کم ووٹنگ – کیا ہوا بدل رہی ہے ؟

قاسم سید
مئی 2024

قاسم سید

پارلیمانی انتخابات(2024) دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اب لڑائی ہندو مسلم سے نکل کر اوبی سی بیانیہ میں داخل ہوگئی ہے اور بی جے پی اب تک اس پر اپنا کوئی بیانیہ بنانے میں ناکام ہے ۔ایسالگ رہا ہے کہ بی جے پی شش و پنج کی دلدل میں پھنس گئی ہے۔اگر پہلے مرحلہ کی 102 سیٹوں پر ووٹنگ کے فیصد، غیرمنقسم ریاستوں کی ووٹنگ اور ذات پات کی صف بندی کے فیڈ بیک کو اگر پورے الیکشن کا نمونہ سمجھا جائے تو ایسا لگتا ہے گویا لوگوں میں بی جے پی کو جتانے کا جوش ہی نہیں ہے۔ اس کے برعکس ان سیٹوں پر بی جے پی کو ہرانے کی خاموش تحریک چل رہی ہے، جہاں بی جے پی مخالف روایتی ووٹ بڑی تعداد میں ہے۔ اس لیے 400 پار تو چھوڑیں، بی جے پی کو اگلے چھ مرحلوں میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے بھی کافی پسینہ بہانا پڑے گا۔
102 سیٹوں پر 65.5 فیصد ووٹنگ کا اعداد و شمار (جو 2019 میں 70 فیصد ووٹنگ سے تقریباً ساڑھے چار فیصد کم ہے) بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس الیکشن میں ووٹنگ کم ہوگی جیسا کہ دوسرے مرحلہ میں نظر آیا یعنی نریندر مودی کا گراف جو 2014 اور 2019 میں ووٹوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ اوپر جا رہا تھا، اس بار نیچے کی طرف چل رہا ہے۔ 2014 میں” اچھے دن” کی ہوا کا یہ گراف 66.44 فیصد ووٹنگ کا ریکارڈ تھا۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کو 282 سیٹیں ملیں۔ پھر 2019 میں پلوامہ و بالاکوٹ پر پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے قدرے زیادہ ووٹنگ (67.40 فیصد) ہوئی۔ اس کی وجہ سے بی جے پی نے 303 سیٹیں جیت لی تھیں۔
پہلے اور دوسرے مرحلے میں 543 لوک سبھا سیٹوں میں سے 190 پر ووٹنگ مکمل ہو چکی ہے۔ دو چیزیں اور ہیں جنہوں نے اس طرح کی قیاس آرائیوں کو تقویت دی ہے۔ پہلا یہ کہ اس بار ’’ترقی یافتہ ہندوستان‘‘ کا بیانیہ وزیراعظم اور دیگر حکمران لیڈروں کے لبوں سے غائب ہے۔ دوسری بات یہ کہ اب وہ “اس بار ہم 400 کو پار کریں گے” کے دعوے بھی نہیں کر رہے ہیں۔
پچھلے دو عام انتخابات میں مودی کی طرف سے دیئے گئے ’’اچھے دن‘‘ جیسے نعروں نے ووٹروں کے ایک بڑے حصے کو جوش دلایا تھا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کی یلغار نے عوام میں نچلی سطح تک بلند و بانگ دعوؤں کی طرف منفی ردعمل پیدا کر دیا ہے۔ اس کے باوجود یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا کہ مودی حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی کا ہندوتوا ایجنڈا ایک مستقل ریگولیٹر بن گیا ہو جو ووٹروں کو بغیر جوش کے بھی بی جے پی کو ووٹ دینے کی ترغیب دے دے۔ بی جے پی کو تنظیمی طاقت، پیسے کی طاقت اور اداروں کی حمایت کی وجہ سے پہلے ہی برتری حاصل ہے۔ اس لیے حتمی نتیجہ جاننے کے لیے ہمیں 4 جون تک انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن فی الحال یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس کی سیاست اور اس سے جڑے چہروں کے حوالے سے عوام میں ایک تھکاوٹ سی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ اینٹی انکمبنسی فیکٹر ( anti imcumbancy factor )نے بھی کہیں دوبارہ کام کرنا نہ شروع کر دیا ہو۔
