سوشل میڈیا اور فرا ڈ

عمر فراہی
مارچ 2024

کچھ دنوں سے فیس بک پر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ خوب صورت تعلیم یافتہ مسلمان لڑکیاں اپنے بارے میں پوسٹ کرتی ہیں کہ میں بہت تنہا ہوں اور مجھے ایک اچھے مرد کی ضرورت ہے جو مجھ سے نکاحِ کرکے میرا اچھا خیال کرے، خرچ میں سنبھالوں گی۔ اسی طرح چالیس سال کی غیر مسلم خوب صورت عورتیں اپنی تصویر کے ساتھ پوسٹ کرتی ہیں کہ کیا چالیس سال کی عمر میں پیار کرنا معیوب ہے۔ آج ہمارے ایک ساتھی کے وہاٹس اپ پر اسی طرح کا ایک خوب صورت میسیج تصویر کے ساتھ آیا کہ: السلام علیکم، مجھے لینا خان کہتے ہیں۔ میری عمر پینتیس سال ہے۔ میں یتیم ہوں اور بالکل تنہا ہو چکی ہوں لیکن میرے والدین نے میرے نام بہت دولت چھوڑی ہے۔ مجھے ایک شریف آدمی کی ضرورت ہے۔ کیا آپ مجھ سے نکاح کر سکتے ہیں؟”انھوں نے مجھے وہ میسیج دکھایا اور کہا کہ بھائی دیکھو کہاں یہ خوب صورت لڑکی اور میں کالا کلوٹا بال بچے والا آدمی۔ اس کو کہاں سے میرا نمبر ملا۔ میں نے کہا بھائی محبت میں صورت نہیں دل دیکھا جاتا ہے۔ پیش کش آئی ہے تو رابطہ بھی کر لیں۔ ویسے بھی آپ معاشی طور پر پریشان بھی ہیں اگر دولت مند اور خوب صورت بیوی مل جائے تو برا کیا ہے۔ کہنے لگے مجھے تو یہ سب فراڈ دکھائی دیتا ہے۔

سچ یہی ہے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر باقاعدہ عالمی اور ملکی پیمانے پر کچھ ایسے دھوکے باز تعلیم یافتہ لڑکے اور لڑکیوں کا گروہ سرگرم ہے جنھوں نے لوگوں کے ساتھ فراڈ کرنے کے لیے فراڈ کی کمپنی کھول رکھی ہے۔ یہاں وہ پورے سال فراڈ کے نئے طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ بینک اکاونٹ ہیک کرکے لوگوں کے پیسے اڑانے سے لے کر سیکس ریکٹ میں لوگوں کوپھنسا کر بلیک میل کر کے دولت بٹورنا وغیرہ وغیرہ بہت ساری اسکیمیں جس پر یہ لوگ کام کر رہے ہیں۔ ان کے باقاعدہ کال سینٹر ہیں جہاں سے وہ روز سیکڑوں نمبروں پر فون گھماتے رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی بندہ پھنس ہی جاتا ہے۔ اسی طرح اب یہ نکاح وغیرہ کے نام پر نوجوانوں کو پھنسانے کا کاروبار کا بھی ایک ایک عالمی نیٹ ورک ہے۔ اس تعلق سے نوجوانوں کو بیدار کرنے کی ضرور ہے۔

بات چل پڑی ہے تو ایک دوسرے فراڈ کی بات بھی کرتے چلوں۔ ممبرا کے اس ساتھی کو چھوڑ کر کارخانے آیا تو وہاٹساپ پر ایک انجان نمبر سے سلام تھا۔

’’السلام علیکم!

