قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے ریزرویشن

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
فروری 2024

ہندوستان کی آزادی کے 76سال پورے ہونے کے بعد ملک کے سیاستدانوں کو ملک میں رہنے والی خواتین کو سیاسی طور پر بہ اختیار بنانے کا خیال دل میں آیا۔ ملک کے قانون ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی کا مسئلہ ہر تھوڑے دن کے بعد سیاسی گلیاروں میں اٹھتا رہا ہے۔لیکن اس معاملے میں ہر سیاسی پارٹی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرتی رہی۔ اب جب کہ لوک سبھا انتخابات کا مر حلہ پھر سے سامنے آگیا ہے۔حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مرکز کی بی جے پی حکومت نے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کو 33فیصد تحفظات دینے کاقانون منظور کرلیا ہے۔
نئے پارلیمنٹ ہاوس کے پہلے اجلاس میں وزیر اعظم نریندرمودی نے 19؍ ستمبر 2023 لو ک سبھا میںناری شکتی وندن ادھینیم بِل 2023 پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اس بل کی منظوری کے بعد لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی حاصل ہوجائے گی۔ لوک سبھا میں مباحث کے بعد یہ بل 20 ؍ستمبر 2023کو ایوان میںمنظور کرلیا گیا۔ 454ارکان نے بل کی تائید کی اور صرف دو ارکان نے اس کی مخالفت کی۔ راجیہ سبھا میں دوسرے دن اس پر مباحث ہوئے اور ایوان بالا میں بھی تمام ارکان کی منظوری سے یہ بل 21؍ ستمبر کی رات منظور کرلیا گیا۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے اس تاریخی بل پر 29؍ ستمبر 2023کو اپنی مہر تصدیق ثبت کر دی۔ صدر جمہوریہ کی منظوری کے ساتھ ہی خواتین بل اب قانون بن چکا ہے۔ لیکن اس کے نفاذ کے لیے خواتین کو ابھی انتظار کی گھڑیاں طے کرنا ہے۔ 2026 میں لوک سبھا حلقوں کی ازسر نو حد بندی کے بعد ہی یہ قانون نافذ ہوگا۔ 2024میں ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں اس پر عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ 2029کے لوک سبھا الیکشن میں ہی خواتین کو 33فیصد لوک سبھا نشستیں حاصل ہو سکیں گی۔ اس قانون کی منظوری کے بعدایوان لوک سبھا میں خاتون ارکان کی تعداد 82سے بڑھ کر 181ہوجائے گی۔
ملک کے قانون ساز اداروں میں خواتین کو مناسب نمائندگی دینے کا مطالبہ برسوں سے کیا جا رہا تھا۔ سب سے پہلے 1996 میں دیوے گوڈا حکومت نے خواتین کے لیے ریزویشن کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔ 1998اور پھر 1999میں اٹل بہاری واجپائی کے دور میں بھی اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ 2008میں یوپی اے(UPA) حکومت کے دور میں منموہن سنگھ حکومت نے راجیہ سبھا میں یہ بل پیش کیا۔ راجیہ سبھا میں اسے منظور کرنے کے بعد بل کولوک سبھا بھیجا گیا لیکن وہاں اس کی منظوری نہیں ہو سکی اور اسی دوران 2014میں لوک سبھا تحلیل ہوگئی۔ 2014کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کو شکست ہوگئی اور بی جے پی کا میاب ہو گئی۔ نریندرمودی کی قیادت میں تشکیل پانے والی بی جے پی حکومت نے خواتین کے ریزویشن کے مسئلہ کو ایک انتخابی مسئلہ بنائے رکھا۔ اب جب کہ وہ اپنی دو سری معیادپوری کر رہی ہے ۔ پارٹی نے محسوس کیا کہ ملک کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کی بھی حصہ داری ضروری ہے۔ اپنے اقتدار کے آخری ایام میں خواتین سے ہمدردی جتاتے ہوئے انھیں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نمایاں نمائندگی دینے کا تیقن دینا ایک سیاسی چال ہے۔ خواتین کو بہ اختیار بنانے کے تعلق سے بی جے پی حکومت اب بھی جو قانون لائی ہے اس کے نفاذ کے لیے مزید چھ سال خواتین کو انتظار کرنا پڑے گا۔