یہاں بی جے پی کے حلقوں کی طرف سے ایک سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ضروری ہے کہ کم ووٹنگ کا ہمیں ہی نقصان ہو، اپوزیشن کو بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ انتخابی سروے کے ماہر اور سی ووٹر کے سربراہ یشونت دیشمکھ نے کہا ہے کہ ایسا کوئی اصول نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ اگر کم ووٹنگ ہوئی ہے تو اپوزیشن کو فائدہ ہوا یا حکمراں پارٹی کو ۔یشونت دیش مکھ نے بی بی سی ہندی کے نئے شو ‘دی لینس’ میں کہا کہ ممکن ہے کہ گرمی کی وجہ سے کم ووٹنگ ہوئی ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ زیادہ اعتماد کی وجہ سے بی جے پی کے ووٹر کم نکلے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپوزیشن کے ووٹر یہ سوچ کر نہ نکلے ہوں کہ ہم الیکشن جیتنے والے ہی نہیں ہیں ۔”یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ تمام عوامل بیک وقت کام کر رہے ہوں۔ “میں ووٹنگ کے اس کم رویے کو ون ڈائریکشن میں نہیں دیکھنا چاہتا۔”
2004 کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب بھی ہم کسی الیکشن کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں 2004 آتا ہے۔ 2004 میں شہری علاقوں میں 18 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ یہ صرف چار فیصد کی کمی ہے۔”اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ڈراپ اتنا خطرناک نہیں لگتا۔ مجھے یقین ہے کہ گرمی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ایک طرح سے دیشمکھ نے بی جے پی کے نظریہ کی ہی تائید کی ہے ۔انہوں نے ووٹروں کے جوش وخروش میں کمی ،خاموشی،اداسی ،مایوسی ،عدم دلچسپی کی کوئی ٹھوس وجہ بیان نہیں کی جبکہ خود بی جے پی نے اعتراف کیا ہے کہ ڈور ہاتھ سے نکلتی دکھائی دے رہی ہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیر اعظم دوسرے مرحلہ میں مسلمانوں کا نام لے کر ایسی باتیں ہرگز نہ کرتے جو ان کے عہدے کے وقار کے منافی ہے۔

جس نے بھی سنا اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ غیرملکی میڈیا نے اس کا نوٹس لیا ۔ ظاہر ہے انہیں جو فیڈبیک مل رہا ہوگا یہ اس کی بوکھلاہٹ اورجھنجھلاہٹ ہوسکتی ہے ۔بی جے پی قیادت کی حد سے زائد خود اعتمادی، نامور لیڈروں کو ٹکٹ کاٹ کر گھر بٹھا دینا، جس کو چاہیں سی ایم بنا دینے کی رعونت وغیرہ کا خمیازہ کہیں نہ کہیں تو بھگتنا ہی ہوگا۔ پارٹی کا دو ہاتھوں میں سمٹ جانا، پار ٹی سے لیڈر کا بڑا ہوجانا، ورکروں کو بیگار مزدورسمجھ لینا،کرپٹ لیڈروں کو پارٹی میں شامل کرنا ،وفاداروں سے زیادہ دوسری پارٹی کے بھگوڑوں کو ٹکٹ دینا ،مودی کا پرانی باتوں کو دہرانا، پرانے وعدوں کا ایک فیصدبھی پورا نہ ہونا، ان پر خاموشی اختیار کرلینا اور ہر وقت ہندو مسلم کرنا جیسے بہت سے عوامل ہیں جنھوں نے پارٹی کارکنوں میں اکتاہٹ اور پارٹی کے علاوہ عام ووٹروں میں بیزاری و مایوسی پیدا کردی ہے ۔
