موہن بھاگوت کے بیانات کے پس پردہ عزائم

سہیل انجم
فروری 2024

آر ایس ایس خود کو ایک غیر سیاسی تنظیم ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ایک ثقافتی و سماجی ادارہ ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ لیکن حقائق اس دعوے کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ وہ براہ راست سیاست میں سرگرم تو نہیں ہے لیکن وہ ایک باضابطہ سیاسی نظریہ رکھتا ہے۔ ملک کی موجودہ حکمراں جماعت بی جے پی اسی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اور اس وقت وزیر اعظم نریند رمودی سے لے کر بیشتر وزرا اور عہدے دار آر ایس ایس کے پرچارک یا رکن یا عہدے دار رہے ہیں۔ خواہ وہ آر ایس ایس کی طلبہ شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے ہی وابستہ کیوں نہ رہے ہوں۔ یہ تمام لوگ آر ایس ایس کی ہاف پینٹ پہننے والے ہیں۔ (اب ہاف کی جگہ فل نے لے لی ہے)۔ آپ گوگل کیجیے تو بہتوں کی تصویریں ہاف پینٹ میں مل جائیں گی۔ اور اس سے پہلے تو آر ایس ایس نے اپنے ایک نظریہ ساز رام مادھو کو بھی حکومت میں بھیجا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں ضرورت کے تحت پھر تنظیم میں واپس بلا لیا گیا۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے والا کوئی بھی شخص اس سے انکار نہیں کرے گا کہ آر ایس ایس کے بڑے عہدے دار حکومت کو نہ صرف مشورے دیتے ہیں بلکہ نظریاتی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ اس وقت حکومت میں وہی ہوتا ہے جو آر ایس ایس چاہتا ہے۔ اسی کے ساتھ اس کے لیڈران بی جے پی کو اقتدار میں باقی رکھنے کے لیے ہر قسم کی مدد کرتے ہیں۔ انتخابات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ اب جو ہندوستانی حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے وہ چھوٹنی نہیں چاہیے۔ اس تمہید کے ساتھ آر ایس ایس کے اہداف اور اس کے موجودہ سربراہ یا سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کے بیانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

موہن بھاگوت اکثر و بیشتر یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم تو ایک ثقافتی تنظیم ہیں۔ لیکن ان کے تقریباً تمام بیانات اپنے اندر زبردست سیاسی پہلو رکھتے ہیں۔ وہ اگر کسی سماجی ایشو پر گفتگو کریں تو اس کے بھی ڈانڈے سیاست سے ہی جا کر ملتے ہیں۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے تمام شہریوں کا ڈی این اے ایک ہے اور مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کا تصور نہیں کیا جا سکتا تو اس کے پس پردہ بھی سیاست ہی کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ وہ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان مکمل نہیں ہوتا وہیں دوسری سانس میں یہ بھی کہہ جاتے ہیں کہ میں تمام ہندوستانیوں کو ہندو مانتا ہوں۔ یعنی ان کی نظر میں مسلمان بھی ہندو ہی ہیں۔ پہلے ہندو کا مطلب ہوتا تھا دریائے سندھ کے اطراف میں بسنے والے۔ لیکن اب ہندوازم ایک مذہب ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے تو اسے ضابطۂ حیات تک بتا دیا ہے۔ رفتہ رفتہ سیاست نے اس کی شکل تبدیل کی اور اب وہ ہندوتوا ہو گیا ہے۔ ہندوازم اور ہندوتوا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ موہن بھاگوت یہ بھی کہتے ہیں کہ طریقۂ عبادت میں فرق کی وجہ سے ہم کسی کی مخالفت نہیں کرتے۔ یعنی اگر مسلمانوں کا، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا عبادت کا طریقہ ہندوؤں کے عبادت کے طریقے سے الگ ہے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس فرق کے باوجود سبھی ہندوستانی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ مسلمان شدھی کرکے گھر واپس آجائیں یعنی ہندو بن جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے اسلاف ہندو ہی تھے لہٰذا انھیں اپنے پرانے مذہب پر واپس آجانا چاہیے۔ یہ شدھی کرن کا سلسلہ بھی کوئی نیا نہیں ہے۔ پہلے بھی مسلمانوں کے شدھی کرن کی تحریکیں چلائی جاتی رہی ہیں اور مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور اب بھی کی جاتی ہے۔ وہ مہم ختم نہیں ہوئی ہے۔ وہ اب بھی جاری ہے۔

