شیئر کیجیے

رام مندر کی تعمیر یا سیکولر بھارت کا خاتمہ

اب کیا رام کے نام کو مکروہ سیاسی مقاصد کے استعمال کیا جائے گا
ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس

ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے مورتی کی پران پر تشتھا کا عمل مکمل ہوگیا۔ لہذا سپریم کورٹ کے ذریعے اس فیصلے کی کو ئی معنویت نہیں رہی جس میں کہا گیا تھا کہ 22 دسمبر1949 کو بابری مسجد میں چوری چھپے مورتیوں کا رکھا جانا، یکم فروری1986 کو مسجد کا تالہ کھول کر مورتیوں کے درشن کی اجازت اور 6 دسمبر کو مسجد کی شہادت کو غلط، غیر دستوری اور مجرمانہ عمل ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ذریعے یہ کہنے کے باوجود کہ ایسا کو ئی ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی، بابری مسجد کی زمین کو ہندو فریق کے حوالے کر دینے کے بعد اب اس مقام پر رام مندر کی تعمیر محض ایک رسم رہ گئی تھی جو کہ اب پوری ہو گئی ہے۔ تاہم اس پورے عمل میں حکومت، اس کی پوری مشنری، اس کے وسائل، میڈیا اور خود سیکولر سیاسی پارٹیاں جس طرح ملوث ہو ئیں، اس نے حکومت کے سیکولر کر دار کو بری طرح مجروح بلکہ منہدم کر دیا ہے۔ اندیشہ ہے کہ اس کے بعد گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عید گاہ اور نہ معلوم کتنی اور مساجد پر دعووں اور جارحانہ تحریکات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا- اسی طرح اب حکومت کا ہر عمل اور پروگرام ہندو مذہبی علامتوں اور شناخت کو اختیار کر نے پر استوار ہو گا۔
بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے مشاہدات(Observations) کو پڑھ کر ہر شخص اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ مسجد مسلمانوں کو ہی دی جانی چاہیے تھی تاہم ایسا نہیں ہوا- سپریم کورٹ نے 9 نومبر2019 کے اپنے فیصلہ میں کہا تھا کہ ہمیں ایسا کو ئی ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی ہمارے سامنے پیش کیا گیا جس سے یہ ثابت ہو تا کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر تعمیر کی گئی، آثار قدیمہ کی کھدائی میں جو آثار ملے وہ بھی بابری مسجد کی تعمیر سے تقریباََ چار سو سال پیشتر کے ہیں،22 دسمبر1949 کی رات میں چوری چھپے مسجد میں مورتیوں کا رکھا جانا ایک مجرمانہ اور غیر قانونی فعل تھا، اس طرح 6 دسمبر کو مسجد کا گرا یا جانا بھی ایک غیر قانونی، غیر دستوری اور مجرمانہ عمل تھا۔ سپریم کورٹ نے مزید یہ بھی کہا کہ دسمبر1949 تک مسجد میں نماز ہو تی رہی۔ البتہ کورٹ نے یہ کہہ کر کہ ہندوؤں کی آستھا کہ یہ رام کی جائے پیدائش ہے، اسی مقام سے وابستہ ہے، بابری مسجد کی زمین ہندو فریق کے حوالے کردی۔ البتہ عدالت نے142 کے خصوصی اختیار کے تحت یہ بھی طے کر دیا کہ مسلمانوں کو اجودھیا سے قریب 5 ایکڑ زمین مسجد کی تعمیر کے لیے دی جائے۔ اس فیصلے نے جہاں شر پسند عناصر کے ان تمام جرائم کو جس کا ذکر خود عدالت نے اپنے فیصلہ میں کیا تھا، صرف نظر کر دیا- اس طرح عدالت نے مسلمانوں کو جنھوں نے60 سال تک کورٹ میں پر امن، جمہوری اور آئینی طریقے پر بابری مسجد کی بازیابی کی لڑائی لڑی، باہمی گفتگو اور بات چیت کے ذریعے ہر مرحلے میں مسئلہ کو حل کر نے کی کوشش کی، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے ذریعے چلائی جانے والی جارحانہ تحریک میں اپنے کئی معصوم اور بے گناہ افراد کھو دیے، اپنے فیصلہ سے زبردست صدمہ پہنچایا ہے، تاہم ہندوستانی مسلمانوں نے اس کڑوے گھونٹ کو یہ کہہ کر جبراََ پی لیا تھاکہ شاید عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق1991 کے قانون کے ذریعے دی گئی یقین دہانی کے بعد اب کسی اور مسجد کو چھیڑا نہیں جائے گا۔ لیکن انھیں کیا پتہ تھا ہندوتوا شر پسندوں کے پاس نہ ملک کے قانون کا کو ئی احترام ہے اور نہ ہی عہد و پیمان کا کوئی پاس و لحاظ۔ جس طرح کسی آدم خور کو انسانی خون کا مزا لگ جاتا ہے تو پھر اس کی حرص و ہوس تھمنے کا نام نہیں لیتی، یہی کچھ اب دکھا ئی دینے لگا ہے۔