ایک وجہ اور بھی بیان کی جاتی ہے – جب مودی ،امت شاہ اور یوگی وغیرہ کہہ رہے ہیں کہ اس بار چارسو پار آرہے ہیں تو پھر گھر بیٹھنے میں ہرج کیا ہے ۔مودی جیت ہی رہے ہیں گویا اس نعرے کا الٹا اثر ہورہا ہے۔ کل ملا کر بی جے پی کا کوئی تیر نشانے پر نہیں بیٹھ رہا ہے اور لڑائی منگل سوتر تک آگئی ۔وہ بھی پی ایم کے منھ سے جس کا ہندو ووٹر نے بھی برا مانا ۔ووٹنگ کے دو مراحل کے صاف اشارے یہ ہیں کہ لوگ بی جے پی کے موجودہ ممبران پارلیمنٹ سے سخت ناراض ہیں دوسرے، بی جے پی کارکن انتخابات میں پہلے کی طرح سرگرم نہیں اس کی وجہ اوپر بیان کی گئی ہے۔ تیسرے، مقامی جوش و خروش اور مودی کا ماحول بنانے کے لیے بی جے پی کی مشینری میں کاہلی کا پیدا ہوجانا۔چوتھا زیادہ تر سیٹوں پر دھرم اورہندو مسلم کی جگہ اس مرتبہ کاسٹ کا حاوی ہونا اورہندوتو کی لہر کا کمزور ہونا۔ اس کے علاوہ 2019 جیسا ملک گیر ماحول نہ ہونا اور مودی کے چہرہ میں اب کوئی مقناطیسیت کا باقی نہ رہنا اورلوگوں کا مہنگائی اور بیروزگار ی کی وجہ سے مودی سرکار کے خلاف ہوجا نا شامل ہے۔
لوگوں کی بڑی تعداد بلاشبہُ آج بھی مودی بھکت ہے البتہ باقی سب کچھ بھول کر ووٹ ڈالنے کا وہ جوش و جذبہ بھی ماند پڑچکاہے جو 2014 اور 2019 میں تھا۔ بی جے پی کے ووٹ بینک دلتوں، قبائلیوں، او بی سی ذاتوں، راجپوتوں اورسینی جاٹوں وغیرہ میں مایوسی، ناراضگی ،دلتوں میں، آئین، ریزرویشن پر بی جے پی لیڈروں کے بیانات سے اندیشے ہیں جس کی وجہ سے مودی کا ووٹ اتنا متحد نہیں بلکہ اب وہ بکھرچکا ہے۔
اسی طرح اپوزیشن بھی اس حیثیت میں نہیں ہے کہ وہ مودی کا مقابلہ کرسکے ۔یوں کہیں کہ ای ڈی ،سی بی آئی،محکمہ انکم ٹیکس کی مہربانیوں، بڑے لیڈروں کی گرفتاریوں ،سب سے بڑی پارٹی کا اکاؤنٹ سیز ہونے جیسے واقعات نےاسے اس لائق ہی نہیں چھوڑا کہ وہ بی جے پی کامقابلہ کرسکے اس لئے یہ الیکشن مودی بمقابلہ عوام ہے۔
راجستھان میں 2014 اور 2019 میں مودی نے 25 میں سے 25 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن اس بار کم از کم چار سے پانچ سیٹیں بی جے پی کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں اگر بی جے پی راجستھان میں چار سیٹیں بھی ہارتی ہے، ایک ایسی ریاست جہاں وہ لاکھوں کے فرق سے سیٹیں جیتتی ہے، تو پھر اتر پردیش میں کیا ہو گا، جہاں 2019 میں بی جے پی نے پانچ فیصد سے کم ووٹوں کے ساتھ 11 سیٹیں جیتی تھیں۔ دو مرحلے کے انتخاب سے اتنا تو ثابت ہوگیا کہ ہاتھ پاؤں باندھ دئے جانے کے باوجود اپوزیشن دم خم دکھارہی ہے اور لڑائی کانٹے کی نظر آرہی ہے – جبکہ پہلے یہ لگ رہا تھا کہ کہیں کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے اور بی جے پی آسانی سے ہدف حاصل کرلے گی لیکن اب اسےکاؤ بیلٹ میں بھی پسینے آرہے ہیں۔