جب موہن بھاگوت نے غازی آباد میں ایک کتاب کے اجرا کے موقع پر میٹھی میٹھی باتیں کیں تو ان کی بڑی ستائش ہوئی۔ کچھ سرسری نظر رکھنے والے تو اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ آر ایس ایس بدل رہا ہے۔ اس کا نظریہ تبدیل ہو رہا ہے۔ لیکن اس قسم کی رائے رکھنے والے دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ آر ایس ایس نہ کبھی بدلی ہے نہ بدلے گی۔ ہاں ریاکاری، دکھاوا، دروغ بیانی اور اپنے بیانات سے شکوک و شبہات پیدا کرنا اور بوقت ضرورت سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا اس کی فطرت بھی ہے اور پالیسی بھی۔ اس لیے موہن بھاگوت ہوں یا کوئی اور لیڈر، ان کے بیانات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذکرنا کہ آر ایس ایس نے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے، بیوقوفی ہوگی۔ غازی آباد میں کی گئی تقریر کے بعد بعض سرکردہ مسلمانوں کی جانب سے بھاگوت سے ملاقاتوں اور بات چیت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ بات چیت یا مذاکرات کی مخالفت کوئی نہیں کرتا۔ مذاکرات سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ فریقین اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔ جب ایک ملاقات میں آر ایس ایس کے ایک رہ نما نے کہا کہ کاشی اور متھرا کی مسجدیں ہمیں دے دیںتو ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کے بعد کسی اور مسجد کا مطالبہ نہیں ہوگا تو انھوں نے کہا کہ ہم اس کی گارنٹی نہیں لے سکتے۔ اس لیے آر ایس ایس کے رہ نماؤں سے مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نکلے گا اس میں شبہ ہے۔

موہن بھاگوت نے غازی آباد کے بعد اور بھی کئی جگہ ایسے بیانات دیے جن سے یہ تاثر ملتا تھا کہ آر ایس ایس اپنے موقف میں نرمی لانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن اسی درمیان ایک انٹرویو میں انھوں نے یہ واضح کر دیا کہ آر ایس ایس آج بھی اپنے متنازع نظریات پر قائم ہے اور اس بات کا قوی امکان بلکہ یقین ہے کہ وہ آئندہ بھی اس پر قائم رہے گی۔ انھوں نے آر ایس ایس کے انگریزی اور ہندی ترجمانوں آرگنائزر اور پانچ جنیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کہیں جن سے ان کی سابقہ باتوں کی تردید ہوتی ہے۔ انھوں نے یہ پیغام دے دیا کہ وہ آر ایس ایس کے بانی کیشو رام بلی رام ہیڈگیوار اور اس کے نظریہ ساز گرو گولوالکر کے اس نظریے پر قائم ہیں کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔ اس میں دیگر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہاں وہ اگر یہاں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں ہندوؤں کے ماتحت اور دست نگر بن کر رہنا پڑے گا۔ یعنی بہ الفاظ دیگر انھیں دوئم درجے کا شہری بن کر رہنا ہوگا۔ موہن بھاگوت تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ ہم ہزار سال تک بھی انتظار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو اسی طرح رہنا ہوگا جیسے ہندو کہیں اور چاہیں۔ انھوں نے اپنے انٹرویو میں مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس ملک میں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر اپنے مذہب پر چلنا چاہتے ہیں تو چل سکتے ہیں اور اگر اپنے آبا و اجداد کے مذہب پر یعنی ہندو مذہب پر واپس آنا چاہیں تو آسکتے ہیں۔ گویا وہ مسلمانوں کی گھر واپسی چاہتے ہیں۔ یہ کہنے کے بعد کہ مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اسی سانس میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنی بالادستی کے خیال کو دل سے نکالنا ہوگا۔ انھیں اس خیال سے باہر آنا ہوگا کہ ہم نے اس ملک پر حکومت کی ہے۔ ہم آگے بھی کریں گے۔ ہمارا راستہ ہی صحیح ہے باقی سب غلط ہیں۔ ہم مختلف ہیں، ہم دوسروں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ جو لوگ بھی یہاں رہ رہے ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا کمیونسٹ انھیں اس بیانیے کو ترک کرنا ہوگا۔ پھر وہ بہت صاف طور پر کہتے ہیں کہ ’’ہندوستان کو ہندواستھان‘‘ ہی رہنا چاہیے۔

