غیر اسلامی تیوہاروں پر تہنیت

ذکی الرحمٰن غازی مدنی
فروری 2024

اپنے رہنے سہنے کا طور طریقہ تھوپ دیا ہے۔ چناں چہ لباس،خوردونوش اور تقریبات وغیرہ میں مغربی طرز کی نقالی عام بات ہوگئی ہے۔اسی کی ایک شکل غیر اسلامی تیوہاروں کا منانا بھی ہے۔ میل جول کے جدید طریقوں کے بعد سے ہمارے ثقافتی اور مجمعی ماحول میں غیر مسلم تیوہاروں کا اثر بڑھا ہے۔ چوں کہ غالب مغربی رسوم ورواج کا دباؤ سب سے زیادہ ہے،اس لیے خدامِ مغرب نے عادت کے مطابق ان غیر اسلامی تیوہاروں کو بھی شرعی جامہ پہنانے کی کوشش تیز کر دی ہے اور کفار ومشرکین کے تیوہاروں سے روکنے والی شریعت کی نصوص کی تاویل کا پِٹارہ کھول دیا ہے۔

سنتِ نبوی کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان کو حیرت ہوتی ہے کہ کیوں اللہ کے نبیﷺ نے غیر اسلامی تیوہاروں میں مسلمانوں کی دور سے شرکت کو بھی حساسیت کے ساتھ لیا ہے۔ ایک سے زیادہ واقعات میں آپﷺ کا اہتمام اس پہلو سے نمایاں ہے کہ کوئی مسلمان غیر اسلامی تقریبات میں شرکت نہ کرے۔ ایک سے زیادہ قضیے ایسے ملتے ہیں جس میں اللہ کے نبیﷺ نے قابلِ لحاظ حد تک تیوہاروں میں کفار سے دوری بنائے رکھنے کا حکم دیاہے۔ نبیِ اکرمﷺ کے عملِ مبارک سے مترشح ہوتا ہے کہ آپؐ تیوہاری سرگرمیوں میں مسلمانوں کا علاحدہ اور جداگانہ ملّی تشخص چاہتے تھے۔ ہم چار احادیث یہاں درج کریں گے کیوں کہ ان کی روشنی میں اس تعلق سے ایک عمومی مفہوم اخذ کرنے میں آسانی ہوگی۔

پہلا واقعہ آپﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد کا ہے۔ آپﷺ نے مدینے والوں کو دیکھا کہ سال کے دو دن یہ لوگ تفریح کرتے ہیں اور ان دو دنوں کو ایک سماجی جشن کے طور پر مناتے ہیں۔ اللہ کے نبیﷺ نے اس مسئلے کو یونہی نہیں چھوڑا، بلکہ اس سماجی تقریب کے محرکات کے بارے میں لوگوں سے دریافت فرمایا۔پوچھا کہ یہ دو دن کیا ہیں؟]ما ہذان الیومان[لوگوں نے بتایا: ‘‘جاہلیت کے زمانے میں ہم اِن دو دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے۔’’کنا نلعب فیہما فی الجاہلیۃ[ اس پر اللہ کے نبیﷺ نے یہ نہیں کہا کہ ٹھیک ہے،کوئی بات نہیں،اسے جاری رکھو،بس اس کا دھیان رکھو کہ کھیل کود میں کسی خلافِ شریعت عمل کا ارتکاب نہ ہونے پائے۔آپﷺ نے اس کے بجائے آگے بڑھ کر اس تقریب کے انعقاد کو بالکلیہ منسوخ کردیا، حالاں کہ اس وقت اُس مجمعی جشن کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ‘‘اللہ نے ان دو دنوں کے بدلے میں تمھیں بہتر دن عطا کردیے ہیں؛عید الاضحی اور عید الفطر۔’’ ان اللہ قدابدلکم بہما خیر منہمایوم الاضحی ویوم الفطر[ (سنن ابو داؤدؒ: ۱۱۳۴۔ سنن نسائیؒ: ۱۵۵۶۔ مسند احمدؒ: ۱۳۴۷۰،۱۲۸۲۷،عن انسؓ)

