نتیش کی پلٹی۔ کس کا فائدہ اورکس کا نقصان

قاسم سید
فروری 2024

بہار کا حالیہ سیاسی طوفان کیا ختم ہوگیا یا پھر اس کا پارٹ ٹو ابھی باقی ہے،جیسا کہ تیجسوی یادونے اشارہ دیا کہ ’’کھیلا ابھی باقی ہے۔۔‘‘ دوسرے نتیش کی ایسی کیا مجبوری تھی کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ،جس پارٹی کے بارے میں قسم کھائی تھی کہ مرنا پسند کریں گے مگر زندگی بھر وہاں نہیں جائیں گے پھر اسی ناؤ میں جاکر سوار ہوگئے اور بی جے پی کی کیا پریشانی تھی کہ اس کا نتیش کے بغیر دل نہیں لگا اور بے وفا یار کو پھر گلے لگالیا، جب کہ سارے دروازے بند کردیے تھے بس کوچہ جاناں کے سوا۔ کیا یہ قیاسات صحیح ہیں کہ رام مندر کی پران پرتیشٹھا کے بعد نتیش کو لگنے لگا کہ بی جے پی سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا؟۔دوسری طرف بہار کے بی جے پی لیڈروں کے نہ چاہتے ہوئے بھی بی جے پی کی مرکزی قیادت نتیش کو اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتی تھی تاکہ اپوزیشن اتحاد کی بنیاد کم زور ہو جائے،؟ان سوالوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ان دونوں یعنی بی جے پی اور نتیش کو وہ سیاسی وانتخابی فائدہ ہوگا جس کے لیے دونوں نے کڑوی گولی نگلی ہے،نتیش نے اپوزیشن اتحاد چھوڑنے کی جو وجہ بتائی وہ طلاق لینے کا صرف ایک بہانہ ہے۔ اس کی اصل وجہ وہ نہیں جو بتائی جا رہی ہے اور جو دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی وجہ پوشیدہ ہے؟
کہاجارہا ہے کہ بہار میں بساط پلٹنے کے بعد سے بی جے پی ہر قیمت پر 2024 کا الیکشن جیتنا اور+400کا ٹارگٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس راستے میں تین ریاستیں حائل نظر آرہی ہیں،وہ ہیں بہار،یوپی اور مہاراشٹر ہیں -بظاہربہار کا قصہ تمام کردیا گیا اگلا نمبر مہاراشٹر کا ہوسکتا ہے جہاں ادھو کی شیو سینا کے لیڈروں کے سر پر ایجنسیوں کی تلوار لٹک رہی ہے تو کیا نتیش کی پارٹی پر بھی یہی‘‘ہنر’’آزمایا گیایا پھر کانگریس کی رعونت نے انڈیا الائنس کے خالق کو آپے سے باہر کردیا؟ سیاسی حلقوں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں باتوں نے نتیش کو دھکیل کر این ڈی اے میں دھکیل دیا ہے۔بہار کے طاقتور ذرائع کہتے ہیں کہ‘‘ اس کی سب سے بڑی وجہ جے ڈی یو لیڈروں اور ان کے کچھ قریبی لوگوں پر تفتیشی ایجنسیوں کی سخت گرفت کا ہوناہے۔ کچھ معاملات میں، تفتیش کی گرمی نتیش کے کچھ قریبی افسران تک بھی پہنچ سکتی تھی اور غالباَنتیش کے ذہن میں یہ خوف پیدا ہوگا کہ ان سے بھی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے۔اس سے قبل انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ یعنی ای ڈی نے جے ڈی یو ایم ایل سی رادھا چرن سیٹھ کو گذشتہ سال ستمبر میں گرفتار کیا تھا۔ رادھا چرن سیٹھ کو اردھا میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق رادھا چرن سیٹھ کو منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق رادھا چرن سیٹھ کان کنی، ہوٹل اور ریسٹورنٹ کے کاروبار سمیت کئی طرح کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ گذشتہ سال محکمہ انکم ٹیکس نے جے ڈی یو کے ایم ایل اے اور نتیش کمار کے قریبی سمجھے جانے والے وزیر وجے چودھری کے بہنوئی اجے سنگھ عرف کرو سنگھ کے گھر پر بھی چھاپہ مارا تھا۔بیگوسرائے میں بلڈر کرو سنگھ کے گھر پر یہ چھاپہ جون میں پٹنہ میں اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ سے ایک دن پہلے مارا گیا۔پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں ہی محکمہ انکم ٹیکس نے جے ڈی یو کے قریبی سمجھے جانے والے ٹھیکیدار گبو سنگھ کے گھر پر بھی چھاپہ مارا تھا۔