پہلے دو مرحلے کی پولنگ ایسے ہی حالات کی نشاندہی کر رہی ہیں جو 2004 میں تھے۔ معروف ہندی کالم نگار ہری شنکر ویاس کہتے ہیں کہ “وقت کا کرشمہ دیکھیں جس نے پندرہ دنوں میں نریندر مودی کی زبان بدل دی۔ 2014 کے نریندر مودی کو یاد کریں، تب وہ خود ہر، ہر مودی کررہے تھے اور اب وہ راہل گاندھی کو ہر گھر تک لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مردہ کانگریس کو زندہ کر دیا گیاہے”
اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی کی پوری انتخابی مہم ہی بدل گئی ہے۔ اب تک جن ایشوز پر بی جے پی مہم چلا رہی تھی وہ تمام مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اب نئے مسائل آ گئے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ اچانک کوئی بڑا واقعہ ہو گیا اور سارا بیانیہ ہی بدل گیا۔ یہ نئے مسائل کانگریس کے منشور سے آئے ہیں یا کانگریس لیڈروں کے بیانات سے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب انتخابات کانگریس کے منشور یا کانگریس کے طے کردہ ایجنڈے پر لڑے جارہے ہیں۔ کئی لحاظ سے یہ کانگریس کی بڑی کامیابی ہے کہ اس کے منتخب کردہ ایشو پر انتخابی بیانیہ ترتیب دیا جا رہا ہے۔
مطلب یہ کہ الیکشن کانگریس کی پچ پر لڑا جارہاہے۔ کانگریس ہندو مسلم کے ایشور میں نہیں پھنسی اور اپنے بنیادی ایشوز مہنگائی، بیروزگاری، آئین،اور ریزرویشن پر رہ کر بی جے پی کو دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ وہ صفائی دیتی پھر رہی ہےکہ نہ آئین بدلیں گے نہ ریزرویشن ختم کریں گے۔ کیوں کہ کانگریس یہ یقین دلانے میں کامیاب ہے کہ بی جے پی ایسا کرنے جارہی ہے۔ درج فہرست ذاتوں کو لگتا ہے کہ وہ بابا صاحب کے بنائے ہوئے آئین کو ختم کر دے گی۔ پسماندہ ذاتوں کو لگتا ہے کہ بی جے پی آئین میں تبدیلی کرکے ریزرویشن سسٹم کو ختم کردے گی۔ مسلمانوں اور ملک کے سیکولر عوام کو یہ لگتا ہے کہ ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔ جنوبی اور مشرقی ہندوستان کی ریاستوں میں پارٹیوں اور کچھ حد تک شہریوں کو بھی لگتا ہے کہ بی جے پی وفاقی نظام حکومت کو ختم کردے گی۔ اسی طرح ملک کے مختلف حصوں میں لسانی اور ثقافتی تنوع کو ختم کرکے یکسانیت لانے کے خدشات بھی زیر بحث ہیں۔ یہ بہت بڑا ٹرننگ پوائنٹ ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کانگریس اس بیانیے پر قابو پا کر اسے اپنے حق میں کر پاتی ہے یا نہیں۔ تاہم پارٹی کو وزیر اعظم مودی کی شاندار تقریری صلاحیتوں کے خلاف اپنی عقل کا استعمال کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس اپنے جوابی حملے سے اس خستہ حال انتخاب کو مزید دلچسپ بنا سکتی ہے، جس کے نتائج انتخابی مہم کے آغاز تک یقینی سمجھے جاتے تھے۔فی الحال کسی خوش فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں کہ بی جے پی کب اپنے حق میں بازی پلٹ دے ۔الیکشن خاموشی کے ماحول میں بہت دلچسپ ہوگیا ہے گٹھبندھن کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے الیکشن کو یکطرفہ نہیں ہونے دیا ۔دیکھتے ہیں کہ چار جون کو کیا ہوتا ہے۔