دوسرا واقعہ یہ ہے کہ کسی صحابی نے یہ نذر مان لی کہ کچھ اونٹ حجاز کے ایک مقام پر لے جاکر ذبح کریں گے۔ اس جگہ کا نام بوانہ تھا۔ بعد میں وہ اس نذر کے تعلق سے استفسار کرنے آپﷺ کے پاس آئے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ان سے کئی سوال ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھے جو اگر وہاں پائی جاتیں تو ان کی وجہ سے یہ نذر جائز نہ رہ پاتی۔ جواز کا فتویٰ دینے سے قبل آپﷺ نے جو چند سوالات کیے ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا اس جگہ یعنی بوانہ میں کافروں کا کوئی تیوہار منایا جاتا ہے؟ ان صاحب نے نفی میں جواب دیا تو فرمایا: ‘‘تب تم اپنی نذر پوری کردو۔’’ ]ہل کان فیہا عید من اعیادہم فقال الرجل لا فقال لہ النبیﷺ اوف بنذرک[(سنن ابو داؤدؒ: ۳۳۱۳، عن ثابتؓ بن ضحاک)

تیسری حدیث یہ ہے کہ اسلامی عید کی گہما گہمی کے درمیان آپﷺ نے عام مسلمانوں کو ایک جامع اور واضح حکم دیا جس سے عیدوں کے تعلق سے اس امت کی خاصیت اور امتیاز پر روشنی پڑجاتی ہے۔ فرمایا: ‘‘ہر قوم کی کوئی عید ہوتی ہے،یہ ہماری عید ہے۔’’ ]إن لکل قوم عیدا وہذا عیدنا[ (صحیح بخاریؒ: ۹۵۲۔ صحیح مسلمؒ: ۸۹۲، عن عائشہؓ)

چوتھی حدیث وہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حجۃ الوداع کے ایام میں اللہ کے نبیﷺ نے دوبارہ نئے سرے سے مسلمانوں کے ذہنوں میں عید کی خصوصیت وانفرادیت کا استحضار کرایاتھا۔ چناں چہ فرمایا تھا: ‘‘یومِ عرفہ،یوم النحر اور ایامِ تشریق ہم مسلمانوں کی عید ہے۔’’ ]یوم عرفۃ ویوم النحر وایام التشریق عیدنا اہل الإسلام[(سنن ترمذیؒ: ۷۷۳۔ سنن ابو داؤدؒ: ۲۴۱۹۔ سنن نسائیؒ: ۲۰۰۴، عن عقبہؓ بن عامر)

