شیئر کیجیے

وِشوْ گُروُ کا سپنا

شفیق الرحمٰن

ہمارے وزیراعظم نے نے اہل وطن کو بہت سارے منتر دیے ہیں اور بہت سارے خواب دکھائے ہیں۔ ان میں سے ایک منتر اور خواب وشوگروہ کا سپنا بھی ہے ، جس کا مطلب وطن عزیز ہندوستان کو نہ صرف یہ کہ پہلے نمبر کا ملک بنانا ہے ، بلکہ اسے ایک ایسا نمونہ بنانا ہے جس کو دنیا رشک کی نگاہ سے دیکھے اور اس کی تقلید اپنے لیے باعث افتخار تصورکرے۔ ہمارے وزیر اعظم سے جہاں ایک مہاشکتی بنانا چاہتے ہیں وہیں اسےوشو گرو کی حیثیت دلانے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔موجودہ عالم گیر وبائی مرض کے حوالے سے بھی ان کے عزم وحوصلے اور کوششوں کا رخ یہی معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس کا ایک نہایت دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اپنی بعض حیثیتوں کو ہمارے سیاسی قائدین اور رہنماباعث افتخار بھی خیال کرتے ہیں اوراس پر شرمسار بھی ہیں ۔ اس حالت سے وہ بہرصورت باہر نکلنا چاہتے ہیں ہیں کیونکہ وہ اسے پس ماندگی بلکہ بربادی کا سبب سمجھتے ہیں۔ مثلا انسانی وسائل یعنی آبادی کو کبھی ایک نعمت غیر مترقبہ کہا جاتا ہے ہے اور اسے ایک وردان تصور کیا اور بتایا جاتا ہے ،مگر دوسرے ہی لمحے اسے ایک بوجھ کہا جانے لگتاہے۔ ان کے الفاظ میں یہ ایک شراپ ہے۔
ہمارے ملک کے سیاسی قائدین اور رہنماؤں نے وشو گرو بننے کے دو پیمانےوضع کئے ہیں۔ یعنی جن کو زینہ بنا کر وہ اس بلندی پر پہنچنے کا سپنا دیکھ اور دکھا رہے ہیں وہ دو زینے معیشت اورحفظان صحت ہیں ۔ اس کے لئے جو منتر انہوں نے دئے ہیں ان کے مصاحبین بھی انہیں کی مالا جپ رہے ہیں ۔ اب اس منتر کی قدروقیمت اور منزلت حقیقت کی زمین پر اتر کر اور سپنوں کی نہیں بلکہ حقیقت کی دنیا میں رہ کر معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ سپنوں کو اس وقت ساکار کیا جا سکتا ہے جب انسان حقیقت کی دنیا میں رہ کر چیزوں کو دیکھے اور ان کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ لگائے۔ باری باری سے دیکھتے ہیں کہ متذکرہ دونوں پیمانے کے لحاظ سے ہم کہاں کھڑے ہیں اور پھر اس کا موازنہ بھی کریں کہ مسابقت کی دوڑ میں ہماراجن سے مقابلہ ہے ان کی کیا حالت ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا کیا کہ آسمان کی اونچائیوں کو چھونے کے لیے لیے دو پیمانوںیاذرایع کا انتخاب کیا گیا ہے ،ایک معیشت اور دوسرا حفظان صحت ۔ دوسرے الفاظ میں اگر ہماری معیشت اتنی مستحکم اور توانا ہو جائے کہ کسی اور کا سہارہ لینا نہ پڑے، بلکہ ہم دوسروں کو سہارا دینے کی حالت میں پہنچ جائیں ۔ اسی طرحفظان صحت کے میدان میں بھی ہم نہ صرف خود انحصاری اور خود کفالت کی پوزیشن میں ہوں بلکہ دوسروں کی مدد کرنے کی حالت میں پہنچائیں تو دنیا آپ سے آپ ہمیں وشو گرو کا درجہ دے دے گی اور ہماری جانب ہمہ دم متوجہ رہے گی۔
گزشتہ برس نومبر تک ہم یک قطبی unipolar world دنیا میں جی رہے تھےاور اب بھی اصولی طور پراس میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ہے۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ ہے یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ اس کا کوئی ہمسر اور ثانی نہیں ہے، مگر اس سے بھی انکار ناممکن ہے کہ چین ابھرتی ہوئی مقابلہ کی طاقت ہے۔ ہے اس دور کو Pax Americana عہد بھی کہا جاتا ہے۔ گزشتہ صدیاں استعماری عہدکے نام سے معنون رہی ہیں۔ برطانیہ،فرانس، اٹلی ماضی قریب کی استعماری طاقتیں ہیں، سوویت یونین کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ پرتگالیوں اور ولندیزیوں کو بھی توسیع پسند انہ عزائم محبوب رہے ہیں۔ Empires( عظیم سلطنتیں) اور بھی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت ورش کو کبھی یہ اعزاز حاصل رہا ہے، یہ بھی ایک کھلا ہوا سچ ہے کہ کہ ایک دور اس پر بھی ایسا گزرا ہے جب یہ واقعی ایک عالمی قوت تھاجس نے سکندر اعظم تک سے لوہا لیا تھا اور اسے اپنے آہنی ارادوں کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ عظمت رفتہ پر ناز بجا، مگر محض اس کے سہارے زندگی کی گاڑی نہیں چلتی۔
