اساتذہ تقرری گھوٹالہ پر ہائی کورٹ کا فیصلہ

نور اللہ جاوید
مئی 2024

نور اللہ جاوید

انتخابی مہم کے دوران کلکتہ ہائی کورٹ کے ذریعہ2016میں تقرری حاصل کرنے والے 26ہزار اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کی تقرری کو رد کردیا۔کلکتہ ہائی کورٹ نے ان اساتذہ کو تمام تنخواہ جو انہوں نے ملازمت کے دوران حاصل کئے ہیں وہ فیصد سود کے ساتھ واپس کرنے کی ہدایت بھی دی ہے ۔اس کے ساتھ ہی کلکتہ ہائی کورٹ نے ممتا کابینہ جس نے اسکول سروس کمیشن میںاضافی اسامیوں کی منظوری دی تھی اور پینل میں نام نہیں ہونے کےباوجود تقرری دینے کے فیصلے کی منظور ی دی تھی کے خلاف جانچ کا حکم دیا ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے صرف26ہزار افراد کے مستقبل کو نقصان نہیں پہنچا ہے بلکہ ان سے وابستہ لاکھوں گھرانے میں مایوسی چھاگئی ہے۔چوں کہ انتخابی مہم کے دوران یہ فیصلہ آیا ہے اس لئے اس کے سیاسی اثرات پر بھی غور کیا جارہا ہے ۔سیاسی جماعتیں انتخابی ایشو بنانے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں ۔یہ سوال کافی اہم ہیں کہ اس فیصلے کا سیاسی اثرکیا پڑے گا؟ ۔کیا اس فیصلے کی وجہ سے ممتا بنرجی کو نقصان پہنچے گا؟۔تاہم عدالت بھی سوالوں کی زد میں ہے کہ انتخابی موسم میں یہ فیصلہ کیوں دیا ؟ عدالت کے فیصلے کے بعد حکومت ، اسکول سروس کمیشن اور نوکریوں سے محروم ہوجانے والوں کا سپریم کورٹ جانا لازمی تھا۔تینوں فریق نے سپریم کورٹ سے رجوع کیااور چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اس ہفتے پیر یعنی 29اپریل سماعت کرتے ہوئے جو تبصرے کئے ہیں وہ ممتا حکومت کیلئے کسی بھی درجے میں باعث اطمینان نہیں ہیں ؟۔تاہم کابینہ کے خلاف سی بی آئی جانچ پر روک لگادی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کا یہ پہلو ترنمول کانگریس اور ممتا بنرجی کیلئے راحت بخش ہے۔ اس وقت ملک کی جانچ ایجنسیاں جس طریقے سے کام کررہی ہیںاگر یہ فیصلہ برقرار رہتا تو ممتا بنرجی کیلئے مشکلات کھڑی ہوسکتی تھیں۔تاہم سپریم کورٹ نے26ہزار تقرری کو رد کرنے کے فیصلے پر روک نہیں لگائی ہے۔
اساتذہ تقرری کا عمل
2016 میں مغربی بنگال اسکول سروس کمیشن نے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کو بھرتی کرنے کے لیے ریاستی سطح کا مقابلہ جاتی امتحان کا انعقاد کیا۔اسی سال اسکولوں میں گروپ ڈی کی تقرری کی بھی تقرری کی گئی۔سلیکشن ٹیسٹ میں تقریباً 23 لاکھ امیدواروں نے شرکت کی۔ 2018 سے کمیشن نے تقریباً 26,000افراد کو تدریسی اور غیر تدریسی عہدوں پر تعینات کیا۔کلکتہ ہائی کورٹ میں کئی امیدواروں نے درخواست کی کہ وہ اہل ہونے کے باوجود انہیں نوکری نہیں دی گئی ہے۔بے ضابطگی کی نشاندہی کرتے ہوئے بھرتی کے پورے عمل کو چیلنج کیا گیا ۔ان درخواستوں کا نوٹس لیتے ہوئے 2022 میں، جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے نے مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف مرکزی جانچ ایجنسی سی بی آئی کو جانچ کا حکم دیا ۔