اب ان واقعات واحادیث سے ایک عمومی حکم نکالنے کی کوشش کیجیے۔شاید میری طرح آپ کو بھی عیدوں کے تعلق سے اللہ کے رسولﷺ کی حساسیت دیکھ کر تعجب ہوا ہوگا۔ بہرحال اس سے صاف ہوجاتا ہے کہ نبیِ کریمﷺ کے پیش کردہ تصورِ شرعی میں عید کی حیثیت محض ایک مجمعی موقع یا سماجی تقریب کی نہیں تھی جس کا دین یا دین داری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اللہ کے نبیﷺ نے عید کی دینی حیثیت پر مختلف طریقوں سے روشنی ڈالی ہے۔چناں چہ کبھی یہ ہواکہ اہلِ یثرب اپنا مجمعی جشن منا رہے ہیں تو ان سے کہا گیا کہ ان دنوں کو چھوڑ دو کیوں کہ اللہ نے تمھیں ان سے بہتر دن عید الاضحی اور عید الفطر کی شکل میں عطا فرمادیے ہیں۔مدینے میں منائے جانے والی عہدِ جاہلیت کے تیوہاروں کے ترک پراس قدر زور دیا گیا کہ مورخین کے مطابق یہ دونوں یثربی عیدیں بالکلیہ نابود ہوگئیں اور ان کا نام ونشان مٹ گیا۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے ان دونوں جاہلی عیدوں کے روپوش ہوجانے کا بڑا عمدہ تجزیہ فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں: ‘‘وہ دونوں جاہلیت کے دن اسلام کی آمد کے بعد مر گئے اور ان کا کوئی اثر عہدِ رسالت،عہدِ خلفائے راشدین کے زمانے میں باقی نہ رہ گیا۔اگر اللہ کے رسولﷺ نے ان دونوں دنوں میں لوگوں کو سختی کے ساتھ کھیل کود کرنے اور تیوہار منانے سے نہ روکا ہوتا تو لوگ عادت اور عرف کے مطابق کسی نہ کسی درجے میں اس پر قائم رہتے کیوں کہ عادت اور رواج اُسی وقت بدلتا ہے جب کہ کسی طاقتور وسیلے سے اسے بدلا جائے۔بالخصوص اس لیے کہ عورتوں اور بچوں اور بیشتر مردوں کی فطرت اُس دن کی مشتاق رہتی ہے جسے وہ عید سمجھتے ہیں اور جس میں صرف کھیل کود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیوہاروں کے بارے میں لوگوں کا طرزِ عمل بدلنے سے بڑے بڑے بادشاہ بھی عاجز رہ جاتے ہیں کیوں کہ تیوہاروں کی محبت کا تقاضا دلوں میں بڑا شدید وعمیق ہوتا ہے اور اسے منانے کی جمہور عوام کی چاہت بے انتہاء ہوتی ہے۔ اس لیے اگر اللہ کے رسولﷺ کی طرف سے ان عیدوں کی شدید ممانعت نہ ہوتی تو لازماً وہ آج باقی رہتیں،چاہے بہت کم زور شکل میں رہتیں۔ مگر وہ عیدیں بالکلیہ مٹ گئیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ نے سختی کے ساتھ ان عیدوں سے روکا تھا۔’’ (اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم، ابن تیمیہؒ، تحقیق: ناصر عبدالکریم العقل: ۱/۴۳۵)

‘‘سنتِ نبوی کا مطالعہ کرتے ہوئے انسان کو حیرت ہوتی ہے کہ کیوں اللہ کے نبیﷺ نے غیر اسلامی تیوہاروں میں مسلمانوں کی دور سے شرکت کو بھی حساسیت کے ساتھ لیا ہے۔ ایک سے زیادہ واقعات میں آپﷺ کا اہتمام اس پہلو سے نمایاں ہے کہ کوئی مسلمان غیر اسلامی تقریبات میں شرکت نہ کرے۔’’

 

دوسری جگہ اللہ کے رسولﷺ کسی نذر کے جواز کا فتویٰ دینے سے پہلے قربانی کی جگہ کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ آیا وہاں عہدِ جاہلیت میں کوئی میلا یا تیوہار تو منعقد نہیں ہوتا تھا؟ یہ سب اس لیے تاکہ مسلمان کے ذہن میں اپنی عیدوں کا منفرد تشخص اور کردار پوری طرح رچ بس جائے۔ وہ نذر کرنے والے صحابی کو بتاتے ہیں کہ جس نذر کی تکمیل میں معصیتِ الٰہی کا ارتکاب کرنا پڑے اسے پورا نہیں کرنا چاہیے،مطلب یہ کہ اگر اُس جگہ کوئی جاہلی تیوہار منعقد ہواکرتا تو وہاں نذر کا جانور ذبح کرنا جائز نہ ہوتا۔