اس وقت کرّۂ ارض کے خشکی والے حصہ پر ایک اندازے کے مطابق (سی آئی اے ورلڈ جیکٹ بک2020) 7 ارب 68 کروڑ 42 لاکھ 92 ہزار تین سو تراسی 7684292383 نفوس بود وباش رکھتے ہیں۔( جو لائی 2020 ) آبادی کے لحاظ سے سے گیارہ بڑے ممالک درج ذیل ہیں:
1- چین : 1439323775
2- ہندوستان : 1384271181
3- امریکہ : 332640163
4- انڈونیشیا : 274440185
5- پاکستان : 222235915
6- نائیجیریا : 217726439
7- برازیل : 213136330
8- بنگلہ دیش : 165209762
9- روس : 145954385
10 َ- میکسکو : 123362066
11- جاپان : 126350549
یورپ کے دس بڑے ملکوں میں جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی اسپین، رومانیہ، ہالینڈ، بیلجیم، سویڈن، شامل ہیں ۔ آبادی کے لحاظ سے ان کی پوزیشن حسب ذہل ہے:
1- جرمنی : 83869665
2- برطانیہ : 67999816
3- فرانس : 65319785
4- اٹلی : 60433211
5- اسپین : 46760593
6- رومانیہ : 1196126
7- ہالینڈ : 17147019
8-بیلجیم : 11605739
9- سویڈن : 10119336
اسی طرح رقبہ کی بنیاد پر دنیا کے پانچ بڑے ممالک چین، ہندوستان، امریکہ، انڈونیشیا، اور پاکستان ہیں۔مجموعی گھریلو پیداوار کی بنیاد پر دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہندوستان کا نمبر چھٹا ہے۔
امریکہ(44.21)، چین (31.14)، جاپان (75.5)، جرمنی (44.4)، برطانیہ (04.3)، ہندوستان (9.2)، فرانس (76.2)، اٹلی (4.2)، برازیل (85.1)، کناڈا(7.1) ٹریلین امریکی ڈالر۔
یہاں یہ یاد رہے کہ اعداد شمار کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ یہ ایک کھیل کی مانند ہے جس کا مقصدبالعموم آنکھوں میں دھول جھونکنااور عقل پر پٹی باندھنا ہوتا ہے۔یعنی یہ کہ حقیقت حال سے آگاہ کرنا اور با خبر رکھنا ہرگز نہیں۔خاص طور پر تیسری دنیا کا یہی معاملہ ہے۔اقتصادی ترقی کے جو انڈیکیٹرس ہیں یا بنائے گئے ہیںان کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں درج ذیل امور شامل ہیں۔ ان کو Indicaters of Economic Developmentکہتے ہیں۔
– قومی آمدنی کی شرح نمو
-فی کس آمدنی
-فی کس مصارف اس میں لباس ، غذا، تعلیم، صحت وغیرہ پر ہونے والے مصارف شامل ہیں
– جسمانی حالت اور اوسط عمراور انسانی ترقی کا اشاریہ
– صنعت وحرفت کے میدان میں ہونے والی ترقی
– قومی اثاثہ جات سے متعلق بنیادی معلومات(اس میں ذرایع نقل وحمل/رسل ورسائل، زراعت، سرکیں، بجلی کی فراہمی ٹکنالوجی وغیری شامل ہیں۔)
انسانی آبادی کے لحاظ سے بھی ترقی کے کچھ پیمانے مقرر کئے گئے ہیںجن کو Demographic Indicatersکہا جاتا ہے۔اس میں درج ذیل امور شامل ہیں۔
-انسانی ترقی کا اشاریہ
-پیدائش کے وقت زندہ رہنے کی شرح
– خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا تناسب
-بالغ باشندگان کی شرح تعلیم
– اموات اطفال کی شرح
– ناقص تغذیہ کے سبب مرنے والے بچوں کا تناسب
ایک اندازے کے مطابق مذکورہ امور کے سلسلہ میںہمارے ملک کی پوزیشن چین سے اس کے موازنہ کے ساتھ حسب ذیل ہے:
پیمانے بھارت چین
– ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈکس547.0 687.0
(درجہ بندی ) 134 101
-نوزائدہ زندگی کی شرح 4.65 5.73
-بالغ میں شرح تعلیم 8.62 94
-خط غربت سے نیچے 2.37 8.2
– اموات اطفال کی شرح 66 19
-ناقص تغذیہ کا شکار بچے 5.43 5.4
Human Development Index (HDI) کی بنیاد پر اگر جائزہ لیں تو ہندوستان 131ویں نمبر پر ہے جبکہ چین کا نمبر 90 ہے۔چین میں شرح تعلیم 3.96 فیصد ہے اور اوسط عمر 1.76 سال ہے دوسری طرف ہمارے ملک میں شرح تعلیم 1.72 فیصد ہے اور اوسط عمر ہے 3.68 سال ۔حقیقتوں کی بنیاد پر تو وشو گرو یا رہنمائے عالم بننے کا امکان مستقبل قریب میں نظر نہیں آرہا ہے،سپنوں کی بات اور ہے۔ ٭٭٭

ہمارے ملک کے سیاسی قائدین اور رہنماؤں نے وشو گرو بننے کے دو پیمانےوضع کئے ہیں۔ یعنی جن کو زینہ بنا کر وہ اس بلندی پر پہنچنے کا سپنا دیکھ اور دکھا رہے ہیں وہ دو زینے معیشت اورحفظان صحت ہیں ۔ اس کے لئے جو منتر انہوں نے دئے ہیں ان کے مصاحبین بھی انہیں کی مالا جپ رہے ہیں ۔ اب اس منتر کی قدروقیمت اور منزلت حقیقت کی زمین پر اتر کر اور سپنوں کی نہیں بلکہ حقیقت کی دنیا میں رہ کر معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ سپنوں کو اس وقت ساکار کیا جا سکتا ہے جب انسان حقیقت کی دنیا میں رہ کر چیزوں کو دیکھے اور ان کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ لگائے۔