رام مندر ایشو- ٹائیں ٹائیں فش ؟

مشتاق عامر
مئی 2024

مشتاق عامر

ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر بی جے پی کا سب سے بڑا سیاسی ایجنڈا رہاہے ۔عام انتخاب سے کافی دنوں پہلے پارٹی نے رام مندر کی پران پرتسٹھا کو عام الیکشن میں بڑی کامیابی کے ساتھ پیش کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔ 22؍ جنوری 2024 کو ایودھیا میں رام کی مندر کی پران پرتسٹھا خود ایم پی نریندر مودی نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی۔ پران پرتسٹھا کی پرہجوم تقریب میں یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مودی کے ساتھ تھے ۔ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتسٹھا کے دوران یو پی میں مسلم مخالف مذہبی ہیجان انگیزی کا جو ماحول بنایا گیا اس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ ملک کے عام انتخابات میں رام مندر کی پران پرتسٹھا کوبی جے پی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جائے گا ۔رام مندر کا افتتاح ایک طرح سے بی جے پی کے الیکشنپرچار کا نقطہء آغاز تھا۔پران پرتسٹھا کی آڑ میں پوری ریاست میں مسلم مخالف اشتعال انگیزی کا جو سلسلہ چلا وہ کئی ہفتوں تک جاری رہا ۔ اس وقت سیاسی تجزیہ کاروں نے بھی اس بات پرا تفاق کیا تھا کہ عام انتخابات میں رام مندر کی پران پرتسٹھا مودی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی بتائی جائے گی اور اس ہیجان انگیزی کو ووٹوں میں تبدیل کرایا جائے گا ۔لیکن چند ہفتوں بعد ہی مذہبی اشتعال انگیزی رفتہ رفتہ سرد پڑنے لگی۔اس کی وجہ ہندوؤں کے روایتی طاقت ور حلقوں کی طرف سے پران پرتسٹھا کی تقریب کی مخالفت تھی۔ پران پرتسٹھا کی تاریخ جیسے جیسے قریب آتی گئی چار مٹھوں کے شنکراچاریوں کی طرف سے اس کی مخالفت میں شدت آتی گئی ۔ پران پرتسٹھا کی تقریب سے پہلے چار مٹھوں کے شنکراچاریوں نے مودی کے ہاتھوں رام مندر کی پران پرتسٹھا کی اعلانیہ مخالفت کی۔یہ مخالفت ایک طرح سے مودی کا بائیکاٹ تھا۔اس کا سیدھا اثر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ساتھ ساتھ او بی سی طبقے پر پڑا ۔ پوری کے شنکراچاریہ سوامی اوی مکتیشورآ نند نے تو رام مندر کی تعمیر ہی کو ہندو شاستروں کے خلاف قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ رام مندر کی تعمیر ادھوری ہے اور ادھورے مندر میں مورتی کی پران پرتسٹھا نہیں کیا جا سکتی ۔اسی طرح دوسرے شنکراچاریوں نے بھی نریندر مودی کے ہاتھوں پران پرتسٹھا کی تقریب پر اپنے ا پنےطریقے سے اعتراضات کیے ۔چاروں شنکرا چاروں نے ایودھیا تقریب سے اپنی دوری بنائے رکھی ۔شنکرا چاریوں کی طرف سے مودی کی مخالفت کئے جانے سے اس تقریب پرمنفی اثرات مرتب ہوئے۔