بہار کے جرنلسٹ کنہیا بھلاری کی ایک میڈیا ہاؤس سے گفتگو کے مطابق،‘‘ای ڈی کو رادھاچرن سیٹھ کے مقام پر ایک سرخ ڈائری ملی تھی، کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سی چیزیں درج ہیں۔ اس لیے نتیش پر ان کے لیڈروں کی طرف سے این ڈی اے میں واپسی کے لیے دباؤ ضرور رہا ہوگا۔ کئی آزاد جرنلسٹوں نے بھی ان وجوہات کی طرف اشارہ کیا ہے۔آج کل ایجنسیوں کا جس طرح استعمال ہورہا ہے اس پس منظر یہ قرین قیاس بھی لگتا ہے اور حقیقت کے قریب بھی۔چوں کہ سیاست میں اب اخلاقیات اوراصولوں کی جگہ صرف اور صرف اقتدار ہی پہلی اور آخری ترجیح ہے۔ اس لیے کسی فریق سے اقدار کی توقع کرنا بیکار ہے
جہاں تک انڈیا الائنس میں نتیش کے رول کا تعلق ہے وہ خود میں پی ایم میٹریل دیکھ رہے تھے۔ راہل کو لوک سبھا کی رکنیت سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد انھیں لگا کہ وہ اس خلا کو پر کرسکتے ہیں، اس لیے جی جان سے لگ گئے تھے۔اسی دوران راہل کی رکنیت بحال ہوگئی اور پھر کانگریس کا ان کے تئیں رویہ شک و شبہ والارہا۔ وہیں لالو نے بھی انھیں کنوینر بنوانے میں گرم جوشی نہیں دکھائی گذشتہ سال مدھیہ پردیش کے انتخابات کے دوران بھوپال میں اپوزیشن کی ایک بڑی ریلی ہونی تھی جسے کانگریس لیڈر کمل ناتھ نے منسوخ کر دیا تھا۔پٹنہ میں اپوزیشن کی میٹنگ کے بعد نتیش کمار بنگلور، ممبئی یا انڈیا الائینس کی باقی میٹنگوں کو لے کر زیادہ پرجوش نظر نہیں آئے۔ بی جے پی کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ نتیش ‘انڈیاالائنس’ کا کنوینر نہ بنائے جانے سے ناراض ہیں، حالاں کہ نتیش نے اس کی بارہا تردید کی مگر یہ دل کا چور تھا جو ان کی سرد مہری کی شکل میں بار بار باہر آرہا تھا۔
رہی سہی کسر دہلی میں ہوئی میٹنگ میں پوری ہوگئی جب ممتا اورکیجریوال نے کنوینر کے لیے کھڑگے کا نام آگے بڑھادیا اور نتیش کے ارمانوں پر اوس ڈال دی -ان کے قریبیوں پر ایجنسیوں کے دباؤ کے سبب ساتھیوں کے بڑھتے دباؤ کو نتیش ایک امید پر جھیل رہے تھے مگر جب وہ امید بھی ٹوٹ گئی اورستم بالائے ستم انڈیا الائنس کے سوتیلے برتاؤ نے نتیش کے تذبذب کو فیصلہ میں بدل دیا۔حالاں کہ یہ الم نشرح ہے کہ بی جے پی اپنے حلیفوں کو کھاجاتی ہے،نتیش خود بھوگی ہیں۔لگاتار ان کی سیٹیں کم ہوتی جارہی ہیں اس کے باوجود اقلیتی حیثیت والے شخص کو بی جے پی اور آر جے ڈی بہار کے عوام پر مسلط کرتی رہی ہیں۔پھر بھی اس حقیقت کا بہرحال اعتراف کرنا ہوگا کہ نتیش نے بی جے پی کو بہار میں ایک حد سے آگے جانے نہیں دیا۔ مگر اب یہ خبر عام ہے کہ لوک سبھا الیکشن بعد، بی جے پی نتیش کو دھکا دے دے گی اور وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ لیکن اس بات میں شک نہیں کہ بی جے پی کی فعال اور سرگرم قیادت نے انڈیا الائنس کے مصور کو اڑا کردونوں کی ساکھ اور اعتبار کو مٹی میں ملادیا اور انڈیا الائنس کو جو کہ ایک امید بنتا جا رہا تھا لولا لنگڑا کردیا۔یہ بہت بڑی کام یابی ہے کہ perception بدل دیا۔
کتنا فائدہ کتنا نقصان!