ریاستی حکومت نے ڈویژن بنچ میں چیلنج کیا توجسٹس ہریش ٹنڈن اور رابندر ناتھ سمانتا پر مشتمل ہائی کورٹ ڈویژن بنچ نے 22 فروری 2022 کو جسٹس (ریٹائرڈ) رنجیت بیگ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تاکہ اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری کے عمل میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی جاسکے ۔جسٹس ریٹائرڈ رنجیت بیگ نے12مئی کو 2022کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے اساتذہ تقرری میں بڑی خامیوں کی نشاندہی کی ۔اس کے بعد جسٹس سبرتو تعلقدار اور جسٹس آنند کمار مکھرجی کی قیادت والی ڈویژن بنچ نے یک رکنی بنچ کے ذریعہ دیے گئے سی بی آئی جانچ کے فیصلے کو برقرار کھا۔ڈویژن نے گروپ سی اور گروپ ڈی میں ہوئی گڑبڑی کی جانچ اور غلط طریقے سے نوکری حاصل کرنے والوں کی شناخت کی ہدایت دی۔گزشتہ دوسالوں میں ترنمول کانگریس کے کئی سینئر لیڈران جس میں سابق وزیر تعلیم پارتھوچٹرجی، ان کی قریبی ساتھی ارپیتا مکھرجی ، شمالی بنگال یونیورسٹی کے وائس چانسلر سبریش بھٹاچاریہ ، ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی اور مغربی بنگال بورڈ آف پرائمری ایجوکیشن کے صدر مانک بھٹاچاریہ اور ممبر اسمبلی جبین کرشنا ساہا اس وقت جیل میں بند ہیں ۔ سی بی آئی مبینہ طور پر مجرمانہ جرائم کو دیکھ رہی ہے اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اقتصادی جرائم کی جانچ کررہی ہے۔اس پورے معاملے میں سی بی آئی نے کل چار رپورٹ داخل کی ہے اور ای ڈی نے دو رپورٹ عدالت میں پیش کی ہے۔انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے مبینہ طور پر اس کیس میں ملوث افراد کی 365 کروڑ روپے کی جائیدادوں کو ضبط یا ضبط کیا ہے۔
اساتذہ تقرری گھوٹالہ کے معاملے میں کلکتہ ہائی کورٹ کے بنچ سیاسی خطوط پر منقسم ہیں اور کئی ججوں نے کیس کی سماعت کرنے سے انکار کردیا۔اس معاملے کی جانچ کرنے والے کئی ججز متضاد فیصلہ دیتے رہے ہیں ۔اس پورے معامے میں سابق جج جسٹس ابھیجیت گنگو پادھیائے جو اس وقت بی جے پی کے ٹکٹ پر تملوک لوک سبھا سے انتخاب لڑرہے ہیں وہ حکومت مخالف فیصلے کی وجہ سے سرخیوں میں رہے ہیں ۔جسٹس ابھیجیت گنگو پادھیائے نہ صرف کمرہ عدالت میں حکومت اور ترنمول کانگریس کے جنرل سیکریٹری ابھیشیک بنرجی کے خلاف سخت تبصرے کرتے رہےہیں بلکہ ایک معاملے کا جج رہنے کے باوجود انہوں نے نیوز چینلوں کو انٹرویو دیا اور زیر سماعت معاملے میں عدالت سے باہر بات کرتے ہوئے حکومت کی سخت تنقید کیانٹرویو میں ممتا بنرجی کے خلاف مقدمہ چلانے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تھا۔۔جسٹس ابھیجیت گنگو پادھیائے کے اس عمل کے بعد سپریم کورٹ نے ان سے معاملہ لے کر دوسرے ججوں کو منتقل کرنے کی ہدایت دی۔ اس سے قبل جون 2022 میں گنگوپادھیائے نے 2016 میں سلیکشن ٹسٹ کے ذریعے مقرر کردہ 269 اساتذہ کی بھرتی کو منسوخ کر دیا تھا۔ ان کے حکم پر سپریم کورٹ نے گزشتہ سال اپریل میں روک لگا دی تھی۔مئی میں گنگوپادھیائے نے 2016 میں ریاستی حکومت کی طرف سے تقرری کئے گئے تقریباً 36,000اساتذہ کی بھرتی کو منسوخ کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جولائی میں اس پر روک لگا دی تھی۔سیاست میں شمولیت سے قبل تک جسٹس ابھیجیت گنگو پادھیائے نوجوانوں میں کافی مقبول تھے۔