میرا بچہ اسپتال میں آئی سی یو میں ہے میری مدد کر دیں۔ ‘‘

میں نے نمبر دیکھا تو اس کا نام قمر لکھا ہوا تھا۔ یہ وہ نام ہوتا ہے جو موبائل استعمال کرنے والا اپنے آئی ڈی پر لکھتا ہے۔ پھر میں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے اپنا نام حسین خان بتایا۔ میں نے کہا آپ مجھے کیسے جانتے ہیں اور یہ نمبر کہاں سے ملا۔ میں بغیر پہچان کے نہ تو کسی کی مدد کرتا ہوں نہ کوئی چندہ وغیرہ ہی دیتا ہوں۔ اس نے جواب دیا آپ عمر بھائی بول رہے ہیں نا۔ میں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا میں آپ سے مل چکا ہوں۔ میں نے کہا وہ کیسے۔ اس نے کہا افغان بھائی کے ساتھ یا ایوب بھائی کے ساتھ۔ جب کہ اسے کون بتائے کہ ایک مصنف کی یادداشت اتنی کم زور نہیں ہوتی ہے۔ میں کبھی کسی افغان بھائی یا ایوب بھائی کے ساتھ کسی سے نہیں ملا۔ ہاں کاروباری سلسلے میں کون مل کر جاتا ہے اور نمبر لے کر جاتا ہے یہ سب یاد رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔ پھر بھی میں نے اسپتال کا نام پوچھا اور اس سے کہا کہ اپنا لائیو لوکیشن بھیجو۔ اس نے اسپتال کا نام تو بتایا کہ کستوربا اسپتال میں ہے لیکن لائیو لوکیشن نہیں بھیجا۔ میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ کوئی بھی ہو اگر مستحق ہے تو اسپتال میں جاکر کچھ مدد کر دیتے ہیں۔ ہاں اس سے پہلے اس نے تین سو ستر روپئے کی دوا کی بل کا فو ٹو بھیج دیا تاکہ میں جی پے کر دوں۔ ابھی میں کارخانے سے نکل کر ارادہ کر رہا تھا کہ اگر وہ لائیو لوکیشن بھیجتا ہے تو کسی ساتھی کو ساتھ لے کر اسپتال سے ہوتے ہوئے گھر چلا جاؤں گا۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے اپنے بھیجے ہوئے میسیج کو ڈلیٹ کر دیا ہے۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ جو بھی تھا مجھ سے جی پے کے ذریعے رقم وصولنا چاہتا تھا۔ میں نے پھر نمبر پر tap کیا تو دیکھا اس بار اس کی آئی ڈی پر قمر کے بجائے حسین خان لکھ کر آرہا ہے۔ یعنی پانچ منٹ میں اس نے اپنی آئی ڈی اسٹیٹس میں ترمیم کر لیا تھا۔ تھوڑا اور شک ہوا تو ٹرو کالر کا سہارا لیا۔ یہاں اس کا نام کوئی فلاں کمار بتا رہا ہے۔

یہ مضمون لکھ ہی رہا تھا کہ دیکھا کہ رات میں ہمارے ایک ساتھی جو اردو ٹائمز کے دور سے ہمارے قریبی دوستوں میں سے ہیں اور کچھ دنوں تک میگزین صحیفہ والدین کو شائع کرنے میں بھی ساتھ رہے اور اب تو خیر وہ معیشت ملٹی میڈیا کے ڈائیریکٹر اور مختلف تعلیمی قافلے کے سپہ سالار بھی ہیں۔ انھیں صحافتی حلقے میں دانش ریاض کے نام سے جانا جاتا ہے انھوں نے ایک پوسٹ کی ہے اور وہاٹس آپ میسیج کا اسکرین شارٹ بھی پوسٹ کیا تو میں چونک گیا۔ جس نمبر سے میسیج کے ذریعے مجھ سے پیسہ مانگا گیا تھا اسی نمبر سے دانش صاحب کو بھی میسیج آیا تھا۔ مطلب صاف ہے میسیج کرنے والا ہم دونوں سے واقف ہے۔ اب یہ کون ہے اور کیا وہ فراڈ ہی کرنا چاہتا تھا یا اس کا تعلق کسی ایجنسی وغیرہ سے ہے۔ جو بھی ہے آج کل جب تک آپ پوری طرح کسی سے واقف نہیں ہیں سوشل میڈیا کی پہچان وغیرہ سے جی پے وغیرہ سے کسی پر رحم کھا کر مدد کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