نتیش اور بی جے پی کو آخر ایک دوسرے کو گلے لگانے کا کیا فائدہ ونقصان ہوگا اس کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے – کہا جاتا ہے کہ ریاست میں این ڈی اے اب مضبوط ہو گیا ہے اور انڈیا اتحاد کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس پورے واقعہ سے بی جے پی کی پریشانی کم ہوگئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق نتیش کمار کے این ڈی اے میں شامل ہونے کے بعد بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق نتیش کو منانے کے بعد اب بی جے پی کے لیے اپنے پرانے حلیف چراغ پاسوان، اپیندر کشواہا اور جیتن رام مانجھی کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
درحقیقت، نتیش کمار کے ساتھ سخت سیاسی اختلافات رکھنے والے چراغ پاسوان ان کے دوبارہ این ڈی اے اتحاد میں شامل ہونے سے مطمئن نہیں ہیں اور انھوں نے امت شاہ اور جے پی نڈا سے بات کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ ان کی اپنی سیٹوں کے کوٹے میں کمی نہ کی جائے۔ این ڈی اے کے بینر تلے بی جے پی نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں پاسوان کی پارٹی کو 7 سیٹیں دی تھیں، جن میں سے پارٹی کے 6 ایم پیز نے الیکشن جیتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں پاسوان کی پارٹی کو لوک سبھا میں 6 سیٹیں دی گئیں اور ایک سیٹ کی تلافی رام ولاس پاسوان کو راجیہ سبھا میں بھیج کر کی گئی۔ چراغ پاسوان اپنے چچا، کزن اور دیگر ممبران پارلیمنٹ کی علیحدگی کے باوجود 7 سیٹوں کے فارمولے پر اڑے ہیں اور حاجی پور لوک سبھا سیٹ بھی چاہتے ہیں۔
ساتھ ہی، اپیندر کشواہا 2014 کی طرز پر 3 لوک سبھا سیٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جیتن رام مانجھی بھی 2 سیٹوں پر اٹل ہیں اور نتیش کمار کی پارٹی بھی 2019 کی طرز پر 17 لوک سبھا سیٹیں مانگ سکتی ہے۔ ایسے میں نتیش کمار کے ساتھ آنے کے بعد پرانے حلیفوں بالخصوص چراغ کو برقرار رکھنا کافی مشکل کام ہو گا۔
ذرائع کے مطابق چراغ پاسوان نے عندیہ دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہیں مانے گئے تو وہ 2020 کے قانون ساز اسمبلی انتخابات کی طرز پر نتیش کمار کی پارٹی کے تمام لوک سبھا امیدواروں کے ساتھ اپنے بھی امیدوار کھڑے کریں گے اس سے ایک بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے. تاہم، بی جے پی اس بات کو یقینی بنانے کی بھی کوشش کرے گی کہ پرنس راج پاسوان، جو فی الحال پشوپتی پارس کی پارٹی کے ایم پی ہیں، اپنی پارٹی یا جے ڈی یو کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑیں۔ اگر بی جے پی کے حلیف اس فارمولے پر راضی ہوجاتے ہیں تو بی جے پی اور جے ڈی یو 16-16 سیٹوں پر الیکشن لڑیں گے۔
جتین رام مانجھی کی پارٹی کو ایک لوک سبھا سیٹ دی جائے گی۔ پشوپتی پارس کی پارٹی کو ایک سیٹ دی جائے گی اور اس کا ایک امیدوار جے ڈی یو یا بی جے پی کے انتخابی نشان پر لڑے گا۔ تاہم اگر پشوپتی پارس راضی نہیں ہوتے ہیں تو بی جے پی انھیں راجیہ سبھا میں بھی جگہ دے سکتی ہے۔ پارٹی جیتن رام مانجھی کو ایم ایل سی کا یقین دلاتے ہوئے انھیں راضی کرنے کی بھی کوشش کرے گی۔
کھیر بہت ٹیڑھی ہے اور راہ بہت مشکل، نتیش اور بی جے پی نے انڈیا کے راستے میں کانٹے بچھا تو دیے مگر اپنا راستہ بھی مشکل کرلیا ہے۔
انڈیا گٹھ بندھن سردست مشکل میں آگیا ہے ساری علاقائی پارٹیوں کو کانگریس سے دور رہنے کا مشورہ دیا جارہاہے کہ اسی میں عافیت ہے کچھ کانگریس کی لیٹ لطیفی اور ساتھیوں کو انتظار کرانے کی عادت بھی بی جے پی کے لیے وردان ثابت ہورہی ہے۔ مگر سچ یہ ہے جو کام نتیش نے آج کیا ہے،الیکشن بعد مشکل وقت میں ان کے پلٹی مارنے کے سو فیصد امکانات تھے، وہ ساتھیوں کے اعتماد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ان کا چلے جانا انڈیا کے لیے اچھا ہی ہوگا ایسا سمجھا جاتا ہے۔