شیئر کیجیے

اتراکھنڈ ایک امن پسند صوبہ یا ہندوتو کی تجربہ گاہ

خورشید احمد صدیقی

اتراکھنڈ ریاست ملک کے شمال میں اُتر پردیش کےپہاڑی اور کچھ میدانی حصوں پرمشتمل ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس کا قیام سن 2000 میں ہوا تھا۔ ابتدائی مراحل میں چھوٹی ریاست بنانے کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ اُتر پردیش ایک بڑی ریاست ہے اور اتراکھنڈ کے پہاڑی حصے پر مشتمل اگر چھوٹی ریاست بنتی ہے تو مقامی لوگوں کی ترقی کی راہیں زیادہ ہم وار ہوجائیں گی، اس لیے خاص کر پہاڑ کی خواتین نے اتراکھنڈ بنانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ مگر وقت کے ساتھ ہر سماجی مہم سیاست کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور اس کا مقصد ہی بدل جاتا ہے یہی حال اتراکھنڈ کی ریاست کا بھی ہوا۔ کبھی ایک امن پسند تعلیمی اور ثقافتی ملک کا خطہ آج ایک سیاسی اور مذہبی خلجان کا شکار ہو گیا ہے۔

اقتدار ملنے کے بعد ایک طرف تو پہاڑی اور میدانی تفریق آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں میں گامزن ہو گئی اور لوگ ہندوستان کے آئین میں تمام شہریوں کے یکساں حقوق کے تقاضوں کو پوری طرح نظر انداز کر اب اتراکھنڈ کے اصل باشندوں کی بات کرنے لگے۔ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ 1950 سے جو لوگ یا ان کے باپ دادا اتراکھنڈ میں مقیم تھے ان کو ہی اتراکھنڈ کے اصل باشندے مانا جائے۔ جب کہ سن 1950 میں ان کے باپ دادا بھی اُتر پردیش کے رہنے والے تھے۔ یہ مطالبہ آہستہ آہستہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، جب کہ یہ مانگ نا اصولی اعتبار سے صحیح ہے اور نہ ہی ہندوستان کے دستور کے مطابق۔ چوں کہ سن 2000 سے قبل اترا کھنڈ ریاست اُتر پردیش کا ہی حصہ تھا اور سب اُتر پردیش کے باشندے تھے، لہذا اس غیر آئینی مطالبہ کا ہندو بنیاد پرستوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور یہیں سے شروع ہوا اتراکھنڈ کو ہندوتو کے ڈھانچے میں ڈھال کر ہندو راشٹر بنانے کا آغاز۔ اور اُس طرح ہوئی اتراکھنڈ کو ہندو راشٹر کی تجربہ گاہ بنانے کی شروعات۔ ۔ جو اب 2014 سے زیادہ زور پکڑ گئی ہے۔ آج یہ مہم اپنے پورے عروج پر ہے۔

اس مذموم کوشش کی شروعات بدنام زمانہ وسیم رضوی، یتی نرسمہا نند سرسوتی اور ان کے ہمنواؤں کے ذریعے ہری دوار میں باضابطہ پروگرام کرکے کی گئی۔ مگر اس سے پہلے سےمستقل طور پر ہندو رکشا ابھیان اور اس کے بانی کے ذریعے مسلمانوں کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کا نام ہی جہادی رکھ دیا گیا اور یہ مشہور کیا گیا کہ مسلمان اتراکھنڈ پر قبضہ کرکے یہاں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں – اور پھر جھوٹے پروپیگنڈا کا ایک نیا دور سوامی درشن بھارتی، پربودھناند، آنند سوروپ اور راکیش تومر جیسے ہندوتو کے ٹھیکیداروں نے اپنے اپنے علاقوں میں شروع کیا جو پوری شدت کے ساتھ اب بھی جاری ہے۔ اس گروپ نے اتراکھنڈ کے ہندو سماج اور سرکار کو یہ سمجھایا کہ نیچے کا مسلمان یہاں پہاڑ میں آکر بس گیا ہے اور یہاں پر ان کی تعدادروز بروز بڑھتی جارہی ہے جس سے اتراکھنڈ میں مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہو جائے گا اس طرح اتراکھنڈ کا اسلامی کرن ہوجائے گا۔

یہ سب مسلمانوں کے ذریعے ایک سازش کے تحت مسجدوں اور مدرسوں سے لینڈ جہاد، لو جہاد، مردم شُماری جہاد، نشہ جہاد ( اسمک جہاد) اسلامی جہاد کے طرز پر کیا جا رہا ہے۔ مسلم نوجوان ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر شادی کے ذریعے مسلمان بنا رہے ہیں – اس سے ہندوؤں کی تعداد اس قدر کم ہو جائے گی کہ اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ مسلمانوں نے باہر سے آکر اترکھنڈ کی زمین، جنگل اور بیٹی پر قبضہ کر لیا ہے اور اتراکھنڈ کی ثقافت اور تہذیب کو اسلامی اقدار میں بدل دیا ہے۔

اس جھوٹے پروپیگنڈا کا ہندو سماج اور اتراکھنڈ سرکار پر خاطر خواہ اثر ہوا اور سرکاری طور پر بھی پردیش کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے ایک منصوبے کے تحت کام شروع کیا گیا۔ سب سے پہلے قانونی اعتبار سے ان کو نشانہ بنایا گیا اور 2018 میں اتراکھنڈ میں مذہبی آزادی ایکٹ لایا گیا تاکہ اسلام اور عیسائیت کی طرف تبدیلئی مذہب کو روکا جا سکے اور ہندو مذہب میں ” گھر واپسی “کی راہ ہم وار ہو سکے۔ اس قانون کو مزید سخت بنایا گیا اور اس کی آڑ میں مسلمان نوجوانوں اور عیسائیوں پر ہندو انتہا پسندوں نے حملے شروع کردئے اور پورے صوبہ میں ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔ اس کے بعد مہم چلاکر اتراکھنڈ میں “لینڈ جہاد ” کا شوشہ کھڑا کیا گیا اور اترا کھنڈکے اصل باشندوں کاایشو پورے شدومد سے اٹھایا گیا اور اب ریاستی سرکار اس سلسلے میں جلد ہی سخت قانون لانے والی ہے۔