سابق میں جب کبھی خواتین کو ریزویشن دینے کے لیے قانون سازی کی گئی، بی جے پی نے اس کی پُر زور مخالفت کی اور کسی طرح اسے پارلیمنٹ میں منظور ہونے نہیں دیا۔ لیکن اب شاید بی جے پی کو احساس ہو گیا ہے کہ ملک کی نصف آبادی کو نظرانداز کرکے وہ تیسری بار اقتدار تک نہیں پہنچ سکے گی۔ اسی لیے خواتین کے ووٹوں کے حصول کے لیے ملک کی پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں جاتے ہی وزیراعظم نے خواتین تحفظات بل پیش کر دیا۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ 2024 کے لوک سبھا الیکشن اور اسی سال پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کو سامنے رکھتے ہوئے بی جے پی حکومت نے خواتین کے تحفظات کے بل کو پارلیمنٹ میں منظور کیا ہے۔ منموہن سنگھ حکومت نے جب اس بل کو راجیہ سبھا میں منظور کرکے لوک سبھا میں منظوری کی کوشش کی تھی تو اس وقت بی جے پی نے اس کی زبردست مخالفت کر تے ہوئے اسے منظور ہونے نہیں دیا۔لیکن اب پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس صرف پانچ دن کے لیے طلب کیا گیا اور بڑی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے خواتین تحفظات بل کی منظوری کو یقینی بنالیا گیا۔ 28پارٹیوں کی جانب سے انڈیا اتحاد کی تشکیل سے بھی ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا ہے۔ بی جے پی کو یہ خوف ہے کہ انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیاں خواتین رائے دہند گاں کو بھی اپنی طرف راغب کرلیں گی جس سے بی جے پی کے لیے کا میابی کے امکانات اور کم ہوجائیں گے۔ اسی خطرہ کو محسوس کر تے ہوئے بی جے پی حکومت نے خواتین کو گم راہ کرنے کے لیے یہ نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ وہ اگر واقعی خواتین سے تعلقِ خاطر رکھتی تو بہت پہلے ہی اس جانب پیش قدمی کر تی۔ دس سال تک اقتدار پر رہتے ہوئے اسے کبھی ملک کی خواتین کو سیاسی طور پر طاقتور بنانے کا احساس نہیں ہوا۔ اب اچانک ان کے لیے لوک سبھا اور اسمبلیوں میں ایک تہائی تحفظات دینے کی باتیں خواتین سے زبانی ہمدردی ہی ہو سکتی ہے۔ کانگریس نے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے موقع پر خواتین سے جو وعدے کیے وہ اسے پورا کرنے کی جانب پیش رفت بھی کر رہی ہے۔ اسی طرح تلنگانہ میں ہونے والے اسمبلی الیکشن کے موقع پر بھی کانگریس نے ریاست کی خواتین کو مختلف سہولیات دینے کا وعدہ کیا ہے۔ گذشتہ 17؍ ستمبر کو حیدرآباد کے مضافات میں منعقدہ کانگریس کے ایک بڑے جلسے میں سونیا گاندھی نے تلنگانہ کی عوام سے چھ اہم وعدے کیے ہیں، ان میں زیادہ تر کا تعلق خواتین کی فلاح وبہبود سے تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کانگریس کے ان انتخابی وعدوں نے بی جے پی کو بوکھلاہٹ کا شکار کر دیا ہو اوراسی کے نتیجہ میں خواتین ریزویشن کو اہمیت دی جا رہی ہو۔ ایک ایسے موقع پر جب کہ ملک کی پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھیتیس گڑھ، میزورم اور تلنگانہ میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے رائے دہندوں بالخصوص خواتین کو رجھانے کے لیے خواتین کے لیے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں ریزویشن کے قانون کو منظور کروا لیا گیا۔ لیکن اس قانون کے نفاذ میں ٹال مٹول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی ملک کی خواتین کو اب بھی پوری طرح قانون ساز اداروں میں نمائندگی دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 2023میں قانون بن جانے کے بعد اس کو نافذ کرنے کے لیے 2029تک انتظار کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس قانون کے تحت2024کے لوک سبھا الیکشن میں خواتین کو 33فیصد نمائندگی نہیں دی جا سکتی۔ اس سے قانونی پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ جب خواتین ریزویشن قانون بن چکا ہے تو اس کے نفاذ میں غیر ضروری تاخیر سے خواتین اپنے دستوری حقوق سے محروم رہیں گی۔ اپوزیشن پارٹیوں کے پُر زور مطالبہ کے باوجود بی جے پی حکومت کی جانب سے اس کی فوری عمل آوری سے انکار کئی شبہات کو جنم دے دیتا ہے۔