تیسری جگہ اسلامی عیدوں کے خصوصی شعار کو بیان کیا جاتا ہے کہ ہر قوم کی عید کی طرح ہماری الگ مخصوص عید یہ ہے۔ اور اسی سے ملتے جلتے ایک واقعے میں اسے مسلمانوں کی عید کہا جاتا ہے۔ عید کے موضوع پر یہ حدیث بالکل الگ تناظر پیش کرتی ہیں اور بالکل منفرد زبان میں یہاں بات کہی جارہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عید صرف ایک مجمعی تقریب نہیں ہے جس میں لوگ کام دھندھا چھوڑ کر شریک ہوجاتے ہوں، بلکہ یہ امتِ مسلمہ کی امتیازی خصوصیات میں شامل ہے جو ازروئے دین اس ملت کو بخشی گئی ہیں۔

اس طرح کے واقعات نے صحابہ کرامؓ اور تابعینِ عظامؒ اور ان کے متبعین کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ اسی لیے حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ ‘‘دشمنانِ خدا کے تیوہاروں پر اُن سے دوری بنا لو۔’’ ]اجتنبوا اعداء اللہ فی عیدہم[(سنن کبری، بیہقیؒ: ۹/۳۳۴/۱۸۶۴۱)

بلکہ شروطِ عمریہ کے نام سے مشہور وہ قانونی معاہدہ جو حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ذمیوں پر لاگو کیا تھا اس میں یہ دفعہ بھی شامل ہے کہ دار الاسلام میں وہ اپنے تیوہاروں کو علانیہ طور پرنہ منائیں گے۔ اس وقت ایرانی مجوسی ذمیوں کے تیوہار ‘‘باعوث’’ اور ‘‘شعانین’’ ہوتے تھے۔ چناں چہ شروطِ عمریہ میں آیا ہے: ‘‘ہم باعوث اور شعانین نہ نکالیں گے۔ باعوث میں یہ لوگ ویسے ہی جمع ہوتے تھے جیسے مسلمان عید، بقر عید پر جمع ہوتے ہیں۔’’ ]واا نخرج باعوثا- قال والباعوث یجتمعون کما یخرج المسلمون یوم الاضحیٰ والفطر- ولا شعانین[ (احکام اہل الذمۃ، ابن القیمؒ،تحقیق: یوسف البکری وشاکر العارودی: ۳/۱۱۵۹)

بلکہ جیسا کہ تفسیر بالما?ثور کی کتابوں میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور ان کے ساتھ پانچ جلیل القدر تابعی مفسرین نے ارشادِ باری ‘‘والذین لا یشہدون الزور’’ ]فرقان، ۲۷[ (اور وہ جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے)سے یہ استنباط کیا ہے کہ رحمن کے بندے کفار کی عیدوں میں شرکت نہیں کرتے کیوں کہ ان کے تیوہار اور تقریبات بھی ‘‘زُور’’ میں شامل ہیں۔ (دیکھیں تفسیر ابن کثیرؒ: ۶/۰۳۱۔ الدر المنثور، سیوطیؒ: ۱۱/۲۲۵-۲۲۶۔ تفسیر البغوی: ۶/۹۸)

‘‘دوسری طرف ایسا کیوں ملتا ہے کہ کافرانہ تیوہاروں اور عیدوں کے تعلق سے آپﷺ نے حد درجہ احتیاط کے پہلو کو اختیار فرمایا۔ایسا کیوں نہ ہوا کہ کفار کی عیدوں کیکافرانہ تیوہاروں اور عیدوں کے تعلق سے آپﷺ نے حد درجہ احتیاط کے پہلو کو اختیار فرمایا۔ایسا کیوں نہ ہوا کہ کفار کی عیدوں کے ساتھ بھی آپﷺ کا وہی معاملہ رہتا جو دیگر سماجی امور ومعاملات میں رہا ہے اور جو رواداری اور ملائمت کی عکاسی کرتا ہے؟’’

 