جہاں تک ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے یہاں کئی سو سال تک حکومت کی اور اس پر انھیں فخر بھی ہے۔ لیکن انھوں نے کبھی اس حکومت کو اسلامی حکومت نہیں کہا اور نہ ہی مسلم حکم رانوں نے یہاں اسلامی شریعت نافذ کرنے کی کوشش کی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت کو اپنایا اور اس کی وجہ سے ہندوستان کا اسلام وہ اسلام نہیں رہا جو اسے ہونا چاہیے تھا۔ ہندوستانی تہذیب و ثقافت نے یہاں کے اسلام کو حقیقی اسلام سے دور کر دیا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم حکم رانوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہندوستان ’’مسلمستان یا اسلامستان‘‘ ہے۔ بلکہ انھوں نے اسے ہندوستان ہی بنائے رکھا۔ اس کے لیے انھوں نے ہندوؤں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا۔ بلکہ بعض معاملات میں مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا۔ کیا تاریخ سے اس حقیقت کو مٹایا جا سکتا ہے کہ اکبر نے اصل اسلام سے ہٹ کر اپنا گڑھا ہوا مذہب یعنی ’’دین الہٰی‘‘ نافذ کیا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے کبھی نہیں کہا کہ ہم مختلف ہیں لہٰذا دوسروں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ مسلم حکم رانوں نے تو ہندوؤں کی بیٹیوں سے شادی کرکے انھیں اپنا رشتے دار بنا لیا۔ مزید یہ کہ ان بیویوں کا مذہب تک نہیں بدلوایا، انھیں مسلمان نہیں کیا، وہ ہندو ہی رہیں اور مسلم حکمراں کی بیوی بھی بنی رہیں۔ اس کو آر ایس ایس کے سربراہ کیا نام دیں گے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے ایسی شادی شادی نہیں ہوتی بلکہ کچھ اور ہوتا ہے۔ یعنی بعض مسلم حکم رانوں نے اپنے اقتدار کی خاطر اپنے مذہب کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس کے باوجود آج مسلم حکم رانوں پر ہندوؤں کو جبراً مشرف بہ اسلام کرنے کا الزام عاید کیا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ہندو رعایہ کو اپنا مذہب بدلنے کے لیے مجبور نہیں کیا۔ اگر انھوں نے ایسا کیا ہوتا تو آج ہندوستان میں واقعی مسلمان ہی اکثریت میں ہوتے۔ دوسری بات یہ کہ مسلمانوں نے نہ تو آزادی کے پہلے یہ کہا کہ ہم سب سے اچھے ہیں، ہمارا مذہب سب سے اچھا ہے اور نہ ہی آزادی کے بعد کہا۔ انھوں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ ہم دوسروں سے مختلف ہیں اس لیے دوسروں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ انھوں نے تو آئین ہند کو تسلیم کیا جس کا کہنا ہے کہ ریاست کی نظر میں تمام مذاہب برابر ہیں۔ حکومت تمام مذاہب کا یکساں احترام کرتی ہے۔