اسی کڑی میں اتراکھنڈ میں یکساں سِول کوڈ کو قانونی شکل دے دی گئی تاکہ سماجی یکسانیت کے نام پر ہندو کوڈ بل اور اسپیشل میریج ایکٹ کے ورژن کو قانونی طور سے لاگو کیا جا سکے۔ یہ قانون نہ صرف مسلمانوں کو قانون شریعت سے محروم کرتا ھے بلکہ ان کے ایمان، تہذیب و تمدن اور ان دینی شناخت کو بھی ختم کردیتا ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی قانون قرآن و حدیث اور سنت رسولﷺ کے خلاف ہے تو اس کا ماننا کفر ہے۔ اس قانون میں طلاق، وراثت، گود لینے، لیو ان ریلیشن جیسے معاملات عین کفر اور قرآن کے احکامات میں تحریف اور ہندو کوڈ بل کی تائید ہے- بڑے شاطرانہ ڈھنگ سے چاندی کے تشت میں ایک راشٹر ایک قانون کے نظریہ کے تحت لایا جا رہا ہے جس کو مسلمانوں کا ایک خود فریب طبقہ یہ کہہ کر اڑا رہا ہے کہ یہ قانون صرف ہمارے لیے تو نہیں ہے بلکہ سب کے لیے یکساں ہے جب کہ اللہ نے اسلام اور کفر کو دو علیحدہ علیحدہ ملت قرار دیا ہے اس کو یکساں کرنا کفر کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔

ان سب شاطرانہ منصوبوں کے علاوہ علانیہ طور پر دہرادون میں دھریندرا شاستری کے پروگرام میں اتراکھنڈ سے ہندو راشٹر بنانے کا عزم کیا گیا۔ جس میں صوبہ کے وزیر اعلیٰ مع تمام سرکاری عملے کے موجود تھے۔ اس کے علاوہ آنند سوروپ جیسے لوگ علانیہ طور پر ویڈیو بناکر اس عزم کا اعلان کررہے ہیں کہ ہمالیہ ہمارا دیوالیہ ہے اور یہاں ہم کسی غیر ہندو یعنی مسلم، عیسائی اور بودھ کو نہیں رہنے دیں گے۔ اگر ضرورت پڑےگی تو قتل عام کریں گے۔ اس مقصدکے لیے ہم نے کالی سینا بنا ئی ہے۔

اس طرح کی اشتعال انگیزی کے بعد بھی ان عناصر پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ ایک طرح سے انھیں قانونی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اس لیے ہمالیہ میں بسے مسلمانوں اور عیسائیوں کو تیونی، پرولا اور اُترکاشی جیسی گوجر بستیوں سے نکالنے کے لیے ان کے گھر اور تعلیمی ادارے غیر قانونی مدرسوں کے نام پر توڑے گئے۔ پرولہ میں ایک لمبے عرصے سے رہنے والے 40 مسلم خاندانوں کو لو جہاد کے نام پر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے علاوہ ٹہری ضلع میں 20 سالہ پرانی مسجد کو سرکاری طور پر منہدم کردیا گیا۔ بدری ناتھ میں مسلمانوں کے نماز پڑھنے پروا ویلا مچایاگیا۔ یہ سب اتراکھنڈ میں ماحول کو زہر آلودہ کرنے، مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور ہمالیہ سے غیر ہندو کو نکالنے اور ان کی شناخت مٹانے کی ایک شروعاتی کوشش ہے تاکہ اتراکھنڈ سے ہندو راشٹر کی شروعات کی جا سکے اور اتراکھنڈ کو ہندتو کی تجربہ گاہ بنایا جا سکے۔ اس مشن کو پورا کرنے کے لیے مزارات اور اب مسجدوں مدرسوں اور اُن مسلم بستیوں کو سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیر کے نام پر مسمار کیا اور ہٹایا جا رہا ہے تاکہ مسلم ڈر کے مارے اتراکھنڈ سے خود نکل جائیں۔ اس کا تجربہ پورولہ کے علاوہ شکتی نہر اور ہلدوانی میں کیا گیا تاکہ قانون کے نام پر ہر طرح کا جواز مل جائے اور عوامی مزاحمت ختم ہو جائے۔ اتراکھنڈ میں یہ سب ایک سماجی اور سیاسی مشن کی طرح کیا جارہا ہے۔ مسلم رہ نما، تنظیمیں اور مسلم عوام بدلتے حالات میں اپنے آپ کو بے سہارا محسوس کر رہے ہیں۔ صبر و ضبط کا دامن چھوڑتے ہیں تو قانون کی چکی میں پسنے کا ڈر ہے۔ ہلدوانی کے حالیہ حادثات مسلم قوم کے لیے ایک نمونہ اور ایک مشاہدہ کی طرح ہیں اور مسلم قوم کے ضمیر کو آواز دے رہے ہیں کہ اب اپنی ذاتی زندگی سے باہر جھانکیں اور دیکھیں کہ صوبہ اتراکھنڈ اور ملک میں قوم و ملت کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے۔ اس میں خاموش تماشائی بننا اور حالات کو نظر انداز کرنا خود کشی کے متعاروف ہوگا۔