ حز ب اختلاف کو انتخابی معرکہ میں کسی قدر برابر ی کا موقع ملتا۔ بہرحال عدالتیں جس نہج پر کام کر رہی ہیں اس تناظر میں یہ فیصلہ کافی جرات مندانہ نظر آرہا ہے۔