موہن بھاگوت ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں مگر دوسری طرف انھیں ڈرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ادھر کچھ برسوں سے ہندوستان اور دنیا کے دیگر ملکوں میں ہندوؤں میں جارحیت آئی ہے۔ وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ہندو ایک ہزار سال سے حالتِ جنگ میں ہے۔ ان کے مطابق ہندوؤں کی یہ جنگ بیرونی حملہ آوروں سے ہے، بیرونی اثرات سے ہے، بیرونی سازشوں سے ہے۔ اگر وہ مسلم حکم رانوں کو بیرونی حملہ آور مانتے ہیں، تو اب تو اس ملک میں ان کی حکومت نہیں ہے۔ بیرونی اثرات سے ان کی کیا مراد ہے اس کی وضاحت انھوں نے نہیں کی۔ انھوں نے بیرونی سازشوں کی بھی وضاحت نہیں کی۔ حالاں کہ سچائی یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ملک کے جو حالات ہیں وہ حالت جنگ کے ہی مترادف ہیں اور اس حالت جنگ میں اگر کوئی ہے تو وہ مسلمان ہیں۔ لیکن موہن بھاگوت کا خیال ہے کہ ہندو حالت جنگ میں ہے۔ یہ بات تو بالکل الٹے بانس بریلی والی ہو گئی۔

آر ایس ایس کو قائم ہوئے سو سال ہونے کو آرہے ہیں۔ 2025 میں وہ اپنی صدی تقریبات منائے گا۔ اس کا قیام صرف اس لیے ہوا تھا کہ ہندوستان کو ایک ہندو ملک بنایا جائے۔ ایک ایسا ہندو ملک جس میں دیگر مذاہب کے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ دیگر مذاہب کے لوگ اس ملک میں رہ تو سکتے ہیں لیکن دوئم درجے کے شہری بن کر۔ ان کو حکومت و اقتدار میں کوئی حصہ داری نہیں ملے گی۔ اسی لیے اس نے جنگ آزادی میں حصہ نہیں لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمیں انگریزوں سے نہیں بلکہ اندرون ملک کے دشمنوں سے یعنی مسلمانوں سے لڑنا ہے۔ اس کا مقصد وہی تھا جس کا ذکر کیا گیا۔ اور آر ایس ایس اسی مقصد کی حصولیابی میں منہمک ہے۔ اس کے لیے اس نے پہلے حکومت پر قبضہ کیا اور اب اس حکومت کو دوام بخشنے کے لیے ہر جائز ناجائز حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ بی جے پی انتخابات میں مسلمانوں کو اپنا امیدوار نہیں بناتی۔ اگر کسی کو بناتی ہے تو ایسے مسلمان کو جو عملاً مسلمان ہی نہ ہو۔ بی جے پی حکومت میں اب کوئی برائے نام کامسلمان بھی نہیں ہے۔ یعنی حکومت پر قبضہ اور مسلمانوں کو حکومت میں حصہ داری سے محروم رکھنے کا مقصد توپورا ہو گیا۔ اب وہ ہندوستان کو باضابطہ طور پر ہندو راشٹر بنانے میں کوشاں ہے۔ حالاں کہ بڑی حد تک وہ ہندو راشٹر بن چکا ہے لیکن اس کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ اس اعلان کی راہ میں ملک کا آئین آڑے آرہا ہے۔ اس لیے اب اسے بھی تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بلکہ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اگر 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کام یاب ہو گئی تو آئین کو ختم کر دیا جائے گا۔ اگر بی جے پی ایسا کرنے میں کام یاب رہی تو پھر ہندوستان کو ہندو راشٹر گھوشت کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ اس مہم میں موہن بھاگوت پوری قوت کے ساتھ شامل ہیں۔