اسلامی عیدوں کی خصوصیت وانفرادیت کا یہ شرعی تصور تبعِ تابعین کے بعد فقہائے مذاہبِ اربعہ کے یہاں بھی پہنچا۔ اس تعلق سے بہت سے علما نے مذاہبِ اربعہ کی نصوص کو یکجا کر دیا ہے۔علامہ ابن القیمؒ فرماتے ہیں: ‘‘جس طرح کفار کے لیے دار الاسلام میں کافرانہ تیوہاروں کے علانیہ انعقاد کی اجازت نہیں ہے،اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی جائز نہیں کہ اس میں ان کی مدد کریں یا اس میں عملاً حصہ لیں یا وہاں حاضر ہوں۔ یہ علمائے کرام کا اجماعی موقف ہے اور ائمہ اربعہ کے متبعین فقہا نے اپنی کتابوں میں اس کی صراحت کی ہے۔’’ (احکام اہل الذمۃ،ابن القیمؒ: ۳/۱۲۴۵)اس کے بعد علامہ ابن القیمؒ نے کافرانہ تیوہاروں میں شرکت کی ممانعت کے حوالے سے مذاہبِ اربعہ کی کتابوں سے اقتباسات نقل کیے ہیں۔تفصیل کے طالب وہاں ان حوالوں کو ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔(احکام اہل الذمۃ: ۳/۱۲۴۵-۱۲۵۰)

مگر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور یہ سوال بڑا اہم ہے۔ اختصار کے ساتھ سوال یہ ہے کہ ایک طرف ہم جانتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ نے کفار کی مصنوعات،کپڑے،برتن،اسلحہ، مساکن وغیرہ کے تئیں حد درجہ تسامح اور نرمی کا مظاہرہ کیا ہے،بلکہ عہدِ جاہلیت کے مجمعی رسم ورواج میں سے بیشتر کو جوں کا توں رہنے دیا،بہت کم حصے میں تبدیلی کی۔دوسری طرف ایسا کیوں ملتا ہے کہ کافرانہ تیوہاروں اور عیدوں کے تعلق سے آپﷺ نے حد درجہ احتیاط کے پہلو کو اختیار فرمایا۔ایسا کیوں نہ ہوا کہ کفار کی عیدوں کے ساتھ بھی آپﷺ کا وہی معاملہ رہتا جو دیگر سماجی امور ومعاملات میں رہا ہے اور جو رواداری اور ملائمت کی عکاسی کرتا ہے؟ اگر کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے تو یقینا وہ اس مسئلے کے عمیق فقہی مفہوم کو بہ خوبی سمجھ سکتا ہے کیوں کہ یہی سوال وہ پل صراط ہے جس سے گزر کر ہم اس موضوع کے جوہر اور مغز تک پہنچ سکتے ہیں۔ جو شخص بھی اللہ کیرسولﷺ کے تسامح پر مشتمل احادیث کو زیرِ بحث لائے گا اور ان پر یہ سوالات قائم کرے گا وہ یقینا اس پورے قضیے کی جڑ تک پہنچ جائے گا۔

اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ نبیﷺ نے کفار کی عیدوں کے تئیں دیگر سماجی امور ومعاملات کی طرح تسامح اور گریز کا رویہ اختیار نہیں فرمایا کیوں کہ شریعت کی نگاہ میں عید صرف ایک مجمعی تقریب نہیں ہے،بلکہ یہ دین کا ایک شعار ہے اور کفار کے شعائر میں شرکت کی اجازت مسلمان کو نہیں ہوتی۔ اسی مفہوم کو علامہ ابن تیمیہؒ نے فقہی زبان میں بڑی مہارت وبراعت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ درج بالا احادیث کی روشنی میں علامہ ابن تیمیہ کا یہ تجزیہ بہ غور سے پڑھنے کے لائق ہے۔ فرماتے ہیں: ‘‘عید کے مسئلے میں کئی پہلوؤں سے غور ہو سکتا ہے۔ نمبر ایک یہ کہ اسلامی عیدوں کو شرائع ومناسک اور دینی مناہج میں شامل کیا گیا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {لِکُلِّ امَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً ہُمْ نَاسِکُوہُ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِیْ الْاَمْرِ}(حج،۶۷) ‘‘ہر امت کے لیے ہم نے ایک طریقِ عبادت مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے۔ پس وہ اس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کرپائیں۔’’گویا عید کا معاملہ قبلے کی طرف رخ کرنے،نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے جیسا ایک دینی معاملہ ہے۔عید میں کافروں کے ساتھ شرکت کا مطلب ہے ان کی جملہ عبادتوں میں شرکت،کیوں کہ تمام عیدوں میں موافقت کفر پر موافقت ہے اور بعض عیدوں میں موافقت کفر کے بعض حصے سے رضامندی کی دلیل ہے۔بلکہ اعیاد اور تیوہار ہی تو وہ چیز ہے جس سے شریعتیں باہم دگر ممتاز ہوتی ہیں اور یہی کسی بھی ملت کا سب سے نمایاں شعار بھی ہوتے ہیں۔ چناں چہ اس میں اگر کوئی کفار سے مشابہت یا موافقت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ گویا شرائعِ کفر کے اخص ترین اورنمایاں ترین شعار کے تئیں اپنی رضامندی ظاہر کرتا ہے، ااور اس میں شک نہیں کیا جاسکتا کہ اس ایک چیز میں موافقت کا نتیجہ کفر کی جملہ اشکال سے رضامندی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔’’ (اقتضاء الصراط المستقیم، ابن تیمیہؒ: ۱/۴۷۰)

‘‘عید اور تیوہار دین کا شعار ہوتا ہے،تو اپنے آپ یہ مبرہن ہوجاتا ہے کہ جو لوگ بھی غیر مسلموں کی عیدوں پر انھیں مبارک بادپیش کرتے ہیں وہ ایک کافرانہ شعار کی پذیرائی کرتے ہیں۔ اسی لیے امام ابن القیمؒ نے لکھا ہے: ‘‘کفر کے شعائر جو کفر کے ساتھ خاص ہوں،ان پر کسی کو مبارک باد دینا بالاتفاق حرام ہے۔’’

 

امام ابن تیمیہؒ کی ژرف نگاہی کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے عیدوں کو شرائع اور مناسک کی قبیل سے گردانا ہے۔العید من جملۃ الشرائع والمناہج والمناسک۔مطلب یہ ہوا کہ عید کا موقع صرف ایک سماجی تقریب نہیں ہے بلکہ طوافِ کعبہ، رمیِ جمرات، نماز اورداڑھی وغیرہ دینی شعائر وعلامات کے مانند ہے۔ چناں چہ اب اگر کوئی مفکر صاحب یا دانش ور ملت آکر یہ فرماتے ہیں کہ کرسمس یا دیوالی کا تیوہار اب مذہبی یا دینی تقریب کی حیثیت سے باقی نہیں رہ گیاہے،اب وہ ایک عالمی یا ملکی سماجی تقریب بن گیا ہے،اس لیے اسے منانے کی مسلمانوں کو بھی اجازت ہونی چاہیے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ عید اپنے آپ میں ایک دینی شعار ہے، قطعِ نظر اس سے کہ اسے منانے والے کی نیت کیا کچھ ہے۔اگر کوئی انگریز نومسلم اپنے گلے میں صلیب صرف اس لیے لٹکانا چاہتا ہے کیوں کہ وہ اس سے اسمارٹ دِکھتا ہے، یا مغربی ملکوں میں یہ ایک فیشن ہے تب بھی ازروئے شرع اسے اس کی اجازت نہیں دی جائے گی کیوں کہ صلیب اپنے آپ میں ایک باطل مذہب کا شعار ہے۔ اسی طرح اگر کوئی جاپانی مسلمان یہ اجازت مانگتا ہے کہ اسے ایک سوشل ایکٹی وٹی کے طور پر غیر مسلموں کے کسی مندر کا طواف کرنے دیا جائے،اس کی نیت صرف سیر وتفریح اور چہل قدمی کی ہوگی،عبادت کا شائبہ تک نہ ہوگا، اس کے باوجود اسے اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ اس کے اس ارادے وعمل کو موافقِ شرع مانا جائے گا۔کیوں کہ کسی بھی بت کدے کا طواف فی نفسہ عملِ عبادت ہے،چاہے کرنے والا عبادت کی نیت رکھے یا نہ رکھے۔اسی طرح ہندوستان کا کوئی مسلمان اگر مورت کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونے یا کسی تصویر کی آرتی اتارنے کی مذموم حرکت کرتا ہے تو یہ عمل خلافِ شریعت ہوگا،اگرچہ وہ صرف ایک سماجی رسم کے طور پررواروی میں ایسا کرے۔