گرچہ عوامی سطح پر مودی کے ہاتھوں رام مندر کی پران پرتسٹھا کے خلاف کوئی بڑا عوامی رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا لیکن اس تقریب کے بھروسے بی جے پی نے جو سیاسی ہدف حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا وہ پورا نہیں ہوا ۔ اس صورت حال نے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور وشو ہندو پریشد کو تشویش میں مبتلا کر دیا ۔ کیوں کہ پران پرتسٹھا سے پہلے آر ایس ایس اور وی ایچ پی نے پورے ملک کے گاؤں گاؤں جاکر لوگوں کو اس تقریب میں شامل ہونے کا دعوت نامہ دیا تھا ۔ان کو امید تھی کی پران پرتسٹھا کی تقریب کے دوران یو پی میں 6؍ دسمبر جیسی اشتعال انگیزی پیدا کی جا سکتی ہے ۔لیکن متوقع بھیڑ ایودھیا میں نہیں جمع ہو پائی اور وہ ماحول بھی نہیں بن پایا ۔بدلے ہوئے حالات کا اندازاہ سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ نے فوراً لگا لیا۔یوگی آدتیہ پران پرتسٹھا سے توجہ ہٹا کر مافیاؤں کو مٹی میں ملا دینے کے اپنے پرانے ایجنڈا پر واپس آگئے ۔
الیکشن کمیشن نے 19؍ اپریل سے عام انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ۔ سات مرحلوں میں ہونے والا یہ الیکشن یکم جون کو اختتام پذیر ہوگا ۔یو پی میں لوک سبھا کی 80 سیٹیں ہیں جن میں 66 سیٹیں اس وقت بی جے پی کے پاس ہیں ۔الیکشنپرچار میں بی جے پی پوری 80 سیٹوں پر اپنی جیت کا دعویٰ کر رہی ہے ۔لیکن پہلے مرحلے کی پولنگ کے بعدسے ہی بی جے پی کی کمزور پوزیشن ظاہر ہونے لگی ہے ۔ ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتسٹھاسے بی جے پی کو وہ سیاسی فائدہ نہیں مل پا رہا ہے جس کی منصوبہ بندی اس نے کی تھی ۔رام مندر کی تعمیر مکمل ہونے کا مذہبی ہیجان جس تیزی کے ساتھ پھیلا تھا اب اس کی شدت میں کمی آتی جا رہی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی انتخابی تقریروں میں رام کی پران پرتسٹھا کا ذکر غائب ہوتا جا رہا ہے۔مودی اب سیدھے طور سے رام مندر کے نام پر ووٹ نہیں مانگ رہے ہیں ۔بلکہ انہوں نے اپنی روایتی مسلم مخالف شبیہ کو ووٹروں کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا ہے ۔ مودی نے اپنے انتخابی جلسوں میں کانگریس کو مسلم پرست ثابت کرنا،مسلمانوں کو در انداز بتانا ، ملک کے وسائل پر مسلمانوں کے قبضے کا خوف دلانا ، مسلمانوں کا زیادہ بچے پیدا کرنا ، پاکستان میں گھس کر مارنا اور تین طلاق جیسے موضوعات کو اپنی تقریر کا محور بنا لیا ہے ۔ رام مندر کی تعمیر کا کارڈ بے اثرہونے کے بعد ایک بار پھر مسلم مخالف ایجنڈاپورے الیکشن پر چھا گیا ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی نے رام مندرکا ذکر پوری طرح سے چھوڑ دیا ہے۔یوگی آدتیہ ناتھ یو پی کے کچھ مخصوص انتخابی حلقوں میں پرچار کے دوران رام مندر تحریک کا ذکر ضرور کر رہے ہیں اور اس کی تعمیر کا کریڈٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو دے رہے ہیں ۔بی جے پی نے رامائن سیریل میں رام کا کردار ادا کرنے والے ارون گوول کو ہاپوڑلوک سبھ سیٹ سے اپنا امیدوار بنایا ہے ۔گزشتہ 18؍ اپریل کو یوگی آدتیہ ناتھ نے میرٹھ کے انتخابی جلسے میں ارون گوول اور دیگر امیدواروں کے لیے عوام سے ووٹ مانگا ۔ اپنی تقریر میں یوگی آدتیہ ناتھ نے رام مندر کے شلانیاس سے لیکر اس کی پران پرتسٹھا کا کریڈٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو دیا ۔ انہوں نے عوام سے رام مندر کی تعمیر کے نام پر بی جے پی کو ووٹ کرنے کی اپیل کی ۔
