شیئر کیجیے

راحت اندوری: حرفِ تعزیت اور دعاے مغفرت

عبدالعزیز

E-mail:azizabdul03@gmail.com
Mob:9831439068
کلکتہ کی سر زمین پر اردو کے عظیم شاعر راحت اندوری کے لیے دعائے مغفرت اور تعزیت کا جلسہ منعقد ہوا ۔آٹھ دس ادبی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ سات افراد کی شرکت ممکن ہوسکی ۔اندور سے منیر احمد خان صاحب نے جو راحت مرحوم کو بچپن سے جانتے تھے ‘ جلسہ میں حصہ لیا۔ کلکتہ سے نسیم عزیز ی، نوشاد مومن، نوراللہ جاوید صاحبان اور راقم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور دعا ئے مغفرت کی۔ اردو دنیا کے بہت بڑے صحافی،شاعر اور ادیب عطا ءالحق قاسمی کا تعزیتی پیغام پڑھا گیا اور لا ہور کے ایک نوجوان شاعر رحمان فارس کا بہت خوب صورت منظوم خراج تحسین پیش کیا گیا ملاحظہ فرمائیں:
شعر کا سونا چمن کچھ اور خالی ہوگیا
ہائے کیسے شخص سے اندور خالی ہوگیا
سر حدوں کے اس طرف بھی اس کی راحت تھی بہت
ایسا لگتا ہے مرا لاہور خالی ہوگیا
کیسی رونقیں تھیں اس کے اک اک شعر میں
کہ زمانہ گم ہوا اک دور خالی ہوگیا
پوچھتے ہیں غزل آباد کے دیوار و در
یہ بھرا گھر کس طرح فی الفور خالی ہوگیا
عطاءالحق قاسمی صاحب کا تعزیتی پیغام: راحت اندوری بہت عمدہ شاعر تھے۔انڈیا کے شہر اندور میں رہائش پذیر تھے۔ میرے خیال میں مشاعروں میں ان سے زیادہ مقبولیت شاید ہی کسی کو حاصل ہو ئی ہو۔ شعر تو عمدہ کہتے تھے ‘ پڑھنے کا انداز بھی لا جواب تھا۔بہترین شاعر ہو نے کے علاوہ بہترین پر فارمر بھی تھے۔میں نے بیرون ملک ان کے ساتھ بہت سے مشاعرے پڑھے اور ہر بار ان کی آمد پر پورے ہال کو کھڑ ے ہو کر ان کا استقبال کرتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی کوتاہیوں سے در گزر فرمائے ،آمین ۔
نسیم عزیزی :
معروف ادیب و شاعر نسیم عزیز ی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ ڈاکٹر راحت اندوری ایک خوش طالع شاعر تھے کہ انہیں مشاعروں میں بے پناہ شہرت اور نام وری حاصل ہوئی۔ ان کی شاعری غیر اردو داں طبقے میں بھی پسند کی جاتی تھی۔ایک انوکھے طرز کی وجہ سے ان کا انداز پیش کش سامعین کو اپنی جانب متوجہ کرتا تھا۔انہوں نے تحت اللفظ میں کلام سنانے کا منفرد طریقہ وضع کیا تھا۔ ان کے نزدیک ’مشاعرہ‘ کی حیثیت ایک پر فارمنگ آرٹ کی سی تھی۔ وہ مصرعہ پڑھتے وقت آواز کے زیر و بم سے ایک ایک لفظ کو تصویر میں ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ شعر کہنے کا ہنر جانتے تھے لیکن مشاعروں کے مخصوص ماحول نے انہیں مرموز انداز بیان (رمزیہ پیرایہ اظہار) اختیار کرنے سے باز رکھا۔ انہیں خود بھی اس بات پرحیرت تھی کہ تقریباً پینتیس سال قبل کہا گیا یہ شعر ’’سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں/کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے‘‘ کیسے ایک مزاحمتی صدا اور انقلابی نعرہ بن کر عوام کی زبان پر جاری ہو گیا۔ بھج یونی ورسٹی نے 1985 میں راحت اندوری کو ان کے تحقیقی مقالہ بہ عنوان ’’اردو میں مشاعرہ‘‘ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی تھی۔ ان کے کئی شعری مجموعہ ہائے کلام منظر عام پر آئے۔ یہ مناسب موقع نہیں کہ ان کے فن پاروں پر اظہار خیال کیا جائے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کا ایک عمدہ انتخاب شائع کیا جائے۔ ان کے متعلقین، لواحقین اور خیر خواہ یہ کام بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔ راحت اندوری کے نثر پارے بھی ہیں ۔اگر ان کی بھی اشاعت ہوجائے تو شاعر کی ایک اور روشن جہت ہمارے سامنے ہوگی۔ میں اس منظوم خراج عقیدت پر اپنی گفتگو تمام کرنا چاہوں گا، ملاحظہ کیجئے:
الفاظ شعلہ بار، صدا اس کی برق دم
کانوں پڑے تو حاکم دوراں لرز اٹھے
خاموش لب کو قوت اظہار دے گیا
اس مردِ حق نوا کی خدا مغفرت کرے!
