اداریہ

 ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس
مئی 2024

 ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس

جیسے جیسے پارلیمانی انتخابات کا مرحلہ آگے بڑھ رہا ہے، حکمراں جماعت کا فکری دیوالیہ پن اور نظریاتی قلاشی اتنی ہی زیادہ ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ 2014 کے عام انتخابات کے وقت بی جے پی کا بیانیہ تھا، اچھے دن آنے والے ہیں، سب کا ساتھ اور سب کا وکاس، کرپشن ختم ہوگا،ہر شخص کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ روپئے روپئے آئیں گے، کسانوں کو قرضوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے خود کشی نہیں کرنی پڑے گی بلکہ انھیں اپنی فصلوں کے مناسب دام ملیں گے۔ نوجوانوں کو نوکریوں کے لیے مارے مارے پھرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ حکومت خود ہر سال دو کروڑ اسامیاں نکالے گی۔ بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کے نعرے نے ملک کی آدھی آبادی کو زبردست حوصلہ دیا تھا کہ اب نہ صرف یہ کہ لڑکیوں کو معاشرہ پر بوجھ نہیں سمجھا جائے گا بلکہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد انھیں سماج میں قدر و منزلت کی نگاہ سے بھی دیکھا جائے گا۔ ملک کے دبے پسے اور کم زور لوگوں میں بھی ایک آس پیدا ہوئی تھی کہ شاید گردش ایام کروٹ لے رہی ہے اور اب ان کے بھی نصیب کھلنے والے ہیں۔

بیانیے سے وہ تمام متنازعہ ایشوز جیسے رام مندرکی تعمیر، یونیفارم سول کو ڈ کا نفا ذ اور دفعہ 370 کی منسوخی، غائب تھے۔ جس سے مسلمانوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوا کہ شاید بی جے پی اپنی مسلم خالف شبیہ کو بدلنا چاہتی ہے۔ اسی طرح ہندو راشٹر کا سنگھ پریوار کے کسی چیلے چپاٹے تک نے ذکر نہیں کیا۔ تاہم اس سب کے باوجود کل پڑنے والے ووٹوں کا محض 31 فیصد حصہ ہی بی جے پی کے کھاتے میں آیا۔ لیکن چوں کہ باقی ماندہ 69 فیصد کئی پارٹیوں میں بٹ گیا تھا اس لیے بی جے پی اقتدار کے سنگھاسن پر با آسانی براجمان ہوگئی۔

لیکن مودی حکومت کے پانچ سالہ ( 2014 سے 2019 )دوراقتدار نے یہ ثابت کردیا کہ وہ سب کچھ محض ‘جملے’ تھے۔اس کے برعکس حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ 2016 کی نوٹ بندی، اس کے بعد GST کی مار، اشیائے ضروریہ کی ہوشربا گرانی اور 2 کروڑ ملازمتوں کا وعدہ تو وعدۂ معشوق تو ثابت ہی ہوا تاہم کئی شعبوں میں سرکاری اسامیوں کے خالی ہونے کے باوجود بھرتی نہیں کی گئی۔ بیٹیوں کوتعلیم یافتہ تو کیا بنایا جاتا ان کی عفت و عصمت ہی پامال ہوتی رہیں۔ دلتوں، ادیباسیوں اور پسماندہ طبقات کو دکھائے خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کو بھی بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس میں وہ لوگ شامل نہیں تھے۔

