ذات پر مبنی مردم شماری: منڈل بمقابلہ کمنڈل پارٹ ٹو

قاسم سید
فروری 2024

بھارت میں ہر دس سال بعد مردم شماری کرائی جاتی ہے۔ مگر اس میں کسی ذات کی تعداد کی کوئی تفصیل نہیں ہوتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہر دہائی میں ہونے والی مردم شماری میں تاخیر ہو رہی ہے، جو مردم شماری 2021 میں ہوجانی تھی وہ ابھی تک نہیں کرائی گئی اور نہ ہی یہ واضح ہے کہ یہ کب تک کرائی جائے گی۔شاید اس کی ایک وجہ سرکار کی طرف سے چھوڑا گیا این آرسی کا شوشہ تھا،جس نے ملک کی سیاست کا رخ بدل دیا اور پہلی مرتبہ تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی قیادت ابھر کرسامنے آئی۔

اس دوران ملک میں ذات پات کی مردم شماری کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بی جے پی کے علاوہ ہر پارٹی اس کی حامی ہے۔ حال ہی میں راہل گاندھی نے ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ زور شور سے اٹھایا ہے اور اقتدار میں آنے پراس کے عملی نفاذ کا وعدہ بھی کیا ہے۔بھارت میں ذات پات کی مردم شماری کا مطالبہ کئی دہائیوں پرانا ہے۔مگر ہندوؤں کی اعلی ذاتیں جو اقتدار کی ملائی کھار ہی ہیں اور ملک کے وسائل پر ان کا قبضہ ہے وہ اس مطالبہ کو ہندوؤں کے اتحاد کو توڑنے کی سازش قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہیں۔

ذات پر مبنی مردم شماری کا مقصد سماج کے ہر شعبے میں مختلف ذاتوں کو ان کی تعداد کی بنیاد پر مناسب نمائندگی فراہم کرنا ہے۔ اس کا مقصد ضرورت مندوں کو سرکاری اسکیموں کا فائدہ پہنچانا بھی ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی مردم شماری سے بی جے پی کو خوف ہے کہ وہ اعلیٰ ذات کے اپنے ووٹروں کو ناراض کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ یہ بی جے پی کے روایتی ہندو ووٹ بینک کو بھی توڑ سکتی ہے۔اگر ملک میں ذات پات کی مردم شماری ہوتی ہے تو ہر مذہب میں موجود ذاتوں کی طرح مسلمانوں کی برادریوں کا بھی پتہ چل جائے گا، جیسا کہ بہار میں ہوا پھر حکومت پر بھی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کہ وہ معاشرے کے ہر شعبے میں اس کے مطابق نمائندگی دیں۔

بہار سرکار نے ذات پر مبنی مردم شماری کا پتھر پھینک کر ملک کی سیاست میں ہلچل مچادی ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ تک چلا گیا اور اب اس کے نتائج بھی عام کردئے گئے۔یہ ہندوتو وادیوں کے سر پر ایٹم بم بن کر گرا ہے۔ سنگھ کی ہندؤوں کو دھرم کی بنیاد پر ایک کرنے کی دہائیوں کی محنت پر پانی پھرتا نظر آرہا ہے۔ یہاں چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔ مثلا ذات پر مبنی مردم شماری کیا کمنڈل بمقابلہ منڈل کی لڑائی میں بدلنے والی ہے؟،بی جے پی اس کی مخالفت کیوں کررہی ہے؟مسلمانوں کو اس کا فائدہ ملے گا یانہیں؟مسلمان اس مطالبہ کی حمایت کرکے بالواسطہ طور پر اسلام کے بنیادی نظریہ مساوات کی خلاف ورزی تو نہیں کریں گے؟

”جتنی بڑی تعداد ہوگی، اس کا حصہ بھی اتنا ہی زیادہ ہے”۔یہ سماجی انصاف کی سیاست کا ایک اہم اصول ہے، جو کہ کانشی رام نے دیا تھا، اب اس سروے سے ایسے دعوؤں کو تقویت ملتی ہے۔بہار حکومت نے 2 اکتوبر کو ریاست میں ذات کے سروے کے اعداد و شمار (بہار ذات مردم شماری) جاری کر دیے ہیں۔ ذات کے سروے سے بہار میں ذات کے زمرے کے لحاظ سے تفصیلات کچھ اس طرح سامنے آتی ہیں۔

پسماندہ ذات کل آبادی کا 27.13 فیصد
انتہائی پسماندہ ذات 36.01فیصد
 درج فہرست ذاتیں 19.65 (SC)فیصد
درج فہرست قبائل(ST) 1.68فیصد
غیر ریزرو 15.5 فیصد

سیاسی تجزیہ کار آدتیہ مینن کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو منڈل کی سیاست کا مقابلہ کرنے اور ہندوتوا اور سوشل انجینئرنگ کا اپنا کاک ٹیل تیار کرنے میں 25 سال لگے۔ہندو بیانیہ کی اس کہانی میں، بی جے پی نے دیگر کم غالب OBC اور چھوٹی SC ذاتوں کے گروہوں کو شامل کیا، انھیں ایس پی اور بی ایس پی جیسی جماعتوں کے خلاف کھڑا کیا، جو روایتی طور پر OBC کی پرچم بردار رہی ہیں اور اقتدار پر قابض ہوگئیں۔ایس پی، بی ایس پی جیسی پارٹیوں کو بعض او بی سی ذاتوں کے نمائندوں کے طور پر پیش کیا گیا اور ساتھ ہی انھیں مسلمانوں کے لیڈر کے طور پر بھی دکھایا گیا۔

اگر ذات پات کا سروے اور کوٹہ میں اضافہ آج کی سیاسی حقیقت بن جائے تو ہندو ووٹوں کی 80 بمقابلہ 20 گروپ بندی کا موجودہ بیانیہ بالکل الٹا ہو سکتا ہے اور یہ ایک بار پھر کمنڈل کی سیاست کو پس پشت ڈال کر کیا جائے گا۔اگر بہار کے سروے پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ذات کے سروے میں ہندو اور مسلم دونوں کمیونٹی کو مذہب کے ساتھذات پات کی بنیاد پر بھی شمار کیا گیا ہے۔مذہبی اعداد و شمار کے مطابق بہار کی 82 فیصد آبادی ہندو ہے، جب کہ مسلمانوں کی تعداد 17.7 فیصد ہے۔

بہار کے تقریباً تین چوتھائی مسلمان OBC یا EBC کے تحت آتے ہیں، جب کہ ایک چوتھائی صرف عام زمرے میں آتے ہیں۔سروے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ کئی سطحوں پر منقسم ہے اور ہندوؤں کی طرح یہاں بھی کئی ذاتیں ہیں۔اس کی وجہ سے مسلم سماج کے اندر او بی سی اور ای بی سی کی نمائندگی بڑھانے پر زور دیا جا سکتا ہے۔