شیئر کیجیے

تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں

عفت ناز مبین خان

(پرلی ، مہاراشٹر)

“خبروں کی دنیا میں بنےرہیے ہمارے ساتھ…. سب سے اہم سوال، کیا دنیا اس مہاماری کورونا وائرس سے بچ پائیگی یا نہیں ؟ “

 ۔ اس نے  بیزاری سے اسکرین چینج کر دی

” آئیے دیکھتےہیں کورونا وائرس کی تازہ ترین خبر …….”

اس کا موڈ مزید خراب ہونے لگا

“بڑھتے دنوں کے ساتھ کورونا وائرس متاثرین لوگوں کی تعداد میں اضافہ …”

 .وہ بار بار بیزاری سے ویڈیو اسکرین چینج کرتی جارہی تھی –

“اس لوک ڈاؤن میں اور اس مہاماری کے ساتھ لوگوں کا بڑھتا ڈپریشن اور اس کا……”

اس نے تیزی سے اسکرین ویڈیو ہٹا دی اب تو اسے لگ رہا تھاوہ خود ڈپریشن کا شکار ہورہی ہے-

” اس نوجوان کو کس چیز نے اس قدر مایوس کیا کہ اسے خو د کشی جیسا قدم اٹھانا پڑا ”  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے ویڈیوو کٹ کر دی –یار اس طرح کی چیزیں دن رات دیکھ کرتو میں خود مایوس ہورہی ہوں وہ خود سے بڑبڑای ۔

“آخرکب ختم ہوگا یہ گھٹن ذدہ ماحول——- “

وہ شدید ڈ سٹرب نظر آنے لگی –اس نےجھنجلاہٹ سے اسکرین ہی آف کردی ۔

وہ کتنی ہی دیر سے چینلز بدلتی جارہی تھی –سارے سوشل میڈیا پر یہی چیزیں نظر آرہی تھیں اسے ۔وہ پھر سے شدید  ذہنی ڈ سٹرب ہوئی- وہ سب چھوڑ کر کھڑی ہوئی بہت بےچین اورگھبراہٹ کا شکارمضطرب فون کی طرف بڑھی اس نے سیل فون اٹھایااور وہاٹس ایپ اوپن کیا اور اسکا مطلوبہ کانٹیکٹ مریم —-

 مریم  ہمیشہ سےاسکے کانٹیکٹ کے ٹاپ آف لسٹ میں ہی ہوتی دن اور رات میں کوئی ایسا وقت نہ گزراجب ان دونوں کی بات نہ ہوئی ہو ، جب تک وہ مریم سے سب کچھ شیئر نہ کرے اسے کسی طرح سکون نہ آنا تھا- وہ فون میں کچھ سرچ کرنے لگی اس کی حالت بہت خراب ہورہی تھی اسے لگ رہا تھا اب وہ پاگل ہوجائےگی  –

                                                              ٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خوشگوار ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ابر آلود آسمان پر پرندے پر پھیلائے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ رہے تھے ٹھنڈی ہواؤں کے زیر اثر پردے جھول رہے تھے ۔موسم کی شادابی کا اثر سارے موحول پر نظرآ رہا تھا ہواؤں کے جھونکوں کے ساتھ بھینی سی خوشبو آرہی تھی گویا آس پاس کے علاقوں میں بارش برسی ہو ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی موسم کی شادابی کا اثر گویا اس کے وجود میں بکھر گیا وہ موسم سے لطف اندوز ہورہی تھی گویا اسکا پورا وجود اللہ کی حمد و ثناء میں ڈوب گیا ساری کائنات اللہ  کے نرالےجلوہ شان سے مزین نظر آنے لگی-

“مریم کیا کررہی ہو فون بج رہا ہے “

ماں کی آواز پروہ چونکی اور سیل فون کی طرف بڑھی

 ” السلام علیکم “

مریم  نے خوشگوارانداز میں کال وصول کی

“کہاں ہو مریم “

۔ اس نے سلام کا جواب لیے بغیر سوال کیا شاید وہ بہت پریشان تھی

“اس زمین پہ نا ایک قطعہ ہے جہاں اللہ نے مجھے ایک گھر دیا اور میں ناوہاں رہتی ہوں ” مریم مسکرا کر بولی