وکاس اور اچھے دن کے نعروں کے پٹ جانے کے بعد 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کے سامنے یہ سوال تھا کہ اب کس بنیاد پر عوام کا سامنا کیا جائے۔ حزب مخالف بھی وکاس کے ایجنڈے اور پانچ سالہ مایوس کن کارکردگی پر بی جے پی کو گھیرنے کا منصوبہ بناچکی تھی۔ عیار اور تخریب پسند ذہن عوام کو ٹھگنے کے لیے کس سطح تک گرجائے گا اس اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا۔ اچانک پلوامہ میں فوج کے قافلہ پر حملہ ہوجاتا ہے اور 42 فوجی آن واحد میں لقمئہ اجل بن جاتے ہیں۔ اس طرح بی جے پی کو انتخابات کے لیے ٹرم کار ڈ ہاتھ آجاتا ہے۔ لہذا 2019 کا الیکشن پلوامہ، بالاکوٹ اور ملک کی سلامتی کے نام پر جیت لیا گیا۔ الیکشن کے نقارخانے میں کوئی حکومت سے یہ نہیں پوچھ سکا کہ اس کم زوری کے لیے کون ذمہ دار ہے۔

اب ایک بار پھر 2024 کے لیے عوام کی عدالت میں کھڑی ہے اور اس بار اس کے پاس نہ تو وکاس کے نام پر کوئی چیز ہے اور نہ ہی کسی کو اس پر وشواس ہے۔ گذشتہ دس سال سے وہ ملک کی ہندو آبادی کو مسلم اقلیت کے جس موہوم خطرے سے ڈراتی رہی ہے، تہی دست اور مفلوک الحال بی جے پی اسی کو لے کر میدان میں کود پڑی ہے۔ کبھی عوام کو یہ ڈر دکھا رہی ہے کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو تمھاری دولت چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کردے گی، یہاں تک کہ ہندوؤں کے منگل سوتر تک اتر جائیں گے۔ کبھی مسلمانوں کو گھس پیٹھیا( در انداز ) اور زیادہ بچے پیدا کرنے والا کہا جارہا۔ کبھی وزیر داخلہ ایس ڈی پی آئی اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کا ڈر دکھا رہے ہیں کہ یہ وہ پارٹیاں ہیں جو اس ملک کو اسلامی ملک بنادیں گی۔ تمام چھیڑخانیوں کے باوجود مسلمانوں نے بڑی حکمت اور صبر کے ساتھ اس پر کسی ردعمل کا مظاہرہ نہ کرکے بی جے پی کے غبارے سے ہوا ہی نکال دی ہے۔بی جے پی اس بار وکاس اور ڈیولپمنٹ تک کا نام تک نہیں لے رہی ہے کہ کجا کہ عوام کہیں دس سال کا حساب نہ مانگ لیں۔ بی جے پی کی ایک بڑی پریشانی یہ بھی ہے کہ اس بار حزب اختلاف انڈیا الائنس کے نام ایک منچ پر آگیا ہے، اس لیے سیکولر ووٹوں کی عدم تقسیم کا ڈر بھی اسے ستارہا ہے۔ ان سب پر مستزاد الیکٹورل بانڈ کے جن نے بوتل سے نکل کر نہ کھاؤنگا اور نہ کھانے دونگا کے دل فریب نعرے کی قلعی کھول دی ہے۔ اب لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ کرپشن کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے تمام حدیں ہی پار کرلی ہیں۔ اس طرح ملک کی سلامتی کا دم بھرنے والی بی جے پی دور حکومت میں چین نے ملک کی سرحدوں پر دراندازی کرکے کافی زمین ہڑپ کرلی ہے۔ وشو گرو بننے کا خواب دکھانے والوں کا حال یہ ہے کہ تمام پڑوسی ملکوں سے رشتے خراب ہوچکے ہیں، حتیٰ کہ اب مالدیپ بھی ہم سے کٹ کر چین سے اپنا رشتہ ہم وار کرچکا ہے۔ گھر کے اندر بھی کسی پہلو سے کوئی خیریت نہیں ہے۔ بہرحال اب 4 جون کو پتہ چلے گا کہ ملک کی عوام کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا وہ ایک مضبوط سیکولر،پر امن، خوش حال اوربھائی چارہ وبرواداری پر مبنی بھارت دیکھنا چاہتے ہیں یا پھر وہ اسے مزید تنزلی، مطلق العنانیت، مفلوک الحالی، عدم رواداری اور انتشار و بد امنی کی طرف دھکیل دینا چاہتے ہیں۔