ڈاکٹر نوشاد مومن :
ڈاکٹر نوشاد مومن نے راحت اندوری کا تعارف پیش کرتے ہوئے مرحوم کو ادب و ثقافت کی ممتاز شخصیت قرار دیا۔ ڈاکٹر راحت اندوری اپنے لہجے کی بے باکی سے اردو شاعری کی ایک۔ توانا آواز بن گئے تھے۔ اْنھیں مشاعرے کی جان بھی کہا جاتا تھا۔ ان کا اصل نام راحت اللہ قریشی تھا۔مرحوم قیصر اندوری کے شاگرد رشید تھے۔ ابتدائی دنوں میں راحت قیصر ی کے نام سے جانے جاتے پھر راحت اندوری بن کر اپنی شناخت مستحکم کی۔اْن کی شاعری عا م انسانوں کے دل کی آواز تھی۔ وہ جتنا اْردو حلقے میں مقبول تھے اتنا ہی ہندی داں حلقے میں بھی مقبول تھے۔ اپنی شاعری کے دم پر اْنہوں نے غیر اْردو داں طبقے کے دلوں میں خاص مقام حاصل کیا۔ لیکِن ناقدین ادب نے اْن پر خاص توجہ نہ دی۔ اْن کا یہ کہنا کہ مشاعرے کی شاعری اور رسائل و جرائد کی شاعری میں خاصا فرق ہے۔اس کے باوجود اْنہوں نے اپنا شعری سفر جاری و ساری رکھا اور مقبولیت کی بلندی کو چھو لیا۔اْن کا شعری لہجہ تلخ تھا۔اتنا تلخ کہ حکومتوں کے کان کھڑے ہو جاتے۔اْن کی شاعری میں ہندوستان بستا تھا۔اْن کے اشعار مظلوموں کی آواز تھے۔ان کی رحلت سے شعر و ادب کی دنیا کو بڑا نقصان ہوا ہے جس کی بھر پائی مشکل ہے۔
عبدالعزیز:
عبدالعزیز صاحب نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ راحت اندوری صاحب نے اپنی کتاب زندگی کا آخری ورق 11 اگست کو الٹ دیا۔ سارے عالم کو سوگوار چھوڑ کر چلے گئے ۔ انگریزی کے مشہور شاعرجان ڈان (John Donne) کے چند الفاظ سے شاعر انقلاب و احتجاج کی جدائی کی حقیقت کی صحیح ترجمانی ہوتی ہے :
“Any man’s death diminishes me, because I am involved in mankind, and therefore never send to know for whom the bells tolls”
(کسی بھی آدمی کی موت مجھے گھلا دیتی ہے کیونکہ میں انسانیت کا حصہ ہوں۔ اس لئے یہ نہ پوچھو کس کی موت کا اعلان ہورہا ہے کیونکہ کسی کی موت کا اعلان در اصل آپ کی موت کا اعلان ہے)
راحت صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے مشاعرے میں آتے سارا ہال کھڑے ہو کر ان کا استقبال عطا الحق جیسے شاعر گواہی دیتے ہیں کہ اتنا مقبول شاعر ملک اور بیرون ملک میں کسی اور کو نہیں دیکھا ’حقیقت تو یہ ہے کہ مرحوم عام فہم لہجے میں اپنا مافی الضمیرادا کرتے اور ادائیگی کاانداز بھی بڑا پیارا اور نرالاہوتا‘ ہر کوئی متا ثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ جب مغربی بنگال کی مہواموئترا نے راحت اندوری کے درج ذیل اشعار مودی جی کے سامنے زور دار لہجے میں پڑھا:
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوںگے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کاخون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندستان تھوڑی ہے