مریم کی اس بات پہ وہ بے اختیار ہنس دی گویا لمبے عرصے بعد مریم نے اسکی ہنسی کی آواز سنی ہو- مریم کی شخصیت ہی باتونی کچھ یوں نٹ کھٹ سی تھی وہ ہمیشہ ہشاش بشاش ہر دم چہکتی رہنے والی معصوم دل سمجھدار لڑکی تھی – سارے مسائل کا حل مانو اسکے پاس مفت میں موجود ہوتا-

“میں بہت پریشان ہوں میں آرہی ہوں تم سے ملنے “

 وہ واقعی بہت پریشان لگ رہی تھی –

 “ہاں بالکل آ ؤنا ” اور میں—–

”  اوکے اللہ حافظ

 مریم کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی اس نے فون بند کردیا – مریم جانتی تھی کہ وہ بہت زیادہ بے چین و ڈپریس ہے اس لوک ڈاؤن اور وائرس کی وباء کےاثرات،  کچھ دنوں سے بہت سے لوگ اس مسئلہ سے دوچار ہورہے تھے- اور ایک مرض بن گیا نہ جانے یہ وباء کب ختم ہوگی یہ گھٹن زدہ ماحول آخر کب ختم ہوگا وہ سوچتی رہ گئ –

“اللہ اکبر —اللہ اکبر—-” اللہ کی کبریائی کا نغمہ فضاؤں میں بلند ہونے لگا –اللہ  کی ذات کی کبریائی، بڑائی، گواہی ، حمد و ثناء کے پر ترنم اعلان نے ساری فضاوں میں ایک روحانی سحر پیدا کیا – اور وہ وضو کے لیے چل دی-

                                                             ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“السلام علیکم مریم ” آج وہ مریم سے ملنے آہی گئ

“وعلیکم السلام  خیریت “

مریم اس سے والہانہ پرجوش انداز میں ملی –

“میں بالکل ٹھیک نہیں ہوں ”

 اسکا دل مسکرانے تک کو نہیں چاہ رہا تھا- پچھلے کئی دنوں سے وہ اسی مسئلہ سے دوچار تھی –

وہ دونوں کھلے آسماں کے نیچے نیم تاریکی میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئیں روشنی کی وجہ سے  انکا ادھ رخ نظرآرہا تھا –

“یار مریم مجھے لگ رہا ہے میں پاگل ہوجاوں گی ” کیا ایسی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے ؟” بے مقصد فضول میں بس  پڑے رہو “

اسے اس  سب سے نکلنا تھا وہ شدید کوفت زدہ ہورہی تھی ۔ وہ آتے ہی شروع ہوگی۔

“ایک منٹ ہاں “

مریم اٹھ کر گئی اور کافی، فروٹ، اسنیک، جوس پتہ نہیں کیا کیا کھانے پینے کی آدھی دنیا اٹھا لائی مریم کے ہاتھ میں یہ سب دیکھ کر  اسکا منہ کھل  گیا اسکو غصہ آنے لگا ایک تو وہ اتنی پریشان اوپر سے یہ کھانے پینے کی آدھی دنیا اٹھا لائی”

“ایسے کیا دیکھ رہی ہو” مریم کو ہنسی آنے لگی

“ابھی تم آسمان میں دیکھ رہی تھی نا اس سے ہی کچھ سیکھ لیتی “

مریم ہنستی جا رہی تھی اور اسے غصہ آ رہا تھا۔

آسمان سے؟”

“ہاں”

“پاگل”

” کون “

  “تم “

“میں”

“ہاں”

“اوکے سنو” وہ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 یہ جو سارایونیورس سسٹم ہے اس میں ہماری زمین اس سے بڑے بڑے کئی سیارے ہے ان سب کو وہ خالق تھامے ہوئے ہے تو کیا وہ ہماری مدد نہیں کرےگا۔ ہم اس یونیورس کے چھوٹے سے پلینیٹ زمین کے چھوٹے سے حصے میں رہ کر ہمیں بس ہمارے مسائل بڑھے لگتے ہے ہم ان  سب سے نکل کر سوچیں تو ہمیں سمجھیں کہ اس خالق کی  قدرت اور عظمت اور اپنے مسائل کتنے چھوٹے اور کمتر ہے “

“اوہ اچھا “

اسے اچھا لگا اب اس کا غصہ بھی غائب ہوا

‘ہمیں کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے  حالات  جیسے  بھی ہو ں،پرابلمز چاہے کچھ بھی ہوں  –اللہ کہتا ہے ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے- اللہ حاضر نا ضرہے اسے ہماری ہر کنڈ یشن کا پتہ ہے وہ ہر چیز سے واقف ہے –”