یو پی میں یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنا انتخابی ایجنڈا نریندر مودی سے الگ رکھا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اپنی تقریروں میں مافیاؤں کو ختم کرنے کی بات بار بار کہہ رہے ہیں ۔ان کا اشارہ کس جانب ہوتا ہے لوگ اسے خوب سمجھتے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ سے چند دنوں پہلے سابق ایم ایل اے مختاری انصاری کی باندہ جیل میں پر اسرار موت کو بی جے پی الیکشن میں کیش کرانے کی کوشش کر رہی ہے ۔مسلم مافیا کا خاتمہ یو پی کے الیکشن میں علامت کے طور سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔اس کے علاوہ مودی کی گارنٹی جیسے مبہم نعرے کا مطلب لوگ اپنے اپنے طریقے سے نکال رہے ہیں ۔مجموعی طور سے دیکھا جائے تو یو پی میں بی جے پی کا کوئی ایک نعرہ کام نہیں کر رہا ہے ۔ مندر کی پران پرتسٹھا کی ہوا نکلنے کے بعد، یوگی آدتیہ ناتھ کی اپنی ذاتی سیاسی شخصیت ہے جس کی بنیاد پر بی جے پی لوک سبھا کاالیکشن جیتنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ اپنے طریقے سے الیکشن پرچار کر رہے ہیں ۔وہ اپنی تقریروں میں مافیاؤں کونیست و نابود کرنے کی بات کرتے ہیں ۔در حقیقت یوگی کی اصطلاح میں مافیا سے سیاسی اور معاشی قوتوں کی حامل مسلم شخصیتیں مراد لی جاتی ہیں ۔جن کا صفایا کرنا یوگی حکومت کی اولین ترجیح ہے ۔
یو پی میں اپوزیشن کی کمزوری بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے ۔بی جے پی کے بعد سماج وادی پارٹی یو پی کی سب سے بڑی پارٹی ہے ۔سماج وادی پارٹی انڈیا الائنس کا حصہ ہے۔لیکن بعض سیٹوں پر کانگریس اور سپا کے درمیان ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہو پایا ہے ۔ ظاہر ہے اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ملے گا ۔دلتوں کا مضبوط ووٹ بینک سمجھی جانے والی بہوجن سماج پارٹی انڈیا الائنس میں شامل نہیں ہوئی ہے ۔ ماضی میں بھی مایا وتی نے سماج وادی پارٹی کو ہرانے کا لیے اپنا ووٹ بی جے پی میں شفٹ کرایا ہے۔اگر یہی تجربہ اس الیکشن میں بھی دہرایا گیا تو بی جے پی کو بڑا فائدہ مل سکتا ہے ۔اس الیکشن میں مایا وتی کی خاموشی کے بھی کئی معنی نکالے جا رہے ہیں ۔
یو پی کو جیتنا بی جے پی کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔یہی وہ ریاست ہے جہاں سے بی جے پی کو ایک مشت سیٹیں مل سکتی ہیں ۔الیکشن میں عوام کے جوش و خروش میں کمی ، رام مندر پران پرتسٹھا کا سیاسی فائدے کا نہ ملنے اور مودی کی سیاسی چمک کا ماند پڑ جانے نے یو پی میں بی جے پی کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔فی الحال یہ 80 سیٹوں کے ہدف کا پیچھا کرتی نظر آ رہی ہے ۔ اگر بی جے پی یو پی کی 80؍ سیٹیوں میں سے نصف سیٹیں بھی کھو دیتی ہے تو ایک بڑا سیاسی نقصان تصور کیا جائےگا۔ مرکز میں ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے لیے بی جے پی یو پی کی سیٹوں پر قبضہ جمانے کی کوشش میں ہر حربے کا استعمال کررہی ہے۔