انہیں ایمانداراور بے خوف جج کے طور پر دیکھا جاتا تھا مگر ان کے اچانک سیاست میں شمولیت کے فیصلے نے نہ صرف ان کی غیر جانبداری کو مشکوک کیا بلکہ اس تاثر کو بھی مضبوط کیا کہ اب تک جو وہ فیصلے دے رہے تھے اور ترنمو ل کانگریس کے خلاف ان کے جو تبصرے تھے وہ سیاسی تھیں۔جسٹس ابھیجیت گنگوپادھیائے نے اپنے ساتھی جج جسٹس سومن سین پر سنگین الزامات عائد کرچکے ہیں ان کے بقول جسٹس سومین ترنمول کانگریس کے ایجنٹ ہیں اور ان کے مفادات کےتحفظ کررہیں ۔سپریم کورٹ نے کلکتہ ہائی کورٹ کے ججوں کے اختلافات پر نوٹس لیا ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کس طرح منقسم ہے۔چناں چہ ممتا بنرجی اس کا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ کلکتہ ہائی کورٹ بی جے پی کے زیر اثر ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر نوکریوں منسوخ کرنے کا بے نظیر فیصلہ
کسی بھی عدالت کے ذریعہ اتنے بڑے پیمانے پر نوکریوں کو منسوخ کرنے کا فیصلہ بے نظیر ہے۔دوسری بات اہم یہ ہے کہ چوں کہ سی بی آئی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں یہ دعویٰ کرچکی ہے کہ26ہزار اساتذہ میں 5000اساتذہ کی تقرری غیر قانونی طریقے سے ہوئی ہے۔چوں کہ او ایم آر شیٹ تباہ کردئیے گئے ہیں اور اہم امیدواروں کی شناخت ممکن نہیں ہے اس لئے 5000ہزار اساتذہ کی شناخت نہیں کرسکتی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میںکہا کہ بیگ کمیٹی، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن اور اسکول سروس کمیشن کے شواہد نے سلیکشن کے عمل میں کئی غیر قانونی کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے۔چوں کہ آپٹیکل مارک ریکگنیشن شیٹس(او ایم آر) کوکمیشن نے تباہ کردیا ہے۔ سکین شدہ تصاویر کمیشن کے سرور پر محفوظ نہیں تھیں۔ امیدواروں کے نمبروں پر مشتمل کوئی میرٹ لسٹ شائع نہیں کی گئی ہے۔ کچھ امیدوار جنہوں نے خالی آپٹیکل مارک ریکگنیشن شیٹس جمع کرائے تھے ان کی بھی تقرر ی کی گئی ہے ۔دوسرے یہ کہ پینل میں ان لوگوں کے نام شامل کئے گئے جنہوں نے کم نمبرات حاصل کئے تھے۔کلکتہ ہائی کورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ چوں کہ مستحق اور غیر مستحق امیدواروںکی شناخت کا کوئی پیمانہ نہیں ہے ۔اس لئے آئین کے آرٹیکل 142میں دئیے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پوری تقرری کو ہی منسوخ کردیا۔کلکتہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسکولوں کو ایسے اساتذہ سے بچانا چاہتے ہیں جو نااہل اور غیر مستحق ہیں ۔
سپریم کورٹ اس معاملے میں اگلی سماعت پر غور کرے گا۔تاہم چند بنیادی سوالات ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کلکتہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان گزشتہ چند سالوں میں سیاسی بنیاد پر منقسم رہے ہیں اور جسٹس ابھیجیت گنگو پادھیائے جنہوں نے چار مہینے قبل ریٹائرڈ منٹ لی اور جج رہتے ہوئے انہوں نے بی جے پی میں شملوتی سے متعلق میٹنگ کے سیاست میں زورآزمائی کے فیصلے کے بعد ہائی کورٹ پر سوالات کھڑے ہونے لازمی ہیں ۔