  مریم اسے دلنشین انداز میں سمجھارہی تھی –اسکے تنےاعصاب ڈھیلے پڑنے لگے اب وہ کچھ مطمئن نظر آرہی تھی –

‘ہاں لیکن ہم اتنے کمزور انسان ہیں ہم  بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے ، پرابلمز کو دیکھ کر ہم ٹینشن ، ڈپریشن اور خوف کا شکار ہوجاتے ہیں –  ہم کیا کریں؟ ” اب وہ واقعی مطمئن لگ رہی تھی اسے ساری الجھنیں ختم کرنی تھیں –

اللہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے سمیع و بصیر ہے اپنے بندوں سے وہ بہت زیادہ محبت کرتا ہے خود کو کبھی اکیلا نہ فیل کریں وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے اور انسان کو اللہ نے یونہی بے مقصد پیدا نہیں کیا- مریم کی باتوں کا ایک سحر  پیدا ہورہا تھا۔ وہ مریم کو سن رہی تھی۔

“مومن کبھی بے مقصد نہیں ہوسکتا الله نے اسے ایک عظیم مقصد کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے” وہ محویت سے سن رہی تھی

اپنی ذاتی زندگی میں بھی ہم ہر کام اللہ کی مرضی کے مطابق کریں۔ یوں کہ ہم پورے کا پورے اسلام میں داخل ہو جائیں،اور اس نے جو ذمہ داری بحیثیت امت محمدیہ ہم پر عائد کی ہے ہم اسے بھی پورا کریں۔

” یہ سب کرنے کے لیے انسان کو سکون چاہیے انسان سکون کے لیے کیا کریں؟”۔۔۔۔۔

اس نے پھر سے ایک سوال کیا۔۔۔۔

مریم نے ایک کافی کا کپ اسکی طرف بڑھایا ایک خود لیا اور وہ گھونٹ گھونٹ بھرنے لگی۔

“الله نے دلوں کا سکون اس کے ذکر میں رکھا ہے۔ “

انسان کا ہر لمحہ حالات جیسے بھی ہوں اپنے اس مشن کو پورا کرنے میں صرف ہو جو اللہ نے اسے بخشا ہے”

وہ کپ کو نیچے، رکھتے گویا ہوئی

“تو پھر اب بتاوؤایک مومن کیسے مایوس ہوسکتا ہے؟ ” وہ اس سے دھیمے لہجے میں سوال کر رہی تھی

“ہاں صحیح “

اس نے بھی اس کی تائید کی

“اسلام وہ واحد نظام زندگی ہے جس میں انسانوں کی بقاء فلاح و بہبود ہے اللہ نے سارے زمانوں کے لیے اپنی آخری ہدایت پیغام ہمیں عطا کیا ہے ہمیں چاہیے ہم اس سے رہنمائی لیں اپنی زندگی کو اس کے مطابق سنواریں “

وہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے سنتی جا رہی تھی اسے ایک روشنی مل رہی تھی۔

“اس لوک ڈاؤن سے تو بہت ساری چیزیں ہم جان گئے “

مریم نے اب اس کی طرف چپس کا باؤل بڑھایا گویا اسے وہ سب کھا پی کر ختم کرکے ہی دم لینا تھا ۔

“ساری دنیا یہ جان گئی کہ سب پلانز کے اوپر حاوی اللہ کے پلانز ہے ”  اب مریم کے ساتھ وہ بھی کھانے لگی۔

 مریم نے جوس کا گلاس اٹھایا” اور پتہ ہے مومن کا حال؟ وہ ہر حال میں خیر ہی خیر سمیٹتا ہے مصیبت و پریشانی میں صبر کرکے اور خوشحالی میں شکر کرکے ۔۔ “

 زندگی میں کبھی مایوسی کا شکار نہ ہو اپنے گول کو اچیو کریں  “

“اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں ہمارا سکون ہے ہمیں چاہیے ہم اپنے نظام زندگی کو جانیں یہ وقت کی شدید ترین ضرورت ہے”

‘انشاءاللہ “وہ مکمل عزم کے ساتھ بولی۔۔۔۔

اسے روشنی نظر آرہی تھی اسے اب اس مشن کو تکمیل تک لے جانا تھا۔۔۔۔۔