نچلی عدالتیں گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ پر تکڑے تکڑوں میں فیصلہ دے کر ہندو فریق کے کیس کو مضبوط کرتی جارہی ہیں مزید برآن عدالت عظمیٰ جس نے بابری مسجد کا فیصلہ دیتے وقت 1991کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو سیکولرزم کی روح قرار دیا تھا، ایسا لگتا ہے کہ اب اسے بھی سانپ سونگھ گیا اور وہ نچلی عدالتوں کو مسلم فریقوں کے اصرار کے باوجود عبادت گاہوں سے متعلق نئے تنازعات لینے سے نہیں روک رہی ہے – اس سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے گویا سب کچھ ایک منصوبہ کے مطابق ہورہا ہے- دوسری طرف ملک کی راجدھانی دہلی میں جس طرح این ڈی ایم سی کے ذریعے عدالت کے اسٹے کے باوجود نیشنل ہیریٹیج بلڈنگس میں شامل سنہری مسجد کو ٹریفک کے نام پر منہدم کرنے کا نوٹس جاری کیا گیا نیز جس طرح ڈی ڈی اے (DDA) نے علی الصبح دہلی کے مہرولی کے علاقے میں ایک قدیم اور تاریخی مسجد کو بغیر کسی نوٹس اور وقف بورڈ کو اطلاع دیے بغیر منہدم کردیا، کیا یہ نام نہاد ہندو راشٹرا اور لا قانونیت کا آغاز نہیںہے۔
ہمارا ملک ایک سیکولر ملک ہے- اسٹیٹ کا اپنا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے۔ تمام مذاہب کے تئین اسٹیٹ کا غیر جانب دار رہنا اور تمام مذاہب سے یکساں دوری بنائے رکھنا ضروری ہے۔ البتہ ملک کے دستور نے ہر گروہ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ واشاعت کی آزادی کا حق دیا ہے۔افسوس کے دستوری تقاضوں اور اسپرٹ کے علی الرغم رام مندر کی تعمیر اور مورتی کی پران پرتشٹھا کا پورا پروگرام اسٹیٹ اسپانسرڈ تھا۔ اسٹیٹ نے اس کے لیے اپنے خزانے کھول دیے، ملک کے وزیر اعظم نے نہ صرف اسے اپنے ہاتھوں سے اسے انجام دیا بلکہ انھوں نے اس سے قبل جنوبی ہند کی ریاستوں کے اہم منادر کے دورے بھی کیے اور ہر پروگرام اور فنکشن کی خوب خوب تشہیر بھی کرائی گئی- صرف ایودھیا ہی نہیں بلکہ ملک کی بیشتر ریاستوں میں تمام سرکاری دفاتر اور ادارے آدھے دن بند رہے- صرف گودی میڈیا ہی نہیں بلکہ سرکاری نشریاتی اداروں نے بھی اس دن پل پل کی خبر نشر کی- ایسا لگ رہا تھا گویا یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کا پروگرام نشر کیاجارہا ہے۔ 22, جنوری کا دن اس لحاظ سے بھی ملک میں یاد رکھا جائے گا کہ اس دن ملک کا حکمراں جو دستور کا حلف لے کر اپنے منصب پر بیٹھا تھا، اپنے ہی ہاتھوں دستوری تقاضوں کو پامال کر رہا تھا۔ افسوس یہ بھی ہے سیکولرزم کا دم بھر نے والی دیگر سیاسی پارٹیوں کو 22, جنوری کے فنکشن پر بس ایک ہی اعتراض تھا کہ اس کا پورا کریڈٹ ایک ہی شخص اور صرف ایک ہی پارٹی کو کیوں جارہا ہے۔
ایک مبصر کے بقول ‘بابری مسجد تنازع پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ رام جنم استھان مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کا دعوٰی مکمل طور سے بے بنیاد تھا۔معاملے کے اس پہلو کو ہندوتو وادی عناصر اور ان کے زیر اثر گودی میڈیا پیش کرنے میں پوری بد دیانتی سے گریز کرتا رہاہے، اسی طرح کی بے ایمانی اور غلط بیانی رام مندر کی تعمیر و بازیابی کے متعلق جد وجہد کی تاریخ کے بارے میں بھی کی جا رہی ہے کہ ہندو ساڑھے چار سو، پانچ سو، ساڑھے پانچ سو سال سے رام جنم بھومی مکتی کے لیے جد وجہد کر رہے تھے اب جا کر ان کی جدوجہد اور آرزو کام یاب ہوئی ہے۔ یہ بیانیہ پوری طرح جھوٹ اور مذموم، قابل نفریں پروپیگنڈا پر مبنی ہے، اسے بھارت کی قدیم و جدید تواریخ و روایات سے واقف ہر آدمی اچھی طرح جانتا سمجھتا ہے-
رام کو چودھویں صدی کے درمیانی دور تک ملک کے آدرش شخصیت کے بطور دیکھا جاتا رہا ہے نہ کہ کسی مندر کے معبود و مورتی کے طور پر، اس پر اصل والمیکی رامائن شاہد ہے، اس لحاظ سے بھارت کو رام کے نام پر بھٹکانے اور فرقہ وارانہ تفریق و تقسیم کی مہم کا کوئی جواز نہیں ہے، تمام ہندوستانیوں کی طرف سے اس کا اظہار ہوتے رہنا چاہیے کہ رام کے نام کو مکروہ و مشکوک سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی چھوٹ نہیں دی جا سکتی ہے۔