ملک کی اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس کا مطالبہ ہے کہ اس قانون کوفوری نافذ کیا جائے۔ کانگریس نے اس بات کا مطالبہ بھی کیا کہ ذات کی بنیاد پر مردم شماری کی جائے اور خواتین ریزویشن بل میں دیگر پسماندہ طبقات ( او بی سی )، درج فہرست طبقات اور درج فہرست قبائل کی خواتین کو بھی کوٹہ مقرر کیا جائے۔ دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بھی جن میں سماج وادی پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اوربہوجن سماج پارٹی شامل ہیںیہ مطالبہ کیا کہ دیگر پسماندہ طبقات کی خواتین کی اس میں شمولیت اس لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ہے لیکن ان کی آبادی کے تنا سب سے ان کی نمائندگی نہیں ہو رہی ہے۔ بی جے پی حکومت او بی سی طبقہ کو ناراض کر تی ہے تو اس سے راست فائدہ کانگریس اور اس کے حلیفوں کو ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا آئندہ خواتین ریزویشن قانون میں ترمیمات کی جائیں گی اور اپوزیشن کے مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے جو طبقات شامل نہیں ہیں انھیں بھی اس میں شامل کیا جا ئے گا۔ OBC,SC,اور STطبقہ کے خواتین کے ریزویشن کی گونج تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سنائی دی لیکن مسلم خواتین کو ریزویشن دینے کا مطالبہ کسی سیکولر پارٹی کی جانب سے نہیںاٹھایا گیا !!
کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد کے رکن لوک سبھا بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اس قانون کی مخالفت اس لیے کی کہ اس میں دیگر پسماندہ طبقات اور مسلم خواتین کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ انھوں نے اور ان کے رفیق امیتاز جلیل نے بل کی مخالفت میں اپنی رائے دی۔ ان دو ارکان پارلیمنٹ کے سوا تمام ہی ارکان لوک سبھا نے بل کی تائید کی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک کے تمام شعبوں میں بالعموم مسلمانوں اور بالخصوص ان کی خواتین کو حاشیہ پر لا دیا گیا۔ تعلیم ہو، معیشت، سرکاری ملازمت ہو یا سیاست کہیں پر بھی ان کی نمائندگی برائے نام ہی ہے۔ پہلے لوک سبھا کے الیکشن سے سترویں لوک سبھا تک 690خواتین لوک سبھا کی رکن بنیں۔ ان میں صرف 25 مسلم خواتین ہیں۔ اسد اویسی صاحب نے بتایا کہ ملک بھر میں مسلم خواتین سات فیصد ہیںلیکن لوک سبھا میں ان کی نمائندگی صرف 0.7 فیصد تک محدود ہو گئی۔ آج ملک میں تعلیم کے شعبہ میں انقلابی تبدیلیوں کے دعوے کے باوجود 19فیصدمسلم لڑکیاں ترک تعلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ صدر مجلس نے بی جے پی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اس بل کے ذریعے اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والی خواتین کو قانون ساز اداروں میں پہنچانے کا راستہ فراہم کر رہی ہے۔ پسماندہ اورپچھڑے طبقات کے ساتھ مسلم خواتین کو ویمن ریزویشن میں حصہ نہ دینا اسی بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ بی جے پی ملک کے مخصوص طبقوں کو قومی ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع دے رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس قانون میں جو کچھ خامیاں ہیں انھیں دور کیا جائے اور سماج کے تما م طبقات کو اس میں شامل کیا جائے، تب ہی یہ قانون ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں کلیدی رول ادا کر سکتا ہے ورنہ اس سے قوم اور ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا ملک کے قانون ساز اداروں میں خواتین کو 33فیصد تحفظات دینے سے ان کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ آزادی کی پون صدی مکمل ہونے کے باوجود ملک میں خواتین کی سماجی حیثیت کو اب بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا اس ملک کا مزاج بن چکا ہے۔ آج بھی خواتین کی عزت و عفت ملک میں محفوظ نہیں ہے۔ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات ہر دن ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ان کی سیاسی حصہ داری کی باتیں محض ایک سراب ہی نظر آتی ہیں۔ ہندوستانی خواتین کو قانون ساز اداروں میں نمائندگی دینے سے زیادہ ان کو سماج میںعزت و احترام اور تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