جب ہم نے تسلیم کر لیا کہ عید اور تیوہار دین کا شعار ہوتا ہے،تو اپنے آپ یہ مبرہن ہوجاتا ہے کہ جو لوگ بھی غیر مسلموں کی عیدوں پر انھیں مبارک بادپیش کرتے ہیں وہ ایک کافرانہ شعار کی پذیرائی کرتے ہیں۔ اسی لیے امام ابن القیمؒ نے لکھا ہے: ‘‘کفر کے شعائر جو کفر کے ساتھ خاص ہوں،ان پر کسی کو مبارک باد دینا بالاتفاق حرام ہے۔مثلاً کوئی کافروں کو ان کی عیدوں یا روزوں پر مبارک باد دے۔مبارک باد دینے والا اگر کافر نہ ہوجائے تب بھی اس کا یہ عمل حرام رہے گا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ وہ کسی کافر کو صلیب کے لیے سر بہ سجود ہونے پر مبارک باد دے۔بلکہ گناہ کے اعتبار سے یہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا ہے اور زیادہ ناراضی کا باعث ہے، بہ مقابلہ اس کے کہ وہ کسی کو شراب نوشی،قتلِ نفس اور زناکاری وغیرہ پر تہنیت پیش کرے۔ بیشتر وہ لوگ جن کے نزدیک دین کی کوئی قدر وقیمت نہیں وہ اس برائی میں ملوث ہوجاتے ہیں اور اپنے عمل کی قباحت کا ادراک نہیں کر پاتے۔ چناں چہ جو شخص کسی انسان کو گناہ پر،بدعت پر یا کفر پر مبارک باد کہتا ہے وہ اللہ کا غضب اور ناراضی مول لیتا ہے۔’’ (احکام اہل الذمۃ، ابن القیمؒ: ۱/۴۴۱)

اس سلسلے میں بعض لوگوں کارویہ حد سے زیادہ حسنِ ظن، بے حسی اور ٹھنڈے پن کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے جو لوگ غیر اسلامی تیوہار مناتے ہیں یا اسے جائز کہتے ہیں دراصل ان کے موقف کی بنیاد فقہِ اسلامی کا آزاد مطالعہ اور اس کی روشنی میں قائم کردہ مستقل رائے ہے۔حالاں کہ یہ حقیقتِ حال کی غلط تصویر کشی ہے۔یہ نقص وخلل کسی فقہی اجتہاد سے زیادہ غالب تہذیب وتمدن سے مرعوبیت کا نتیجہ ہے۔اس کی بین دلیل یہ ہے کہ غیر اسلامی تیوہار منانے والے یا انھیں جائز کہنے والے لوگ کبھی افریقی اقوام کے تیوہار نہیں مناتے اور نہ مشرقی ایشیا میں آباد قوموں مثلاً چین،جاپان،تھائی لینڈ وغیرہ کے تیوہار مناتے ہیں۔صرف اور صرف مغربی تیوہاروں کو منانے کی ہُڑک ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے یا جو مسلمان جن ملکوں میں اقلیت میں ہیں وہاں کے مقامی تیوہاروں کو منانے کے واسطے فقہی اجتہاد اور جواز کا پہلو نکال لیتے ہیں۔