بلاشبہ او ایم آرشیٹ کی تباہی کے بعد اہل و ناہل اساتذہ کی شناخت کا کوئی پیمانہ نہیں ہے مگر سوال یہ ہے 21ہزار جو اہل تھے ان کا کیا قصور ہے کہ ان کی نوکری چھینی جارہی ہے۔اس فیصلہ کا یہی وہ تاریک پہلو ہے جو سوالات کھڑے کرتے ہیں ۔ان اساتذہ کے تئیں عوام میں ہمدردی ہیں اور عدالت سے سوال کیا جارہا ہے کہ کیا اہیں ایک اور موقع نہیں دیا جانا چاہیے۔سینئر ایڈوکیٹ موہن کا تکری کہتے ہیں کہ کیاگر کوئی تین چار سال سے سروس میں ہے تو ان کی تقرری کو ختم کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔سوال یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ضابطہ اخلا ق نافذ ہوچکا ہے ۔عدالت کو اس حقیقت کا بھی علم ہے اس طرح کے بڑے فیصلے سے سیاسی جماعتیں انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گی ۔کیا عدالت چند مہینوں کیلئے اس مقدمے میں کے فیصلے کو موخر نہیں کرسکتی تھیں۔ماہر قانون انوج بھوانیہ کہتے ہیں کہ عدالتیں بھی سیاسی عمل میں کھلاڑی بن چکی ہے۔
اساتذہ تقرری گھوٹالہ کو اجاگر کرنے میں بی جے پی اور اس سے وابستہ وکلا کی ٹیم کا رول نہیں رہا ہے۔سی پی آئی ایم بالخصو ص راجیہ سبھا کے رکن اور کلکتہ ہائی کورٹ کے مشہور وکیل بکاش رنجن بھٹا چاریہ اور ان کی ٹیم جس میں ایڈویکٹ شمیم احمد اور ایڈوکیٹ شمیم فردوس شامل ہیں نے بڑا رول ادا کیا ہے ۔مگر حیرت انگیز کے طور پر اس پورے فیصلے کے خلاف بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرہی ہے۔ مغربی بنگال کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ گھوٹالوں کی سیریز ممتا بنرجی کی حکومت کیلئے پریشان کن ہیں اور اس سے ممتا بنرجی کی شبیہ کو نقصان پہنچا ہے۔تاہم جب 2013میں شارد ا چٹ فنڈ گھوٹالہ، 2016کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل ناردا اسٹنگ گھوٹالہ معاملے سامنے آنے کے باوجود ممتا بنرجی 2016کے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی اور اسی طرح 2021میں گھوٹالہ کی تعدادمیں اضافہ ہونے کے باوجود ممتا بنرجی پہلے دو مرتبہ کے مقابلے بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ایسے میں سوال یہ ہےکہ بی جے پی کا اس انتخابی فائدہ حاصل کرسکے گی۔تاہم اس وقت نہ ممتا بنرجی کیلئے حالات سازگار ہیں نہ ہی بنگال میں نریندر مودی کو وہ مقبولیت حاصل ہے جو انہیں گزشتہ انتخابات میں تھے۔تاہم کلکتہ ہائی کورٹ نے ممتا کابینہ کے خلاف جو تبصرے کئے ہیں اور اگر بعد میں سپریم کورٹ کابینہ کے خلاف جانچ کی ہدایت دیدیتی ہے تو مستقبل میں ممتا بنرجی اور ان کی پارٹی کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے ۔کیوں کہ اب تک جتنے بھی گھوٹالے شاردا گھوٹالہ، ناردا اسٹنگ آپریشن، مویشی گھوٹالہ، کوئلہ اسمگلنگ گھوٹالہ، راشن گھوٹالہ اور اساتذہ تقرری گھوٹالہ ان میں کسی بھی گھوٹالہ کی آنچ ممتا بنرجی تک نہیں پہنچی ہیں ۔گرچہ ان کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی اور ان کی بہو روجیرا بنرجی پوچھ تاچھ کی زد میں رہےہیں مگر ممتا بنرجی محفوظ تھیں اب شاید گھوٹالے کی آؑنچ ان تک پہنچ سکتی ہے اور اگلے اسمبلی انتخابات تک ان کیلئے مشکلات کا سبب بھی بن سکتا ہے۔