آخر ی مصرعے میں پوری حقیقت بیان کر دی گئی صرف اندھے،گونگے بہرے کے ہی دلوں پر لرزش طاری نہیں ہوگی پورے ایوان پر تھوڑی دیر کیلئے سناٹا چھا گیاجسے Pin Drop Silenceکہتے ہیں ۔ کالے قانون کی تحریک میں مرحوم راحت کے بہت سے اشعار پڑھے جاتے تھے ۔اسی مصرعے کو شاہین باغ میں کے پرو ٹسٹر ایک بینر پر لکھا کر پر چار کر رہے تھے۔
راحت کی وفات کے دوسرے دن اس بینر کو انگریزی روزنامہ نے صفحہ اول پر نمایاں انداز سے چھا پا۔ اخبار مذکور سات لاکھ سے زائد شائع ہوتا ہے ۔ بہت بڑی خوبی یہ کہ ملک کی ہر زبان والے شاعر انقلاب و احتجاج کو آسانی سے سے سمجھ لیتے ہیں کسی دوسرے شاعر کو عوامی طبقہ آسانی سے نہیں سمجھ پاتا مثلاًان کا ایک شعر ہے :
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا
یہ حال ہے تو کون عدالت جائے گا
اسے ہر عام وخاص آسانی سے سمجھ سکتا ہے اتنے عظیم شاعر کے رخصت ہو جا نے پر یہی کہا جا سکتا ہے:
وہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر دیا
منیر احمد خان (اندور):
منیر احمد خان صاحب اندور سے تعلق رکھتے ہیں فرحت اندوری صاحب کو بچپن سے جانتے تھے۔ مرحوم سے رسم و راہ بھی تھی موصوف اندوری صاحب کے اخلاق مند ی کے واقعات سناتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھے انسان بھی تھے بہت اچھے آرٹسٹ تھے ابتدائی زندگی میں فلمی پوسٹر لکھتے تھے سائیکل اور گاڑیوں کے نیم پلیٹ۔ لکھتے تھے مگر انہوں نے پڑھا ئی نہیں چھوڑ ی اعلی تعلیم حاصل کی ڈاکٹر یٹ کی بھی ڈگری حاصل کی راحت صاحب کی شاعری اور ان کے پیغام کو ہر کوئی پسند کرتا تھا اندور میں اسی سال ان کی شاعری کا پچاس سالہ جشن منایا گیا ملک اور بیرون ملک سے بچا س سے زیادہ شعراء کرام تشریف فرما ہوئے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی کانگریس اور بی جی پی کے رہنما بھی شریک محفل ہوئے سابق اسپیکر مسز۔ سمترا مہا جن نے بھی شرکت کی حقیقت تو اندوری صاحب اندور شہر کی شان تھے ۔آج ان کے چلے جانے شہر ویران سا ہوگیا اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا کرے آمین۔
نوراللہ جاوید:
راحت اندوری صاحب نے زبانوں کے حدود اور دیواروں کو اپنی اعلیٰ اور غیر معمولی شاعری سے توڑنے کی ہرممکن کوشش کی۔ بہ حثیت شا عر وہ کامیاب رہے ،ہر زبان وادب کے لوگ ان کی شاعری اور ادب سے یکساں فیضیاب ہوتے رہے اور ہوتے رہیں گے ۔دوسری اہم بات ان کے متعلق کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے آج کے سیاسی اور سماجی حالات کی ایسی خوبصورت اور بھر پور عوامی ترجمانی کی وہ ہر خاص و عام کی آواز بن گئے جو چیز کم ہی ادیب اور شاعر کے حصہ میں آتی ہے۔