اب اسے آزادانہ فقہی بحث وتحقیق کا نام دیا جائے یا غالب مغربی استبداد کے سامنے سپر اندازی اور پسپائی کہا جائے۔باوجود اس کے کہ نصوصِ شریعت کی روشنی میں یہ قضیہ بالکلواضح ہے اور علما ومفتیانِ دین ہر موقعے پر اس بارے میں شرعی حکم بیان کرتے آئے ہیں کہ تیوہار کسی بھی دین کا شعار ہوتا ہے اور کفار کو ان کے تیوہاروں پر تہنیت پیش کرنا ایسا ہی ہے جیسے انھیں ان کے دوسرے مشرکانہ مراسم وعبادات پر مبارک باد دی جائے۔ اس قدر وضاحت کے باوجود ہم بہت سے مسلم نوجوانوں کو دیکھتے ہیں کہ علانیہ غیر اسلامی تیوہاروں پر تہنیت وتبریک کے پیغامات ارسال کرتے ہیں،خصوصاً سوشل میڈیا پر تو ایسے پیغامات کی باڑھ آجاتی ہے۔ایمانی حس کی کم زوری کے علاوہ اس کی اور کیا تفسیر وتوجیہ کی جاسکتی ہے؟

حقیقتاً مسلم سماج میں یہ منظر بڑا ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر یہ کچھ البیلا اور نرالا نہیں ہے۔ تاریخ میں بھی اسلام کا نام لینے والوں کا ایک گروہ اس طرح کا گزرا ہے۔قرآنِ کریم نے اس گروہ کی طرف اشارہ کیا ہے: {إِنَّہُ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْ عِبَادِیْ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ٭فَاتَّخَذْتُمُوہُمْ سِخْرِیّاً حَتَّی اَنسَوْکُمْ ذِکْرِیْ وَکُنتُم مِّنْہُمْ تَضْحَکُونَ}(مومنون،۱۰۹-۱۱۰)‘‘تم وہی لوگ تو ہو کہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار،ہم ایمان لائے،ہمیں معاف کر دے،ہم پر رحم کر،تو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے،تو تم نے ان کا مذاق بنا لیا یہاں تک کہ اُن کی ضد نے تمھیں یہ بھی بھلا دیا کہ میں بھی کوئی ہوں،اور تم ان پر ہنستے رہے۔’’ علامہ ابن کثیر نے آیتِ کریمہ کے ٹکڑے ‘‘حتی انسوکم ذکری’’ کا مطلب بتایا ہے کہ ان کی دشمنی نے تمھیں آمادہ کر دیا کہ تم میرے معاملے اور بازپرس کو فراموش کرجاؤ۔’’]حملکم بغضہم علی ان نسیتم معاملتی[ (تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر،تحقیق: سامی السلامہ: ۵/۴۹۹)

بہرحال اس مضمون میں ہماری کوشش تھی کہ اللہ کے نبیﷺ کے چار واقعات ذکر کرکے ان سے کشیدہ اہلِ علم کا بیان کردہ وہ اصول ذکر کردیں جسے امام ابن تیمیہؒ نے یوں بیان کیا ہے کہ تقریبات اور عیدیں بھی من جملہ شرائع ومناہج ومناسک کے ہوتی ہیں۔’’الاعیار من جملۃ الشرائع والمناہج والمناسک۔ (اقتضاء الصراط المستقیم: ۱/۴۷۰)

کسی بھی ملت کا تیوہار یا عید اس کے دین کا شعار وشناخت ہوتی ہے اور اسی سے شریعتِ اسلامیہ کی نگاہ میں تیوہاروں کی خصوصیت وانفرادیت کا مفہوم تشکیل پاتا ہے اور اسی بنیاد پر کافر قوموں اور ملتوں کے تیوہاروں کو منانا اور ان میں شرکت کرنا جائز نہیں ہوا کرتا۔

اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے اپنی شریعت خود گڑھ لے۔